• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن میلاد النبیﷺکی شرعی حیثیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
@خضر حیات صاحب
السلام علیکم
تو اس حدیث سے سلف اور خلف کا یہ اتفاق غلط ثابت ہوتا ہے ۔کیوں کلی طور پر یہ ضابطہ نہیں بنایا جاسکتاہے۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ
میرے خیال میں بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، میرے نزدیک دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ۔ کافر کے اعمال قبول نہیں ہوں گے ، یہ ایک عمومی بات ہے ، جبکہ کچھ خاص واقعات استثنائی حالات ہیں ۔ خیر اس نکتے میں آپ نے جو بات کہی ، وہ بھی تسلیم کی جائے ، حرج نہیں ۔ اور نہ ہی اس کا نفس مسئلہ کا کوئی اثر پڑتا ہے ۔
@خضر حیات صاحب
میں اگر 12 ربیع الاول کی جگہ 11 ربیع الاول یا کسی دوسرے مہینے میں اس نسبت سے کوئی جلسہ کرتا ہوں یا اس میں شرکت کرتا ہوں تو کیا میرا یہ عمل غلط ہوگا؟ کیوں اب اس میں دن کا تعین نہیں ہوگا اور مقصد سیرت مصطفیٰ کا بیان ہوگا۔
بریلوی حضرات کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ختم بخاری شریف ایک نیک عمل کہا جاتا ہے ۔ تو اس کا ثبوت کہاں ملتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے۔
اسی طرح تراویح میں ختم قران کے بعد لمبی لمبی اجتماعی دعاؤں کا ثبوت بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا۔
سیرت رسول کی مجلس کسی بھی دن میں کی جاسکتی ہے ، جو باعث ثواب کام ہے ۔ ہم کسی ایک دن کو خاص کرنے کرکے اس کے فضائل گھڑنے کے خلاف ہیں ، کیونکہ یہ منصب شارع کا ہے ۔
ختم بخاری شریف یا سیرت کانفرنس کے حوالے سے میں پہلے عرض کر چکا ہوں ، کہ یہ وعظ و نصیحت یا تعلیم و تعلیم کے حکم میں آتا ہے ، ہم کسی خاص دن یا وقت کی تحدید یا تخصصین کے قائل نہیں کہ اس کا بدعت ہونا لازم آئے ۔
وتر کے دوران لمبی دعائیں ، یا ختم قرآن کے بعد کی دعائیں ، یہ مسئلہ مختلف فیہ ، کئی ایک علما اس سے منع کرتے ہیں ، آپ کے علم یہ بات نہیں ہوگی ۔
میں ایک آخری بات عرض کرکے اس موضوع سے رخصت چاہوں گا کہ کسی بھی مسئلہ میں وارد دلائل کو بالترتیب اور ان کے سیاق و سباق سے دیکھنا چاہیے ، کسی ایک بات کو پکڑ کر ، یا کسی ایک نکتہ پر اعتراض در اعتراض اور جواب در جواب والا رویہ ممکن ہے مفید ہو ، لیکن بہرصورت بعض دفعہ انسان اس طرح کی چیزوں میں الجھنے کی وجہ سے مستند اور متفق علیہ دلائل کی عظمت و حیثیت کو سمجھنے سے بھی عاری ہوجاتا ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم @خضر حیات
السلام علیکم
میرے سوالات کی بنیاد جناب کوکب نورانی صاحب کا یہ بیان تھا۔ جس کا ذیل میں لنک دیا ہے۔ یہ سوالات یا اعتراضات میرے اپنے خود ساختہ نہیں تھے۔ آپ کا بے حد شکریہ جو آپ نے اپنے قیمتی وقت سے وقت نکال کر جوابات دیے۔
 
Top