• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن میلاد اور حکومت کی ذمہ داری !

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
نبی ﷺ نے بدعت کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا .من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ(ابن ماجہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7حدیث نمبر 14 باب تعظیم حدیث رسول اللہﷺ)
٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ(مسلم..باب الاقضیۃ’’جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 1343)

 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
میلاد النبی کی تاریخی حثیت کو جانیے ذرا دل تھام کے سنیے گا!
قادری صاحب ! فرماتے ہیں: 12 ربیع الاول آپ کیﷺولادت اور 12ربیع الاول ہی آپﷺ کی وفات کا دن ہے‘لہذا صحابہ اکرام جانتے تھے کہ 12 ربیع الاول حضور ﷺ کی ولادت کا دن ہے مگر یہی وفات کا بھی دن ہے تو صحابہ﷢ پر وفات النبی ﷺ کی وجہ سے غموں کا کوہ گراٹوٹ پڑااسلیے جب 12 ربیع الاول کا دن آتا تو میلاد النبی (ﷺ) کی خوشی اپنی جگہ مگر ساتھ آقا علیہ سلام کی جدائی کا غم تازہ ہو جاتا جو نہی12 ربیع الاول کا دن آتا خوشی اور غم کی کیفیات مل جاتیں سو نہ ولادت کی خوشی میں صحابہ ﷢کو جشن یاد رہتا اور نہ وصال کے غم میں ماتم کناں ہوتے(میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 893۔894)
٭۔ قادری صاحب فرماتے ہیں:آپﷺ کے وصال کی خبر سن کر حضرت عمر﷜ غصے سے تلوار نکال کر باہر آگے اور کہا جس نے کہا آپﷺ فوت ہو گئے ہیں میں عمر اس کی گردن اتار دونگا اگرچہ حضرت عمر ﷜ کا یہ طرز عمل جذباتی تھا مگر غیر فطرتی ہرگز ہرگز نہیں تھا(میلادالنبی ﷺصفحہ نمبر 896)
٭۔قادری صاحب نے فرمایا :سیدا فاطمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کی تدفین کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ کو میں نے کہا !یا انس ﷜ اطابت انفسکم ان تحثوں علی رسول اللہ التراب (بخاری ‘کتاب المغازی ‘باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ...حدیث نمبر 4193‘جلد 4صفحہ نمبر 1619)
نوٹ: مذکورہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے قادری صاحب فرماتے ہیں ‘جب محبوب ﷺ خدا کی جدائی پر غم و اندوہ اور اضطراب دل کی یہ کیفیات ہو ں اور یہی دن ولادت با سعادت کا بھی دن ہو تو کس کے اندر اتنی تاب ہے کہ وہ جشن ولادت منانے کا سوچ بھی سکے (میلاد النبی ﷺصفحہ 899)
٭۔ قادری صاحب حضرت انس ﷜سے ترمزی شریف کی حدیث نمبر 3618جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 13)کہ حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی تشریف آوری پرہر چیز روشن ہو گئی اور آپﷺ کے وصال پر ہر چییز تاریک ہو گئی (میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 900)
٭۔قادری صاحب امام کرمانی ﷫کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب (شرح بخاری میں جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 24 )پر لکھتے ہیں :کہ آپﷺ کے وصال پر حضرت بلالﷺنے مدینہ چھوڑ کر شام کے شہر حلب کا ارادہ کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کو علم ہوا تو فرمایا ‘بلال مسجد نبوی میں ہی رہ کر اذان کہا کر جا نا مت تو حضرت بلال ﷜ نے فرمایا :انّی لا ارید المدینۃ بدون رسول اللہ ﷺ ولا تحمل مقام رسو ل اللہﷺ خالیا عنہ(میلاد النبی ﷺےصفحہ نمبر 901)
٭۔ قادری صاحب فرماتے ہیں ‘صحابہ ﷢پر غم کی کیفیات غالب تھیں اس طرح تابعین ‘طبع تابعین پر بھی جس کی وجہ سے وہ ولادت کی خوشی نہ منا سکے وقت گزرنے کے ساتھ خوشی غم پر غالب آنے لگی کیونکہ بعد والوں نے وصال کا خود مشاہدہ نہ کیا تو غم بھول تو خوشی کا اہتمام کرنے لگے ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ آپ ﷺ کی حیات و وفات دونوں امت کے لیے خیر ہی خیر ہیں(میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 903)
نوٹ: قارئین کرام ذرا غور کریں اور آنکھوں سے تقلیداور تعصب کی عینک اتار کر تحقیق کی غرض سے قادری صاحب کی گلو کاریوں کو سمجھیں کہ قادری صاحب ایک طرف تو حضورﷺ کے ولادت کے دن جشن منانے کو بدعت شمار اس لیے نہیں کرتے کہ بدعت کی تعریف کرتے قادری صاحب نے کہا بدعت وہ ہے جوعمل صحابہ (﷢) سے بھی ثابت نہ ہومگر دوسری جانب کہہ رہے ہیں کہ صحابہ پر حضور ﷺ کے وصال کا غم اس قدر تھا جس کی وجہ سے وہ ولادت کی خوشی نہ منا سکے کیونکہ 12 ربیع الاول ہی وفات النبیﷺکا دن تھا اور یہی دن ولادت با سعادت کا بھی تھا اب فیصلہ کریں کہ میلاد النبی ﷺ بدعت ہوئی یا نہیں؟
٭۔ قادری صاحب فرماتے ہیں :کہ غم نعمت کے ختم ہونےاور اس کے فوائد کے خاتم ہونے پر ہوتا ہے یہاں تک کہ اثرات و نتائج کا سلسلہ بھی بندہو جاتا ہے‘ مثلاً(بیٹا ہوا اور فوت ہو گا )تو کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ حضور ﷺ کے وصال پر غم کرے یا حزن و ملال کی کفیت اپنے اوپر تاری کر ے حضور ﷺ کا وصال بھی اسی طرح امت کے لیے رحمت ہے جس طرح آپﷺکی ظاہر ی حیات طیبہ سارے عالم کے لیے رحمت ہے (میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 907)
نوٹ:ایک طرف تو قادری صاحب صفحہ نمبر 903پر لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کی وفات کا غم غالب تھا اس لیے صحابہ ‘تابعین ‘تبع تابعین ‘ولادت کی خوشی کا اہتمام نہ کر سکےاسی طرح صفحہ نمبر 899پر لکھتے ہیں جب صحابہ﷢پر غم اور اضطراب دل کی یہ کیفیات ہو تو کس میں اتنی تاب ہے کہ جشن ولادت منانے کا سوچ بھی سکے؟اسی طرح قادری صاحب صفحہ نمبر 907 پر قادری صاحب لکھتے ہیں کہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ حضور ﷺکے وصال پر غم کرے یا حزن و ملال کی کفیت آپنائے ‘قارئین کرام ایمان سے بتلائیں کہ قادر ی صاحب یہکن ہستیوں کے بارے کہہ رہا ہے کہ کسی کوزیب نہیں دیتا کہ وہ حضور ﷺ کے وصال پر غم کرے اور فیصلہ خود کریں جو صحابہ کے بارے میں اس طرح کے توہین امیز الفاظ استعمال کرے اس کو شیخ الاسلام کہنا چاہیے یا صحابہ ﷢اور حضور ﷺکا گستاخ فیصلہ خودکر لیں؟
٭۔قادری صاحب بعنوان:جب سب کچھ ہے تو غم کس بات کا؟
کے تحت لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ آقا حضور نبی کریم ﷺ تو موجود ہیں ‘غم تو تب کریں جب حضور ﷺ کا سایہ مبارک امت کے سر سے اٹھ گیا ہو یا رابطہ اور تعلق منقطع ہو گیا گیا ہو حالانکہ حضور ﷺ امت کے احوال سے باخبر ہیں قدم قدم پر دستگیری کرتے ہیں ‘قبر میں زندہ ہیں ‘نہ عنائیت میں کمی آئی ‘نہ شفقتوں اور مہربانیوں میں کمی آئی ‘تو جب سب کچھ اسی طرح موجود ہے تو غم کس بات کا؟(میلاد النبیﷺ صفحہ نمبر 907)

٭۔قادری صاحب :بعنوان !قرون اولیٰ میں خوشی کے موقع پر جشن منانے کا شوق نہ تھا۔ کے تحت لکھتے ہیں کہ اھل مدینہ نے آمد رسول ﷺکے اس یوم ہجرت پر خوشی کا اہتمام نہ کیا کیونکہ اس دور کے کلچر اور مزاج میں یہ چیز نہ تھی لیکن حضور ﷺ کی آمد کے موقع پر استقبال اور اظہار مسرت عین فطرتی چیز تھی جس سے کم از کم اس بات کا جواز ضر وملتا ہے کہ خوشی کے موقع پر جشن منانا فطرتی عمل ہے تواس میں شریعت کی کونسی نفی ہو رہی ہے؟ لہذااسےبدعت کہہ کر اس کا انکار نہیں کرنا چاہے۔ (میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 914)
نوٹ:قارئین کرام ذرا ایمان سے بتلائیے کہ( معاذ اللہ ثمّ معاذ اللہ)کیا صحابہ اکرام کو پتہ نہیں تھا کہ حضور قبر میں زندہ ہیں یا نہیں ‘آپ ﷺ کی وفات اور حیات امت کے لیے دونوں خیر ہیں یانہیں ؟اگر قادری صاحب کی صحابہ اکرام ﷢کے بارے میں زبان درازی توہین نہیں تو اور کیا ہے فیصلہ خود کرلیں‘حضور ﷺ کی وفات کے وقت خلافت کے معاملے میں صحابہ اکرام نے غور فکر کی جسارت کیسے کر لی ؟
٭۔ قادری صاحب فرماتے ہیں کہ میثاق مدینہ‘بدر کا دن‘فتح مکہ‘جب حضور ﷺ کو نبوت ملی‘ شب قدر 27 رمضان المبارک جب قرآن نازل ہواوغیرہ کے دن کتنے اہم دن تھے مگرقرون اولیٰ میں انہیں منایا بھی نہیں گیا اور نہ ہی ان لوگوں کے مزاج اور کلچر میں یہ چیز تھی کہ خوشی کے موقع پر جشن منایا جائے حالانکہ حضور ﷺ کی زندگی اور صحابہ کی زندگی میں یہ دن بار بار آتے رہے کسی نے ان کو منانے کا اہتمام نہیں کیاکیونکہ ان کی ثقافت میں نہیں تھا(میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 916)
٭۔قادری صاحب لکھتے ہیں :شب قدر (جس رات قرآن ناول ہوا )پڑا خوشی کا موقع تھا مگر صحابہ اکرام نے شب قدر منانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا (میلاد النبی ﷺصفحہ نمبر 916)
٭۔قارئین کرام قادری صاحب کی اداکاریاں دیکھیے میلاد النبی ﷺ کے عبادت ہونے میں جب قادری صاحب کو کوئی دلیل نہ ملی حالانکہ خود ہی بدعت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف ‘آیات قرآنی ‘اور احادیث نبوی ‘عمل صحابہ‘تابعین‘ سے میلاد النبی کو ثابت کرنے میں قادری صاجب نے ہر قسم کی گلو کاری کر لی مگر نا صرف میلاد کو ثابت کیا بلکہ واجب ہونے تک کہہ گےساتھ ہی دوسری طرف تجاہلہ عارفانہ کی بنیاد پر سب باتوں کا انکار کرگے اور خود ہی میلاد النبی ﷺ کے ثبوت سے تمام دلائل کا رد کر دیا اورمیلاد النبی ﷺ کو فقت ثقافت کہہ کر جواز تلاش کرنی کی سوچ باقی رہ گی اور (
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورۃ النساء آیت نمبر 115)کے مصداق بن گےاس طرع اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے :افتطمعون ان یؤمنوا لکم وقد کان فریق منھم یسمعون کلٰم اللہ ثمّ تحرفون من بعد ما عقلوہ وھم یعلمون(......)الا انّھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون(......)اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ(15) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ(16) يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ(9) فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ(10) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ(24) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ(18)کے مصداق ٹھہرے ان کو تحریف قرآنی اور سنت رسول کا مزاق اڑانے سے باز آ جانا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اعلان کر رہی ہے (لَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(20)خدا رہ بہتان تراشی اور الزام لگانے سے تائب ہو جائیں۔
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
امام سیوطی ﷫ تاریخ میلاد النبی ﷫ کی تاریخی حثیت اور شرعی حثیت کے بارے میں رقم کرتے ہیں ۔
امام سیوطی ﷫فرماتے ہیں ۔
الشیخ تاج الدین عمر بن علی اللخمصی السکندری المشھور بالفاکھانی من متاخر المالکیۃ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ میلاد النبی ﷺکے حوالے سے وہ فرماتے ہیں۔
قال الشیخ الفاکھانی !انّعمل المولد بدعۃ مذمومۃ والف فی ذلک کتاباً سمّاہ(المورد فی الکلام علی عمل المولد)نیز فرماتے ہیں.
وانّا اسوق
ۃ ھنا برقہ و اتکلم علیہ حرفا حرفا !وھذا جوابی عنہ بین یدی اللہ تعالیٰ انّ عنہ سئلت ولا جائز ان یکون مباحاً لانّ الابتداع فی الدین لیس مباحاً باجماع المسلمین (الحاوی للفتاویٰ از امام سیوطی ﷺجلد نمبر 1 صفحہ نمبر 253....پر مفصل بحث موجود ہے)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
میلادالنبی ؐمنانا بدعت کیوں نہیں قادری صاحب کی زبانی ؟(((میلادیوں کے دلائل کا محققانہ جائزہ)))
ابتداءً بدعت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف میں ذکر کر دیا کہ شریعت میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا جس کی پہلے مثال موجود نہ ہو قرآن و سنت سے اور نہ عمل صحابہ ﷢سے اس کو بدعت کہا جاتا ہے۔
قادری صاحب نے کہا میلاد النبی ؐ منانے میں قرآن و سنت سے دلائل موجود ہیں لہذا اس کو بدعت کہنا جہالت اور لاعلمی ہے . !ذیل میں ہم قادری صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا یہ دلیل بن بھی سکتے ہیں یا قادری صاحب نے مروڑ تروڑ کر اپنی دلیل گھڑنے کی سعی کی ہے تاکہ قادری صاحب کا بیان چہرہ کھل کر سامنے آ جائے کہ شیخ الاسلام کے ہاتھوں اسلام کا کیا حشر ہوتا ہے مگر وہ پھر بھی شیخ الاسلام ہی رہتے ہیں ۔
قادری صاحب کے دلائل :
٭۔قرآنی دلائل!قادری صاحب میلاد النبی ؐ کے جواز میں قرآن پاک سے دلائل گھڑتے ہیں جن میں سے پہلی دلیل یہ ہے۔
1
۔وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا(آل عمران :آیت نمبر 103)
قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبیﷺ کے صفحہ نمبر 303) اس آیت سے میلاد النبیؐ ثابت کرتے ہیں اور اس آیت میں من مانی وضاحت کرتے ذرا برابر شرم محسوم اور خوف خدا نہیں کرتےکہ اس آیت کی خود ساختہ تفسیر کر گزرتے ہیں ۔
آیت مذکورہ کی وضاحت کرتے ہوئے قادری صاحب رقمطراز ہیں کہ بلا شبہ حضور بنی کریم ﷺ کا دنیا میں آنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ایک دوسرے کے خون کہ پیاسے بھائی بھائی بن گے نفرتو ں اور عداوتوں کو محبتوں اور ایثار و رواداری میں بدل دیا آپﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا ہی تھا کہ لوگ آپﷺ کی غلامی میں داخل ہو گے چاہیے پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہی کیو ں نہ رہے ہو مگر حضور ﷺ کی آمد کی وجہ سے باہم شیروشکر ہوگے ایک دوسرے کی محبت اور الفت کے
اسیر ہو گے۔
٭۔حافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیرالقریشی الدمشقی﷫ اپنی کتاب (تفسیر ابن کثیر’’تفسیر القرآن العظیم کی جلدنمبر1 صفحہ نمبر 507)پر مذکورہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

2۔وَهَذَا السِّيَاقُ فِي شَأْنِ الأوْس والخَزْرَج، فَإِنَّهُ كَانَتْ (3) بَيْنَهُمْ حُروبٌ كَثِيرَةٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَعَدَاوَةٌ شَدِيدَةٌ وَضَغَائِنُ، وإحَنٌ وذُحُول (4) طَالَ بِسَبَبِهَا قِتَالُهُمْ وَالْوَقَائِعُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ فَدَخَلَ فِيهِ مَنْ دَخَلَ مِنْهُمْ، صَارُوا إِخْوَانًا مُتَحَابِّينَ بِجَلَالِ اللَّهِ، مُتَوَاصِلِينَ فِي ذَاتِ اللَّهِ، مُتَعَاوِنِينَ عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبیﷺکے صفحہ نمبر 305پرسورۃ آل عمران:آیت نمبر 164)پر قرآن سے دوسری دلیل ذکر کرتے ہیں۔

3۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ(آل عمران:164)
اس آیت مبارکہ کی وضاحت کرتے قادری صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت لوگوں کو مخاطب کر کے آ گاہ کر رہا ہے کہ اے لوگوں !آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کار خانہ قدرت میں اس سے بڑ ھ کر نعمت تھی ہی نہیں جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا ہے جس کی خاطر میں نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالامال کر دیا تو اب اس پرضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت محمدیہ اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر و منزلت اور علومرتب سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے اور خدا تعالیٰ کے اس احسان عظیم کی ناشکری کا ارتکاب کرتی رہے .یاد رکھنا کہ تم اس احسان عظیم پر شکر ادا کرو یا نہ کر و حضور ﷺ کا ذکر تو خدائی وعدے کے مطابق روز افزوں ہی رہے گا۔
٭الامام علامہ علاءالدین علی بن محمد بن ابراھیم البغدادی الشھیر الخازن اپنی کتاب (تفسیر الخازن والبغوی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 570)پر مذکورہ آیت کی وضاحب کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
4۔(
لقد منّ اللہ علی المؤمنین)یعنی أحسن اليهم وتفضل عليهم والمنّة النعمة العظيمة وذلك في الحقيقة لايكون الاّ من الله ومنه قوله تعالي( لقد من الله علي المؤمنين اذ بعث فيهم رسولاً من انفسهم )يعني مِن حنبهم عربياً مثلهم ولد ببلدهم وشأ بينهم يعرفون نسبه وليس حي من احياء العرب الاّ وقد ولده وله فيهم نسب ومعني تعالي(من انفسهم) أي"بالايمان والمشقة لا بالنسب ومن حنبهم ليس بملك ولا أحد مِن غير بنيِِ آدم وقيل مِن أنفسهم يعني أنّه مِن ولد اسماعيل بن ابراهيم(تفسير الخازن :جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 570)
٭قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبی ؐکے صفحہ نمبر 306پر سورۃ الانشراح کی آیت نمبر4)
5۔[ورفعنا لک ذکرک]میلاد النبی 5 کو ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں: قادری صاحب لکھتے ہیں کہ اب کوئی حضور ﷺکا ذکر کرے گا تو اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور اسی طرح ان کی تشریف آوری پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے نہ وہ کسی
پر احسان کر رہا ہے تور نہ ہی کسی کا فائدہ بلکہ اپنا توشہ آخرت بہتر بنا رہا ہے۔

٭محمد بن علی بن محمد الشوکانی اپنی کتاب (فتح القدیر کی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر570۔571)پر آیت [ورفعنا لک ذکرک]کی وضاحت کرتے ہیں :قال الحسن ’’وذلک انّ اللہ لایذکر فی موضع الاّ ذکر معہﷺ ‘‘
قال المجاہد:[ورفعنا لک ذکرک
] یعنی بالتاذین‘‘ وقیل المعنیٰ ‘‘ذکرناک فی الکتب المنزلۃ علیٰ الانبیاء قبلہ وامرھم بالبشارۃ بہ وقیل رفعنا ذکرک عبدالکلائکۃ فی السماء وعبد المؤمنین فی الارض۔
٭قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبی ﷺ)کے صفحہ نمبر 308پر سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 49
6۔(
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ)میلادالنبی ﷺکو ثابت کرنے کے لیے ذکر کرتے ہیں اور قرآنی مفاہیم کو کس طرح مان مانی تفسیر کی نظر کرتے ہیں آئیے قادری صاحب کی مذکورہ آیت کی من مانی کا خلاصہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور آپ حضرات خود قادری صاحب کی دینی اور علمی ذہنیت کا جائزہ لیں اور فیصلہ خود کر لیں کہ قرآن اور دین اسلام میں تاویل فاسداورتحریف قرآنی کا شیخ الاسلام کے ہاتھوں منہ بولتا ثبوت ہے ۔
قادری صاحب مذکورہ آیت کی تفسیر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ’’آل یعقوب کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم قومی تاریخ کا وہ واقع یاد کرو جب فرعون سے تمہیں آزادی دی گی اور اس کا شکر ادا کرو ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ نص قرآنی سے یہ امر واضع ہو گیا کہ قومی آزادی کے موقع پر ہر سال اس (ہر سال قادری صاحب کی ذہنیت کو واضع کرتا ہے)کی یاد منانا اور مختلف طریقوں سے شکر بجا لانا محض دینوی اور سیاسی فعل نہیں بلکہ اس اعتبار سے اس کو نہ ماننا حکم الہی سے انحراف کے مترادف ہے جیسا کہ ہم 14اگست اور 23 مارچ کو حصول آزادی کی نعمت کے طور پر خوشی مناتے ہیں تو یہ بھی قرآن حکیم کی اس آیت کے مذکورہ حکم کی تعمیل ہے۔(میلاد النبی ﷺصفحہ نمبر 308۔309)

٭۔عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی اپنی تفسیر (تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 45۔46)پر لکھتے ہیں ’’هذا شروع في نعمه علي بني اسرائيل علي وجه التفضيل فقال (وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ)اي!من فرعون وملاءه و جنوده وكانوا قبل ذلك(يسومونكم)اي!يولونهمويستعملونهم(والمعني!يذيقونكم)
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (مسلادالنبی ﷺ کے صفحہ نمبر 315)پر میلادالنبی ﷺ کو ثابت کرنے کے لیے ’’سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر 11‘‘[
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ]ذکر کرتے ہیں اور خود ساختہ تفسیر کرنے میں کوئی ملامت اور کوئی شرم محسوس کیے بغیر قرآنی آیات کی من پسند تاویل و تحریف کر گزرتے ہیں فرماتےکہ’’آیت مذکورہ میں ذکر نعمت کا حکم ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اس نعمت کو دل سے یاد کیا جائے اور زبان سے ذکر کیا جائے لیکن وہ صرف اللہ کے لیے ہونا چائیے لیکن جب تحدیث نعمت کا حکم دیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ کھلے عام لوگوں میں اس کا چرچہ کیا جائے چناچہ ذکر اور ےتحدیث نعمت میں یہ بنیادی فرق ہوا کہ ذکر اللہ کے لیے ہوتا ہے اور تحدیث کا تعلق بندوں اور مخلوق خدا سے ہے یعنی لوگوں میں اس کا چرچہ کرنا ہے ۔
٭۔ابي القاسم محمود بن عمر الزمخشري الخوارزمي اپنی کتاب (الکشاف جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 774)پر لکھتے ہیں کہ’’
[وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ]وانتم تقولون"لا تحدث بنعمة الله وانّما يجوز مثل هذا اذا مقصد به اللطف.وأن يقتدي به غيره زأمن علي نفسه الفتنة.والستر أفضل .ولولم يكن فيه الاّ التشبه بأهل الرياء والسمعة!لكفي به وفي قراءة عليّ رضي الله عنه(فحبر )والمعني!أنّك كنت يتيماً"منالاً وعائلاً فأواك الله وهذاك !وأعناك: فامما يكن من شيء وعلي ما خيلت فلاش نعمة الله عليك في هذه الثلاث واقتد بالله"فتعطف علي اليتيم وآوه.فقد ذقت اليتمّ وهوانّه ورأيت كيف فعل الله بك وترحم علي السائل وتفقده لمعروفك ولا تزجره عن بابك كما رحمك ربك فأغناك بعدالفقر وحدّث بنعمة الله كلّها-
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺ کے صفحہ نمبر 326)پر دلیل نمبر 8قرآن کریم کی سورۃ القصص:آیت نمبر76)ذکر کرتے ہیں’’
إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ(القصص:76)
اور اس سے میلادالنبی ﷺثابت کرتے ہیں کہ :(انّ اللہ لا یحّب الفارحین)کے تحت خوشیوں میں دھوم دھام کا اظہار تواضع و انکساری کے خلاف ہے مگر جب اپنے فضل اور رحمت کی بات کی تو اس حکم میں استثناء کا اعلان کر دیا کہ اگر میرا فضل اور رحمت نصیب ہو جائے تو میرا انتہائی حکم یہ(فلیفرحوا)ہے یعنی کہ خوشیاں منایا کرو(وھو خیر مما یجمعون)کے ذریعے بتا دیا کہ جو لوگ ۃجشن میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لئے قمقمے لگاتے ہیں‘گل پاشا کرتے ہیں‘قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں‘جلسے اور جلوس اور محافل و اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں‘لنگر کے لیے کھانا پکاتے ہیں‘یعنی دھوم دھام سے خوشی کا اہتمام کرتے ہیں اور اس حوالے سے جو کچھ بھی انتظامات کرتے ہیں وہ ان کی عبادات و نفل ونوافل اور دیگر نیکیا ں جن کو وخہ اپنے نامئہ اعمال میں جمع کرتے ہیں اجر میں زیادہ ہیں۔اب صاف ظاہر ہے کہ اس پر خرچ تو ہوگا اس لئے فرما دیا کہ میلاد مصطفیٰ کی خوشی کے لیے خرچ کرنا اس جمع کرنے سے بہتر ہے خواہ وہ جمع کرنا مال ودولت کی شکل میں ہو یا اعمال کی شکل میں ہو۔
تنبیہ:قارئین کرام یہاں قادری صاحب کی دھوکہ دہی کا عالم دیکھے کہ میلاد النبی کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے کس قدر نص قرآنی کا مذاق اڑا رہا ہے ؟آئیے مذکورہ بالاآیت کی تفسیر مفسرین سے پو چھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کا معنی ٰ مفہوم کیا ہے ؟
٭۔الامام ابی جعفر محمد بن جریر الطبری اپنی کتاب (جامع البیان عن تاویل ا ي القرآن المعروف تفسير الطبري جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 130)پر امام موصوف لکھتے ہیں کہ’’
قال المجاہد! (الا تفرح انّ اللہ لایحب الفرحین) ای المبتذحنین الاشرین‘الذین لا یشکرون اللہ فیما اعطاھم۔
اس آیت کا سیاق بتلاتا ہے کہ یہ قارون کے بارے میں کہاگیا ہے جوکہ (قارون بن یصھر بن قاھت بن لاوی بن یعقوب من قوم موسیٰ تھا اس کے تکبر اور حسد کی وجہ سے کہا گیا ہےکہ اللہ(فارحین)کو پسند نہیں کرتا۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب( میلاد النبیﷺ)کے صفحہ نمبر344)پر( سورۃ یونس کی آیت نمبر 58)ذکرکرتے ہیں کہ [
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ...یونس:58]کے تحت قادر ی صاحب میلاد النبی ﷺ کو ثابت کرنے کیلیے کس قدر فاسد استدلال کرتا ہے آیے ذرا دیکھتے ہیں:قادری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اللہ ربّ العزت فرما رہا ہے کہ میرے فضل اور رحمت پر خوشی منانا جمع کر کے رکھنے سے بہتر ہے ‘‘ لہذا جمع دو چیزیں ہوتی ہیں مال و دولت دنیا کے لیے اور عبادات آخرت کے لیے مگر قرآن نے یہاں نہ تو مال و زر کی تخصیص کی ہے اور نہ عمل ِصالح اور تقویٰ وغیرہ کی نشاندہی کی ہے بلکہ اس آیت مبارکہ میں لفظ’’ما‘‘کلمہ عام ہے جو کہ دنیا و آخرت دونوں کو شامل ہے اس سے پتہ چلا کہ لوگ اگرچہ مال و دولت اور عمل صالح ‘رکوع و سجود ‘قیام و قعودکا ذخیرہ کر لیں غرض کہ نیکی کے تصور سے جو چاہیں کرتے پھریں لیکن اس نعمت پر (ولادت مصطفیٰﷺ)کے لئے خوشی منانا اور اس پر اپنا مال ودولت خرچ کرنا یہ تمہارے سارے دینوی اور دینی اعمال کے ذخیرے سے زیادہ پیش بہا‘زیادہ بہتر ہے ۔
٭۔ابی الطیب بن حسن بن علی الحسین ؟؟القنرجی؟؟البخاری اپنی کتاب (فتح البیان فی مقاصد القرآن..جلد نمبر 6 صفحہ نمبر83)پر لکھتے ہیں کہ:(
قل بفضل الله وبركة)اي !المراد بالفضل من الله سبحانه تفضله علي عباده في الاجل والعاجل بما لا يحيط به الحصر والرحمة لهم"اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں:فضل الله القرآن ورحمة الاسلام’’فبذلك فليفرحوا‘‘وقيل أنّ فرحوا بشيءِ فليخصّوا فضل الله ورحمته بالفرح هو اللذة في القلب بسبب ادراك المطلوب وتقديم انظرف علي الفصل لافادة الحصر والتكرير للتاكيد والتقرير وايجاب اختصاص الفضل والرحمة بالفرح دون ما عداهما من فوائدالدنيا (هو خير)اي! ان هذا خيرهم (مما يجمعون)من حطام الدنيا والذاتهاالفانية-
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
حديث سے دلائل:
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبی ﷺ کے صفحہ نمبر362)پر لکھتے ہیں:کہ امام سیوطی ﷫نے اپنی کتاب (الحاوی للفتاویٰ جلد نمبر 1)میں عنوان باندھا ہے ’’باب حسن المقصد فی عمل المولد‘‘کے تحت لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے خود آپنا میلاد منایا جس کے سبب یہ سنت بھی ہے ۔
تحقيق:قارئین کرام قادری صاحب میں
’’من كذب علي متعمدًا فاليتبوّا مقعده من النار ‘‘اور آیت المنافق ثلاث اذا حدّث کذب ‘‘جیسی صفات رزیلہ اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ دین اسلام کے ہر معاملے میں شیخ الاسلام کے ہاتھوں آئے روز اسلام کی قباء چاک کی جاتی ہے اور اس پر ذرا بر شرمندگی نہیں ہوتی ‘قارئین قادری صاحب کو الزامات لگانے کی عادت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ان شخصیت اور شیخ الاسلام ہونے کا بھی یہی راز ہے آئیے اب قادری صاحب کے امام سیوطی ﷫ پر عائید الزام کی تحقیق آپ حضرات کے پیش خدمت کرتے ہیں کہ امام صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں اس کے بعد فیصلہ آپ حضرات خود کریں گے ۔
٭امام سیوطی﷫ اپنی کتاب (الحاوی للفتاویٰ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 252)پر لکھتے ہیں کہ !
و أوّل مَن أحد فعل ذلك "أي"(اظهار الفرح والاستبار لمولده الشريف)صاحب اربل الملك المظفر ابو سعيد كوكبري بن زيد الدين علي بن بكتكين أحد الملك الامجادوالكبراء الاجواد"تو بتائیں یہ سنت کیے ہوا؟
آگے چل کر امام سیوطی ﷫(
الشیخ تاج الدین عمر بن علی اللخمی السکندری المشھور بالفاکھانی مِن متاخر المالکیۃ)کے حوالے سے میلاد النبی کے بارے میں ان کی رائے نقل کرتے ہیں کہ الشیخ صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ:أنّ عمل المولد بدعة مذمومة وألف في ذلك كتاباً سماه(المورد في الكلام عمل عمل المولد)وأنا أسوقه هنا برمته وأتكلّم عليه حرفاً حرفاً قال "الشيخ رحمه الله "الحمد لله الذي هدانا لا تباع........حمده ثناه كو بعد"أمّا بعد فانّه تكرر سؤال جماعة من المباركين عن الاجتماع الذي يعلمه بعض الناس في شهر ربيع الاول ويسمونه المولد هل له أصل في الشرع أو هو بدعة وحدث في الدين ومقصد وا الجواب عن ذلك .....ولا جائز أن يكون مباحاً باجماع المسلمين-
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلادالنبیﷺکے صفحہ نمبر 374)پر بخاری شریف کی حدیث حضرت عمر بن خطاب ﷜اس کے راوی ہیں کہ یہودی نے کہا اے امیر المؤمنین ایک آیت جو قرآن سے تم پڑھتے ہو وہ کونسی ہے ؟تو حضرت عمر ﷜نے فرمایا وہ آیت یہ ہے (الیوم اکملت لکم دینکم...ورضیت لکم الاسلام دینا )ہےتو یہودی نے کہا اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کو بطور عید کے مناتے مگر حضرت عمر﷜ نے جواب دیا ہم جگہ اور دن کو جانتے ہیں جب یہ نازل ہوئی (نزلت فیہ علی النبی ﷺ وھو قائم بعرفۃ یوم الجمعۃ......بخاری شریف :کتاب الایمان ’’باب زیادۃ الایمان ونقصانہ‘‘حدیث نمبر 45صفحہ نمبر11:دارالسلام ریاض)
تحقیق المسئلۃ:
٭۔ملاّ علی قاری حنفی ﷫اپنی کتاب (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد نمبر 1صفحہ نمبر 264)پر آیت(الیوم اکملت اکم ........)کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے
ہیں’’انّ رجل من اليهود اسم هذا الرجل هو (كعب الاحبار )فان قلت كيف طابق الجواب السؤال لانّه قال لا تخذناه عيداً فقال عمر رضي الله عنه عرفنا أحواله ولم يقل جعلناه عيداً قلت لما بيّن ان يوم النزول كان عرفه ومن المشهور ات ان اليومم الذي بعد عرفه عيد للمسلمين فكأنه قال جعلناه عيداً بعد ادراكنا استحقاق ذلك اليوم للتعبد فيه قلب فلم ماجعلو ا يو م النزول عيداّ قلت لانه ثبت في الصحيح ان النزول كان بعد العصر ولا يتحقق العبد الامن أول النهار "
٭۔عماد الدين ابي الفداء اسماعيل بن كثير القرشي الدمشقي اپنی کتاب (تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 19)پر(الیوم اکملت لکم ...) کی تشریع کرتے فرماتے ہیں :فلا حلال الاّ ما احلّه ولا حرام الاّ ما حرّمه ولا دين الاّما شرعه"آگے چل کر صفحہ نمبر 20 پر ابن عباس ﷜ کے حوالے سے فرماتے ہیں (الیو م اکملت لکم)کی وضاحت کرتےفرماتےہیں :وهو الاسلام أخبر الله نبيه والمؤمنين أنه قد أكمل لهم الايمان فلا يختاجون الي ذيادة أبداً وقد أتمه الله فلا ينقصه أبداً-
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺکے صفحہ نمبر 381)پرمیلاد النبی ﷺ منانے پر سنت سے دلیل ذکر کرتے ہیں :
حدیث:
عن أنس أنّ النبي ﷺ عقّ عن نفسه بعد النبوة(...........)سے استدلال کرتے قادری صاحب فرماتے ہیں کہ حب اپنی ولادت کی خوشی میں حضورﷺ نے خود بکرے ذبح کر کے کھلائے تو ہم کیوں میلاد نہیں منا سکتے ؟اس کے مندرجہ ذیل جوابات ہیں:
1۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 382ٰ)پٗر امام سیوطی ﷫کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام سیوطی ﷫ نے فرمایا ’’جب حضورﷺ کے دادا عبد المطلیب نے آپﷺ کی ولادت کے ساتویں روز حضور ﷺ کا عقیقہ کیا ہے تو آپﷺ کا بعد میں عقیقہ کرنا عقیقہ نہیں ہو گا کیونکہ عقیقہ زندگی میں ایک دفعہ ہی ہوتا ہے ‘‘جبکہ قادری صاحب پھر بھی کہتے ہیں کہ احتمال یہی ہے کہ حضور ﷺ نے بعد میں عقیقہ آپنی ولادت کی خوشی میں کیا ہے‘یہ انداز میں نہ مانوں والا انداز ہے
نوٹ:قارئین بتلائیں کہ قادری صاحب کا یہ کہنا کہ احتمال ہے کہ ولادت کی خوشی میں ہی حضور ﷺ نے عقیقہ کیا یہ احتمال قادری صاحب کی ضد اور ھدرمی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ ہی جاہل اور مجتہد ارو محقق کے درمیان بنیادی فرق ہے ۔
2۔ احمد بن علی بن حجر العسقلانی ﷫اپنی کتاب (فتح الباری شرح صحیح بخاری کے جلد نمبر 12جزء نمبر 9 صفحہ نمبر 742)پر مذکورہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ’’وكأنّه أشاربذلك الي أنّ الحديث الذي وارد أنّ النبي ﷺ عق ّ عن نفسه بعد النبوة لا ثيب!وقال النبرار تفرد به عبد الله وهوضعيف وأخرجه ابو الشيخ مِن وجهين آخرين!آحدهما مِن روتية اسماعيل بن مسلم عن قتادة واسماعيل ضعيف أيضاً-
3- ابي الفداء محمد عبد الرحمٰن ابن عبد الرحيم المبارك فوري
اپنی کتاب (تحفۃ الاحوذی شرح ترمزی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 97)پر لکھتے ہیں :أخرجه ابوالشيخ من وجهين وقد قال عبد الرزاق "انّهم من رواية ابي بكر المستملي عن الهيثم بن جميل وداود بن حجر قال حدّثنا عبد الله بن المثني عن ثمامة عن انس وداود ضعيف-
4-مزید لکھتے ہیں کہ ’’ويحتمل أو يقال انّ صحّ هذا الجزءكان مِن خصائصه ﷺكما قالوا في تضحيته عمن لم يضح من أمته انتهي (تحفة الاحوذي جلد 5صفحه نمبر 97)
5-امام سیوطی ﷫ اپنی کتاب (الحاوی للفتاویٰ:جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 261)پر لکھتے ہیں کہ ’’قلت وقد ظهر لي تخريجه علي أصل آخر وهو ما أخرجه البيهقي عن انس أنّالنبي ﷺ عقّ عن نفسه بعد النبوة مع أنّه قد ورد أنّ جدّه عبدالمطلب عقّ عنه في سابع ولادته والعقيقة لا تعاد مرّة ثانية فيحمل ذلك علي أنّ الذي فعله النبي ﷺ اظهار للشكر علي ايجاد الله ايّاه رحمة للعالمين-
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بدعت کی لغوی تعریف!
بدعت کی لغوی تعریف:قادری صاحب خود( المنجد)کے حوالے سے بدعت کی لغوی تعریف کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ’’بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ (بدع)سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے ’’اخترعۃ وصنعہ لا مثال‘‘یعنی نئی چیز ایجاد کرنا اور اسے نیابنانا کہ اس کی مثل چیز کا پہلے وجود نہ ہو۔آگے چل کر امام ابن حجر ﷫کی بیان کردا بدعت کی تعریف(فتح الباری جلد4 )کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ امام موصوف ﷫نے فرمایا’’البدعۃ اصلھا ما احدث علی غیر مثال سابق‘‘کہ بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر سابقہ نمونہ کےایجاد کیا گیا ہو(میلاد النبی ﷺ صفحہ نمبر 673)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بدعت کی اصطلاحی تعریف !٭۔امام ابن تیمیہ ﷫ بدعت کی اصطلاحی تعریف ذکر کرتے ہیں کہ’’فانّالبدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي(منهاج السنة :جلد نمبر 4 صفحه نمبر 224)
٭۔الشیخ ابن باز ﷫ بدعت کی اصطلاحی تعریف ذکر کرتے ہیں کہ’’عبادات میں وہ ایجاد کردا فعل جو قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے عمل کے مطابق نہ ہو(مجموعہ فتاوی ٰ ابن باز :جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 873)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
سنت اور ثقافت میں فرق!
سنت کا لغوی اور اصطلاحی معنیٰ پیچھے گزر چکا ہے ۔
’’وہ طریقہ یا راستہ جس پر قرآن وسنت سے کوئی دلیل موجود ہو یا صحابہ ﷢ کےعمل سے ثابت ہو ‘‘
ثقافت کا لغوی معنیٰ!لغوی اعتبار سے ثقافت کہتے ہیں ’’تہذیب ‘طرز تمدن‘‘وغیرہ(آئینہ اردو لغت:صفحہ نمبر 573)
ثقافت کا اصطلاحی معنیٰ!ثقافت کا اصطلاحی معنیٰ یہ ہے ’’انسانو ں کی مجموعی طرز زندگی اور طرز معاشرت کو ثقافت کہتے ہیں‘‘(اسلامی انسائیکلوا پیڈیا جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 625)
ثقافت اور بدعت میں فرق!
بدعت:بدعت کی لغوی و اصطلاحی تعریف سے پتہ چلا کہ ’’بدعت اس چیز کو کہتے ہیں کہ جورضاء الہی اور ثواب کی نیت سے عبادات میں اضافہ داخل کردیا جائے جوقرآن وسنت اور خلفاء راشدین کے عمل سے ثابت نہ ہو‘‘
ثقافت !ثقافت کی مذکورہ تعریف سے معلوم ہوا کہ’’ثقافت اس کو کہتے ہیں کہ جس کا تعلق لوگو ں کی معاشرت اور رہن سہن سے ہےناکہ ثواب اور عقاب سے اگرچہ یہ بھی جب حضور نبی کریم ﷺ کے طریقہ اور اسواء رسول کے مطابق ہو نا چاہے تو اس پر بھی اتباع سنت کی وجہ سے ثواب ہو گا بصورت دیگر اس کے نہ کرنے پر کوئی سزا وارد نہیں ہو گی اسی طرح اس میں اضافہ بھی جائز ہو گا بشرط کے یہودیٰ و نصاریٰ کی مشابہت نہ ہو اور شریعت کی مخالفت نہ ہو ‘‘
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
میلاد النبیﷺ کے بدعت اور ثقافت ہونے کا مسئلہ!
جب ہم نے ثقافت اور بدعت کی تعریف اور فرق آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر دیا تو اب ہم آپ حضرات می توجہ اس بات کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں آیا کہ’’میلادالنبی ﷺ کو ثواب کی نیت سے منایا جاتا ہے یا ثقافت اور کلچر سمجھ کر منایا جاتا ہے؟ یا اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں میلاد النبی ﷺ کو عبادات میں شمار کریں گے یا معاملات میں ؟پھر اگر اس کو عبادات میں شامل کریں گے تو اصول فقہ کا قائدہ ہمیشہ آپ حضرات کے سامنے رہنا چاہے تاکہ حق حق اور نا حق ‘سنت اور بدعت میں فرق کرنا آسان ہو جائے((اصول فقہ کا قاعدہ یہ ہے کہ ’’عبادات میں اصل حرمت ہے الاّ کے اباحت کی دلیل مل جائے اور معاملات میں اصل اباحت ہے الاّکہ حرمت کی دلیل مل جائے یا اسطرح کہ عبادات میں اصل نفی ہے الاّ کہ اثبات کی دلیل مل جائے اور معاملات میں اصل اثبات ہے الاّ کہ نفی کی دلیل مل جائے))
نوٹ:آئیے اب مذکورہ قاعدے کی روشنی میں قادری صاحب کے نظریہ ’’اثبات میلاد النبی ﷺ‘‘ کا محققانہ جائزہ لیتے ہیں کہ آیا وہ سنت کی ترویج و نشروع اشاعت کر رہا ہے یا بدعت کی اشاعت میں آپنی اور لوگوں کی آحرت برباد کرنے کی سعی کر رہا ہے ؟قادری صاحب کی ہی کتاب سے چند ایک اقتباسات بطور ثبوت آپ حضرات کے سامنے پیش کرتے ہیں تا کہ آپ حضرات خو د فیصلہ کر سکیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا ‘ سنت کیا ہے اور بدعت کیا ہے ‘‘
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
قادری صاحب کی بہتان تراشیاں!
1۔اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی:
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺ کے صفحہ نمبر 349)پر لکھتے ہیں کہ ’’سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ نے آمد رسول ﷺ پر خوشی اور جشن منانے کا حکم تو دیا لیکن کیا اس نعمت کی آمد پر خود بھی جشن منایا اور خوشی کا اظہار کیا ؟تو خود ہی کہتے ہیں یہ واقع ہی بڑی بات تھی تو خود اللہ نے بھی اس کی ولادت پر جشن منایا ہوگا؟
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب میلاد النبی ﷺکے صفحہ نمبر 349)پر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت پرخوشی منائی۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 352)پر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حضورﷺ کی آمد کی خوشی میں پورا سال لڑکیوں کی پیدائش کو موقوف کر کے دنیا کو لڑکے عطا کر کے جشن میلاد النبیﷺمنایا۔
٭۔ قادری صاحب اپنی کتاب(میلاد النبی ﷺکے صفحہ نمبر 358)پر لکھتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ محبوب کے میلاد پر چراغہ کیا چائے تو نہ صرف شؤق و غرب تک کی کائنات کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستارو ں کو قمقے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺکے صفحہ نمبر 806)پرلکھتے ہیں کہ جشن میلاد النبی پر چراغہ کرنا خود ربّ ذوالجلال کی سنت بھی ہے۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺ کے صفحہ نمبر 349)پر لکھتے ہیں کہ اللہ ربّالعزت نے حضورﷺ کی ولادت اور اس نعمت عظمیٰ کے حصول پرنہ صرف ہمیں جشن منانے کا حکم دیا بلکہ اپنے عمل اور سنت مبارکہ سے جشم منا کر دکھایا بھی ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 358)پرلکھتے ہیں کہ حضرت آمنہ سے منقول روایت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے جشن میلاد میں جھنڈے بھی لہرائے گئے ۔
فرشتو ں اور حوروں پر بہتان!
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺکے صفحہ نمبر 359)پرلکھتے ہیں کہ ظہور قدسی کے وقت حوروں نے حضرت آسیہ اور حضرت مریم کی قیادت میں حضورﷺ کا استقبال کیا۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب(میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر361)پر لکھتے ہیں کہ ولادت مصطفیٰﷺ کے وقت نہ صرف جنت کی حوریں اور فرشتے آپﷺ کے استقبال اور خوشیاں منانے کے لیےآپﷺکی جائے ولادت پر آئے ۔
رسول اللہ ﷺ پر بہتان !
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺکے صفحہ نمبر 743)پر لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے دور میں ہماری طرز پر میلاد النبیﷺ کی محافل منعقد ہوتیں ‘خود کرواتے بھی اور شریک بھی ہوتے۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺ کے صفحہ نمبر 817)پر لکھتے ہیں کہ عہد رسالت میں میلاد النبی ﷺ کے جلوس نکالے جاتے جن میں خود صحابہ اکرام شریک ہوتے۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺکے صفحہ نمبر 362)پر امام سیوطی ﷫کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’حضور نبی کریمﷺ نے خود بھی اپنا میلاد منایا ہے اس لحاظ سے یہ سنت رسول ﷺبھی ہے ۔
صحابہ اکرام ﷢پر بہتان!
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 718)پر لکھتے ہیں کہ میلاد کے جلوس نکالنا خود حضورﷺ اور صحابہ اکرام ﷢ سے ثابت ہے بلکہ خود صحابہ اکرام جلوسوں میں شریک ہوتے ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 383)پر لکھتے ہیں کہ جشن میالد منانا اللہ تعالیٰ ‘خود حضورﷺاور صحابہ اکرام کی سنت ہے۔
 
Top