- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
اللہ تعالی قرآن حکیم میں فرماتے ہیں :میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اگر کسی شخص پر حق کو آشکارہ کر دیا جائے، مگر وہ پھر بھی حق کی راہ پر نہ آئے، بلکہ الٹی سیدھی تاویلیں گڑھنا شروع کر دے،
َذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ سورہ یونس 32
32-10 سو وہ اللہ ہی تمھارا سچا رب ہے، پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟ پھر کہاں پھیرے جاتے ہو؟
حافظ عبد السلام بھٹوی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ حق ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، یہ بات کہ جو جہاں لگا ہوا ہے لگا رہنے دو، سب ٹھیک ہیں، یا مسلمانوں میں خیر القرون کے بعد بننے والے چاروں سنی فرقے، حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی سب حق ہیں، اس آیت کے خلاف ہے۔ ان تمام مذاہب کی ہر بات ایک ہی وقت میں حق کیسے ہو سکتی ہے؟
ان کے اختلافی مسائل میں حق مسئلہ اگر ہوا تو صرف ایک ہو گا، دوسرے خطا ہوں گے۔ مجتہد کو اگرچہ خطا کے باوجود اس کی نیک نیتی اور محنت کا ایک اجر مل جائے گا مگر اس کی خطا کو حق ہرگز نہیں کہہ سکتے، مثلاً ایک فرقے کی یہ بات کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ صرف انگور یا کھجور کی بنائی ہوئی شراب حرام ہے، باقی نشہ آور چیزیں سب حلال ہیں، دونوں حق کیسے ہو سکتی ہیں؟ ایک کی یہ بات کہ اجرت پر لا کر کسی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد ہے اور دوسرے کی یہ بات کہ اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں، دونوں کیسے درست ہو سکتی ہیں؟ ایک مسلک کا یہ کہنا کہ ماں بہن سے نکاح کی حرمت کے علم کے باوجود نکاح کرکے زنا کر لے تو حد نہیں اور دوسرے کا یہ کہنا کہ یہ حرکت تو ارتداد ہے جس کی حد قتل ہے، دونوں باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں؟ پھر بہت سے ائمہ کا کہنا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور اعمال ایمان کا جز ہیں اور ہمارے اور انبیاء و ملائکہ و صحابہ کے ایمان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض حضرات کا یہ کہنا کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، اعمال خواہ نماز روزہ ہی ہوں، ایمان کا جز نہیں اور چونکہ تصدیق اور اقرار ہم نے بھی کیا ہے، جبریل (علیہ السلام) اور ابوبکر (رض) نے بھی کیا ہے، سو ایمان میں ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ کسی کا کم ہو یا کسی کا زیادہ، سب کا برابر ہے۔ آپ خود ہی بتائیں اتنے تضاد کے باوجود دونوں حق کس طرح ہو گئے؟ خلاصہ یہ کہ ہر دو متضاد چیزوں میں اگر ایک حق ہے تو یقیناً دوسری ضلال اور گمراہی ہو گی۔‘‘
اور الدكتور محمد راتب النابلسي۔۔لکھتے ہیں :
فَذَلِكُمْ اللَّهُ رَبُّكُمْ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّا تُصْرَفُونَ
1 ـ حقٌّ أو باطل ، ولا ثالث لهما :
ليس في الحياة إلا شيئان : حقٌّ وباطلٌ ، فإن لم يكن المرء على الحق فهو في الباطل ، في طعامه ، وفي شرابه ، وفي كسبه ، وفي زواجه، وفي عقيدته إن لم يكن مع الحق فهو مع الباطل ، ليس هناكٌ مرتبةٌ ثالثة ، وليس في الآخرة مرتبةٌ ثالثة ، << فو الذي بعث محمداً بالحق ما بعد الدنيا من دار إلا الجنَّة أو النار >> ، أي أن الموقف حاسم ، يجب أن تتخذ قراراً مصيرياً ، إما أن تكون مع الحق ، وإن لم تكن كذلك فلابدَّ من أن تكون مع الباطل ، إما أن تحبَّ المؤمنين ، وإن لم تكن كذلك فسوف تحبُّ الفاسقين ، إما أن تكون سعيداً ، وإن لم تكن كذلك فلابدَّ من أن تكون شقيَّاً ..
(( الناس رجلان : برٌّ تقيٌّ كريمٌ على الله ، وفاجرٌ شقيٌّ هيّنٌ على الله ))