اسی لئے حضرت حذیفہ کہتے تھے :
«کُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ یَتَعَبَّدْهَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلاَ تَعْبُدُوْهَا»
ہر وہ عبادت جو صحابہ کرامؓ نہیں کرتے تھے اُسے تم بھی عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے تھے :
«اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ»
" تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام کے زمانے سے ) موجود تھا ۔
ہم نے اب تک جو لکھا ہے اگرچہ یہ ایک سنجیدہ اور دیانتدار آدمی کو سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ شریعت میں مروّجہ عید میلا النبیﷺ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تاہم اِس کی مزید وضاحت کے لئے اب ہم کچھ ایسے اصول بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان کی بنا پر اِس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ مروّجہ عید میلاد النبی دین میں ایک نیا کام (بدعت) ہے:
1. اسلام ایک مکمل دین ہے :
اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیّت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اس لئے شارع نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی...لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اسلام کی ثابت شدہ تعلیمات سے انحراف کرتے جا رہے ہیں بلکہ غیر ثابت شدہ چیزوں کو اس میں داخل کرکے انہی کو اصل اسلام تصور کر بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ جب دین مکمّل ہے اور اس کی ہدایات واضح ، عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہیں تو نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے اُنھیں اس کا حصہ بنا دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ ارشادِ باری ہے :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔
سو اللہ ربّ العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ ربّ العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ آپ صحیحین کی ایک روایت سے کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالم حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر الموٴمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔ حضرت عمر نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
تو حضرت عمر نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہﷺ عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
تو یہودی عالم نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو یومِ عید تصور کرکے اس میں خوشیاں مناتے ؟ اس لئے کہ وہ دین کے مکمل ہونے کی قدروقیمت کو جانتا تھا جبکہ بہت سارے مسلمان اس سے غافل ہیں اور ایسے ایسے اُمور میں منہمک اور مشغول ہو کر رہ گئے ہیں کہ جنھیں وہ دین کا حصہ تصور کرتے ہیں حالانکہ دین ان سے قطعی طور پر بری ہے ۔
2. نبی کریمﷺ نے ہر خیر کا حکم دے دیا تھا
یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ اللہ کا یہ مکمل دین رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوا اور بلا ریب آپﷺ نے اسے اپنی اُمّت تک مکمل طور پر پہنچا دیا تھا۔ارشادِ نبوی ﷺہے :
«مَا تَرَکْتُ شَیْأً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى اللهِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلاَّ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئاً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللهِ إِلَّا وَنَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»
" میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے ، اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ "
اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
«مَا بَقِيَ شَیْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلاَّ وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ»
" ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے ۔ "
نیز فرمایا :
«مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللهُ بِه إِلاَّ قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِه وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَهَاکُمْ عَنْهُ إِلاَّ قَدْ نَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»
" اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ "
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے اُمّت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے اُمّت کو روک نہ دیا ہو ۔ لہٰذا یہ جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر وہ عمل جو لوگوں کے نزدیک خیر وبھلائی کاعمل تصور کیا جاتا ہو وہ اس وقت تک خیر وبھلائی کا عمل نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی حکم یا ترغیب ثابت نہ ہو ۔ اسی طرح برا عمل ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی فرمان ثابت نہ ہو وہ برا تصور نہیں ہوگا ۔ گویا خیر وشر کے پہچاننے کا معیار رسول اللہﷺ ہیں ،کسی کا ذوق و رغبت نہیں کہ جس کا جی چاہے دین میں اپنے زُعم کے مطابق خیر کے کام داخل کرتا رہے یا اپنی منشا کے مطابق کسی عمل کو برا قرار دے دے۔
پھر یہ بات بھی سوچنی چاہئے کہ کیا نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہﷺ نے ( معاذ اللہ ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اوّلین ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے جس کی بنا پر اب بھی دین میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے ؟ یقیناً یہ بات لازم آتی ہے ۔
اسی لئے امام مالک فرماتے تھے :
«مَنِ ابْتَدَعَ فِي الإِسْلاَمِ بِدْعَةً یَرَاهَا حَسَنَةً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ خَانَ الرِّسَالَةَ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالىٰ ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾
سورة المائدة"
لَنْ یَصْلُحَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ إِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِه أَوَّلُهَا، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا»
'' جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوٰی کیا کہ محمد ﷺ نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی (یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا) تم اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو: ( ترجمہ )" آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا۔"..