• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مُبارک لمحات

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

فکر ونظر
[ڈاکٹر حافظ حسن مدنی]


جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مُبارک لمحات
ایم فِل کلاسز کا آغاز ... ائمہِ مسجدِ نبویؐ کی تشریف آوری... ماضی اور حال


کسی بھی ادارے، اس کے بانیان ومنتظمین اورمنسوبین کے لئے حقیقی مسرّت کے لمحات وہ ہوتے ہیں جب وہ ادارہ اپنے پیش نظر مقاصد کی طرف احسن انداز میں پیش قدمی کرے اور اس میں ترقی ہوتی نظر آئے۔ ایسے ہی خوشی کے لمحات جامعہ لاہور الاسلامیہ میں بھی آئے جب اس ادارے میں علوم اسلامیہ کے ایسے اعلیٰ تعلیمی مراحل کا آغاز ہوا جو سرکاری طور پر منظور شدہ ہیں اور یہ اعزاز برصغیر پاک وہند کی کسی بھی اسلامی درسگاہ کو سب سے پہلے حاصل ہوا ہے...!!
جامعہ میں مؤرخہ2؍نومبر 2013ء کو ایم اے کے بعد، ایم فل(ایم ایس؍ماجستیر) کی پہلی کلاس کا باقاعدہ آغاز ہوا، جو آخر کار تعلیم وتحقیق کی آخری سند یعنی پی ایچ ڈی کی طرف پیش قدمی اور اُس کا مقدمہ ہے۔اس کلاس میں پچیس طلبہ کو علوم قرآن، علوم حدیث، عربی زبان وادب اور بحث وتحقیق کے کورسز نامور اہل علم وفضل پڑھا رہے ہیں، جو اس اعلیٰ تعلیمی مرحلے کے تقاضوں کے مطابق طویل تدریسی وتحقیقی تجربہ کے حامل اور پی ایچ ڈی کے سندیافتہ ہیں۔
جامعہ ہذا میں ایم فل کی یہ تعلیم جہاں لاہور کی دیگر پرائیویٹ یونیورسٹیوں مثلاً سنٹرل پنجاب یونیورسٹی،یو ایم ٹی، سپیرئیر اورلیڈز یونیورسٹی وغیرہ سے بہتر ہے، وہاں اس کے علمی پایہ اور مقام ومرتبہ کا معاصر یونیورسٹیوں سے مقابلہ کرنا بھی زیادتی ہے۔علوم اسلامیہ کے حوالے سے جامعہ لاہور الاسلامیہ چالیس برس سے میدانِ علم وتحقیق میں سرگرم ہے اور اُس کے فضلا دنیا بھر میں اپنی نامور خدمات کی بنا پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ نیز جامعہ کے طلبہ عالمی اسلامی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ امتیازات اور مختلف فیکلٹیوں میں اوّل پوزیشن سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔جہاں تک سرکاری اعتراف کی بات ہے تو جامعہ ہذا کے اس وقت عالم عرب کی ممتاز ترین یونیورسٹیوں مثلاً ازہر یونیورسٹی مصر، مدینہ منورہ یونیورسٹی، امام یونیورسٹی ریاض وغیرہ ، عالم اسلام میں انٹرنیشنل مدینہ یونیورسٹی ملائیشیا، آلِ بیت یونیورسٹی اُردن کے علاوہ، پاکستان کی معروف سرکاری یونیورسٹیوں مثلاً بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، لاہور یونیورسٹی برائے خواتین اور سرگودھا یونیورسٹی سے مضبوط تعلیمی معاہدات ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ واضح ہے کہ عالمی اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلیمی معاہدات کی حامل اسناد، نجی منظور شدہ یونیورسٹیوں کی سندوں سے زیادہ اعتبار ومقام رکھتی ہیں کیونکہ سرکاری سند ہونے کے ناطے اُنہیں کسی بھی مقام پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیمی سال 2013ء-2014ء کے لئے سرکاری طورپر سات شعبوں میں ایم اے(اُردو، عربی، انگریزی، اکنامکس، اسلامیات، ابلاغیات)،3 ڈسپلن میں بی ایس، اور مینجمنٹ، کامرس اور کمپیوٹرسائنسز میں بیچلر ، بی ایس سی اور ماسٹر کی سطح کے پروگرام جاری کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جامعہ ہذا کیلئے یہ امر بھی باعثِ افتخار ہے کہ ' فیڈریشن آف یونیورسٹیز آف اسلامک ورلڈ' کے چیئرمین ڈاکٹر سلیمان عبد اللّٰہ اباالخیل، جو امام یونیورسٹی الریاض کے چانسلر اور معروف علمی ودینی شخصیت ہیں، کو سعودی حکومت نے گذشتہ سال 12 مئی 2012ء کو جامعہ ہذا کے نائب الرئیس کے طورپر متعین کرتے ہوئے دونوں جامعات کے مابین 11نکاتی وقیع معاہدۂ اتفاق وتعاون کی بھی منظوری[1] دی ہے اور جامعہ کے بعض اہم منصوبہ جات کی تکمیل میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بایں طور معاون ہے کہ اس کے پروچانسلر بھی مذکورہ بالا شخصیت ڈاکٹر اباالخیل ہی ہیں اور اُ س کے موجودہ چیئرمین، امام یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن یوسف الُدریویش ، دونوں اداروں کے مشترکہ تعلیمی مقاصد اور ترقی کے لئے بے حد پرجوش ہیں۔

[1]

خادم الحرمين يوافق على مذكرة التعاون بين جامعة الإمام وجامعة لاهور: وافق خادم الحرمين الشريفين الملك عبدالله بن عبدالعزيز رئيس مجلس الوزراء رئيس مجلس التعليم العالي - يحفظه الله - على إجازة مذكرة التعاون بين جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية وجامعة لاهور الإسلامية في باكستان. وبيَّن مدير جامعة الإمام الدكتور سليمان أبا الخيل أن جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية وجامعة لاهور الإسلامية في باكستان وقعَتَا مذكرة تعاون بينهما في مجال التعليم العالي وفقاً لما تنص عليه الأنظمة والقوانين في المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية، وذلك في إطار الرغبة في توسيع التعاون المثمر بين مؤسسات التعليم العالي بالمملكة العربية السعودية ومؤسسات التعليم العالي في جمهورية باكستان الإسلامية.
وأوضح الدكتور أبا الخيل أن المذكرة تدعم قنوات الاتصال بين الجامعتين من خلال: تبادل الوثائق والمواد الأكاديمية والعلمية والمطبوعات وجميع المصادر ذات العلاقة بالتعليم الجامعي مع عدم الإخلال بحقوق النشر، وتبادل وفود أعضاء هيئة التدريس والمتخصصين والموظفين الآخرين في مجال التعليم العالي، وتبادل الخبرات والبيانات والمراجع ذات العلاقة بالدراسات العربية والإسلامية وغيرها من المجالات في المملكةالعربيةالسعودية وجمهورية باكستان. (جريدة الرياض: 12/5/2012م)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جامعہ ہذا میں فی الحال ایم فل کی تعلیم کا آغاز علوم اسلامیہ اور اسلامک اکنامکس کے میدانوں میں کیا گیا ہے۔جبکہ جامعہ کی اپنی جاری شدہ اسناد کم وبیش تین دہائیوں سے سعودی عرب میں منظور شدہ ہیں۔ جامعہ ہذا برصغیر پاک وہند کا وہ واحد غیرسرکاری ادارہ ہے ، جس کی ہائرسکینڈری یعنی انٹر کی اسناد کو سعودی وزارتِ تعلیم کی طرف سے 1984ء میں انٹر ؍ہائر سیکنڈری کے مساوی تسلیم کرکے،سعودی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلہ کے لئے منظور کر رکھا ہے۔ماضی میں جامعہ کی اس سند پر، جو مڈل کے بعد چار سالہ تعلیم کے بعد دی جاتی ہے ، سیکڑوں طلبہ سعودی جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں، اور انہی دنوں مدینہ منورہ یونیورسٹی میں سات طلبہ کو تعلیمی سکالر شپ برائے تعلیمی سال 1435ھ حاصل ہوا ہے۔ گویا اس طرح پنجاب بھر میں کسی بھی ادارے کو حاصل ہونے والا یہ سب سے بڑا سعودی سکالر شپ ہے۔ مزید برآں جامعہ میں مڈل کے بعد آٹھ سالہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دی جانے والی سند کو ، سعودی عرب کی منسٹری آف ہائر ایجوکیشن، 1986ء سے ایم اے کے برابر تسلیم کرکے، اس کی بنا پر سندیافتہ طلبہ کو ایم فل یعنی ماجستیر میں براہِ راست داخلہ کی منظوری دے چکی ہے۔ کسی بھی غیرحکومتی ادارے کے لئے سعودی نظام تعلیم سے ہم آہنگی اور اعتراف کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جامعہ لاہور اسلامیہ کا آغاز چالیس برس قبل عالم اسلام کی معروف ترین جامعہ، مدینہ یونیورسٹی سے فیض پانے والے ان چند مدنی علما وفضلا نے کیا تھا، جو 1962ء میں اس یونیورسٹی کے آغاز کے بعد پہلے پہل وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی عالم اسلام کے نامور اساطین علم کی مشترکہ تدریسی وتنظیمی کاوشوں اور مشاورتوں کے ساتھ مدینۃ الرسولﷺ میں اُمّتِ اسلامیہ کے ذمّے عائد تعلیم دین کے فریضہ سے عہدہ برا ہونے کے لئے قائم کی گئی تھی اور مفتی دیارِ سعودیہ شیخ امام محمد بن ابراہیم اور سابق مفتی اعظم جنہیں اس وقت امام عبد العزیز بن باز﷫ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے اوّلین وائس چانسلرز تھے۔ اُن کی سربراہی میں دنیا بھر سے بلائے جانے والے نامور علما وفقہا اس یونیورسٹی کے اوّلین اساتذہ کرام قرار پائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
پاکستان سےمدینہ منورہ یونیورسٹی میں سب سے پہلا تعلیمی سکالر شپ حضرۃ العلام ، مجتہد العصر حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی﷫کے زیر انتظام چلنے والے جامعہ اہل حدیث، لاہور کو حاصل ہوا، اور اسی جامعہ کے تین طلبہ، جو محدث روپڑی کے ممتاز شاگرد تھے، سب سے پہلے 1963ء میں علماے پاکستان کی ایک نمائندہ پروقار تقریب میں اس مبارک مقصد کےلئے مدینۃ الرسولؐ عازمِ سفر ہوئے۔ ان تین علما کے اسماے گرامی شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾، مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾اور مولانا عبد السلام کیلانی مدنی  ہیں۔ ان علما نے مدینہ منورہ سے واپسی پر، ایک طرف 'محدث' کے نام سے تحقیقی مجلّہ جاری کیا۔ مولانا کیلانی نے اوّل الذکر کے گاؤں سرہالی کلاں، قصور میں بیٹھ کر مجلّہ کا یہ مبارک نام تجویز کیا،جس کی عملی ذمہ داری مولانا عبد الرحمٰن مدنی 43 برس سے پوری کررہے ہیں۔دوسری طرف تعلیم وتدریس کے میدان میں رحمانیہ کے نام سے ثانوی درجہ کی دینی درسگاہ سے آغاز کیا گیا جس میں متعدد کبار علما کے ساتھ تینوں شخصیات درس وتدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔'محدث' اور 'رحمانیہ' کا نام اختیار کرنے کی وجہ اس مبارک تسلسل کا احیا بھی ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل جماعت اہل حدیث کی مایہ ناز درسگاہ 'دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی' کے ذریعے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلا۔ اُس درسگاہ سے بھی 'محدث' کے نام سے ماہوار مجلّہ 1932 سے 1943ء تک شائع ہوتا رہا جس کے مدیروں میں 'مرعاۃ المفاتیح' کے نامور مؤلف مولانا عبید اللّٰہ رحمانی مبارکپوری اور نائب امیر جماعتِ اسلامی ، مولانا عبد الغفار حسن رحمہم اللّٰہ کے اسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔دہلی میں یہ درسگاہ بڑے علمی جاہ وجلال سے سرگرمِ عمل تھی حتیٰ کہ قیام پاکستان کے ہنگاموں میں اس کی خدمات ماند پڑتے پڑتے آخر کار ختم ہوگئیں۔ حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی اور اُن کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی، اس درسگاہ کے نصاب ساز اور ممتحن ہوا کرتے ۔ محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبد الرحمٰن مدنی ، حافظ محمد حسین روپڑی کے فرزند اور اپنے والد وچچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی کے شاگردِ خاص ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ یونیورسٹی سے تعلیم پانے کے بعد روپڑی کی بجائے ، اس سے مبارک تر نسبت 'مدنی' اختیار کرلی۔
حضرت مولانا حافظ ثناء اللّٰہ مدنی﷾ جامعہ ہذا کے کم وبیش 30 برس سے شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور آج پاکستان بھر میں اُستاذ الاساتذہ اور 'مفتی اہل حدیث' کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ حافظ صاحب موصوف چند برسوں سے عرب دنیا : ریاض، کویت،امارات اور امریکہ وغیرہ میں عرب اساتذۂ حدیث کو حدیث کی ممتاز کتب کا دورۂ حدیث بھی کرواتے ہیں اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں اہل علم شریک ہوتے ہیں۔ریاض شہر میں ہونے والی ایسی ایک مبارک محدثانہ مجلس کا تذکرہ دار السلام کے مینیجنگ ڈائریکٹر مولانا عبد المالک مجاہد نے اپنے زیر ادارت مجلّہ 'ضیاے حدیث' لاہورکے جولائی 2013ءکے شمارہ میں ادارتی صفحات پر بالتفصیل کیا ہے، جس میں اس مجلس کی علمی شان وشوکت اور شیخ الحدیث مدنی ﷾ کی عالمانہ تدریس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، ایک نامور دینی خاندانِ روپڑیہ کے فرزند ہونے کی بنا پر، مدینہ منورہ یونیورسٹی سے واپسی پر، پاکستان میں ایسی ہی ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے یکسو ہوگئے جس میں اسی درجہ کی تعلیم اور وہی وسیع تر علمی وفکری منہج اختیار کیا جائے جو مسلکی تعصّبات سے بالاتر ، اسلام کی مکمل ترجمانی اور اس پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرتا ہو۔اُن کے والدِ گرامی شیخ الحدیث حافظ محمد حسین روپڑی ﷫کی وفات پر 1959ء میں اُن کے چچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی نے اُنہیں جامعہ اہل حدیث، لاہور کا منتظم مقرر کیا تھا۔ محدث روپڑی کی 1964ء میں وفات کے بعد آپ معروف مناظر اسلام اور اپنے تایا زاد بھائی حافظ عبد القادر روپڑی ﷫ کی معیت میں جامعہ اہل حدیث کا انتظام وانصرام کرتے رہے اور وہاں سے شائع ہونے والے 'تنظیم اہل حدیث ' کی ادارت کے فرائض بھی ساٹھ کی دہائی میں انجام دیتے رہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ادارہ جاتی اُمور اور 'تنظیم اہل حدیث' کی ادارت کے تجربوں نے 'رحمانیہ' کی تشکیل اور 'محدث 'کی تعمیر وترقی میں اُنہیں خوب فائدہ پہنچایا۔محدث کے قارئین اور جامعہ کے فضلا، اس چالیس سالہ جدوجہد سے گاہے بگاہے واقف ہوتے رہتے ہیں جس کو اپنی علمی زندگی میں جناب مدیر اعلیٰ 'محدث' نے نصبُ العین بنائے رکھا۔ آئندہ سالوں میں رحمانیہ کے نام سے یہ ادارہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے ترقی پانے لگا اور رحمانیہ اُس کے ہائرسیکنڈری؍ثانوی مرحلہ کا نام برقرار رہا۔ اس ادارے میں 1978ء میں مدینہ یونیورسٹی کی طرز پر پاکستان کا سب سے پہلا 'کلیۃ الشریعہ' قائم ہوا جو قانون وشریعت کی مہارت اور عدل وانصاف کے اسلامی ماہرین کی تیاری کے لئے مختص ہے اور1992ء میں سب سے پہلا کلیۃ القرآن الکریم قائم ہوا جس کا مقصد علوم قرآن اور تفسیر وقراءات میں کلام الٰہی کو مرکزی حیثیت سے پڑھانا تھا۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ جہاں برصغیر کی روایتی درسگاہوں سے مختلف اورعالم عرب کی جامعات کی طرز پر پاکستان میں پہلا پہلا تجربہ تھا، وہاں ان چالیس سالوں میں اس کے فضلا کو سعودی جامعات میں سب سے زیادہ سکالر شپ بھی حاصل ہوے جس کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
اس وقت جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور میں تین بڑے مراکز میں جو مختلف مراحل تعلیم کے لئے مختص ہیں، پھیلا ہوا ہے۔ 'جامعہ لاہور الاسلامیہ ،البیت العتیق' کے نام سے واپڈا ٹاؤن کے قرب میں وسیع تر ادارہ حفظِ قرآن اور ثانوی درجہ یعنی ایف اے تک کی معیاری تعلیم کے لئے ڈاکٹر قاری حافظ حمزہ مدنی کی قیادت میں کام کررہا ہے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں رہائشی طلبہ علوم اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہیں اور پچیس سے زائداساتذہ وعلماے کرام ، جامعہ میں ہمہ وقت موجود رہ کر مستقبل کے علما کی علمی وعملی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
'جامعہ لاہور الاسلامیہ ، رحمانیہ' کےنام سے گارڈن ٹاؤن میں قائم ادارہ راقم الحروف کی نگرانی میں کلیہ یعنی کالج لیول کی تعلیم کے لئے سرگرم ہے۔ جہاں علوم اسلامیہ میں عرب یونیورسٹیوں کی طرح چار سالہ کلیۃ الشریعہ اور ایم فل علوم اسلامیہ کی کلاسیں جاری ہیں۔ایم فل کی طرح ، اس چار سالہ تعلیمی پروگرام کو بھی پاکستان میں حال ہی میں متعارف ہونے والے چار سالہ بی ایس پروگرام کی شکل دے کر، اس کی تکمیل پر ایم اے کی سرکاری سند جاری کی جاتی ہےجس میں بی اے کی سند شامل ہوتی ہے ۔ اس ادارہ میں طلبہ کے علاوہ طالبات کی ایک کثیر تعداد بھی مستقل اور جداگانہ بنیادوں پر تعلیم حاصل کرتی ہے اور خواتین کے تعلیمی مراحل کی تمام تر نگرانی مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی کی اہلیہ محترمہ کرتی ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
مولانا مدنی کی اہلیہ محترمہ، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی بیٹی ہیں اور خودبھی عرصہ تیس برس سے'اسلامک انسٹیٹیوٹ' کے نام سے خواتین کے لاہور میں 6؍تعلیمی ادارے اور 25قرآن سنٹرز کی نگرانی کررہی ہیں۔ برسہا برس کی تدریسی سرگرمیوں میں اُن سے تیس ہزار سے زائد خواتین نے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کی براہِ راست تعلیم حاصل کی ہے۔ لاہور کے خواتین حلقوں میں اُن کے یومیہ درس باقاعدگی سے ہوتے ہیں ۔خواتین کے یہ مراکز مولانا مدنی کی اہلیہ محترمہ اور اُن کی بیٹیوں کی زیر نگرانی مصروفِ عمل ہیں۔ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء!
جامعہ کی تیسری مرکزی بلڈنگ ماڈل ٹاؤن میں واقع ہے۔یہ وہ مبارک عمارت ہے، جہاں قیام پاکستان کے بعد روپڑی بزرگان (حافظ عبد اللّٰہ روپڑی، حافظ محمد حسین روپڑی، حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی اور حافظ عبد القادر روپڑی رحمہم اللّٰہ) نے قیام کیا اور وہاں آج تک اُن کے جاری کردہ علمی فیوض اورتدریسی وتحقیقی سلسلے جاری وساری ہیں۔ اس عمارت میں مجلس التحقیق الاسلامی،محدث کے دفاتر اورلاہور کی عظیم الشان اسلامی لائبریری 'مکتبہ رحمانیہ 'موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں اسی مرکز سے اُردو زبان کی سب سے بڑی ویب سائٹ 'کتاب وسنت.کام' اور اس سے ملحقہ ویب سائٹس کی تیاری ہوتی ہے۔ یہ ویب سائٹ اور مرکزڈاکٹر حافظ انس مدنی (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کے زیر نگرانی کام کررہاہے۔ اس ویب سائٹ پر دنیا بھر سے اُردو لٹریچر بالکل مفت پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے۔حال ہی میں یہاں احادیثِ نبویؐہ کے مستند تراجم وشروح کی جدید ترین ویب سائٹ کا بھی آغازکیا گیا ہے جو جدید دنیا کی اہم ترین علمی ضرورت تھی۔ محدث فتاویٰ کی ویب سائٹ میں تقریباً 10 ہزار فتاویٰ دیے جاچکے ہیں اور باقاعدگی سے یہ سلسلہ جاری ہے، تحقیقی سرگرمیوں کےساتھ یہ مرکز پی ایچ ڈی مرحلہ کی تعلیم وتحقیق کے لئے مخصوص ہے۔ تینوں مراکز میں باقاعدہ مساجد بھی موجود ہیں۔مرد وخواتین کے لئے ان تمام تعلیمی مراکز کی سرپرستی اور نگرانی جناب مدیر اعلیٰ' محدث 'مولانا مدنی ﷾فرماتے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جامعہ میں ائمہ مسجدِ نبویؐ کی آمد

گذشتہ ماہ 4؍اکتوبر 2103ء کا دن اس لحاظ سے بڑا مبارک ثابت ہوا کہ اس دن جامعہ کی البیت العتیق برانچ کو مسجدِ نبوی کے ائمہ کرام اور مدینہ یونیورسٹی کے تین اساتذہ کرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ 4؍اکتوبر کی نمازِ عشا کی امامت جامعہ کی مرکزی مسجد میں مسجدِ نبوی کے مشہور امام ڈاکٹر شیخ محمد ایوب مدنی ﷾نے فرمائی۔ ان کے ہمراہ مسجدِ نبوی کے معروفِ زمانہ امام شیخ ڈاکٹر علی عبد الرحمٰن حذیفی کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹراحمد علی عبد الرحمن حذیفی بھی موجود تھے۔ شیخ محمد ایوب اپنے خوبصورت لہجہ میں برسہا برس مسجدِ نبوی میں تراویح کی امامت فرماتے رہے ہیں۔ جبکہ شیخ حذیفی کے فرزند ڈاکٹر احمد علی حذیفی ، مسجد قبلتین مدینہ منورہ کے باضابطہ امام ہونے کیساتھ گاہے مسجدِ نبوی میں بھی امامت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ مدینۃ الرسولﷺ کی یہ دونوں مبارک شخصیات اور اُن کے ہمراہ شیخ عباس شکری ، جو مسجدِ نبوی کے مؤذن ہیں، تینوں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے معزز اساتذہ کرام بھی ہیں اور اپنے علم وفضل کی بنا پر بھی اُن کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ البیت العتیق میں اس مبارک شب کو نمازِ عشا کی اذان شیخ عباس شکر ی نے دی اور ہزاروں انسانوں کا جم غفیر اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ نمازِ عشا کے دوران لوگوں کا جوش وجذبہ دیدنی تھا، بہت سوں کی آنکھوں سے خوشی ومسرت کے آنسو رواں تھے۔
 
Top