• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاوید احمد غامدی اور ان کے نام نہاد’امام‘

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(3) تیسری مثال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ هُوَ ٱلَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ...﴿٢٤...سورۃ الملک

اس کا ترجمہ غامدی صاحب نے یہ کیا ہے کہ
''ان سے کہہ دو، وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں بویا۔'' 8

اور اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اسی آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے:
''کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایاہے۔'' 9

اب قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں (ذال کے ساتھ)کے معروف معنی 'بونے' کے ہیں یا'پھیلانے' کے ۔ ہمارے خیال میں اس مقام پر غامدی صاحب کے اُستاد کا ترجمہ صحیح اور معروف کے مطابق ہے جبکہ اُن کا اپناترجمہ 'غیرمعروف' اور 'مجہول' ہوگیا ہے اورعربی کے ایک اور لفظ '' (زاء کے ساتھ)کا ترجمہ بن گیا ہے۔ اس مثال میں بھی غامدی صاحب نے اپنے بنائے ہوئے اُصول کی خود خلاف ورزی کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(4) چوتھی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
كَلَّا ۖ بَل لَّا يَخَافُونَ ٱلْـَٔاخِرَةَ ﴿٥٣﴾...سورۃ المدثر

اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''بلکہ (واقعہ یہ ہے کہ) یہ قیامت کی توقع نہیں رکھتے۔'' 10

اور اُن کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کرتے ہیں :
''ہرگز نہیں ، بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔''11

اب یہ فیصلہ کرنا اہل علم کا کام ہے کہ آیت کے لفظ '' کی قطعی دلالت اور اس کے معروف معنی بقول غامدی صاحب 'توقع رکھنے' کے ہیں یااُن کے استاد نے اس لفظ کو اس کے معروف معنوں میں لیا ہے: 'خوف رکھنا یاڈرنا' ۔ہماری رائے میں غامدی صاحب کے استاد کا ترجمہ صحیح ہے اور یہی اس کا معروف مفہوم ہے جبکہ غامدی صاحب نے اپنے ہی اُصول کے خلاف اس لفظ کا ایک'غیرمعروف' اور'مجہول' ترجمہ کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچویں مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَأَمَّا ٱلْقَـٰسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ﴿١٥...سورۃ الجن

اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''اور جو نافرمان ہوئے (اُن کا انجام پھر یہی ہے) کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔'' 12

اب یہ جاننااہل علم کا کام ہے کہ قرآنی لفظ کے معروف اور قطعی معنی کیا ہیں ، 'نافرمان' یا کچھ اور؟ کیونکہ 'نافرمان' تو '' کا ترجمہ ٹھہرے گا جو یہاں مستعمل نہیں ہوا۔ اُن کے استاد نے اس مقام پراس لفظ کے معنی 'جوبے راہ ہوئے' کے کئے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مولانا امین احسن اصلاحی کی عربیت کی ایک مثال
جہاں تک غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی عربیت کا معاملہ ہے تو واضح رہے کہ ہمیں غامدی صاحب کے علاوہ اس بارے میں اصلاحی صاحب پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ تفسیر 'تدبر قرآن' میں کئی مقامات پر عربیت کے خلاف ترجمہ و تفسیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر ایک مقام ملاحظہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَٱلسَّمَآءَ بَنَيْنَـٰهَا بِأَيْيدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧...سورۃ الذاریات

وہ اس آیت کا پہلے یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ
''اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں ۔''

پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''أَیْدٍ کے معروف معنی تو ہاتھ کے ہیں لیکن یہ قوت و قدرت کی تعبیر کے لئے بھی آتا ہے ... یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت و عظمت کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مشاہدہ ہرشخص اپنے سر پر پھیلے ہوئے آسمان اور اس کے عجائب کے اندر کرسکتا ہے۔'' 13

اس مقام پر مولانا اصلاحی صاحب کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے لفظ کو ( کی جمع )سمجھ لیا جو کہ غلط ہے کیونکہ پہلے لفظ کا مادہ ہے جبکہ دوسرے لفظ کامادّہ ہے۔ عربی میں پہلے کے معنی 'قوت و طاقت 'کے آتے ہیں اور دوسرے کے'ہاتھ' کے۔

پھر یہاں پر مولانا صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے بزعم خویش ایک لفظ کے معروف معنی چھوڑ کر خود اس کے'غیر معروف' معنی مراد لے کر اُس کی تفسیر کردی۔ جو اُن کے اپنے اُصول کے خلاف بھی ہے اور اُن کے شاگردِ رشید غامدی صاحب کے اُصول کے خلاف بھی کہ قرآنی الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں ۔

قرآن مجید میں پہلے لفظ کی مثالیں اور نظیریں یہ ہیں :
(1) {وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا ٱلْأَيْدِ...﴿١٧﴾...سورۃ ص} میں ذا الأَیْدِکے معنی 'قوت والا' کے ہیں ۔
(2) اسی'أییْد'کے افعال و مشتقات میں ماضی یعنی ٗ، اور مضارع یعنی أیَّدَہ، أَ یَّدَھُمْ،أَیَّدَکَ،أَیَّدَکُمْ،أَیَّدْنَا اور مضارع یعنی یؤَیَّدُکے الفاظ قرآنِ مجید میں مستعمل ہیں ۔

دوسرے لفظ یَدکے قرآنی نظائر یہ ہیں :
(1) واحد کی شکل میں یَدٌ،یَدٍ،یَدَہ ٗ اور،یَدَکَ وغیرہ
(2)تثنیہ کی صورت میں یَدَا،یَدَاکَ، اور یَدَاہ ٗ وغیرہ
(3)جمع کے طور پر أیدي أَیْدِيْ،أَیْدِيَ،اَیْدِیْنَا،أَیْدِیَھُمْ ،أَیْدِیَھُنَّ اور وغیرہ

گویا کے یہ تمام قرآنی نظائر 'ایک ہاتھ'، 'دو ہاتھ' اور 'سب ہاتھ' کے معنوں میں جا بجا موجود ہیں ۔یہاں لفظ رسم عثمانی میں کے علاوہ ایک اضافی دندانے کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، تاکہ کا سے باقی نہ رہے ۔ کیونکہ مادّہ (Root) کے اعتبارسے کا پہلا حرف ہمزہ ''ہے۔ جبکہ کا پہلا اور آخری لفظ دونوں ''ہیں ۔

اب سوچنے کی یہ بات ہے کہ جو لوگ قرآنی الفاظ کے مادّوں (Roots)ہی سے بے خبر ہوں اوراس کے دو مختلف الفاظ میں امتیازنہ کرسکتے ہوں ، اُن کی عربیت پرکیسے اعتماد کیاجاسکتا ہے؟ ... اور جب اُن کی عربیت کا یہ حال ہے تو اُن کی تفسیر کا کیا حال ہوگا؟؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حوالہ جات
1. میزان:صفحہ 24 ، طبع دوم
2. میزان:صفحہ 18 ، طبع دوم، اپریل 2002ء
3. حوالہ مذکور: ص18،19
4. البیان: ص260
5. تدبر قرآن: جلد9؍ ص631
6. البیان: ص207
7. تدبرقرآن:جلد9؍ ص451
8. البیان: ص25،26
9. تدبرقرآن، جلد8؍ صفحہ 489
10. البیان، ص81
11. تدبر قرآن، جلد9؍ ص42
12. البیان: ص61
13. تدبر قرآن:7؍626
 
Top