مَا ضَحِكَ مِيكَائِيلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ
جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل علیہ السلام کبھی نہیں ہنسے
سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة
٤٤٥٤- قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ «حُمَيْدَ بْنَ عُبَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الْمُعَلَّى» يَقُولُ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِجِبْرِيلَ:
«مَا لِي لَمْ أَرَ مِيكَائِيلَ ضَاحِكًا قَطُّ؟ قَالَ مَا ضَحِكَ مِيكَائِيلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ»
ترجمہ: انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا کیا بات ہے میں نے میکائیل کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا؟ جبرائیل نے کہا: جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل کبھی نہیں ہنسے۔
تخريج: مسند أحمد (١٣٣٤٣) و الزهد للإمام أحمد (٣٥٩) (المتوفى: ٢٤١ھ)؛ الرقة و البكاء (٤٠٨) و صفة النار ( ٢١٥، ٢١٩) لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١ھ)؛ الشريعة للآجري (٩٣٢) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني (٣٨٤) (المتوفى: ٣٦٩ھ)؛ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد لابن عبد البر (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٦٦١) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ ذكر النار أجارنا الله منها لعبد الغني المقدسي (١٠٧، ١٠٨) (المتوفى: ٦٠٠ھ)؛ (ضعيف)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، اس میں دو علتیں ہیں:
پہلی علت: حُمید مجہول ہے، تعجیل المنفعۃ میں ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "لَا يدرى من هُوَ قلت هُوَ مدنِي من موَالِي الْأَنْصَار" (وہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، میں کہتا ہوں کہ وہ مدنی، انصار کے موالی میں سے ہے)۔( یعنی ابن حجر نے اس کتاب میں جس کا تتبع کیا ہے وہ نہیں جانتے، لیکن حافظ ابن حجر کے قول سے کوئی جرح یا تعدیل ثابت نہیں ہوتی اس لئے حمید بن عبید مجہول ہی ہیں)۔
دوسری علت: اسماعیل بن عیاش کی مدنی شیوخ سے روایات میں ضعف ہے، اور یہ انہیں روایات میں سے ایک ہے۔
[مترجم: تخریج میں بیان کردہ تمام کتب کی اسانید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمارہ بن غزیہ انصاری سے تین راویوں ( مسند احمد وغیرہ کی سند میں) اسماعیل بن عیاش، (الرقة و البكاء لابن أبي الدنيا کی سند میں) یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے روایت کی ہے۔ عمارہ بن غزیہ انصاری نے حُمید سے روایت کی ہے، اکثر روایات میں حمید بن عبید مولیٰ بنی معلی ہے اور کچھ میں حمید الطویل ہے، جس میں حمید بن عبید ہے اس سند میں حمید نے ثابت بنانی سے روایت کی ہے اور جس سند میں حمید الطویل ہے اس میں انہوں نے بلا واسطہ انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے۔
معلوم ہوا کہ اسماعیل بن عیاش اس حدیث کو عمارہ بن غزیہ انصاری سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ ان کی متابعت یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے کی ہے۔ اس لئے اس سند کی علت صرف حمید کا مجہول ہونا ہی ہے۔ و اللہ اعلم
دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے "علل" میں اس حدیث کی سند کے اختلاف کو بیان کیا ہے، اگر آپ چاہیں تو وہاں دیکھ سکتے ہیں].
[ضعیفہ کے حاشیہ میں کتاب کے ناشر نے لکھا ہے کہ پھر شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کو اس حدیث کی دوسری سند اور شاہد روایت ملی تو انہوں نے اس حدیث کی تخریج صحیحہ، حدیث نمبر: ٢٥١١ پر کی ہے۔
مترجم: میں کہتا ہوں کہ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے صحیحہ میں اس حدیث کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اس میں طباعت کی واضح غلطی ہے، غلطی سے اس حدیث کا متن نقل کیا گیا ہے اور حدیث کو مسند رویانی، مستدرک حاکم اور سنن کبریٰ بیہقی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ حدیث مسند رویانی وغیرہ میں ہرگز نہیں ہے، شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے جس حدیث کو صحیحہ میں صحیح کہا ہے وہ یہ حدیث ہے: «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِلَيْلَةٍ أَفْضَلَ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، حَارِسُ الْحَرَسِ فِي أَرْضِ خَوْفٍ، لَعَلَّهُ أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ»]۔
جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل علیہ السلام کبھی نہیں ہنسے
سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة
٤٤٥٤- قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ «حُمَيْدَ بْنَ عُبَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الْمُعَلَّى» يَقُولُ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِجِبْرِيلَ:
«مَا لِي لَمْ أَرَ مِيكَائِيلَ ضَاحِكًا قَطُّ؟ قَالَ مَا ضَحِكَ مِيكَائِيلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ»
ترجمہ: انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا کیا بات ہے میں نے میکائیل کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا؟ جبرائیل نے کہا: جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل کبھی نہیں ہنسے۔
تخريج: مسند أحمد (١٣٣٤٣) و الزهد للإمام أحمد (٣٥٩) (المتوفى: ٢٤١ھ)؛ الرقة و البكاء (٤٠٨) و صفة النار ( ٢١٥، ٢١٩) لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١ھ)؛ الشريعة للآجري (٩٣٢) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني (٣٨٤) (المتوفى: ٣٦٩ھ)؛ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد لابن عبد البر (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٦٦١) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ ذكر النار أجارنا الله منها لعبد الغني المقدسي (١٠٧، ١٠٨) (المتوفى: ٦٠٠ھ)؛ (ضعيف)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، اس میں دو علتیں ہیں:
پہلی علت: حُمید مجہول ہے، تعجیل المنفعۃ میں ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "لَا يدرى من هُوَ قلت هُوَ مدنِي من موَالِي الْأَنْصَار" (وہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، میں کہتا ہوں کہ وہ مدنی، انصار کے موالی میں سے ہے)۔( یعنی ابن حجر نے اس کتاب میں جس کا تتبع کیا ہے وہ نہیں جانتے، لیکن حافظ ابن حجر کے قول سے کوئی جرح یا تعدیل ثابت نہیں ہوتی اس لئے حمید بن عبید مجہول ہی ہیں)۔
دوسری علت: اسماعیل بن عیاش کی مدنی شیوخ سے روایات میں ضعف ہے، اور یہ انہیں روایات میں سے ایک ہے۔
[مترجم: تخریج میں بیان کردہ تمام کتب کی اسانید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمارہ بن غزیہ انصاری سے تین راویوں ( مسند احمد وغیرہ کی سند میں) اسماعیل بن عیاش، (الرقة و البكاء لابن أبي الدنيا کی سند میں) یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے روایت کی ہے۔ عمارہ بن غزیہ انصاری نے حُمید سے روایت کی ہے، اکثر روایات میں حمید بن عبید مولیٰ بنی معلی ہے اور کچھ میں حمید الطویل ہے، جس میں حمید بن عبید ہے اس سند میں حمید نے ثابت بنانی سے روایت کی ہے اور جس سند میں حمید الطویل ہے اس میں انہوں نے بلا واسطہ انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے۔
معلوم ہوا کہ اسماعیل بن عیاش اس حدیث کو عمارہ بن غزیہ انصاری سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ ان کی متابعت یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے کی ہے۔ اس لئے اس سند کی علت صرف حمید کا مجہول ہونا ہی ہے۔ و اللہ اعلم
دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے "علل" میں اس حدیث کی سند کے اختلاف کو بیان کیا ہے، اگر آپ چاہیں تو وہاں دیکھ سکتے ہیں].
[ضعیفہ کے حاشیہ میں کتاب کے ناشر نے لکھا ہے کہ پھر شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کو اس حدیث کی دوسری سند اور شاہد روایت ملی تو انہوں نے اس حدیث کی تخریج صحیحہ، حدیث نمبر: ٢٥١١ پر کی ہے۔
مترجم: میں کہتا ہوں کہ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے صحیحہ میں اس حدیث کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اس میں طباعت کی واضح غلطی ہے، غلطی سے اس حدیث کا متن نقل کیا گیا ہے اور حدیث کو مسند رویانی، مستدرک حاکم اور سنن کبریٰ بیہقی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ حدیث مسند رویانی وغیرہ میں ہرگز نہیں ہے، شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے جس حدیث کو صحیحہ میں صحیح کہا ہے وہ یہ حدیث ہے: «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِلَيْلَةٍ أَفْضَلَ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، حَارِسُ الْحَرَسِ فِي أَرْضِ خَوْفٍ، لَعَلَّهُ أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ»]۔