• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ثیبہ کے لئے ولی کی اجازت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:ايك مطلقہ لڑکی ہے وہ ایسے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے لڑکی جب اپنے باپ سے اجازت مانگتی ہے تو اسکے باپ کہتے ہیں تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا ۔باپ کا یہ جملہ تیری مرضی۔۔۔۔۔۔۔ الخ کیا اس کو اجازت تسلیم کر سکتے ہیں؟
اور والثيب احق بنفسها( ثيبہ عورت تو اپنے نفس کی مالک ہوتی باپ اجازت دے یا نہ دے) اس حدیث کے مطابق کیا وہ شادی کر سکتی ہے۔؟

سائل : قمرالزماں خان،یوپی ۔انڈیا

وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ:
باپ کا یہ کہنا کہ "تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا"یہ اجازت پہ نہیں بلکہ باپ کی سخت ناراضگی پہ دلالت کرتا ہے لہذا لڑکی اپنے بات کی وجہ ناراضگی ختم کرے اور اس شادی کے لئے ان کی اجازت حاصل کرے ورنہ شادی نہیں کرےکیونکہ شادی زندگی بھر کا معاملہ ہے ،ہوسکتا ہے جس نظریہ سے معاملہ کو باپ دیکھ رہاہے شاید لڑکی اس سے انجان ہواس لئے بیٹھ کر معاملہ کو حل کرے ۔ اور یہ یاد رہے کہ لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
جہاں تک سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلے وہ حدیث دیکھیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ثیبہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے بلکہ اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں ولی کا حق ہے وہیں ثیبہ کا بھی حق ہے اور اپنے نفس کے لئے ثیبہ ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ولی جبرا کہیں بھی اپنی مرضی سے شادی کردے ثیبہ کی اجازت ضروری ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت سے ثیبہ کے لئے بھی ولی ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اس روایت سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے ولی بغیر ثیبہ کی اجازت کے شادی نہیں کرسکتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ ثیبہ کی شادی کے لئے ولی بھی ہونا چاہئے ۔
خلاصہ یہ ہواکہ ثیبہ کے لئے بھی ولی چاہئے وہ بغیر ولی کے کسی سے اپنا نکاح نہیں کرسکتی ہے اور ہاں چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا لیکن اگر لڑکی نے کہیں شادی کا ارادہ کیا اور ولی نے منع کردیا تو اس پر قاضی اصرار کرسکتا ہے اگر اصرار سے مان جائے تو پھر ثیبہ کی شادی کردی جائے گی جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ابوداؤد کی مندرجہ ذیل حدیث بھی اسی معنی میں لی جائے گی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔

واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
خلاصہ یہ ہواکہ ثیبہ کے لئے بھی ولی چاہئے وہ بغیر ولی کے کسی سے اپنا نکاح نہیں کرسکتی ہے اور ہاں چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا
بطور طالب علم چند گزارشات ہیں۔
کیا ولی باکرہ پر جبر کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس حدیث میں ثیبہ کے لیے "احق" کیوں کہا گیا جب ثیبہ اور اور باکرہ دونوں کا حق ایک جیسا ہے یعنی دونوں ولی کی بنسبت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہیں؟ یہ جملہ تو حشو و تطویل میں داخل ہوگا اور نبی کریم ﷺ کو جوامع الکلم دیے گئے تھے۔
نیز یہ حدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔
تو صریح ہے کہ ولی کا کچھ اختیار نہیں ہے۔ اور اس میں بھی باکرہ کا حکم الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔
تو اس حدیث صریح میں تاویل کیوں کی جائے گی؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
کیا ولی باکرہ پر جبر کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس حدیث میں ثیبہ کے لیے "احق" کیوں کہا گیا جب ثیبہ اور اور باکرہ دونوں کا حق ایک جیسا ہے یعنی دونوں ولی کی بنسبت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہیں؟ یہ جملہ تو حشو و تطویل میں داخل ہوگا اور نبی کریم ﷺ کو جوامع الکلم دیے گئے تھے۔
ولی نہ تو باکرہ پر جبر کرسکتا ہے نہ ہی ثیبہ پر ۔احق کا مفہوم یہاں واضح کیا گیاہے۔
چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا لیکن اگر لڑکی نے کہیں شادی کا ارادہ کیا اور ولی نے منع کردیا تو اس پر قاضی اصرار کرسکتا ہے اگر اصرار سے مان جائے تو پھر ثیبہ کی شادی کردی جائے گی جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
تو صریح ہے کہ ولی کا کچھ اختیار نہیں ہے۔ اور اس میں بھی باکرہ کا حکم الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔
اولا یہ بات واضح رہے کہ کسی عورت کا نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہے جیساکہ اوپر حدیث دیکھی جاسکتی ہے جوکہ عام ہے باکرہ اور ثیبہ کے لئے ۔
ثانیا یہ حدیث کہ ولی کا کوئی اختیار نہیں ، اس ایک اکیلے حدیث سے ہی مفہوم نہیں لیا جائے گابلکہ ثیبہ سے متعلق ساری احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے مفہوم اخذ کیا جائے گا۔ اس حدیث کو جب احق والی حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معنی ہوا کہ ولی کو بھی اختیار ہے مگر ثیبہ کو اس کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے لیکن پھربھی ثیبہ آپ خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی ،یہ مفہوم ایک تیسری حدیث سے حاصل ہوتا ہے جس میں ثیبہ کا ذکر ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اور یہ عام حدیث اپنی جگہ شاہد ہے ہی ۔
صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
 
شمولیت
دسمبر 01، 2016
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
71
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:ايك مطلقہ لڑکی ہے وہ ایسے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے لڑکی جب اپنے باپ سے اجازت مانگتی ہے تو اسکے باپ کہتے ہیں تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا ۔باپ کا یہ جملہ تیری مرضی۔۔۔۔۔۔۔ الخ کیا اس کو اجازت تسلیم کر سکتے ہیں؟
اور والثيب احق بنفسها( ثيبہ عورت تو اپنے نفس کی مالک ہوتی باپ اجازت دے یا نہ دے) اس حدیث کے مطابق کیا وہ شادی کر سکتی ہے۔؟

سائل : قمرالزماں خان،یوپی ۔انڈیا

وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ:
باپ کا یہ کہنا کہ "تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا"یہ اجازت پہ نہیں بلکہ باپ کی سخت ناراضگی پہ دلالت کرتا ہے لہذا لڑکی اپنے بات کی وجہ ناراضگی ختم کرے اور اس شادی کے لئے ان کی اجازت حاصل کرے ورنہ شادی نہیں کرےکیونکہ شادی زندگی بھر کا معاملہ ہے ،ہوسکتا ہے جس نظریہ سے معاملہ کو باپ دیکھ رہاہے شاید لڑکی اس سے انجان ہواس لئے بیٹھ کر معاملہ کو حل کرے ۔ اور یہ یاد رہے کہ لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
جہاں تک سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلے وہ حدیث دیکھیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ثیبہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے بلکہ اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں ولی کا حق ہے وہیں ثیبہ کا بھی حق ہے اور اپنے نفس کے لئے ثیبہ ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ولی جبرا کہیں بھی اپنی مرضی سے شادی کردے ثیبہ کی اجازت ضروری ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت سے ثیبہ کے لئے بھی ولی ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اس روایت سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے ولی بغیر ثیبہ کی اجازت کے شادی نہیں کرسکتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ ثیبہ کی شادی کے لئے ولی بھی ہونا چاہئے ۔
خلاصہ یہ ہواکہ ثیبہ کے لئے بھی ولی چاہئے وہ بغیر ولی کے کسی سے اپنا نکاح نہیں کرسکتی ہے اور ہاں چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا لیکن اگر لڑکی نے کہیں شادی کا ارادہ کیا اور ولی نے منع کردیا تو اس پر قاضی اصرار کرسکتا ہے اگر اصرار سے مان جائے تو پھر ثیبہ کی شادی کردی جائے گی جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ابوداؤد کی مندرجہ ذیل حدیث بھی اسی معنی میں لی جائے گی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔

واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی
جزاک اللہ خیرا
 
Top