امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے،
سے دریافت کیا گیا کہ حضرت معاویہ (صحابی)اور حضرت عمر بن عبدالعزیز(تابعی )میں کون افضل ہے؟
فرماتے ہیں: ”والله إن الغبار الذي دخل في أنف فرس معاوية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من عمر بألف مرة، صلى معاوية خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، فقال معاوية رضي الله عنه: ربنا لك الحمد، فما بعد هذا الشرف الأعظم“
(الشریعۃ: 2466/5، منہاج السنۃ: 183/3، البدایۃ: 139/1، تطہیر الجنان، ص: 10،11)
اللہ کی قسم! رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ہزار درجہ افضل ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے سمع الله لمن حمده فرمایا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ربنا لك الحمد کہا ، اس کے بعد اور بڑا فضل وشرف کیا ہوگا۔
صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ عمربن عبدالعزیز نے اس شخص کو کوڑے لگا ئے تھے جس امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی تھی ۔
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرتنا أم البهاء فاطمة بنت محمد قالت أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا أبو كريب نا ابن المبارك عن محمد بن مسلم عن إبراهيم بن ميسرة قال ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط إلا إنسانا شتم معاوية فإنه ضربه أسواطا[تاريخ دمشق لابن عساكر 59/ 211 واسنادہ صحیح]۔
ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ عمربن عبدالعزیز نے کسی شخص کو ماراہو سوائے ایک شخص کے جس امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اسے عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے کئی کوڑے لگائے۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے دیکھے:فضائل صحابہ صحیح روایات کی روشنی میں :ص :١٢٩۔
اجماع:
------
حافظ ابن عبد البر متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں:
"أجمع أھل الحق من المسلمین علی أن الصحابة كلهم عدول "
"مسلمانوں میں سے تمام اہل حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔
خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ھ فرماتے ہیں: کتاب وسنت کے واضح دلائل کی روشنی میں صحابۂ کرام کی عدالت وپاکیزگی کا قطعی پتہ چل جاتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدیل کے بعد کسی کے تعدیل کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ آگے وہ فرماتے ہیں:
"ھذا مذھب کافۃ العلماء ومن یعتدبہ من الفقھاء""
یہی سارے علماء اور ان فقہاء کا مذہب ہے جن کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"
مام نووی ؒ متوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں:
"الصحابۃ کلھم عدول من لبس الفتن وغیرھم بإجماع من یعتد بہ"
"صحابہ سب کے سب عادل ہیں خواہ وہ فتنے میں شریک رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، اس پر ان تمام لوگوں کا اجماع ہے جن کا اعتبار کیا جاتا ہے۔"
امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول
مسلمانوں کے اہل حق گروہ یعنی اہل السنت و الجماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے۔
مقدمہ الاستیعاب : آن لائن ربط:
http://www.al-eman.com/…/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D…/i42&p1…
علاوہ ازیں ۔۔۔۔ امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ علیہم نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول سب کے سب عادل ہیں۔
امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين
اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ۔۔۔
► ان کی ہجرت و نصرت
► جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ
► دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا
► ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں
۔۔۔ اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے۔
http://assahaba.blogspot.com/…/sahaba-ki-adalat-ke-dalail.h…
ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن محمدبن عمر بن رُشید الفہری (متوفی ۷۲۱ھ) نے فرمایا:
’’فنقول: الصحابۃ رضوان اللہ علیھم۔عدول بأجمعھم باجماع أھل السنۃ علٰی ذلک‘‘
پس ہم کہتے ہیں : اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔
( السنن الابین ص۱۳۱)
حافظ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ ( متوفی ۷۴۸ھ) نے امام سفیان بن عیینہ کے بارے میں فرمایا:
’’أجمعت الأمۃ علی الحتجاج بہ‘‘
اُمت کا اُن کے ( روایت میں ) حجت ہونے پر اجماع ہے۔
(میزان الاعتدال ۲؍۱۷۰)
ان مذکورہ حوالوں کے بارے میں اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ مثلاً
۱: اصول الدین لابی منصور عبد القاہر بن طاہر البغدادی ف ۴۲۹ھ(ص۱۷)
۲: اصول السرخسی لابی بکر محمد بن احمد بن ابی سہل ف۴۹۰ھ (ص۲۲۹)
۳: المنخول من تعلیقات الاصول لابی احمد محمد بن محمد بن محمد الغزالی ف ۵۰۵ھ(ص۳۹۹)
۴: الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار لابی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی ف۵۸۴ ( ص۱۳)
وغیر ذلک۔ ( مثلاً دیکھیئے فقرہ:۹) وفیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔
وما علينا إلا ألبلاغ