تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ،
لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنه لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلك ولا خالفه فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیه من نصف خلافة عمر وھلمّ جرا فإنه لم یزل الاختلاف فیھا قائما''
'' طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ مں اختلاف چلا آرہا ہے۔''
(.إغاثة اللھفان:1؍289 )
رابعاً ... اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا، جیسا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' (.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟ بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔
اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔
( تهذیب التهذیب: ج3 ص126)
i. زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھئے: تطلیقاتِ ثلاثة از مولانا عبد الرحمن کیلانی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور، بابت اپریل ١٩٩٢ء ... ص ٥٢ تا ٧٩