• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس کو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہچان نہیں سچ پوچھو وہ مسلمان نہیں !!!

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اہل سنت کی حدیث کے مطابق
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
الخلافةُ ثلاثون سنةً ، ثم تكونُ بعد ذلك مُلْكًا
الراوي: سفينة أبو عبدالرحمن مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 459
خلاصة حكم المحدث: صحيح


خلافت تیس برس تک رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی
اہل سنت اس 30 سال کے عرصہ کی کیلولیشن اس طرح پیش کرتے ہیں

پھر کس بناء پر معاویہ بن ابی سفیان کے دور کو دور خلافت کہا جارہا ہے؟؟
﴿ محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور جو لوگ ان كے ساتھ ہيں، وہ كفار پر بہت سخت ہيں، اور آپس ميں رحمدل، آپ انہيں ركوع و سجود كرتے ہوئے، اللہ تعالى كا فضل اور اس كى رضامندى تلاش كرتے ديكھيں گے، سجدوں كے اثرات ان كے چہروں ميں ہيں ﴾الفتح ( 29 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى صحابہ كرام كى تعريف كرتے ہوئے فرمايا:

" ميرى امت كا بہترين دور ميرا دور ہے، پھر ان كا دور جو ان سے مليں ہوں، اور پھر ان كا دور جو ان سے ملے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3650 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2535 ).

اور جو شخص بھى ان كى عزت ميں كمى كرے، يا ان كا استھزاء و مذاق اڑائے اور انہيں سب و شتم كرے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں وعيد سناتے ہوئے فرمايا:

" جس نے بھى ميرے صحابہ كو گالى دى اور سب و شتم كيا تو اس پر اللہ تعالى، اور فرشتوں، اور سب لوگوں كى لعنت ہو "

السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2340 ).
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
*بطور خلیفہ خدمات جلیلہ:*

1) آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔

2) آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔

3) مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔

4) بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔

5) تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔

6) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔

7) نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔

8) نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔

9) خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورتمیں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔

10) ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔

11) احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

12) عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔

13) آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔

14) آپ نے بیت المال سےتجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔

15) سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔

16) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔

17) مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔

18) بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔

19) جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔

20) قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور " دارالضرب " کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔

21) امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔

22) دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔

ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے
2.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
7297 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


حوالہ :


عن عبد الرحمن بن أبي عميرة وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاوية اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به

(سنن الترمذی:3842)




امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے،
سے دریافت کیا گیا کہ حضرت معاویہ (صحابی)اور حضرت عمر بن عبدالعزیز(تابعی )میں کون افضل ہے؟

فرماتے ہیں: ”والله إن الغبار الذي دخل في أنف فرس معاوية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من عمر بألف مرة، صلى معاوية خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، فقال معاوية رضي الله عنه: ربنا لك الحمد، فما بعد هذا الشرف الأعظم“
(الشریعۃ: 2466/5، منہاج السنۃ: 183/3، البدایۃ: 139/1، تطہیر الجنان، ص: 10،11)

اللہ کی قسم! رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ہزار درجہ افضل ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے سمع الله لمن حمده فرمایا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ربنا لك الحمد کہا ، اس کے بعد اور بڑا فضل وشرف کیا ہوگا۔

صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ عمربن عبدالعزیز نے اس شخص کو کوڑے لگا ئے تھے جس امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں‌ گستاخی کی تھی ۔
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرتنا أم البهاء فاطمة بنت محمد قالت أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا أبو كريب نا ابن المبارك عن محمد بن مسلم عن إبراهيم بن ميسرة قال ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط إلا إنسانا شتم معاوية فإنه ضربه أسواطا[تاريخ دمشق لابن عساكر 59/ 211 واسنادہ صحیح]۔
ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ عمربن عبدالعزیز نے کسی شخص کو ماراہو سوائے ایک شخص کے جس امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اسے عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے کئی کوڑے لگائے۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے دیکھے:فضائل صحابہ صحیح روایات کی روشنی میں :ص :١٢٩۔

اجماع:
------
حافظ ابن عبد البر متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں:
"أجمع أھل الحق من المسلمین علی أن الصحابة كلهم عدول "
"مسلمانوں میں سے تمام اہل حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔
خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں: کتاب وسنت کے واضح دلائل کی روشنی میں صحابۂ کرام کی عدالت وپاکیزگی کا قطعی پتہ چل جاتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدیل کے بعد کسی کے تعدیل کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ آگے وہ فرماتے ہیں:
"ھذا مذھب کافۃ العلماء ومن یعتدبہ من الفقھاء""
یہی سارے علماء اور ان فقہاء کا مذہب ہے جن کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"
مام نووی ؒ متوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں:
"الصحابۃ کلھم عدول من لبس الفتن وغیرھم بإجماع من یعتد بہ"
"صحابہ سب کے سب عادل ہیں خواہ وہ فتنے میں شریک رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، اس پر ان تمام لوگوں کا اجماع ہے جن کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"

امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول
مسلمانوں کے اہل حق گروہ یعنی اہل السنت و الجماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے۔
مقدمہ الاستیعاب : آن لائن ربط: http://www.al-eman.com/…/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D…/i42&p1…

علاوہ ازیں ۔۔۔۔ امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ علیہم نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول سب کے سب عادل ہیں۔

امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين
اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ۔۔۔

► ان کی ہجرت و نصرت
► جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ
► دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا
► ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں
۔۔۔ اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے۔
http://assahaba.blogspot.com/…/sahaba-ki-adalat-ke-dalail.h…

ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن محمدبن عمر بن رُشید الفہری (متوفی ۷۲۱ھ) نے فرمایا:
’’فنقول: الصحابۃ رضوان اللہ علیھم۔عدول بأجمعھم باجماع أھل السنۃ علٰی ذلک‘‘
پس ہم کہتے ہیں : اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔
( السنن الابین ص۱۳۱)

حافظ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ ( متوفی ۷۴۸ھ) نے امام سفیان بن عیینہ کے بارے میں فرمایا:
’’أجمعت الأمۃ علی الحتجاج بہ‘‘
اُمت کا اُن کے ( روایت میں ) حجت ہونے پر اجماع ہے۔
(میزان الاعتدال ۲؍۱۷۰)

ان مذکورہ حوالوں کے بارے میں اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ مثلاً
۱: اصول الدین لابی منصور عبد القاہر بن طاہر البغدادی ف ۴۲۹ھ(ص۱۷)
۲: اصول السرخسی لابی بکر محمد بن احمد بن ابی سہل ف۴۹۰ھ (ص۲۲۹)
۳: المنخول من تعلیقات الاصول لابی احمد محمد بن محمد بن محمد الغزالی ف ۵۰۵ھ(ص۳۹۹)
۴: الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار لابی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی ف۵۸۴ ( ص۱۳)
وغیر ذلک۔ ( مثلاً دیکھیئے فقرہ:۹) وفیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔

وما علينا إلا ألبلاغ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے،
سے دریافت کیا گیا کہ حضرت معاویہ (صحابی)اور حضرت عمر بن عبدالعزیز(تابعی )میں کون افضل ہے؟

فرماتے ہیں: ”والله إن الغبار الذي دخل في أنف فرس معاوية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من عمر بألف مرة، صلى معاوية خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، فقال معاوية رضي الله عنه: ربنا لك الحمد، فما بعد هذا الشرف الأعظم“
(الشریعۃ: 2466/5، منہاج السنۃ: 183/3، البدایۃ: 139/1، تطہیر الجنان، ص: 10،11)

اللہ کی قسم! رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ہزار درجہ افضل ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے سمع الله لمن حمده فرمایا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ربنا لك الحمد کہا ، اس کے بعد اور بڑا فضل وشرف کیا ہوگا۔

صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ عمربن عبدالعزیز نے اس شخص کو کوڑے لگا ئے تھے جس امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں‌ گستاخی کی تھی ۔
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرتنا أم البهاء فاطمة بنت محمد قالت أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا أبو كريب نا ابن المبارك عن محمد بن مسلم عن إبراهيم بن ميسرة قال ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط إلا إنسانا شتم معاوية فإنه ضربه أسواطا[تاريخ دمشق لابن عساكر 59/ 211 واسنادہ صحیح]۔
ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ عمربن عبدالعزیز نے کسی شخص کو ماراہو سوائے ایک شخص کے جس امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اسے عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے کئی کوڑے لگائے۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے دیکھے:فضائل صحابہ صحیح روایات کی روشنی میں :ص :١٢٩۔

اجماع:
------
حافظ ابن عبد البر متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں:
"أجمع أھل الحق من المسلمین علی أن الصحابة كلهم عدول "
"مسلمانوں میں سے تمام اہل حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔
خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں: کتاب وسنت کے واضح دلائل کی روشنی میں صحابۂ کرام کی عدالت وپاکیزگی کا قطعی پتہ چل جاتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدیل کے بعد کسی کے تعدیل کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ آگے وہ فرماتے ہیں:
"ھذا مذھب کافۃ العلماء ومن یعتدبہ من الفقھاء""
یہی سارے علماء اور ان فقہاء کا مذہب ہے جن کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"
مام نووی ؒ متوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں:
"الصحابۃ کلھم عدول من لبس الفتن وغیرھم بإجماع من یعتد بہ"
"صحابہ سب کے سب عادل ہیں خواہ وہ فتنے میں شریک رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، اس پر ان تمام لوگوں کا اجماع ہے جن کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"

امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول
مسلمانوں کے اہل حق گروہ یعنی اہل السنت و الجماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے۔
مقدمہ الاستیعاب : آن لائن ربط: http://www.al-eman.com/…/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D…/i42&p1…

علاوہ ازیں ۔۔۔۔ امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ علیہم نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول سب کے سب عادل ہیں۔

امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين
اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ۔۔۔

► ان کی ہجرت و نصرت
► جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ
► دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا
► ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں
۔۔۔ اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے۔
http://assahaba.blogspot.com/…/sahaba-ki-adalat-ke-dalail.h…

ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن محمدبن عمر بن رُشید الفہری (متوفی ۷۲۱ھ) نے فرمایا:
’’فنقول: الصحابۃ رضوان اللہ علیھم۔عدول بأجمعھم باجماع أھل السنۃ علٰی ذلک‘‘
پس ہم کہتے ہیں : اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔
( السنن الابین ص۱۳۱)

حافظ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ ( متوفی ۷۴۸ھ) نے امام سفیان بن عیینہ کے بارے میں فرمایا:
’’أجمعت الأمۃ علی الحتجاج بہ‘‘
اُمت کا اُن کے ( روایت میں ) حجت ہونے پر اجماع ہے۔
(میزان الاعتدال ۲؍۱۷۰)

ان مذکورہ حوالوں کے بارے میں اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ مثلاً
۱: اصول الدین لابی منصور عبد القاہر بن طاہر البغدادی ف ۴۲۹ھ(ص۱۷)
۲: اصول السرخسی لابی بکر محمد بن احمد بن ابی سہل ف۴۹۰ھ (ص۲۲۹)
۳: المنخول من تعلیقات الاصول لابی احمد محمد بن محمد بن محمد الغزالی ف ۵۰۵ھ(ص۳۹۹)
۴: الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار لابی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی ف۵۸۴ ( ص۱۳)
وغیر ذلک۔ ( مثلاً دیکھیئے فقرہ:۹) وفیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔

وما علينا إلا ألبلاغ
متفق
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ!۔۔۔ اے اللہ!۔۔۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ {ھذا حدیث حسن غریب}
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اس کا تفصیلی جواب اگر ممکن ہو تو لکھ دیں ۔
اس روایت پر امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کا کلام ہے العلل میں
وإنما هو: ابن أبي عميرة، ولم يسمعه من النبي (ص) ؛ هذا (١) الحديث (٢) .
جزاکم اللہ خیرا
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
Top