- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
چار ’’نئی‘‘ باتیں
@احسان الہی ظہیر
جاوید چوہدری صاحب ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ میں عرصہ دراز سے ان کے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ ان کے کالموں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رنگار نگ معلومات سے لبریز ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں دو اور باتیں بطورِ خاص دیکھنے میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ پاکستان اور نظامِ پاکستان پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ کو مسیحائے عالم باور کرانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔وطن عزیز اور پاکستانی قوم پر ان کی یہ تنقید اس قدر سخت اور ایسا انداز لئے ے ہوتی ہے کہ پڑھنے والا مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ خاکم بدہن دنیا کا سب سےکمزور ملک پاکستان اور سب سے برے لوگ پاکستانی ہیں۔ملک و قوم پر تنقید کا یہ اسلوب کس حد تک درست ہے اور اس سے وطنِ عزیز اور پاکستانی قوم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔
سرِ دست ان کے کالموں میں پائی جانے والی دوسری خاص بات کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ ان کے کالموں میں سیکولرازم کے فروغ کی بھرپور جدوجہد نظر آتی ہےاور وہ گاہے بگاہےاسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس وطن کو سیکولر ملک بنانے کی خواہش کا برملا طور پر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ اسلام کی ایک ایسی تعبیر اور تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں جو قرآن و سنت میں اورصحابہ و تابعین اور ائمۂ دین کے اقوال میں موجود اسلام سے بالکل مختلف ہے ۔ اپنی باتوں کو حتمی اور ٹھوس ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ایک فرضی مولانا بھی تخلیق کئے ہوئے ہیں جنہیں وہ اپنی خود ساختہ تعبیر کے سامنے ہمیشہ لا جواب کردیتے ہیں۔
قصۂ مختصر اپنے کل کے کالم میں بھی انہوں نے دینِ اسلام کے متعلق ایسی ہی چار ’’نئی‘‘ باتیں ذکر کی ہیں جو ان کے بقول انہیں عمان کے ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ سے ’’سیکھنے‘‘ کو ملی ہیں۔
پہلی بات انہوں نے یہ سیکھی کہ ’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا نبی کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا اور وہ حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں یا رسول کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم اللہ کے رسول اور امت دونوں کے لئے تھا‘‘۔
اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ بات خود چوہدری صاحب کے ذہن ِ رسا کی اختراع ہے یا عمان کے ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ نے انہیں ’’سکھائی‘‘ ہے۔بہرحال جس نے بھی یہ بات کہی ہے وہ قرآنِ کریم کے علم سے بالکل ناواقف اور جاہل شخص ہے۔ آئیے قرآنِ کریم کی روشنی میں ان کی اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن ِ کریم میں جن مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اے نبی کہہ کر مخاطب کیا ہےان میں سے ہم اختصار کی غرض سے صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں:
1۔ اے نبی اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کے پیچھے نہ چلنا (الأحزاب، آیت:1)
2۔اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت [کے دنوں کے آغاز] میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو۔ (الطلاق،آیت:1)
اب کوئی بھی عقل مند شخص ان آیات کو پڑھ کر با آسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ کیا اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے یا ان کی امت کو بھی؟ اسی طرح عورتوں کو حالتِ پاکی میں طلاق دینے کا حکم اور عدت پوری کرانے کا حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بھی؟
دوسری ’’نئی بات‘‘ جو انہوں نے ’’سیکھی ‘‘ وہ یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی مرد اور خواتین سے خطاب کیا وہاں اکثر خواتین کا ذکر پہلے کیا اور مردوں کا بعد میں، اللہ تعالیٰ کی یہ ادا ثابت کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خواتین کو زیادہ قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے۔‘‘
ان کے اس دعوے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل ِ احترام ہونے کی بنیاد مرد یا عورت ہونا نہیں بلکہ نیکی اور پرہیزگاری ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات، آیت:13) چنانچہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے تو وہ عورت کی مخصوص جسمانی و ذہنی ساخت و استعداد اور فطری تقاضوں کے پیشِ نظر ہے۔
اب قرآن کریم کی روشنی میں ان کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جہاں مرد اور خواتین کا اکٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں خواتین کا ذکر بعد میں ہیں، مثال کے طور پر ہم صرف ایک آیت پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور خواتین کو 10 مرتبہ اکٹھے ذکر فرمایا ہے اور ہر دفعہ مرد کا ذکر خواتین سے پہلے ہے، چنانچہ سورت الأحزاب کی آیت 35 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان [سب کے] لئے اللہ تعالیٰ نے [وسیع] مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
تیسری ’’نئی بات‘‘ جو چوہدری صاحب ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ سے ’’سیکھ‘‘ کر آئے وہ یہ کہ ’’عربی میں نساء صرف خواتین کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ نئی چیزوں اور نئی ایجادات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہےچنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ میں جہاں فرمایا تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں وہاں ضروری نہیں نساء کا مطلب خواتین ہی ہو یہ نئی اختراعات اور نئی ایجادات بھی ہو سکتا ہے، گویا اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے دنیا کی نئی چیزیں تمہاری کھیتیاں ہیں اور تم انہیں ہر طرح سے استعمال کر سکتے ہو(لطف اندوز ہو سکتے ہو)۔‘‘
قارئین ِ کرام ملاحظہ فرمائیے قرآن کریم کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مغرب کی اندھی عقیدت نےکس طرح لوگوں کو قرآن ِ کریم میں معنوی تحریف تک پہنچا دیا ہے۔
میں عرصہ 15 سال سے علومِ عربیہ کا مطالعہ کر رہا ہوں ، 8 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہوں، مدینہ یونیورسٹی میں مایہ ناز عرب اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا موقعہ ملا، میرا ایم فِل کا مقالہ عربی میں ہے، لیکن آج تک میں نے نساء کا یہ معنیٰ نہ کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی عربی سےسنا۔
اگر ہم کچھ لمحوں کے لئے یہ فرض بھی کر لیں کہ نساء نئی اختراعات اور ایجادات کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے، تویہ اتھارٹی جاوید چوہدری صاحب یا عمان کے ایک ’’ مشیر ثقافتی امور‘‘ کو کس نے دی ہے کہ وہ قرآن ِ کریم کے کسی لفظ کےمعانی میں سے جو معنیٰ چاہیں متعین کر لیں۔
عربی زبان میں صلاۃ کا لفظ کولہوں کو حرکت دینے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہے تو ہو سکتا ہے کل کلاں چوہدری صاحب یا ان کا کوئی عمانی دوست یہ شوشہ چھوڑ دے کہ نماز کا مطلب صرف کولہوں کو حرکت دینا ہے۔
اگر چوہدری صاحب یا ان کے بقول ’’قرآن کی نبضیں جاننے والے ‘‘ ان کے دوست نے سورت بقرہ کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس سے پچھلی آیت ہی پڑھی ہوتی تو وہ ایسی حماقت کبھی نہ کرتے ۔ ملاحظہ ہو:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو‘‘ (البقرۃ، آیت: 222)
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے نساء کا لفظ ہی استعمال فرمایا ہے اوریہ حکم دیا ہے کہ نساء سے الگ رہو۔ اب اگرنساء کا مطلب نئی اختراعات اور ایجادات ہیں تو آیت کا ترجمہ یوں ہو گا: ’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں نئی اختراعات و ایجادات سے الگ رہو۔
چوتھی ’’نئی بات‘‘ یہ کہ ’’ عربی میں لفظ علم سائنسی علوم کے لئے استعمال ہوتا ہےاور علماء سے مراد سائنسی علوم کے ماہرین ہوتا ہے لیکن ہم نے بد قسمتی سے علم کو دین اور علماء کو دینی علم تک محدود کر دیا اور یہ عالم اسلام کا بہت بڑا ڈیزاسٹر ہے۔‘‘
چوہدری صاحب! انتہائی ادب سے گزارش ہےکہ عالم اسلام کا سب سے بڑا ڈیزاسٹر یہ ہے کہ جاہلوں نے دین اسلام کے متعلق رائے زنی شروع کر دی ہے۔
جہاں تک لفظ علم کی بات ہے تو عربی زبان سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہےکہ علم کا معنیٰ جاننا ہے،اور یہ اس لفظ کا عمومی معنیٰ ہے جس میں تمام علوم داخل ہو جاتے ہیں، جبکہ قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف 28 مرتبہ استعمال ہوا ہےجن میں سے ایک مرتبہ بھی اسے سائنسی ایجادات کے معنیٰ میں استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ صرف دین کا علم رکھنے والوں کو علماء کہا گیا ہے، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا ’’ میرے مہربان باپ! آپ دیکھیئے میرے پاس وه علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راه کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔‘‘ (مریم، آیت :43)
قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کون سا سائنسی علم آیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کو اپنی پیروی کرنے کا کہا؟
2۔ ’’اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنےوالاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ (آل عمران،آیت:18)
بتائیے اکثر سائنس دان اللہ کی توحید کی گواہی دیتے ہیں یا اللہ کا انکار کرتے ہیں ؟
3۔ آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔(البقرۃ، آیت:120)
اس آیت مبارکہ میں کون سا سائنسی علم مراد ہے ؟
جاوید چوہدری صاحب ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ میں عرصہ دراز سے ان کے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ ان کے کالموں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رنگار نگ معلومات سے لبریز ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں دو اور باتیں بطورِ خاص دیکھنے میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ پاکستان اور نظامِ پاکستان پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ کو مسیحائے عالم باور کرانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔وطن عزیز اور پاکستانی قوم پر ان کی یہ تنقید اس قدر سخت اور ایسا انداز لئے ے ہوتی ہے کہ پڑھنے والا مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ خاکم بدہن دنیا کا سب سےکمزور ملک پاکستان اور سب سے برے لوگ پاکستانی ہیں۔ملک و قوم پر تنقید کا یہ اسلوب کس حد تک درست ہے اور اس سے وطنِ عزیز اور پاکستانی قوم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔
سرِ دست ان کے کالموں میں پائی جانے والی دوسری خاص بات کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ ان کے کالموں میں سیکولرازم کے فروغ کی بھرپور جدوجہد نظر آتی ہےاور وہ گاہے بگاہےاسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس وطن کو سیکولر ملک بنانے کی خواہش کا برملا طور پر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ اسلام کی ایک ایسی تعبیر اور تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں جو قرآن و سنت میں اورصحابہ و تابعین اور ائمۂ دین کے اقوال میں موجود اسلام سے بالکل مختلف ہے ۔ اپنی باتوں کو حتمی اور ٹھوس ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ایک فرضی مولانا بھی تخلیق کئے ہوئے ہیں جنہیں وہ اپنی خود ساختہ تعبیر کے سامنے ہمیشہ لا جواب کردیتے ہیں۔
قصۂ مختصر اپنے کل کے کالم میں بھی انہوں نے دینِ اسلام کے متعلق ایسی ہی چار ’’نئی‘‘ باتیں ذکر کی ہیں جو ان کے بقول انہیں عمان کے ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ سے ’’سیکھنے‘‘ کو ملی ہیں۔
پہلی بات انہوں نے یہ سیکھی کہ ’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا نبی کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا اور وہ حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں یا رسول کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم اللہ کے رسول اور امت دونوں کے لئے تھا‘‘۔
اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ بات خود چوہدری صاحب کے ذہن ِ رسا کی اختراع ہے یا عمان کے ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ نے انہیں ’’سکھائی‘‘ ہے۔بہرحال جس نے بھی یہ بات کہی ہے وہ قرآنِ کریم کے علم سے بالکل ناواقف اور جاہل شخص ہے۔ آئیے قرآنِ کریم کی روشنی میں ان کی اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن ِ کریم میں جن مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اے نبی کہہ کر مخاطب کیا ہےان میں سے ہم اختصار کی غرض سے صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں:
1۔ اے نبی اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کے پیچھے نہ چلنا (الأحزاب، آیت:1)
2۔اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت [کے دنوں کے آغاز] میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو۔ (الطلاق،آیت:1)
اب کوئی بھی عقل مند شخص ان آیات کو پڑھ کر با آسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ کیا اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے یا ان کی امت کو بھی؟ اسی طرح عورتوں کو حالتِ پاکی میں طلاق دینے کا حکم اور عدت پوری کرانے کا حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بھی؟
دوسری ’’نئی بات‘‘ جو انہوں نے ’’سیکھی ‘‘ وہ یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی مرد اور خواتین سے خطاب کیا وہاں اکثر خواتین کا ذکر پہلے کیا اور مردوں کا بعد میں، اللہ تعالیٰ کی یہ ادا ثابت کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خواتین کو زیادہ قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے۔‘‘
ان کے اس دعوے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل ِ احترام ہونے کی بنیاد مرد یا عورت ہونا نہیں بلکہ نیکی اور پرہیزگاری ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات، آیت:13) چنانچہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے تو وہ عورت کی مخصوص جسمانی و ذہنی ساخت و استعداد اور فطری تقاضوں کے پیشِ نظر ہے۔
اب قرآن کریم کی روشنی میں ان کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جہاں مرد اور خواتین کا اکٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں خواتین کا ذکر بعد میں ہیں، مثال کے طور پر ہم صرف ایک آیت پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور خواتین کو 10 مرتبہ اکٹھے ذکر فرمایا ہے اور ہر دفعہ مرد کا ذکر خواتین سے پہلے ہے، چنانچہ سورت الأحزاب کی آیت 35 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان [سب کے] لئے اللہ تعالیٰ نے [وسیع] مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
تیسری ’’نئی بات‘‘ جو چوہدری صاحب ’’مشیر ثقافتی امور‘‘ سے ’’سیکھ‘‘ کر آئے وہ یہ کہ ’’عربی میں نساء صرف خواتین کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ نئی چیزوں اور نئی ایجادات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہےچنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ میں جہاں فرمایا تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں وہاں ضروری نہیں نساء کا مطلب خواتین ہی ہو یہ نئی اختراعات اور نئی ایجادات بھی ہو سکتا ہے، گویا اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے دنیا کی نئی چیزیں تمہاری کھیتیاں ہیں اور تم انہیں ہر طرح سے استعمال کر سکتے ہو(لطف اندوز ہو سکتے ہو)۔‘‘
قارئین ِ کرام ملاحظہ فرمائیے قرآن کریم کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مغرب کی اندھی عقیدت نےکس طرح لوگوں کو قرآن ِ کریم میں معنوی تحریف تک پہنچا دیا ہے۔
میں عرصہ 15 سال سے علومِ عربیہ کا مطالعہ کر رہا ہوں ، 8 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہوں، مدینہ یونیورسٹی میں مایہ ناز عرب اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا موقعہ ملا، میرا ایم فِل کا مقالہ عربی میں ہے، لیکن آج تک میں نے نساء کا یہ معنیٰ نہ کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی عربی سےسنا۔
اگر ہم کچھ لمحوں کے لئے یہ فرض بھی کر لیں کہ نساء نئی اختراعات اور ایجادات کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے، تویہ اتھارٹی جاوید چوہدری صاحب یا عمان کے ایک ’’ مشیر ثقافتی امور‘‘ کو کس نے دی ہے کہ وہ قرآن ِ کریم کے کسی لفظ کےمعانی میں سے جو معنیٰ چاہیں متعین کر لیں۔
عربی زبان میں صلاۃ کا لفظ کولہوں کو حرکت دینے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہے تو ہو سکتا ہے کل کلاں چوہدری صاحب یا ان کا کوئی عمانی دوست یہ شوشہ چھوڑ دے کہ نماز کا مطلب صرف کولہوں کو حرکت دینا ہے۔
اگر چوہدری صاحب یا ان کے بقول ’’قرآن کی نبضیں جاننے والے ‘‘ ان کے دوست نے سورت بقرہ کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس سے پچھلی آیت ہی پڑھی ہوتی تو وہ ایسی حماقت کبھی نہ کرتے ۔ ملاحظہ ہو:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو‘‘ (البقرۃ، آیت: 222)
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے نساء کا لفظ ہی استعمال فرمایا ہے اوریہ حکم دیا ہے کہ نساء سے الگ رہو۔ اب اگرنساء کا مطلب نئی اختراعات اور ایجادات ہیں تو آیت کا ترجمہ یوں ہو گا: ’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں نئی اختراعات و ایجادات سے الگ رہو۔
چوتھی ’’نئی بات‘‘ یہ کہ ’’ عربی میں لفظ علم سائنسی علوم کے لئے استعمال ہوتا ہےاور علماء سے مراد سائنسی علوم کے ماہرین ہوتا ہے لیکن ہم نے بد قسمتی سے علم کو دین اور علماء کو دینی علم تک محدود کر دیا اور یہ عالم اسلام کا بہت بڑا ڈیزاسٹر ہے۔‘‘
چوہدری صاحب! انتہائی ادب سے گزارش ہےکہ عالم اسلام کا سب سے بڑا ڈیزاسٹر یہ ہے کہ جاہلوں نے دین اسلام کے متعلق رائے زنی شروع کر دی ہے۔
جہاں تک لفظ علم کی بات ہے تو عربی زبان سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہےکہ علم کا معنیٰ جاننا ہے،اور یہ اس لفظ کا عمومی معنیٰ ہے جس میں تمام علوم داخل ہو جاتے ہیں، جبکہ قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف 28 مرتبہ استعمال ہوا ہےجن میں سے ایک مرتبہ بھی اسے سائنسی ایجادات کے معنیٰ میں استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ صرف دین کا علم رکھنے والوں کو علماء کہا گیا ہے، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا ’’ میرے مہربان باپ! آپ دیکھیئے میرے پاس وه علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راه کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔‘‘ (مریم، آیت :43)
قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کون سا سائنسی علم آیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کو اپنی پیروی کرنے کا کہا؟
2۔ ’’اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنےوالاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘ (آل عمران،آیت:18)
بتائیے اکثر سائنس دان اللہ کی توحید کی گواہی دیتے ہیں یا اللہ کا انکار کرتے ہیں ؟
3۔ آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔(البقرۃ، آیت:120)
اس آیت مبارکہ میں کون سا سائنسی علم مراد ہے ؟