حبیب زدران
رکن
- شمولیت
- دسمبر 28، 2011
- پیغامات
- 153
- ری ایکشن اسکور
- 420
- پوائنٹ
- 57
جی محترم ایسا ہی ہے آپ بالک ٹھیک سمجھے ہیں۔آپ کا سوال تھا :
یہ سوال پڑھ کرہرکوئی اندازہ لگاسکتاہے کہ آپ رجال پرحکم لگانے کو امراجتہادی کہنے سے حیران ہیں اور غالبا آپ نے اس سوال سے قبل یہی سمجھاتھا کہ رجال پر حکم لگانا امر اجتہادی نہیں ہے، واللہ اعلم۔
جی ہاں میں فقہی مسائل میں شرعی اجتہاد کا قائل ہوںآپ نے بزرگوں کی تصریحات کو غورسے نہیں پڑھا ورنہ ان میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی مل جاتا ۔
بہرحال میں آپ کو کچھ مقدمات سمجھانے کی کوشش کرتاہوں اگر یہ مقدمات آپ کی سمجھ میں آگئے توبزرگوں کی تصریحات میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی نظر آجائے گا۔
آپ مجھے یہ بتادیں کہ :
کیا شرعی مسائل میں اہل علم کے اجتہاد کے آپ قائل ہیں یا نہیں ؟؟؟
ابتدآ میں نے سن کر مان لیا تھا۔ تقلیدآ اس بات کا قائل تھا۔ بعد میں عقلآ بھی قائل ہوگیا۔ اس لئے کہ غیر منصوص مسائل کا شرعی حل امت کو مطلوب ہوتا ہے اس کیلئے شرعی اجتہاد ہی واحد راستہ ہے۔اگرہاں تو کیسے ؟؟ کیا آپ اس لئے اس بات کے قائل ہیں کہ اہل علم نے تصریح کی ہے کہ شرعی مسائل میں اجتہاد ہوتا ہے ،اورآپ ان اہل علم کی تقلید کررہے ہیں؟ یا آپ کے پاس یہ چیز ماننے کی کوئی دلیل بھی ہے؟؟
بعد میں جب خود مطالعہ کا شوق بڑھا تو نقل سے بھی اسکا جواز مل گیا۔ بنو قریظہ کا واقعہ مشہور ہے ۔اگرشرعی مسائل میں اجتہاد کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کردیں ۔
لایصلین احدن العصر الافی بنی قریظۃ فادرک بعضھم العصر فی الطریق فقال بعضھم لانصلی حتی ناتیھا وقال بعضھم بل نصلی لم یردمناذالک فذکر ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منھم
(بخاری)
تم میں سے کوئی بھی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں جاکر۔چنانچہ راستہ میں ان میں سے بعض پر عصر کی نماز کا وقت آگیا ۔ان میں سے بعض نے کہاکہ ہم توبنی قریظہ ہی میں جاکر نماز پرھیں گے۔ اوربعض دیگر نے کہاکہ ہم تونماز یہاں ہی پڑھیں گے کیونکہ آپ کا مطلب یہ نہیں تھا(ان کے کہنے کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں ہم عصر تک بنی قریظہ پہنچ سکتے تھے اسی لئے آپ نے یہ فرمایاہے۔انہوں نے نماز پرھ لی۔ جب آپ کے سامنے ذکر ہوا توآپ نے کسی کوملامت نہ کی۔
نص فہمی میں اختلاف کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے اجتھادات فرمائے۔ اسی طرح اور بھی احادیث ہیں جن میں نص فہمی کے اختلاف سے صحابہ کے مختلف اجتھادات ملتے ہیں۔ جبکہ رجال پر حکم لگانے کا کوئی اجتھاد ہمیں نہیں ملتا۔ منافقین کے معاملے میں بھی بذریعہ وحی آپکو اطلاع دی گئی۔ ایک جہاد کے موقع پر کسی صحابی نے کافر کو جب گرایا تو اس نے کلمہ پڑھا صحابی سمجھا کہ وہ جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ صحابی نے انھیں قتل کردیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نےناراضگی کا اظہار فرمایا اور ہیاں تک فرمایا کہ کیا اسکا سینہ کھول کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان نہیں۔