شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 1,972
- ری ایکشن اسکور
- 6,263
- پوائنٹ
- 412
تعارف
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین کے صرف دو ماخذ ہیں۔ قرآن اور سُنت ۔۔۔ سُنت مقدم ہے قرآن موخر، سُنت ازل سے ہے جب کہ قرآن تو آخری کلام ہے۔ غامدی صاحب نے سنت کے لیے یہ اصول مقرر فرمایا کہ سُنت میں اختلاف ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ سُنت پر امّت کا اجماع ہے اور سُنت کا تواتر و تسلسل قرآن سے زیادہ مستحکم ہے کیونکہ سُنت قرآن کے مقابلے میں زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے لہٰذا سُنت میں جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابتہ نہیں رہے گی۔ لیکن غامدی صاحب نے اس خود ساختہ اصول کی نفی فرماتے ہوئے اب تک سُنت کی تعریف و تعین کے ضمن میں کئی موقف بدلے ہیں۔ غامدی صاحب کے مطابق پہلے سنتیں صرف چالیس تھیں ان میں داڑھی بھی شامل تھی پھر داڑھی فطرت ہوگئی سنتیں ۳۹ رہ گئیں، پہلے عورتوں کا ختنہ بھی سُنت میں شامل تھا پھر صرف مردوں کا ختنہ سُنت کے طور پر باقی رہ گیا۔ پہلے تمام سنتیں لازمی تھیں بعد میں بعض سنتیں ضروری، بعض لازمی بعض غیر ضروری غیر لازمی ہوگئیں۔ پہلے کم از کم دو کمروں کا مکان اور امام کا صاحب نصاب ہونا بھی سُنت ثابتہ تھا لیکن ۲۰۰۵ء میں سنتوں کی نئی فہرست سے یہ دونوں سنتیں بھی خارج ہوگئیں۔ سنتوں کے اخذ و ترک کے خود ساختہ اصولوں کا انجام یہی ہے کہ اب ان اصولوں کے تحت سُنت بحیثیت ماخذ دین باقی نہیں رہی، نعوذباللہ۔ لہٰذا غامدی صاحب کے طے شدہ اصول کے تحت ان کی بیان کردہ سنتیں اب سنتیں نہیں رہیں اور دین کا پہلا ماخذ سُنت جو قرآن پر مقدم ہے۔ غامدی صاحب کے فلسفے کے تحت نابود ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں جب سُنت ان کے وضع کردہ اصول دین کے تحت سُنت نہیں رہی تو دین کا پہلا ماخذ خودبخود کالعدم ہوگیا۔ صاف صاف بات کی جائے تو اصلاً غامدی صاحب کے نزدیک اب دین کا ایک ہی ماخذ ہے وہ قرآن مجید ہے۔ یہ بھی کب تک بحیثیت ماخذ باقی رہ سکے گا اس کے لیے غامدی صاحب کے ارتقاء تک انتظار فرمایے۔ ساحل]
قرآن دین کی آخری کتاب ہے اس سے پہلے دنیا میں دین موجود تھا اور لوگوں کو معلوم تھا۔ اب سوچیے کہ آخری کتاب جو آئے گی تو کیا وہ دنیا میں پہلے دن سے آئے ہوئے دین کو بیان کرنا شروع کر دے گی۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ عقل عام کہتی ہے کہ جو دین محفوظ ہے اس کی تصدیق کر دے گی اس کی تفصیل بیان نہیں کرے گی اور اگر دین میں کوئی نئی بات کہنی ہے تو وہ کہہ دے گی۔ مثلاً آج اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی کتاب نازل ہو تو کیا وہ آپ کو یہ سکھائے گی کہ لوگو! نماز ایسے پڑھو عقل عام اس کا جواب نفی میں دے گی کیونکہ نماز تو پہلے سے دین کی حیثیت سے پڑھی جا رہی ہے۔ البتہ اس نماز کے اندر کوئی غلطی ہوگئی ہے کوئی خرابی ہوگئی ہے تو بس اس کی تصحیح کر دے گی۔ عقل عام یہی کہتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن مجید نے جو دین ہم کو دیا ہے وہ پہلی مرتبہ نہیں دیا بلکہ جو دین پہلے سے موجود تھا۔ قرآن اس دین کا پہلی بار دینے والا نہیں ہے اس کا مجدد ہے اس دین کو قرآن نے زندہ کیا ہے، اس دین میں کوئی خرابی تھی تو اس کی اصلاح کی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ وقت نماز یہ بات قرآن اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ ہمیشہ سے دنیا میں ہے وہ سب لوگ نماز کو پڑھتے رہے جو اللہ کے دین کو ماننے والے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ ، حضرت ابراہیمؑ سب نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابو ذر غفاری، اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ واقعہ مسند احمد کی مشہور روایت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب مکہ کے باہر آکر انھوں نے پڑاؤ ڈالا تو میرے بھائی مکہ گئے اور پہلی بار ان کو معلوم ہوا کہ ایک شخصیت نے یہاں نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابو ذر کا جملہ ہے کہ میں اس اطلاع سے تین سال پہلے سے نماز کا پابند ہوگیا تھا۔ تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیے رسول اللہؐ سے بہت پہلے حضورؐ کے دادا قصی دارالندوہ میں جمعہ کے خطیب تھے اور خطبہ جمعہ رسالت مآبؐ کی آمد سے پہلے دیا کرتے تھے۔ حج کے بارے میں تو گفتگو کی ضرورت ہی نہیں وہ حضور سے بھی صدیوں پہلے ہو رہا تھا لوگ حج کرتے تھے اور حج کے وہی مناسک ادا کیے جاتے تھے جو لوگ آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ زکوٰۃ تورات میں بھی موجود ہے اور بنیاسرائیل کے یہاں بھی زکوٰۃ دی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے آکر صلوٰۃ و زکوٰۃ حج و صوم کو متعارف نہیں کرایا۔ قرآن میں ہے کہ روزے تم پر اسی طرح فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلوں پر۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا دین پہلے سے موجود تھا۔ پیغمبروں کے ذریعے دین دنیا کو مل چکا تھا۔ قرآن نے اس دین پر عمل کی تلقین کی۔ اس میں کوئی غلطی پیدا ہوگئی تھی تو اس کی اصلاح کی اور کسی چیز میں کوئی تبدیلی کرنا تھی تو وہ کر دی۔
جو کچھ ہو رہا تھا یہ پیغمبروں کا مسلمہ Establish طریقہ تھا جسے سُنت کہا جاتا ہے یعنی سُنت کچھ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمہ طریقہ جو پہلے سے جاری تھا اور جس طریقے سے رسول اللہؐ نے قرآن کی ہدایت کے مطابق چھوٹی موٹی اصلاح کر دی مثلاً قربانی پہلے سے جاری تھی، رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا حضرت ابراہیمؑ کی سُنت ہے۔ عرب میں جو دین تھا وہ انھیں حضرت ابراہیم سے منسوب کرتے تھے۔ اس کے لیے عرب دین ابراہیمی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن میں سورہ نحل کی آیت ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبرؐ کی طرف وحی کی کہ اے پیغمبرؐ پیروی کرو ابراہیمؑ کے طریقے کی وہ ایک یکسو مسلمان تھا کسی مذہب شرک کا پیرو نہ تھا۔ [۳۱؍۱۶]
اس آیت کے ذریعے رسول اللہؐ کو حکم دیا گیا کہ جو دین ابراہیم کے زمانے سے مل رہا ہے آپ کو اس کی پیروی کرنا ہے۔ لہٰذا جس چیز کو سُنت کہا جاتا ہے وہ یوں نہیں ہے کہ پہلے قرآن آیا اور اس نے کہا کہ نماز پڑھیے پھر حضور نے بتانا شروع کیا کہ نماز ایسے پڑھی جائے گی۔ نماز پڑھی جا رہی تھی، روزہ رکھا جا رہا تھا، حج کیا جا رہا تھا، زکوٰۃ دی جا رہی تھی ان میں کچھ بدعتیں داخل ہوگئیں تھیں۔ قرآن نے اور پیغمبر نے ان کی اصلاح کی، ان کو درست کیا اوراسے جاری کر دیا۔ لہٰذا سُنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرمؐ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا لہٰذا یہ دونوں چیزیں مل کر وہ دین بن جاتی ہیں جو محمدؐ سے صادر ہوا۔
سُنت کیا ہے اس پر غور کریں تو سُنت مقدم ہو جاتی ہے قرآن موخر ہوجاتا ہے یعنی وہ طریقہ جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حضورؐ کے زمانے تک مسلمہ دین کی حیثیت رکھتا تھا وہ سُنت ہوگئی۔ وہ دراصل سُنت ابراہیمی ہے اور آپؐ کی تصویب سے ہم تک پہنچی۔
سُنت ہمیں کیسے ملی ہے؟ سُنت کے بارے میں یہ بات قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے سُنت بھی صحابہ اور ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔ سُنت قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی۔ بچہ آنکھ کھولتا ہے تو قرآن مجید سے واقف ہوجاتا ہے۔ اس طرح نماز اور حج سے واقف ہوجاتا ہے۔ اجماع کا مطلب ہے کہ پوری امت کا علم اس بات پر متفق ہوتا ہے یہ بات کہ سُنت بخاری اور مسلم سے لیں گے مناسب جواب نہیں۔ جس طرح قرآن امت کے اجماع سے لیا ہے سُنت بھی امت کے اجماع سے لیں گے دونوں بالکل یکساں حیثیت سے منتقل ہوئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ سُنت زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ نماز پڑھنے والوں کی تعداد اور قرآن کے حفاظ کی تعداد گن کر دیکھ لیجیے اس لیے سُنت کے معاملے میں کسی ادنیٰ تردد کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن کے بارے میں معلوم ہوگیا کہ یہ ۶۶۶۶ آیتوں کا مجموعہ ہے۔ سُنت کی تعریف کو نظر میں رکھ کر جب ہم امت کے علمی ذخیرے کا جائزہ لیتے ہیں تو جیسے قرآن بالکل محکم طریقے سے مل جاتا ہے ویسے ہی سُنت بھی محکم طور پر مل جاتی ہے یعنی سُنت کی فہرست لکھوائی جاسکتی ہے کہ یہ سُنت ہے۔ اس فہرست میں صرف چالیس سنتیں شامل ہیں جن پر صحابہ کا اجماع عملی ہے۔
سُنت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ آپ یہ مان لیں کہ سُنت وہ ہے جسے رسول اللہ نے دین کی حیثیت سے جاری کیا اور اس پر پوری امت کا اجماع ہوگیا۔ سُنت میں اختلاف کیسے ہوجائے گا؟ جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابت نہیں ہوگی، اجماع اس کی لازمی شرط ہے۔ جیسے قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا سُنت میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ [دانش سراء کراچی میں محاضرات ۹۸ء کی ریکارڈنگ سے ماخوذ]
جاوید احمد غامدی اور سنت
اگر سُنت میں اختلاف ہوجائے تو وہ سُنت نہیں رہے گی
غامدی صاحب کے اصول کے تحت سنت ماخذ قانون نہیں رہا
غامدی صاحب کے اصول کے تحت سنت ماخذ قانون نہیں رہا
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین کے صرف دو ماخذ ہیں۔ قرآن اور سُنت ۔۔۔ سُنت مقدم ہے قرآن موخر، سُنت ازل سے ہے جب کہ قرآن تو آخری کلام ہے۔ غامدی صاحب نے سنت کے لیے یہ اصول مقرر فرمایا کہ سُنت میں اختلاف ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ سُنت پر امّت کا اجماع ہے اور سُنت کا تواتر و تسلسل قرآن سے زیادہ مستحکم ہے کیونکہ سُنت قرآن کے مقابلے میں زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے لہٰذا سُنت میں جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابتہ نہیں رہے گی۔ لیکن غامدی صاحب نے اس خود ساختہ اصول کی نفی فرماتے ہوئے اب تک سُنت کی تعریف و تعین کے ضمن میں کئی موقف بدلے ہیں۔ غامدی صاحب کے مطابق پہلے سنتیں صرف چالیس تھیں ان میں داڑھی بھی شامل تھی پھر داڑھی فطرت ہوگئی سنتیں ۳۹ رہ گئیں، پہلے عورتوں کا ختنہ بھی سُنت میں شامل تھا پھر صرف مردوں کا ختنہ سُنت کے طور پر باقی رہ گیا۔ پہلے تمام سنتیں لازمی تھیں بعد میں بعض سنتیں ضروری، بعض لازمی بعض غیر ضروری غیر لازمی ہوگئیں۔ پہلے کم از کم دو کمروں کا مکان اور امام کا صاحب نصاب ہونا بھی سُنت ثابتہ تھا لیکن ۲۰۰۵ء میں سنتوں کی نئی فہرست سے یہ دونوں سنتیں بھی خارج ہوگئیں۔ سنتوں کے اخذ و ترک کے خود ساختہ اصولوں کا انجام یہی ہے کہ اب ان اصولوں کے تحت سُنت بحیثیت ماخذ دین باقی نہیں رہی، نعوذباللہ۔ لہٰذا غامدی صاحب کے طے شدہ اصول کے تحت ان کی بیان کردہ سنتیں اب سنتیں نہیں رہیں اور دین کا پہلا ماخذ سُنت جو قرآن پر مقدم ہے۔ غامدی صاحب کے فلسفے کے تحت نابود ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں جب سُنت ان کے وضع کردہ اصول دین کے تحت سُنت نہیں رہی تو دین کا پہلا ماخذ خودبخود کالعدم ہوگیا۔ صاف صاف بات کی جائے تو اصلاً غامدی صاحب کے نزدیک اب دین کا ایک ہی ماخذ ہے وہ قرآن مجید ہے۔ یہ بھی کب تک بحیثیت ماخذ باقی رہ سکے گا اس کے لیے غامدی صاحب کے ارتقاء تک انتظار فرمایے۔ ساحل]
قرآن دین کی آخری کتاب ہے اس سے پہلے دنیا میں دین موجود تھا اور لوگوں کو معلوم تھا۔ اب سوچیے کہ آخری کتاب جو آئے گی تو کیا وہ دنیا میں پہلے دن سے آئے ہوئے دین کو بیان کرنا شروع کر دے گی۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ عقل عام کہتی ہے کہ جو دین محفوظ ہے اس کی تصدیق کر دے گی اس کی تفصیل بیان نہیں کرے گی اور اگر دین میں کوئی نئی بات کہنی ہے تو وہ کہہ دے گی۔ مثلاً آج اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی کتاب نازل ہو تو کیا وہ آپ کو یہ سکھائے گی کہ لوگو! نماز ایسے پڑھو عقل عام اس کا جواب نفی میں دے گی کیونکہ نماز تو پہلے سے دین کی حیثیت سے پڑھی جا رہی ہے۔ البتہ اس نماز کے اندر کوئی غلطی ہوگئی ہے کوئی خرابی ہوگئی ہے تو بس اس کی تصحیح کر دے گی۔ عقل عام یہی کہتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن مجید نے جو دین ہم کو دیا ہے وہ پہلی مرتبہ نہیں دیا بلکہ جو دین پہلے سے موجود تھا۔ قرآن اس دین کا پہلی بار دینے والا نہیں ہے اس کا مجدد ہے اس دین کو قرآن نے زندہ کیا ہے، اس دین میں کوئی خرابی تھی تو اس کی اصلاح کی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ وقت نماز یہ بات قرآن اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ ہمیشہ سے دنیا میں ہے وہ سب لوگ نماز کو پڑھتے رہے جو اللہ کے دین کو ماننے والے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ ، حضرت ابراہیمؑ سب نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابو ذر غفاری، اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ واقعہ مسند احمد کی مشہور روایت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب مکہ کے باہر آکر انھوں نے پڑاؤ ڈالا تو میرے بھائی مکہ گئے اور پہلی بار ان کو معلوم ہوا کہ ایک شخصیت نے یہاں نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابو ذر کا جملہ ہے کہ میں اس اطلاع سے تین سال پہلے سے نماز کا پابند ہوگیا تھا۔ تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیے رسول اللہؐ سے بہت پہلے حضورؐ کے دادا قصی دارالندوہ میں جمعہ کے خطیب تھے اور خطبہ جمعہ رسالت مآبؐ کی آمد سے پہلے دیا کرتے تھے۔ حج کے بارے میں تو گفتگو کی ضرورت ہی نہیں وہ حضور سے بھی صدیوں پہلے ہو رہا تھا لوگ حج کرتے تھے اور حج کے وہی مناسک ادا کیے جاتے تھے جو لوگ آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ زکوٰۃ تورات میں بھی موجود ہے اور بنیاسرائیل کے یہاں بھی زکوٰۃ دی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے آکر صلوٰۃ و زکوٰۃ حج و صوم کو متعارف نہیں کرایا۔ قرآن میں ہے کہ روزے تم پر اسی طرح فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلوں پر۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا دین پہلے سے موجود تھا۔ پیغمبروں کے ذریعے دین دنیا کو مل چکا تھا۔ قرآن نے اس دین پر عمل کی تلقین کی۔ اس میں کوئی غلطی پیدا ہوگئی تھی تو اس کی اصلاح کی اور کسی چیز میں کوئی تبدیلی کرنا تھی تو وہ کر دی۔
جو کچھ ہو رہا تھا یہ پیغمبروں کا مسلمہ Establish طریقہ تھا جسے سُنت کہا جاتا ہے یعنی سُنت کچھ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمہ طریقہ جو پہلے سے جاری تھا اور جس طریقے سے رسول اللہؐ نے قرآن کی ہدایت کے مطابق چھوٹی موٹی اصلاح کر دی مثلاً قربانی پہلے سے جاری تھی، رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا حضرت ابراہیمؑ کی سُنت ہے۔ عرب میں جو دین تھا وہ انھیں حضرت ابراہیم سے منسوب کرتے تھے۔ اس کے لیے عرب دین ابراہیمی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن میں سورہ نحل کی آیت ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبرؐ کی طرف وحی کی کہ اے پیغمبرؐ پیروی کرو ابراہیمؑ کے طریقے کی وہ ایک یکسو مسلمان تھا کسی مذہب شرک کا پیرو نہ تھا۔ [۳۱؍۱۶]
اس آیت کے ذریعے رسول اللہؐ کو حکم دیا گیا کہ جو دین ابراہیم کے زمانے سے مل رہا ہے آپ کو اس کی پیروی کرنا ہے۔ لہٰذا جس چیز کو سُنت کہا جاتا ہے وہ یوں نہیں ہے کہ پہلے قرآن آیا اور اس نے کہا کہ نماز پڑھیے پھر حضور نے بتانا شروع کیا کہ نماز ایسے پڑھی جائے گی۔ نماز پڑھی جا رہی تھی، روزہ رکھا جا رہا تھا، حج کیا جا رہا تھا، زکوٰۃ دی جا رہی تھی ان میں کچھ بدعتیں داخل ہوگئیں تھیں۔ قرآن نے اور پیغمبر نے ان کی اصلاح کی، ان کو درست کیا اوراسے جاری کر دیا۔ لہٰذا سُنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرمؐ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا لہٰذا یہ دونوں چیزیں مل کر وہ دین بن جاتی ہیں جو محمدؐ سے صادر ہوا۔
سُنت کیا ہے اس پر غور کریں تو سُنت مقدم ہو جاتی ہے قرآن موخر ہوجاتا ہے یعنی وہ طریقہ جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حضورؐ کے زمانے تک مسلمہ دین کی حیثیت رکھتا تھا وہ سُنت ہوگئی۔ وہ دراصل سُنت ابراہیمی ہے اور آپؐ کی تصویب سے ہم تک پہنچی۔
سُنت ہمیں کیسے ملی ہے؟ سُنت کے بارے میں یہ بات قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے سُنت بھی صحابہ اور ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔ سُنت قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی۔ بچہ آنکھ کھولتا ہے تو قرآن مجید سے واقف ہوجاتا ہے۔ اس طرح نماز اور حج سے واقف ہوجاتا ہے۔ اجماع کا مطلب ہے کہ پوری امت کا علم اس بات پر متفق ہوتا ہے یہ بات کہ سُنت بخاری اور مسلم سے لیں گے مناسب جواب نہیں۔ جس طرح قرآن امت کے اجماع سے لیا ہے سُنت بھی امت کے اجماع سے لیں گے دونوں بالکل یکساں حیثیت سے منتقل ہوئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ سُنت زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ نماز پڑھنے والوں کی تعداد اور قرآن کے حفاظ کی تعداد گن کر دیکھ لیجیے اس لیے سُنت کے معاملے میں کسی ادنیٰ تردد کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن کے بارے میں معلوم ہوگیا کہ یہ ۶۶۶۶ آیتوں کا مجموعہ ہے۔ سُنت کی تعریف کو نظر میں رکھ کر جب ہم امت کے علمی ذخیرے کا جائزہ لیتے ہیں تو جیسے قرآن بالکل محکم طریقے سے مل جاتا ہے ویسے ہی سُنت بھی محکم طور پر مل جاتی ہے یعنی سُنت کی فہرست لکھوائی جاسکتی ہے کہ یہ سُنت ہے۔ اس فہرست میں صرف چالیس سنتیں شامل ہیں جن پر صحابہ کا اجماع عملی ہے۔
سُنت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ آپ یہ مان لیں کہ سُنت وہ ہے جسے رسول اللہ نے دین کی حیثیت سے جاری کیا اور اس پر پوری امت کا اجماع ہوگیا۔ سُنت میں اختلاف کیسے ہوجائے گا؟ جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابت نہیں ہوگی، اجماع اس کی لازمی شرط ہے۔ جیسے قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا سُنت میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ [دانش سراء کراچی میں محاضرات ۹۸ء کی ریکارڈنگ سے ماخوذ]