• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مُبارک لمحات

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
امام مسجدِ نبوی ڈاکٹر شیخ محمد ایوب کی امامت میں نماز ادا کرنے والوں میں خواتین وحضرات کی بڑی تعداد کے علاوہ، لاہور کی ممتاز دینی شخصیات بھی شریک تھیں، جنہوں نے مدینہ منورہ کے ان مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔مولانا حافظ مسعود عالم، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا حافظ محمد شریف، قاری محمد ادریس العاصم ،ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، قاری محمد ابراہیم میر محمدی، مولانا عبد الماجد سلفی، مولانا محمد شفیق مدنی ،ڈاکٹر عبد الغفور راشد،قاری صہیب احمدمیر محمدی وغیرہ کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا فضل الرحیم اشرفی، دارالعلوم اسلامیہ کامران بلاک کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی، جماعت اسلامی کی علما کونسل کے چیئرمین مولانا عبد المالک، جناب امیر العظیم، تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر پروفیسر میاں محمد اکرم اور نامور صحافی جناب انور قدوائی، سجاد میر، رؤف طاہر، تاثیر مصطفیٰ اور بہت سی نمایاں اور قدآور سیاسی شخصیات موجود تھیں ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس موقع پر راقم الحروف نے استقبالیہ کلمات میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ، اُنہیں ایسی جامعہ میں خوش آمدید کہا جو پاکستان میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے متعارف کردہ نظامِ تعلیم کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے اور یہاں پاکستان بھر میں سب سے بڑی تعداد میں مدینہ یونیورسٹی کے فضلا تدریس وتحقیق میں مصروفِ عمل ہیں۔ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ، ڈاکٹر حافظ انس مدنی اور جامعہ کے اساتذہ کرام نے پروگرام کے تمام انتظامات سنبھالے۔مدینہ یونیورسٹی سے آنے والے اساتذہ، یہاں اپنے بہت سے سابقہ شاگردوں کو دیکھ کر اُن میں گھل مل گئے۔اگلے روز روزنامہ 'جنگ' میں شائع ہونے والے کالم 'جمہورنامہ' میں جناب رؤف طاہر نے لکھا کہ
''اخبار میں کوئی اشتہار، نہ خبر، نہ ٹی وی پر کوئی ٹِکر... صرف چار پانچ گھنٹوں میں یہ خبر سینہ بہ سینہ یا پھر ایس ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے پھیلی اور شوکت خانم ہسپتال سے دو کلومیٹر دور جامعہ لاہور الاسلامیہ، البیت العتیق کی وسیع مسجد کے ہال، صحن اور گیلریوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ یہ آقائے دوعالم ﷺ کے شہر سے آنے والے مہمانوں کا خیرمقدم بھی تھا، اور امامِ مسجدِ نبویؐ کی اقتدا میں نمازِ عشاپڑھنے کی سعادت بھی۔ امامِ کعبہ تو وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہتے ہیں،ہمیں یاد ہے کہ لاہور اور کراچی میں لاکھوں فرزندانِ اسلام نے ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں۔ کچھ عرصہ قبل مشرف دور میں بھی آئے تھے، لیکن جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ، اہل پاکستان کو مسجدِ نبویؐ کے امام کی میزبانی کا شرف کم کم ہی حاصل ہوا ۔'' (5؍اکتوبر 2013ء)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جامعہ لاہور الاسلامیہ میں اعلیٰ اور سرکاری سطح پر معتبر ومستند تعلیمی مراحل کا آغاز محض ایک اسلامی ادارہ کا ارتقا ہی نہیں ہے،بلکہ دراصل یہ اس خلیج کو پاٹنے کی اہم ترین کوشش بھی ہے جس کی بنیاد انگریز استعمار نے دو صدیوں قبل رکھی تھی، جب اس نے اپنے سیکولر نظریات کے مطابق دینی تعلیم کو معاشرے سے دیس نکالا دیتے ہوئے اس کو حجروں اور مساجد تک محدود کرنے کی سعئ بد کی تھی۔ جامعہ میں دینی اہداف ومقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی مراحل کا آغاز،مسٹر اور ملا کے نام سے رائج کی جانے والے مسلم معاشرے کی تقسیم کے خلاف ایک ٹھوس عملی قدم ہے۔ یہ امتزاج اس امر کا بھی عکاس ہے کہ دینی اور سرکاری نظام ہائے تعلیم بہت سے مراحل پر متحد ویکجا بھی ہوسکتے ہیں۔ اس امر کی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ دینی تعلیم کو سرکاری اعتراف ومنظوری سے دور رکھا جائے۔تعلیم کی دو متوازی دائروں میں تقسیم دراصل اس ثنویت کا شاخسانہ ہے، جسے سیکولرزم نے ہماری پوری زندگی میں پھیلا کر، اسے مسموم کررکھا ہے۔
جامعہ ہذا میں صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم ہی سرکاری تقاضوں کے مطابق نہیں ہورہی بلکہ اس سے قبل ایف اے کے بعد کے کلیہ وکالج کے مراحل بھی سرکاری تقاضوں کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ماضی میں وفاقوں کے تحت ، دینی تعلیم کو ایک متوازی نظام تعلیم مانتے ہوئے، ان کے مساوی ومعادل ہونے کے نظریے کے تحت اُن کی اسناد کو منظوری دی گئی تھی، جو اکثر وبیشتر کامل سند کے تقاضے پورے نہیں کرتی، کبھی علما کو میدانِ سیاست میں اور کبھی سائنس ومینجمنٹ کے علوم میں وفاق کی سند کی بنا پر آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔جبکہ جامعہ ہذا کا موجودہ اقدام، طالب علم کو عین انہی سرکاری اسناد کا حق دار بنادیتا ہے، جو پاکستان کی اعلیٰ ترین اور ہر مقام پر معتبر ومستند شہادات ہیں۔ اس طریقے میں حکومت اور ایچ ای سی کے پیش کردہ نظام میں مہیا گنجائشوں سے استفادہ کیا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں یہ طلبہ ایک متوازی نظام تعلیم کے بجائے مرکزی قومی نظام تعلیم کے دھارے میں شامل ہوجائیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس مقصد کے لئے برصغیر کے روایتی مدارس اور اُن کے موجودہ مسائل سے بالاتر ہوکر، عالم عرب میں موجود اسلامی جامعات میں موجود علوم اسلامیہ کی تدریس کے نظام سے ہمیں استفادہ کرنا ہوگا۔توجہ طلب امر ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس کے فضلا مدینہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، گویا وہاں سرکاری تعلیم حاصل کرکے ، اُن کے علم وفضل پر کوئی حرف آنے کی بجائے، اس میں مزید وقار اور اعتبار واعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ مشترکہ ہے ، کہ پاکستانی مدارس عرب کی اسلامی جامعات کے نظام ونصاب کا اپنے مروّجہ نظام سے تجزیہ وتقابل کریں، اور مستقبل کے لئے مضبوط لائحۂ عمل تشکیل دیں۔ تاہم ان عظیم تر اعلیٰ مقاصد کےلئے انتہائی محنت، باریک بینی، جدوجہداور اخلاصِ نیت ضروری ہیں ۔ جامعہ ہذا نے چالیس برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد ان مقاصد کو حاصل کیا ہے ۔ جامعہ ہذا میں گذشتہ سالوں میں تجربہ کار اساتذہ کرام کی دانش وبصیرت کو مسلسل اور طویل مشاورتوں میں بروے کار لاتے ہوئے نصاب ونظام میں ایسی مفید اور بامقصد اصلاحات کی گئی ہیں جن کی ایک طرف مستند علما نے تائید کی ہے اور دوسری طرف اُن کے ذریعے دینی مدرسہ کے اصل مقاصد کی بہتر پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چار برسوں قبل آنے والی اس تبدیلی کوطلبہ کا اعتماد حاصل ہے اور اس سے آخری کلاسوں میں جامعہ کا داخلہ میں اضافہ ہوا ہے۔جامعہ کے فضلا جس جس ادارے میں موجود ہیں، وہاں اُن کے علم وفضل کے ساتھ ساتھ ، ان میں فرقہ وارانہ رجحانات کی کمی، اور اس کے مقابلے میں ملت اور اسلام کو درپیش مسائل کے بارے میں فکر مندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ قدامت پرستی سے گریز اور جدید صالح تجربات سے استفادہ، ایک بلند علمی معیار اور غیرمعمولی جہد وکاوش کا متقاضی ہے۔
مدارس کا موجودہ نظام مسجد ومدرسہ کے ماہرین تو ہمیں میسر کرتا اور امامت وخطابت کی صلاحیت تو پیدا کرتا ہے ، لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو یہ استعمار کا تشکیل کردہ ہمارے لئے وہ سیکولر دائرہ عمل ہے کہ ہمارا دین بس ہماری انہی پرائیویٹ ضروریات تک محدود رہے، اور اسلامی تعلیمات سے مزین یہ لوگ معاشرے کی امامت وسیادت اور ان کو راہِ راست پر لانے کا خیال ترک کردیں۔ اسلامی معاشرہ اللّٰہ کی تعلیمات سے غافل اورمغربی افکار کی گمراہی میں لتھڑا رہے اور وہاں اہل دنیا کو دین کے تقاضوں سے بےپروا ہوکر اپنی خواہشات کی تکمیل میں پورے معاشرے کو کھپا تے رہنے کی پوری آزادی حاصل رہے۔ ہمارا دین 'اسلام' مسجد ومدرسہ یعنی عبادت وتعلیم سے تقویت پاکر پورے معاشرے میں اپنا مؤثر پیغام پھیلاتا ہے اور ایک کامل نظامِ حیات کی طرف مسلمانوں کو لے جاتا ہے۔ اس لئے کسی مدرسہ میں تعلیم کو دینی اور دنیاوی کے دو دائروں میں تقسیم کرکے پڑھنا، دراصل سیکولرذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ مسلمان کی تعلیم اور پوری زندگی سب کی سب اللّٰہ کے لئے ہی ہوتی ہے ، دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ اُمورِ دنیا کو بھی اللّٰہ کے احکام کی تعمیل میں سیکھتا اور الٰہی مقاصد کے لئے ہی بروے کار لاتا ہے۔ اس بنا پر تعلیمی ثنویت کا خاتمہ اشد ضروری ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو دین دار اور بے دین کی تقسیم میں بانٹتی جارہی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تعلیمی ونظریاتی تقاضوں کے علاوہ، مدارس میں پڑھنے والے طلبہ پر معاشرتی دباؤ اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ وہ مدارس میں دورانِ تعلیم سرکاری اسناد (میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے ) کے حصول میں بہت سا قیمتی وقت صرف کردیتے ہیں۔ یا تو دورانِ تعلیم ، دینی تعلیم سے بے اعتنائی کرکے یا فراغت کے بعد، کئی ایک سال اسناد کے حصول کی جدوجہد میں گزار کر... یہ مسائل اس قابل ہیں کہ اِن کے حل کی کوئی تدبیر نکالی جائے اور طلبہ پر آنے والے تعلیمی اور معاشرتی دباؤ کو قابل برداشت بنایا جائے۔
جامعہ لاہور اسلامیہ میں متعارف کرائے جانے والے نظام میں بہت سی مشکلات موجود ہیں، ابھی بہت سے عملی مسائل باقی ہیں، لیکن ایک خاندان کی سطح پر پروان چڑھنےوالا تعلیمی ادارہ ، ایک طویل محنت کے بعد ، کم ازکم ایک قابل عمل سوچ اور نمونہ ہی دے دے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ الحمد للہ ہمارا یہ یقین ہے کہ فکری اورنظریاتی طورپر ہمارا راستہ بالکل درست ہے، اس کے امکانات بہت روشن ہیں اور مدارسِ دینیہ کا جو مقصد ہےیعنی اسلام کے ماہرین ، داعی، مدرس، مفتی ومحقق پیدا کرنا، اس میں ہم آج بھی کامیاب ہیں اور مستقبل میں بھی ... تاہم عملی دنیا میں بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں جو اللّٰہ کی خاص توفیق اور مدد کے ساتھ ان شاء اللّٰہ ضرور حاصل ہوکر رہیں گے ۔
والَّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سُبلنا !!
------
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جامعہ میں مؤرخہ 2؍نومبر 2013ء کو ایم اے کے بعد، ایم فل(ایم ایس؍ماجستیر) کی پہلی (ص1 کیا ایم اےکوہی ماجستیر نہیں کہتے
ان تین علما کے نام شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾، مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی اور مولانا عبد السلام کیلانی مدنی ہیں( ص 3 ميرا خيال مدنی صاحب کی بجائے تیسرا نام حافظ مقبول کا ہے
جانے جاتے ہیں۔ حافظ صاحب موصوف آخری چند برسوں سے عرب دنیا : ریاض، کویت، قطر (آخری کو ختم کردیا جائے
اُن کے چچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی نے اُنہیں جامعہ اہل حدیث، لاہور کا منتظم مقرر کیا تھا۔ محدث روپڑی کی 1963ء میں( ص 4تاریخ وفات 20اگست 1964 ہے بحوالہ روپڑی علمائے حدیث و بزم ارجمندہ
ہونے والے چار سالہ بی ایس پروگرام کی شکل دے کر، اس کی تکمیل پر ایم اے کی سرکاری سند جاری کی جاتی ہے( ص 5 کن کو دی گی ہے
روپڑی، حافظ عبد القادر روپڑی) نے کئی برس قیام کیا اور وہاں 63 برس سے ان کے علمی فیوض جاری وساری رہے۔(ص6 ہیں
باقاعدگی سے یہ سلسلہ جاری ہے، یہ مرکز پی ایچ ڈی مرحلہ کی تعلیم وتحقیق کے لئے مخصوص(ص6 یہاں پی ایچ ڈی وغیرہ کی کونسی کلاسز ہوتی ہیں
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جامعہ میں مؤرخہ 2؍نومبر 2013ء کو ایم اے کے بعد، ایم فل(ایم ایس؍ماجستیر) کی پہلی (ص1 کیا ایم اےکوہی ماجستیر نہیں کہتے
ان تین علما کے نام شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾، مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی اور مولانا عبد السلام کیلانی مدنی ہیں( ص 3 ميرا خيال مدنی صاحب کی بجائے تیسرا نام حافظ مقبول کا ہے
جانے جاتے ہیں۔ حافظ صاحب موصوف آخری چند برسوں سے عرب دنیا : ریاض، کویت، قطر (آخری کو ختم کردیا جائے
اُن کے چچا حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی نے اُنہیں جامعہ اہل حدیث، لاہور کا منتظم مقرر کیا تھا۔ محدث روپڑی کی 1963ء میں( ص 4تاریخ وفات 20اگست 1964 ہے بحوالہ روپڑی علمائے حدیث و بزم ارجمندہ
ہونے والے چار سالہ بی ایس پروگرام کی شکل دے کر، اس کی تکمیل پر ایم اے کی سرکاری سند جاری کی جاتی ہے( ص 5 کن کو دی گی ہے
روپڑی، حافظ عبد القادر روپڑی) نے کئی برس قیام کیا اور وہاں 63 برس سے ان کے علمی فیوض جاری وساری رہے۔(ص6 ہیں
باقاعدگی سے یہ سلسلہ جاری ہے، یہ مرکز پی ایچ ڈی مرحلہ کی تعلیم وتحقیق کے لئے مخصوص(ص6 یہاں پی ایچ ڈی وغیرہ کی کونسی کلاسز ہوتی ہیں

جزاک اللہ خیرا کثیرا و احسن الجزاء فی الدارین
اس آخری پوسٹ میں مسئلہ ہے ۔۔۔اس کو درست کریں بھائی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
طوالت کے باوجود سارا مضمون پڑھنے کے بعد ہی دم لیا ہے ۔
اللہ ہماری مادر علمی کو مزید ترقیوں سے نوازے اور دین اسلام کے لیے کی جانے والی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے ۔
ویسے یہ مکمل مضمون ناسہی اس کے چیدہ چیدہ حصے عربی زبان میں ترجمہ ہونے چاہییں ۔
 
Top