• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب عامر خان نے مولانا طارق جمیل کو مشکل میں ڈال دیا

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
برائ روکنے کے درجات اوربرائ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنا

برائ کوروکنے والی حدیث ( جوبھی تم میں سے برآئ دیکھیے ۔۔۔ ) کیا اس سے مقصود یہ ہے کہ ہم اس برائ کوروکنے کے لیے برائ والی جگہ کوچھوڑ دیں ؟
یا کہ ہم اسے اپنے دلوں سے کراہت کرتے ہوۓ اس کا انکار کریں اوروہیں رہیں ؟
آپ ہمیں مستفید فرمائيں اللہ تعالی آّپ کواجرفرماۓ ۔

الحمد للہ

مسلمانوں پربرائ کوروکنے کے کئ ایک درجات ہیں :

کچھ پربرائ ہاتھ سے روکنا واجب اورضروری ہے ان میں حکمران اورولی الامرشامل یا اس کے نائب لوگ شامل ہیں جنہیں اس کی صلاحیت دی گئ ہے کہ وہ اسے روکيں مثلا والد اپنے بیٹے کے ساتھ ، اورمالک اپنے غلام اورخاوند بیوی کے ساتھ ، کیونکہ برائ کرنے والا اس کے ارتکاب سے ہاتھ کے ذریعے سے ہی رکے گا ۔

اورکچھ لوگ ایسے ہيں جن پرہاتھ کے بغیر صرف وعظ ونصیحت اوردعوت وارشاد اورڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے برائ روکنا واجب ہے ، اس میں قوت و تسلط کا استمال نہيں ہوگا اس ڈرسے کہ کہیں فتنہ اورانتشار اورلاقانونیت نہ پھیل جاۓ ۔

اورلوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن پران کیے نفوذ اورزبان کی کمزوری کی وجہ سے صرف دل کے ساتھ برائ روکنا واجب ہے ، اوریہ ایمان کا کمزورترین حصہ ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول میں بیان کیا ہے :

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں سے جس نے بھی کوئ برائ دیکھی تواسے چاہیے کہ وہ اس برائ کواپنے ہاتھ سے روک دے ، اگرہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تواپنی زبان سے روکے اوراگرزبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہیں توپھراپنے دل سے منع کردے اوریہ ایمان کا سب سے کمزورترین درجہ ہے ) صحیح مسلم ۔
اورجب برائ والے معاشرہ میں رہنے میں کوئ شرعی مصلحت ہوتووہاں رہنا صحیح ہے اوراگروہاں وہ برائ والے معاشرے میں رہتے ہوۓ اپنے آپ پرفتنہ سے بے خوف ہے تواس کا رہنا صحیح ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حسب استطاعت اوردرجہ برائ کا انکارکرتا رہے اورانہیں منع کرتا رہے ۔

اگریہ کام نہیں کرسکتا اوراسے اپنے آپ پربھی فتنہ میں وقوع کا خدشہ ہے تو اسے اپنے دین کی حفاظت کرتےہوۓ وہ معاشرہ اورلوگ چھوڑ دینا ضروری ہے ۔ .

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12 / 335 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کسی کے منہ پرنصیحت کرنا

اس شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جوکسی شخص کے عیوب اس کے منہ پربیان کرتا ہے اوروہ انہیں سن رہا ہو کیاایساکرناجائز ہے ؟

الحمد للہ

اگراس سے نصیحت کرنا اوراس پرانکارکرنامقصود ہوتاکہ وہ معصیت اور برائ ترک کردے تویہ جائز ہے ، لیکن اس میں اسلوب حسن کومدنظررکھنا ضروری ہے تاکہ وہ اس نصیحت کوقبول کرے ۔

لیکن اگراسے عاردلانےاوربراسلوک کرنے اوربے عزتی اورتشہیرکرنے کی بنا پرایسا کیا جاۓ تویہ جائزنہیں ۔ .

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12 / 342 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
امربالمعروف اورنہی عن المنکر

مسلمان امربالمعروف اورنہی عن المنکرکواپنے دین کی اساس کیوں سمجھتے ہيں ؟

الحمد للہ

انسان بہت ہی زیادہ خطا کار اوربھول جانے والا ہے ، نفس اسے برائ کا حکم دیتا رہتا ہے اورشیطان اسے معاصی اورگناہوں سے آلودہ کرکے خراب کرتا ہے ، اورجب جسموں کوبیماری لگتی اوراسے کئ قسم کی علتیں اورآفات آتی ہیں تواس کی وجہ سے طبیب اورڈاکٹر بھی ہونا ضروری ہے اوراس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جوکہ اس کے لیے مناسب دوائ اورعلاج تجویز کرتا ہے تاکہ جسم اپنے اعتدال پرواپس آسکے تونفوس کی بھی یہی حالت ہے ۔

اوردلوں کوشبھات اورشہوات کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں تووہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کا ارتکاب کرتا ہوا کبھی توکسی کا ناحق خون بہاتا اورکبھی زناکاری کا مرتکب ہوتا اورکبھی شراب نوشی کا مرتکب ٹھرتا ہے ، اوربعض اوقات لوگوں پرظلم کرتاہوا باطل اورغلط طریقے سے ان کے اموال ہڑپ کرتا ہے اوراللہ تعالی کے راستے سےروکتا اوراللہ تبارک وتعالی کے ساتھ کفرجیسے شنیع جرم کا مرتکب ہوتا ہے ۔

امراض قلب اوردل کی بیماریاں جسمانی امراض وبیماریوں سے زيادہ خطرناک ہوتی ہيں لھذا اس کے لیے کسی ایسے ماھر طبیب وڈاکٹر کی ضرورت ہے جواس کا علاج کرے اورامراض قلوب کی کثرت اوراس سے پیدا ہونے والے شرو فساد کی بہتات کی بنا پرہی اللہ تعالی نے مومنوں کواس کا مکلف ٹھرایاہے کہ وہ ان بیماریوں کا علاج امربالمعروف وارنہی عن المنکرکے ساتھ کریں-

فرمان باری تعالی ہے :
{ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جوبھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے روکے ، اوریہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں } آل عمران ( 104 ) ۔

امربالمعروف اورنہی عن المنکر ایک ایسا کام ہے جواسلامی امورمیں سے سب سے اعلی واشرف ہے بلکہ یہ کام توانبیاء رسل کا وظیفہ اورکام تھا

جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :
{ ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اورآگاہ کرنے والے تاکہ رسول بھیجنے کے بعد اللہ تعالی پرلوگوں کی کوئ حجت اورالزام باقی نہ رہ جاۓ } النساء ( 165 ) ۔

اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کویہ کام سرانجام دینے کے لیے سب سے بہتراوراچھی امت بنایا ہے جوکہ لوگوں کواس کا حکم دیتی ہے جس طرح کہ

اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
{ تم ایک بہترین امت ہوجولوگوں کےلیے پیدا کی گئ ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اوربری باتوں سے روکتے ہو اوراللہ تعالی پرایمان رکھتے ہو } آل عمران ( 110 ) ۔

جب امت امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے عظیم شعارکومعطل کرکے رکھ دے امت میں ظلم وفساد پھیل جاتا اوروہ امت اللہ تعالی کی لعنت کی مستحق ٹھرتی ہے ۔

اللہ تعالی نے یقینی طورپر ان بنی اسرائیل کے کافروں پرلعنت کی جنہوں نے اس عظیم شعارکومعطل کرکے رکھ دیا تھا ، اللہ تعالی نےاسی کی اشارہ کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ بنی اسرائیل کے کافروں پرداود ( علیہ السلام ) اورعیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی زبانی لعنت کی گئ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے اورحد سے آگے بڑھ جاتے تھے ، آپس میں ایک دوسرے کوبرے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتےنہیں تھے جوکچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا ہے } المائدۃ ( 78-79 )

امربالمعروف اورنہی عن المنکر اصول دین میں سے ایک اصل ہے اوران دونوں کا قیام جھاد فی سبیل اللہ ہے جو کہ تکالیف پر مشقت اورصبرکا محتاج ہے-

جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کوکہا :
{ اے میرے پیارے بیٹے ! نمازقائم کرتے رہنا اوراچھے کاموں کی نصیحت اوربرے کاموں سےروکتے رہنا اورتم پرجومصیبت آجاۓ اس پرصبرکرنا یقین جانو کہ یہ بڑے تاکیدکاموں میں سے ہے } لقمان ( 17 ) ۔

امربالمعروف اورنہی عن المنکر ایک عظیم کام اورپیغام ہے اس لیے اس کام کوکرنے والے کے ليے ضروری ہے کہ وہ اخلاق حسنہ سے آراستہ اورمقاصد حسنہ پرعمل پیرا ہو اورلوگوں کو حکمت اورموعظہ حسنہ سے دعوت دے اوران کے ساتھ نرم برتا‎ؤکرے اورمہربانی سے پیش آۓ ہوسکتا ہے اللہ تعالی جسے چاہے اس کے ہاتھ پرھدایت نصیب فرماۓ ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوراچھی نصیحت کے ساتھ بلایۓ اوران سے بہتر اندازمیں گفتگو کیجۓ یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کوبی بخوبی جانتا ہے اورراہ راست پرچلنے والوں سے بھی پورا پورا واقف ہے } النحل ( 125 ) ۔

جوامت اسلامی شعائر پرعمل پیرا ہوتی اورامربالمروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتی ہے وہ دنیاوآخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرتی ہے اوراس پراللہ تعالی کی مدد ونصرت اورتائيد کا نزول ہوتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
{ جواللہ تعالی کی مدد کرے گا اللہ تعالی بھی ضرور اس کی مدد کرگا ، بلاشبہ اللہ تعالی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تویہ پوری پابندی سے نمازقائم کریں اورزکاۃ ادا کریں اوراچھے کاموں کا حکم اوربرے کاموں سے روکیں ، تمام کاموں کاانجام اللہ تعالی کے اختیارمیں ہے } الحج ( 40 - 41 ) ۔

امربالمعروف اورنہی عن المنکرایک ایسا پیغام ہے جوقیامت تک کبھی بھی منقطع نہیں ہوگا ، اوریہ پوری امت پرواجب ہے اور رعایا میں سے ہرایک مرد وعورت پراوراسی طرح حکام پربھی واجب ہے کہ وہ امربالمروف اورنہی عن المنکرکا کام اپنے حسب حال کريں-

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
( تم میں سےجوبھی کوئ برائ دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے روکے اگروہ ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتا تواپنی زبان سے اوراگراس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تواپنے دل کے ساتھ روکے ، اوریہ ایمان کا کمزورترین حصہ ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 49 ) ۔

اورامت اسلامیہ ایک ہی امت ہے اگراس میں فساد پھیل جاۓ اوراس کے حالات خراب ہوجائيں توسب مسلمانوں پراصلاح کا کام کرنا واجب ہوجاتا ہے ، اوراسی طرح منکرات کاخاتمہ اورامربالمعروف اورنہی عن المنکر اورہرایک کونصیحت کرنے کی سعی کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے ، ( صحابہ کہتے ہیں ) ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول کس کے لیے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی اوراس کی کتاب اوراس کے رسول ، اورمسلمانوں کے اماموں اورعام مسلمانوں کے لیے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 95 ) ۔

جب مسلمان کسی دوسرے کوکسی کام کا حکم دے تواس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس پرعمل کرے اوراگر لوگوں کو کسی چيزسے منع کرے تواسے اس بات کی کوشش کرنی چاہۓ کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ اس چيز سے دور رہے ، اس کی مخالفت کرنے والے کواللہ تعالی نے بہت سخت وعید سنائ ہے -

فرمان باری تعالی ہے :
{ اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہوجوخود نہیں کرتے ، تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالی کوسخت ناپسند ہے } الصف ( 2 - 3 ) ۔
انسان جتنا بھی صحیح اورسیدھی راہ پرہووہ پھر بھی کتاب وسنت کے مطابق نصیحت وراہنمائ اوریاددھانی کا محتاج ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجوکہ افضل الخلق اوراکمل الخلق ہيں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اورکافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالی بڑے علم والا اوربڑي حکمت والا ہے } الاحزاب ( 1 ) ۔

اس لیے ہم سب پریہ ضروری ہے کہ ہم امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتے رہیں تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضامندی اورجنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔

واللہ اعلم .
یہ شیخ محمد بن ابراھیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا ۔
 

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
محترم بھائی واقعی کوئی ایسا کر دے
دوسرا کوئی بھائی میری معلومات کے لئے اگر مجھے پی ایم کے ذریعے بتا دے کہ یونی کوڈ کیا بلا ہے اور کیسے لکھتے ہیں تو اللہ جزا دے گا
السلام علیکم!
ہر وہ عبارت جو انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں ہو، مثلاً: اردو، چائینی، روسی، عربی وغیرہ، انٹر نیٹ کی دنیا میں (ویب ، فورمز وغیرہ پر) لکھنے کی سہولت کو یونی کوڈ کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہم اس فورم پر اردو لکھ سکتے ہیں تو یہ فورم یونی کوڈ سپورٹڈ (Supported) ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یونی کوڈ ایک ایکسٹینشن ہے، جس میں کوئی بھی زبان لکھی جا سکتی ہے، اردو، چائینی، روسی، عربی و دیگر زبانیں اگر لکھ کر پی ڈی ایف فارمیٹ بنائیں گے تو وہ یونی کوڈ نہیں ہو گی، لیکن اگر انگلش، اردو، چائینی، روسی، عربی و دیگر زبانیں اگر مائکروسافٹ ورڈ میں لکھیں گے تو وہ یونی کوڈ ہوں گی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ماشاء اللہ شروع سے ہی یہ عادت ہے کہ جس بات میں لا جواب ہوں اسکو گھما کر دوسری طرف لے جائیں سوال چنا جواب باجرہ-
شرم بالکل ہی نہ ختم ہو چکی ہو تو امید ہے مرتا کیا نہ کرتا کے تحت ہاں یا نہ میں جواب دیے کر وضاحت کر دیں گے

میرے دعوے(مطالبے) جن کے جواب نہیں آئے وہ بڑھتے جا رہے ہیں نیچے نمبر لگا کر دھرا رہا ہوں اسی طرح نمبر وار جواب دیں اور آپکے جن دعوں کا میں نے ابھی تک جواب نہیں دیا وہ علیحدہ نمبر لگا کر لکھ دیں البتہ سوچ لیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کہ رہے ہوں -مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں

میرے دعوے اور مطالبے

1۔پچھلے دو سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں آیا
2۔میں نے یا کسی میرے بھائی نے اس فورم پر علی رضی اللہ عنہ پر تبرا کیا ہو یا تبرا کرنے والوں کی حمایت کی ہو
3۔علی رضی اللہ عنہ پر تبرا کی جتنی نحوست ہے اتنی ہی ابوبکرو عمر رضی اللہ عنھما پر تبرا کی ہے کیا آپ متفق ہیں
4۔میں نے اوپر کہیں نہیں کہا کہ بعثت کے بعد لوگ آپکو صادق نہیں کہتے تھے بلکہ صرف پتھر مارنے کی بات کی ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ پر تبرا کا نعوذ باللہ ہم میں سے کوئی سوچ ہی نہیں سکتا پس جس میں محل نزاع نہیں اسکی طرف بات لے کر جانے کا مطلب فرار اختیار کرنا ہے


یہ ہے آپ کا وہ نکتہ جس پر میری عرض کو ناحق تکلیف اٹھنا فرما رہے ہیں یعنی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کو دین کی دعوت نہیں دی تھی تب تک وہ آپ کو صادق و امین کہتے تھے اور جب دعوت دی تو
صادق امین کہنا چھوڑ
آپ پر پتھر برسانے لگے
1۔پہلی بات تو یہ کہ میں نے صادق اور امین کہنا چھوڑ والے الفاظ نہیں لکھے
2۔دوسری بات کہ اگر اس کی وضاحت چاہیے تو انھیں صادق اور امین کا یقین تو دل سے تھا مگر بعثت کے بعد دشمنی کی وجہ سے سوائے مجبوری کے اقرار نہیں کرتے تھے جیسے حدیث ہرقل کے الفاظ قال ابو سفیان فواللہ لو لا الحیاء ان یاثروا علی الکذب لکذبتہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ مجبور تھے اسی طرح مانتیں بھی اس لئے رکھتے تھے کہ دل سےآپکو سچا مانتے تھے پس اپنی امانتوں کی حفاظت کا دل سے یقین تھا مگر بعثت کے بعد منہ سے اقرار نہیں کرنا چاہتے تھے
3۔تیسری بات کہ صادق و امین ہونے یا نہ ہونے سے آپکی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی اور نہ میری کوئی بات رد ہوتی ہے تو پھر اس پر آپکے زور دینے سے مجھے ایک بات یاد آگئی ہے ہماری جماعت کے بزرگ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ (جن کو اوپر والے منحوسوں نے صرف دعوت کے جواب میں پتھر کی بجائے بم مارا تھا ) کی شیعت اور مرزیئت کے بارے کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ کچھ نہ کھچ لنک ضرور ہے اسی لئے مجھے مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کا مرزیوں سے مناظرہ یاد آ گیا مولانا کو کچھ علماء نے غلط فہمی سے کافر کہ دیا تھا جو اگرچہ بعد میں دور ہو گئی مگر جب مرزائی مناظر لاجواب ہو گیا تو اسنے بہانہ بنایا کہ آپکو تو اپنے کافر کہتے ہیں پس دوسرا آدمی لاؤ یعنی بات کو آپکی طرح دوسری طرف لے جانا چاہا تو پتا ہے کہ مولانا نے کیا جواب دیا انھوں نے کہا کہ جو مجھے کافر کہتے ہیں انکے مطابق کافر کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہو جاتا ہے پس اشھد ان لا الہ الا اللہ میں کلمہ پڑھ کو مسلمان ہو گیا ہوں اب آؤ مناظرہ کرو
پس میرا بھی جواب ہے کہ صادق اور امین پر جو نظریہ آپکا ہے اس سے میں اختلاف نہیں کرتا اب آؤ اور اوپر میرے مطالبے نمبر وار پورے کرو اور اپنے نہ پورے کئے گئے مطالبے بھی ذرا نمبر وار لکھو

ورنہ محترم شاکر بھائی موضوع سے ہٹنے والے کے بارے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
حضور جب وہڑی شریف کے عرس پر گئے تھے آپ کا استقبال تالیاں بجا کر کیا گیا تھا اور آپ نےيا أيها النبي کا ترجمہ اے غیب کا علم رکھنے والے بنی ﷺ کیا تھا ظاہر ہے ان کو ساتھ جوڑنا تھا اور ساتھ اس طرح ہی جڑ سکتے تھے جب انکے مسلک کے مطابق ترجمہ کیا جائے۔
مولانا طارق جمیل صاحب ہر دل عزیز شخص ہیں ۔شائد اسی لئے
 
Top