ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
توبہ
جاوید چوہدری صاحب کو اشد ضرورت ہے راہنمائی کی اور
انھیں محب الوطنی اور اسلام دکھاوے کے لیے چاہیئے ، تعجب ہے کہ یہ مولانا کون ہیں جو ایسی فکر پر لاجواب ہیں!
باقی تفصیل سے نکات پر لکھوں گی،باذن اللہ
جزاک اللہ خیرا ماریہ بہن۔
معذرت کہ مجھے ان کا شیعہ ہونا نہیں ملا۔۔۔آرٹیکل میں موجود ہے کہ یہ شیعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
رہی بات چودہری صاحب کی تو میں نے تو کبھی خاص سنا نہیں انکو البتہ دیکھا ہے ٹی وی میں تو جو اوصآف ان صاحب نے اپنے یہان گنوائے ہیں ویسے شکل سے لگتے نہیں۔۔
باقی دلوں کی اللہ جانتا ہے۔
اور ایک اور بات اس تحریر کو پڑھنے سے لگتا ہے کہ جتنی یہ شو کر رہے ہیں کہ میں محب وطن ہوں تو حقیقت میں غور سے پڑھا جائے تو یہ تحریر پاکستان مخالف بھی ہے۔۔
اشارۃ النص ۔آخری پہرے میں دیکھیں۔۔۔
"اور قم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آپ جیسے علماء کرام"
قم یونیورسٹی ایران میں شیعہ کی بڑی یونیورسٹی ہے۔۔
جاوید صاحب تو خود کو کوئی ”توپ قسم کی چیز“ سمجھتے ہیں، جنہیں دنیا جہان سے ”دعوت نامے“ موصول ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی انہیں ”ان کی حقیقت“ بتلا کر ان سے گفتگو کرنا چاہے تو شاید ہی وہ اس پر آمادہ ہوں۔ البتہ ان کے مسئلے کا ایک ”نفسیاتی حل“ یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں بہ حیثیت ”عزت مآبِ صحافت“ مدینہ یونیورسٹی آنے کی دعوت دی جائے اور ان سے ”درخواست“ کی جائے کہ وہ چند روز یہاں کے طالب علموں کے ساتھ گذاریں تاکہ یہاں کے طالب علم ان سے کچھ (صحافتی امور وغیرہ) ”سیکھ“ سکیں۔ اور ان سے بعض دینی معاملات پر گفتگو کرسکیں۔ اگر ”اس قسم“ کا کوئی دعوت نامہ ”آفیشلی“ ملے تو وہ بخوشی اپنے کسی اگلے غیر ملکی دورہ میں ”مدینہ“ کو بھی شامل کرلیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اگر جاوید چوہدری کو ”مشرف بہ اسلام“ کئے بغیر ان کی ”اصلاح“ کا ایسا کوئی سنجیدہ منصوبہ بنایا جائے کہ وہ ”غیر محسوس طریقہ“ سے (ہی) ”داعی اسلام“ بن جائے (جب کوئی گلوکار ایسا کرسکتا ہے تو صحافی بدرجہ بہتر کر سکتا ہے) تو میرا خیال ہے کہ وہ خود سدھرے یا نہ سدھرے، لیکن کم از کم اس کے قلم سے دو مثبت نتائج تو ضرور ” برآمد“ ہوسکتے ہیں 1۔ اسلام کی منفی ترویج و اشاعت کا خاتمہ یا اس میں کمی 2۔ اسلام اور اسلامی اقدار کی (کسی نہ کسی حد تک ) ترویج و اشاعتاشارۃ النص ۔
لیکن بہر صورت اور احتمال بھی موجود ہے ۔
یا تو جاوید چودھری کسی عالم کے پاس گیا ہی نہیں اور یہ سب کہانی زور قلم کا نتیجہ ہے ۔
اگر گئے ہیں تو واقعات نقل کرنے میں دیانتداری سے کام نہیں لیا ۔
کسی بڑے عالم دین کے پاس جانے کی بجائے جاوید چودھری صاحب جب مدینہ میں آئیں تو ہم میں سے کسی طالبعلم سے اس حوالے سے گفتگو کرلیں ۔
جاوید چودھری صاحب سیرت النبی سے کی بہت ساری کتابیں پڑھنے کا دعوی کرتے ہیں کم از کم کوئی ایک کتاب دھیان سے پڑتے تو انہیں یہ بات ضرور مل جاتی کہ تنقید سے بالا کوئی شخصیت نہیں ہوسکتی ۔ جہاں سید الانبیاء اور ان کے ساتھیوں کو ’’ بے دین ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے وہاں ’’ جاوید چودھری ‘‘ کیا چیز ہے ۔
صرف کالم نمائی کے شوق میں یہ سب لکھ مارا ہے ورنہ میں نے نہیں سمجھتا کہ ان کو اتنی بنیاد باتوں کا علم نہیں ہے ۔
’’ جاوید چودھری ‘‘ صاحب ایک بات سمجھ لیں کہ سچا مسلمان ہونا اور محب وطن ہونا یہ عوام سے پوچھنے کی بجائے اپنے دل سے پوچھیں اور دل سے جو جواب آئے انصاف کے ساتھ کالم میں لکھ دیں ، ان کے ساتھ ساتھ بہت سوں کا بھلا ہونے کی امید ہے ۔
آخری پہرے میں دیکھیں۔۔۔
"اور قم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آپ جیسے علماء کرام"
قم یونیورسٹی ایران میں شیعہ کی بڑی یونیورسٹی ہے۔۔
اشارۃ النص ۔
جی محترم بھائی آپکی تجویز درست ہے اور منصوبہ میرے خیال میں یہی ہو سکتا ہے جو میں نے اوپر پوسٹ میں لکھا ہے کہ اسکو اس بات پر قائل کیا جائے کہ آپ جب مولویوں کے خلاف لکھتے ہیں یا شرک کی تبلیغ اشارۃ کر رہے ہوتے ہیں تو پھر تھوڑی سی ہمت کریں اور مخالف کی طرف سے جواب بھی لیں ہم اس فورم والے ساتھیوں کی طرف سے ایک متفقہ جواب آپ کو دیں گے پھر آپ اسکو مختصرا لکھ کر اس کا جواب دے دیں تاکہ دونوں طرف کی بات پہنچ سکےمیرا خیال ہے کہ اگر جاوید چوہدری کو ”مشرف بہ اسلام“ کئے بغیر ان کی ”اصلاح“ کا ایسا کوئی سنجیدہ منصوبہ بنایا جائے کہ وہ ”غیر محسوس طریقہ“ سے (ہی) ”داعی اسلام“ بن جائے (جب کوئی گلوکار ایسا کرسکتا ہے تو صحافی بدرجہ بہتر کر سکتا ہے) تو میرا خیال ہے کہ وہ خود سدھرے یا نہ سدھرے، لیکن کم از کم اس کے قلم سے دو مثبت نتائج تو ضرور ” برآمد“ ہوسکتے ہیں 1۔ اسلام کی منفی ترویج و اشاعت کا خاتمہ یا اس میں کمی 2۔ اسلام اور اسلامی اقدار کی (کسی نہ کسی حد تک ) ترویج و اشاعت