• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب عامر خان نے مولانا طارق جمیل کو مشکل میں ڈال دیا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خلاصہ یہ ہے کہ :
عامر خاں مکہ او رمدینہ منورہ میں طارق جمیل صاحب کے اخلاق اور پیار محبت سے بہت متاثر ہوا
بعد میں ایک دن اس نے مولانا کو برقی پیغام بھیجا کہ میری فلاں فلم کی کامیابی کے لیے دعا کیجیے
مولانا کہتے ہیں : میں اس کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھا اور غلط کام میں کامیابی کی دعا بھی نہیں کرنا چاہتاتھا ۔ سوچ بچار کے بعد اس کو پیغام لکھا کہ
’’دیکھیں جو لوگ باصلاحیت اور کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ ہار جیت کی پرواہ نہیں کرتے ۔‘‘
پھر کہتے ہیں بعد میں عامر خان سے رابطہ ہوا تو کہنے لگا کہ آپ کی دعا سے میری فلم کامیاب ہوگئی ہے ۔
طارق جمیل دل میں کہتے ہیں : اللہ تو بہتر جانتا ہے کہ میں نے اس کے لیے اس طرح کی کوئی دعا نہیں کی ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
خلاصہ یہ ہے کہ :
عامر خاں مکہ او رمدینہ منورہ میں طارق جمیل صاحب کے اخلاق اور پیار محبت سے بہت متاثر ہوا
بعد میں ایک دن اس نے مولانا کو برقی پیغام بھیجا کہ میری فلاں فلم کی کامیابی کے لیے دعا کیجیے
مولانا کہتے ہیں : میں اس کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھا اور غلط کام میں کامیابی کی دعا بھی نہیں کرنا چاہتاتھا ۔ سوچ بچار کے بعد اس کو پیغام لکھا کہ
’’دیکھیں جو لوگ باصلاحیت اور کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ ہار جیت کی پرواہ نہیں کرتے ۔‘‘
پھر کہتے ہیں بعد میں عامر خان سے رابطہ ہوا تو کہنے لگا کہ آپ کی دعا سے میری فلم کامیاب ہوگئی ہے ۔
طارق جمیل دل میں کہتے ہیں : اللہ تو بہتر جانتا ہے کہ میں نے اس کے لیے اس طرح کی کوئی دعا نہیں کی ۔
یہ پھر "نهي عن المنكر" تو نہ ہوا نا؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت خوب۔۔۔ایک لمحے کے لیے تو عامر خان بھی حیران ہوں گے کہ محترم کیسے "عالم" ہیں!
اللہ ان کو ہدایت دے۔آمین
تبلیغی جماعت والے امر بالمعروف مد نظر رکھتے ہیں۔۔۔۔۔نھی عن المنکر نہیں!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ‌ وَيَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٤﴾۔۔۔سورہ آل عمران
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں
اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو
اسی طرح کسی کی ناراضگی دیکھتے ہوئے دین کے مسئلے کو نہ بتایا جائے تو پھر کبھی بھی "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کا فریضہ سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال تک مشرکوں میں رہے توحید کی دوعت نہ دی پس وہ پتھر مارنے کی بجائے آپکو صادق اور امین کہتے تھے
2۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکوں کو اصل دین کی دعوت دینی شروع کی تو وہ پتھر مارنے لگے


3۔جب مشرک،یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ انکو پتھر نہ مارتے بلکہ خلاق سے پیش آتے

ایک تو آپ کو اوپر والے کسی پؤانٹ پر کوئی اعترض ہے تو بتائیں
اگر اتفاق ہے تو اب انکے اسوہ کے انھی تین پؤانٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تلبیس ذرا دیکھیں
حرب بن شداد
آپ کے بیان کئے گئے ان تین اعمال میں صرف پوانئٹ نمبر تین ہے جیسے ہم رسول اللہ کا عمل یا سنت کہہ سکتے ہیں باقی نکتہ نمبر 2 دعوت کے جواب میں میں کفار کا ردعمل ہے جو کہ آج کل پتھر تک محدود نہیں بلکہ اس نے اب بہت ترقی کرلی ہے اب تو دعوت کے جواب میں خود کش حملے کئے جاتے ہیں یا پھر بم دھماکے کئے جاتے ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کفار کے اس عمل پر کون لوگ عمل پیرا ہیں نکتہ نمبر ایک کے بارے میں یہ عرض ہے کہ دعوت سے پہلے ہی نہیں دعوت کے بعد بھی کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کہتے تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے ھجرت فرمائی تو کفار مکہ کی امانتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں جن کو آپ نے حضرت علی کے سپرد فرمایا اور حکم دیا کہ یہ امانتیں جن کی ہیں انھیں یہ امنتیں واپس کرکے پھر مدینہ کی جانب ھجرت کرنا
امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ پتھر نہ مارے جائے لیکن کفار کا طریقہ یہ ہے کہ دعوت حق کے جواب میں پتھر مارے جائے لیکن موجودہ دور میں پتھر کی جگہ بموں نے لے لی ہے کفار کے اس طریقہ پر آج بھی عمل جاری ہے اور اس پر داد تحسین بھی دی جاتی ہے گمراہ لوگوں کی جانب سے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ کے بیان کئے گئے ان تین اعمال میں صرف پوانئٹ نمبر تین ہے جیسے ہم رسول اللہ کا عمل یا سنت کہہ سکتے ہیں باقی نکتہ نمبر 2 دعوت کے جواب میں میں کفار کا ردعمل ہے
ماشاء اللہ شروع سے ہی یہ عادت ہے کہ جس بات میں لا جواب ہوں اسکو گھما کر دوسری طرف لے جائیں سوال چنا جواب باجرہ-

آپنے دعوی کیا تھا کہ
چونکہ اہل سنت ڈاکٹر موصوف کو پتھر نہیں مارتے پس وہ نبی کے طریقے پر ہیں


اب آپکی تلبیس ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں

مثال:میں نے کچھ لوگوں سے یہ بات سنی ہے اور آپنے بھی شاہد سنی ہو اور محسوس کیا ہو کہ

امی عائشہ رضی اللہ عنہ اور صحابہ پر تبرا کرنے والوں کے منہ پر نحوست ہوتی ہے


اب اگر کوئی کسی کے منہ پر نخوست دیکھے اور اسکا لازمی نتیجہ یہ نکال لے کہ وہ بھی تبرا کرتا ہے تو غلط ہو گا
بالکل اسی طرح میرے دو دعوے تھے کہ

کسی سچے مسلمان کا داعی کو پتھر نہ مارنے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ داعی حق کی دعوت دے رہا ہے

اور
کسی داعی کو پتھر نہ مارنے سے یہ بات بھی لازم نہیں آتی کہ پتھر نہ مارنے والا ہمیشہ اہل سنت مسلمان ہی ہو گا


آپ نے اس پر بات کرنے کی بجائے گھما کر اپنی جان بچائی مگر کہاں تک----


نکتہ نمبر ایک کے بارے میں یہ عرض ہے کہ دعوت سے پہلے ہی نہیں دعوت کے بعد بھی کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کہتے تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے ھجرت فرمائی تو کفار مکہ کی امانتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں جن کو آپ نے حضرت علی کے سپرد فرمایا اور حکم دیا کہ یہ امانتیں جن کی ہیں انھیں یہ امنتیں واپس کرکے پھر مدینہ کی جانب ھجرت کرنا
جس میں محل نزاع ہی نہیں اس پر بات کرنے کا مطلب فرار ہے ذرا میری اوپر والی پوسٹ میں وہ بات تو دکھا دیں جس کے جواب میں آپنے اتنی تکلیف یہاں اٹھائی

نکتہ نمبر 2 دعوت کے جواب میں میں کفار کا ردعمل ہے جو کہ آج کل پتھر تک محدود نہیں بلکہ اس نے اب بہت ترقی کرلی ہے اب تو دعوت کے جواب میں خود کش حملے کئے جاتے ہیں یا پھر بم دھماکے کئے جاتے ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کفار کے اس عمل پر کون لوگ عمل پیرا ہیں
امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ پتھر نہ مارے جائے لیکن کفار کا طریقہ یہ ہے کہ دعوت حق کے جواب میں پتھر مارے جائے لیکن موجودہ دور میں پتھر کی جگہ بموں نے لے لی ہے کفار کے اس طریقہ پر آج بھی عمل جاری ہے اور اس پر داد تحسین بھی دی جاتی ہے گمراہ لوگوں کی جانب سے
اوپر نشان زدہ الفاظ کے پس منظر میں آپ سے دو سوالات ہیں پہلی دفعہ درخواست کی ہے بھاگیئے گا نہیں پہلے ہاں یا نہ میں جواب دیں پھر وضاحت جتنی مرضی کر لیں

1۔کیا آپکے پاس کوئی ایک دلیل یا صرف ایک واقعہ ایسا ہے جس میں صرف زبانی دعوت دینے کے جواب میں کسی اہل حدیث نے بم مارا ہو یا بم مارنے والے کی حمایت کی ہو
2۔کیا مطلقا کوئی بھی کسی بھی صورت میں کسی کو بھی پتھر یا بم یا تھپڑ نہیں مار سکتا جیسے عیسائی خالی انجیل کی حد تک یہ عقیدہ بتاتے ہیں

شرم بالکل ہی نہ ختم ہو چکی ہو تو امید ہے مرتا کیا نہ کرتا کے تحت ہاں یا نہ میں جواب دیے کر وضاحت کر دیں گے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ماشاء اللہ شروع سے ہی یہ عادت ہے کہ جس بات میں لا جواب ہوں اسکو گھما کر دوسری طرف لے جائیں سوال چنا جواب باجرہ-

آپنے دعوی کیا تھا کہ
چونکہ اہل سنت ڈاکٹر موصوف کو پتھر نہیں مارتے پس وہ نبی کے طریقے پر ہیں


اب آپکی تلبیس ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں

مثال:میں نے کچھ لوگوں سے یہ بات سنی ہے اور آپنے بھی شاہد سنی ہو اور محسوس کیا ہو کہ

امی عائشہ رضی اللہ عنہ اور صحابہ پر تبرا کرنے والوں کے منہ پر نحوست ہوتی ہے


اب اگر کوئی کسی کے منہ پر نخوست دیکھے اور اسکا لازمی نتیجہ یہ نکال لے کہ وہ بھی تبرا کرتا ہے تو غلط ہو گا
بالکل اسی طرح میرے دو دعوے تھے کہ
کہانی اچھی ہے کسی ڈائجسٹ میں چھپوانے کی کوشش کیجئے بہت پسند کی جائے گی !!! مسکراہٹ
لیکن ایک بات ہے کہ جو لوگ حضرت علی پر تبرا کرتے تھے ان کے چہروں پر تو نخوست کے ساتھ ساتھ جانے کیا کیا برستا ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ" حضرت علی سے کوئی منافق محبت نہیں کرسکتا اور کوئ مومن حضرت علی سےنہیں عداوت نہیں کرسکتا " یہ حدیث صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے

اب آپ ہی کے الفاظ میں درخواست کروں گا کہ
پہلی دفعہ درخواست کی ہے بھاگیئے گا نہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جس میں محل نزاع ہی نہیں اس پر بات کرنے کا مطلب فرار ہے ذرا میری اوپر والی پوسٹ میں وہ بات تو دکھا دیں جس کے جواب میں آپنے اتنی تکلیف یہاں اٹھائی



اوپر نشان زدہ الفاظ کے پس منظر میں آپ سے دو سوالات ہیں پہلی دفعہ درخواست کی ہے بھاگیئے گا نہیں پہلے ہاں یا نہ میں جواب دیں پھر وضاحت جتنی مرضی کر لیں
یہ ہے آپ کا وہ نکتہ جس پر میری عرض کو ناحق تکلیف اٹھنا فرما رہے ہیں
1۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال تک مشرکوں میں رہے توحید کی دوعت نہ دی پس وہ پتھر مارنے کی بجائے آپکو صادق اور امین کہتے تھے
2۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکوں کو اصل دین کی دعوت دینی شروع کی تو وہ پتھر مارنے لگےحرب بن شداد
یعنی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کو دین کی دعوت نہیں دی تھی تب تک وہ آپ کو صادق و امین کہتے تھے اور جب دعوت دی تو صادق امین کہنا چھوڑ آپ پر پتھر برسانے لگے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بشیر (خوشخبری دینے والا) بنا کر بھیجا ہے وہاں نذیر (ڈرانے والا) بھی بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا ۖ وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَـٰبِ ٱلْجَحِيمِ ﴿١١٩﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی
وَقُلْ إِنِّىٓ أَنَا ٱلنَّذِيرُ‌ ٱلْمُبِينُ ﴿٨٩﴾۔۔۔سورۃ الحجر
ترجمہ: اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے واﻻ ہوں
تَبَارَ‌كَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْ‌قَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَـٰلَمِينَ نَذِيرً‌ا ﴿١﴾۔۔۔سورۃ الفرقان
ترجمہ: بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے واﻻ بن جائے
وَمَآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ إِلَّا مُبَشِّرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا ﴿٥٦﴾۔۔۔سورۃ الفرقان
ترجمہ: ہم نے تو آپ کو خوشخبری اور ڈر سنانے واﻻ (نبی) بنا کر بھیجا ہے
إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌ‌ۭ مُّبِينٌ ﴿١١٥﴾۔۔۔سورۃ الشعراء
ترجمہ: میں تو صاف طور پر ڈرا دینے واﻻ ہوں
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا ﴿٤٥﴾۔۔۔سورۃ الاحزاب
ترجمہ: اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے
وَمَآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرً‌ۭا وَنَذِيرً‌ۭا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٢٨﴾۔۔۔سورۃ سبا
ترجمہ: ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے
اس مضمون کی دیگر آیات
( ص: 70)
(فصلت: 4)
(الفتح: 8)
(الذاریات: 50)
(الملک: 26)

اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کے انبیاء و رسل اور آخری نبی و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی طرف "نذیر" بنا کر بھیجے گئے تھے، تو طارق جمیل صاحب صوفیت سے متاثر ہو کر محض جھوٹے واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کر کے اور دوسروں کی خوشنودی اور ان کی ناراضگی مول لینے کے ڈر سے جو ان کو اللہ کے عذابوں سے نہیں ڈرا رہے اور برے کاموں سے نہیں روک رہے تو پھر وہ داعی الی اللہ ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟
 
Top