• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاق سے متعلق بعض صحابہ کی طرف منسوب غیرثابت فتاوے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
تین طلاق سے متعلق خلفائے راشدین کے موقف کے لئے ذیل کا موضوع دیکھیں۔



باقی دیگر کئی ایسے صحابہ ہیں جن کی طرف یہ فتوی منسوب ہے کہ وہ تین طلاق کو تین مانتے تھے لیکن ان سے یہ فتاوی بسند صحیح ثابت نہیں ہے ذیل میں ایسی روایات پر تبصرہ پیش خدمت ہے:
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ یا عبداللہ بن معقل رحمہ اللہ
ام سلمہ رضی اللہ عنہا
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ
زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ
حسن بن علی رضی اللہ عنہما
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ

ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا سهل بن يوسف ، عن حميد ، عن واقع بن سحبان قال : سئل عمران بن حصين عن رجل طلق امرأته ثلاثا في مجلس ؟ قال : أثم بربه ، وحرمت عليه امرأته.(وازدا لبیہقی :فانطلق الرجل فذكر ذلك لأبى موسى رضى الله عنه يريد بذلك عيبه فقال : ألا ترى أن عمران بن حصين قال كذا وكذا فقال أبو موسى أكثر الله فينا مثل أبى نجيد)
واقع بن سحبان کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو انہوں نے فرمایا: اس نے اپنے رب کے ساتھ گناہ کیا اور اس پر اس کی بیوی حرام ہوگئی (بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر اس شخص نے وہاں سے جاکر ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تذکرہ کیا اس امید پر کہ یہ بات غلط نکلے چنانچہ اس نے کہا: ابے ابو موسی الاشعری ! کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ عمران بن حصین ایسا ایسا کہہ رہے ہیں ! تو ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ہمارے بیچ ابو نجید جیسے لوگوں کی کثرت کرے) [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 10 و اخرجہ ایضا الحاکم فی لمستدرك 3/ 472 -و صریح حمید بالسماع عندہ- من طریق یحیی بن سعید ۔واخرجہ البیہقی فی السنن الكبرى ط الهند: 7/ 332 من طریق عبد الوهاب بن عطاء۔ واخرجہ الدو لابی فی الكنى والأسماء 1/ 175 من طریق حماد بن مسعدة ، وفیہ 1/ 278 ایضا من طریق حماد بن سلمة۔ کلھم (یحیی بن سعیدوعبد الوهاب بن عطاءوحماد بن مسعدة وحماد بن سلمة) من طریق حمید بہ]

اس سندمیں حمید کے شیخ کا نام ابن ابی شیبہ ، بیہقی اور دولابی کی ایک روایت میں واقع بن سحبان ہے جبکہ حاکم اور دولابی کی دوسری روایت میں اس کانام رافع بن سحبان ہے، کتب رجال سے پتہ چلتا ہےکہ واقع بن سحبان ہی صحیح ہے مثلا دیکھئے:[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 49]

اسے ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے [الثقات لابن حبان ط العلمية: ص: 2]۔
اورکسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا أبو أسامة ، عن هشام قال : سئل محمد عن الرجل يطلق امرأته ثلاثا في مقعد واحد ؟ قال : لا أعلم بذلك بأسا ، قد طلق عبد الرحمن بن عوف امرأته ثلاثا ، فلم يعب ذلك عليه
محمدبن سیرین سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کوایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا: مجھے اس میں حرج معلوم نہیں ہوتا اور عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو ان پر عیب شمار نہیں ہوا[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 11]

یہ روایت منقطع ہے محمدبن سیرین نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات 31 یا 32 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[تهذيب الكمال للمزي: 17/ 328]
اور محمدبن سیرین کی پیدائش 33 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 5/ 349]


شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
منقطع، ابن سیرین عن عبد الرحمن بن عوف منقطع
یہ روایت منقطع ہے ابن سیرین کی عبدالرحمن بن عوف سے ملاقات نہیں ہے[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 10/ 103 حاشہ 5]


مزید یہ کہ اس روایت میں تین طلاق کو تین شمار کرنے کی صراحت بھی نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا عبدة ، عن سعيد ، عن قتادة ؛ أن رجلا طلق امرأته ثلاثا ، ثم جعل يغشاها بعد ذلك ، فسئل عن ذلك عمار ؟ فقال : لئن قدرت على هذا لأرجمنه.
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی پھر وہ اس سے ہمبستری کرنے لگا تو اس بارے میں میں عماربن یاسررضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: اگر میں قدرت رکھتا تو اسے رجم کردیتا [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 9/ 565]

یہ روایت ضعیف ہے اس میں کئی علتیں ہیں:
اول:
قتادہ نے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے ۔
عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت صفین میں 37 ہجری میں ہوئی ہے۔دیکھئے:[الوافي بالوفيات للصفدي: 22/ 232]
اور قتادہ رضی اللہ عنہ کی پیدائش ان کی وفات کے چوبیس (24) سال بعد ہوئی ہے چنانچہ:
أبو بكر ابن منجويه(المتوفى428) نے کہا:
ولد سنة إحدى وستين
ان کی پیدائش اکسٹھ (61)ہجری میں ہوئی ہے[رجال صحيح مسلم لابن منجويه 2/ 150]

دوم:
قتادہ سے اس روایت کرنقل کرنے والے سعید یہ سعيد بن أبي عروبة ہیں ۔انہوں نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ کثیر التدلیس ہیں اور کثیر التدلیس کا عنعنہ غیر مقبول ہوتا ہے ۔

صلاح الدين العلائي رحمه الله (المتوفى 761)نے کہا:
سعيد بن أبي عروبة مشهور بالتدليس
سعیدبن عروبہ تدلیس سے مشہور ہیں[جامع التحصيل للعلائي: ص: 106]

امام أبو زرعة ولي الدين ابن العراقي رحمه الله (المتوفى 826) نے کہا:
سعيد بن أبي عروبة مشهور بالتدليس
سعیدبن عروبہ تدلیس سے مشہور ہیں[المدلسين لابن العراقي: ص: 51]

امام سبط ابن العجمي الحلبي رحمه الله (المتوفى:841)نے کہا:
سعيد بن أبي عروبة مشهور بالتدليس
سعیدبن عروبہ تدلیس سے مشہور ہیں[التبيين لأسماء المدلسين للحلبي: ص: 26]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
كثير التدليس
یہ کثیر التدلیس ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2365]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہےلیکن یہاں تقریب میں اسے کثیر التدلیس بتلارہے ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ تیسرے طبقہ میں ہونا چاہے اوریہ بات مناسب ہے کیونکہ یہ کثرت سے تدلیس کرتے ہوے پائے گئے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے استاذ قتادہ سے بھی بکثرت تدلیس کی ہے چنانچہ:
عفان بن مسلم الصفاررحمه الله (المتوفى بعد 219)نے کہا:
كان سعيد بن أبي عروبة يروي عن قتادة مما لم يسمع شيئا كثيرا، ولم يكن يقول فيه: حدثنا
سعیدبن عروبہ ، قتادہ سے نہ سنی ہوئی بہت ساری روایات بیان کرتے تھے اور انہیں بیان کرتے وقت حدثنا نہیں کہتے [الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 273 واسنادہ صحیح]

یہی وجہ کہ امام بزار رحمہ اللہ نے بھی یہ شرط لگائی ہے کہ یہ جب سماع کی صراحت کریں گے تبھی ان کی روایت مأمون یعنی قابل اعتبار ہوگی چنانچہ:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292):
إذا قال : أخبرنا وسمعت كان مأمونا على ما قال
یہ جب اخبرنا اور سمعت کہیں تو اپنی بیان کردہ بات پرمأمون ہوں گے [مسند البزار: 1/ 113]

دکتو مسفر بن الدمینی نے بھی یہی تحقیق پیش کی ہے کہ یہ بکثرت تدلیس کرنے والے ہیں اس لئے ان کا شمار تیسرے طبقہ میں ہی ہوگا[التدليس في الحديث ت د دميني: ص: 301]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله نے اسی طریق کی ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں قتادہ کے بعد خلاس نامی راوی کا واسطہ ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا محمد بن سواء ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن خلاس ، عن عمار ؛ بنحوه.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 9/ 565 واخرجہ ایضا البلاذري فی أنساب الأشراف للبلاذري: 1/ 165 من طریق سعد بہ]

عرض ہے کہ اس میں بھی سعید بن عروبہ کا عنعنہ موجود ہے اور ماقبل میں بتایا جاچکا ہے کہ یہ کثیر التدلیس ہیں اس لئے ان کا عنعنہ غیر مقبول ہے۔
نیز اس میں قتادہ بھی عنعنہ ہے اور یہ بھی مشہور مدلس ہیں۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا اثر یا عبداللہ بن معقل رحمہ اللہ کا قول

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا علي بن مسهر، عن إسماعيل، عن الشعبي، عن ابن معقل؛ في رجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قال: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”عبداللہ بن معقل (تابعی) رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں منقول ہے جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے کہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک وہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 123]

اس روایت میں ”عبداللہ بن معقل“ کا قول ذکر ہے جو تابعی ہیں ، لیکن مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں غلطی سے ”ابن مغفل“ لکھ گیا اور احناف نے اس غلطی کافائدہ اٹھاتے ہوئے اسے صحابی ”عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ“ کا اثر بنادیا ہے۔جبکہ یہ واضح طور پر غلط ہے کیونکہ عامر شعبی یہ ”عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ“ سے روایت ہی نہیں کرتے اور نہ ہی کتب رجال میں کسی نے ان دونوں کے بیچ تلامذہ واساتذہ کارشتہ ذکرکیا ہے۔
البتہ کتب رجال میں ان کے اساتذہ میں عبداللہ بن معقل تابعی کا ذکر ضرور ہے اور کتب احادیث میں ان سے ان کی روایات بھی موجود ہیں ۔
یہی وجہ کے مصنف ابن ابی شیبہ کے اکثر محققین نے اپنے نسخوں میں ”عبداللہ بن معقل“ تابعی کا نام ہی درج کیا ہے۔حتی کہ محمد عوامہ حنفی نے بھی اپنے نسخہ میں ”عبداللہ بن معقل“ تابعی کانام ہی درج کیا ہے دیکھئے: [مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 9/ 536 رقم 18160]
اسی طرح درج ذیل نسخوں میں بھی یہاں تابعی عبداللہ بن معقل ہی کا نام ہے ۔
نسخہ سعد بن ناصر الشثري ، دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 123 رقم 18817]
نسخہ أسامة إبراهيم ،دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبة/الفاروق 6/ 341 رقم 18149]
نسخہ كمال يوسف الحوت دیکھئے :[مصنف ابن أبي شيبة، ت الحوت: 4/ 67 رقم 17861]
نسخہ كمال الجمعہ واللحیدان دیکھئے :[مصنف ابن أبي شيبة، ت الجمعۃ: 6/ 383 رقم 18043]

اوراس کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ سنن سعید بن منصور میں بھی مغیرہ کی یہی روایت ہے اور اس میں بھی ان کے شیخ نام عبداللہ بن معقل ہی ہے چنانچہ :
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے کہا:
حدثنا سعيد قال: نا هشيم، قال: أنا مغيرة، عن الشعبي، عن عبد الله بن معقل المزني أنه قال: «إذا كان متصلا لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره»
عبداللہ بن معقل المزنی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جب ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو اس کی بیوی حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے شادی کرلے[سنن سعيد بن منصور، ت الأعظمي: 1/ 305]

خلاصہ یہ کہ اس روایت میں عبداللہ بن معقل تابعی کا قول ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
ام سلمہ رضی اللہ عنہا

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبد الله بن نمير، عن أشعث، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: سمعت أم سلمة سئلت عن رجل طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها؟ فقالت: لا تحل له حتى يطأها غيره“
”ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے ڈالے تو انہیں نے جواب دیا : یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب کہ دوسرا شوہر اس سے شادی کرکے اس سے ہمبستری کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 122]

یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں موجود ”أشعث“ یہ ”أشعث بن سوار الكندي“ ہے اور یہ ضعیف ہے۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
”كان ضعيفا في حديثه“ ، ”یہ اپنی حدیث میں ضعیف تھا“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 358]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 80]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”ضعيف الحديث“ ، ”یہ ضعیف حدیث والا ہے“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 494]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [سؤالات الآجري أبا داود، ت العمري: ص: 120]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
”هو ضعيف الحديث“ ، ”یہ ضعیف حدیث والا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 271]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا :
”ضعيف كوفي“ ، ”یہ کوفی اور ضعیف ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 20]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
”فاحش الخطأ كثير الوهم“ ، ”یہ فحش غلطی کرنے والا اور بہت زیادہ وہم کا شکار ہونے والا ہے“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 1/ 171]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”كوفي ضعيف“ ، ”یہ کوفی اور ضعیف ہے“ [ الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 92]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا :
”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم524]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن خالد، عن الحكم، عن أبي سعيد؛ في الذي يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، فقال: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہو ں نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے کہ وہ اس کے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی اور سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341]

یہ روایت منقطع ہے ۔ ”الحکم“ كا ”ابوسعيد الخدري“ سے سماع ثابت نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں وہ ایک واسطے سے ابوسعید الخدری سے روایت کرتے ہیں ، مثلا:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا إسحاق، قال: أخبرنا النضر، قال: أخبرنا شعبة، عن الحكم، عن ذكوان أبي صالح، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسل إلى رجل من الأنصار.....“ [صحيح البخاري رقم 180]
کتاب رجال میں ابو سعید الخدری کے تلامذہ میں ”حکم“ کا تذکرہ نہ ہونا اور پھر اسانید میں حکم کا ایک واسطے کے ذریعہ ابوسعید الخدری سے روایت کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے انہوں نے براہ راست کچھ نہیں سنا ہے۔اس لئے مصنف ابن ابی شیبہ کی مذکورہ روایت منقطع ہے ۔

مصنف ابن ابی شیبہ کے محقق اسامہ بن ابراہیم اسی روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
”إسناده مرسل الحكم لم يسمع بن أبي سعيد“
”اس کی سند مرسل ہے ، حکم نے ابو سعید سے نہیں سنا ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341 ، تحت رقم 18144 حاشیہ 2]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن أبي سليمان، عن الحسن بن صالح، عن مطرف، عن الحكم، أن عليا، وابن مسعود، وزيد بن ثابت قالوا: «إذا طلق البكر ثلاثا فجمعها، لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره، فإن فرقها بانت بالأولى، ولم تكن الأخريين شيئا“
”حكم بن عتيبة الكندى علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود و زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے حوالے روایت کرتے ہیں کہ ان حضرات نے کہا: جب کوئی شخص (اپنی) باکرہ (غیرمدخولہ بیوی) کو بیک زبان تین طلاق دے دے ، تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، اور اگر الگ الگ جملے میں تین طلاق دے تو ایک جملہ سے عورت جدا ہوجائے گی اور بقیہ دو کا کوئی شمار نہ ہوگا“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 336 ، وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 1/ 304 من طريق هشيم ، و ابن شيبه في مصنفه ط الفاروق 6/ 343 من طريق ابن عياش ، تلاثتهم ( الحسن بن صالح وهشيم وابن عياش ) عن مطرف به]

یہ روایت ضعیف ومردود ہے کیونکہ اسے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا ”الحكم بن عتيبة الكندى“ ہے اور اس کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں بلکہ اکثر مؤرخین کے قول کے مطابق زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات 45 ہجری میں ہوئی ہے۔ [تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 411]
جبکہ ”الحكم بن عتيبة الكندى“ کی پیدائش سن پچاس(50) ہجری میں ہوئی ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
”ولد سنة خمسين في ولاية معاوية“
”اس کی پیدائش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں سن پچاس (50) ہجری میں ہوئی ہے“ [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 144]

أبو بكر ابن منجويه(المتوفى428) نے کہا:
”ولد سنة خمسين في ولاية معاوية“
”اس کی پیدائش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں سن پچاس (50) ہجری میں ہوئی ہے“ [رجال صحيح مسلم لابن منجويه 1/ 140]
نیز دیکھئے: [تهذيب الكمال للمزي: 7/ 120]

یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات کے پانچ (5) سال بعد الحكم بن عتيبة الكندى کی پيدائش ہوئی ہے ۔ لہٰذا روایت منقطع ہے۔

مصنف بن ابی شیبہ کے محقق اسامہ بن ابراہیم اس روایت سے متعلق کہتے ہیں:
”إسناده مرسل الحكم بن عتيبه لم يدرك عليا وزيدارضي الله عنهما“
”اس كي سند منقطع ہے ، حکم بن عتیبہ نے علی اورزید رضی اللہ عنہما کا دور نہیں پایا ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 343]

شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”منقطع، الحكم عن علي وزيد منقطع“
”یہ روایت منقطع ہے ، حكم کی علی اور زید رضی اللہ عنہم سے ملاقات نہیں ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 125 حاشیہ 10]

شیخ عبد العزيز بن مرزوق الطّريفي فرماتے ہیں:
”وفيه انقطاع، الحكم لم يدرك علياً وعبد الله وزيد“
”اس میں انقطاع ہے ، حکم نے علی ، ابن مسعود اور زید رضی اللہ عنہم کو نہیں پایا ہے“ [التحجيل في تخريج ما لم يخرج في إرواء الغليل ص:426]

معلوم ہوا کہ یہ روایت منقطع وضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
نواسہ رسول حسن بن علی رضی اللہ عنہما

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”نا أحمد بن محمد بن زياد القطان , نا إبراهيم بن محمد , نا إبراهيم بن محمد بن الهيثم صاحب الطعام , نا محمد بن حميد , نا سلمة بن الفضل , عن عمرو بن أبي قيس , عن إبراهيم بن عبد الأعلى , عن سويد بن غفلة , قال: كانت عائشة الخثعمية عند الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه , فلما أصيب علي وبويع الحسن بالخلافة , قالت: لتهنك الخلافة يا أمير المؤمنين , فقال: يقتل علي وتظهرين الشماتة اذهبي فأنت طالق ثلاثا , قال: فتلفعت نساجها وقعدت حتى انقضت عدتها وبعث إليها بعشرة آلاف متعة وبقية بقي لها من صداقها , فقالت: متاع قليل من حبيب مفارق , فلما بلغه قولها بكى وقال: لولا أني سمعت جدي , أو حدثني أبي , أنه سمع جدي يقول: أيما رجل طلق امرأته ثلاثا مبهمة أو ثلاثا عند الإقراء لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره لراجعتها“
”سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ حسن بن علی طالب رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں ، تو جب علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوئی تو ان کی اس بیوی نے کہا: امیر المؤمنین آپ کو خلافت مبارک ہو، تو حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر توخوشی کا اظہار کرتی ہے ، یہاں سے نکل جا تجھے تین طلاق ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کی بیوی نے کپڑوں سے خود کو ڈھانک لیا اور گھر میں بیٹھ گئی اورجب عدت ختم ہوگئی تو حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس دس ہزار زائد اور بقایا مہر بھجوایا، تو ان اس نے کہا: پچھڑے محبوب کے مقابلہ میں یہ مال ومتاع کچھ نہیں ہے ، حسن رضی اللہ عنہ تک جب اس کی یہ بات پہنچی تو وہ روپڑے اورکہا: اگرمیں نے اپنے نانا سے یہ نہ سناہوتا اور مجھ سے میرے والد نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ انہوں نے میرے نانا سے سنا ہے کہ جو شخص بھی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دے دے یا الگ الگ تین طہر میں تین طلاق دے ڈالے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے تو میں اس سے رجوع کرلیتا“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 55 ، وأخرجه الطبراني في معجبه 3/ 91 طريق علي بن سعيد ،والبيهقي في سننه 7/ 419 من طريق محمد بن إبراهيم بن زياد الطيالسي، كلهم (إبراهيم بن محمد وعلي بن سعيد ومحمد بن إبراهيم) من طريق محمد بن حميدبه۔وأخرجه أيضا الدارقطني في سننه رقم 5/ 56 فقال : نا أحمد بن محمد بن سعيد , نا يحيى بن إسماعيل الجريري , نا حسين بن إسماعيل الجريري , نا يونس بن بكير , نا عمرو بن شمر , عن عمران بن مسلم , وإبراهيم بن عبد الأعلى , عن سويد بن غفلةبه]

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
سند میں ”محمدبن حمیدرازی“ موجود ہے جو کذاب تھا۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”فِيهِ نَظَرٌ“ ، ”اس میں نظر ہے“ [التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 69]

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
”كان رديء المذهب، غير ثقة“ ، ”یہ برے مذہب ولا اور غیر ثقہ تھا“ [أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 350]۔

أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277)نے کہا:
”هذا كذاب“ ، ”یہ کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹا ہے“ [الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 739]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
”كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات“ ، ”یہ ثقات سے تنہا الٹ پلٹ چیزیں روایت کرتا ہے“ [المجروحين لابن حبان: 2/ 303]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
”حافظ ضعيف“ ، ”یہ حافظ اور ضعیف ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5834 ]۔

خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص٣٣٤].

نیز دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ٣٠١ ۔

دارقطنی کی دوسر ی سند میں ”عمرو بن شمر“ ہے۔
یہ بھی کذاب اور جھوٹا راوی ہے ۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”كان ضعيفا جدا متروك الحديث“ ، ”یہ سخت ضعیف اور متروک الحدیث تھا“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 380]

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259) نے کہا:
”كذاب“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا ہے“ [أحوال الرجال للجوزجاني، ت البَستوي: ص: 73]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
”منكر الحديث جدا ضعيف الحديث لا يشتغل به تركوه“ ، ”یہ سخت منکر الحدیث ہے اس کی حدیث نہیں لی جائے گی لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 6/ 239]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا :
”متروك الحديث كوفي“ ، ”یہ متروک الحدیث کوفی ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 80]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
”كان رافضيا يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان ممن يروي الموضوعات عن الثقات في فضائل أهل البيت وغيرها“
”یہ رافضی تھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالیاں دیتا تھا، یہ اہل بیت کے فضائل وغیرہ میں ثقات سے جھوٹی احادیث روایت کرتا تھا“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 75]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”كوفي، متروك“ ، ”یہ کوفی متروک الحدیث ہے“ [سؤالات البرقاني للدارقطني، ت الأزهري: ص: 113]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
”رافضي متروك“ ، ”یہ رافضی اور متروک ہے“ [ديوان الضعفاء ص: 303]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”متروك“ ، ”یہ متروک ہے“ [التمييز لابن حجر، ت دكتور الثاني: 2/ 560]

اس کے علاوہ اس سند میں ”يحيى بن إسماعيل الجريري“ اور ”حسين بن إسماعيل الجريري“ غیر معروف ہے ، نیز ”أحمد بن محمد بن سعيد“ پر بھی کافی کلام ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top