• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن میلاد اور حکومت کی ذمہ داری !

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
قادری صاحب کی کتاب کے اقتباسات !
٭قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺکے صفحہ نمبر 960)پر لکھتے ہیں کہ’’جشن میلاد النبیﷺ کی محفلیں منعقد کرنا‘صدقہ و خیرات کرنا‘اور اسکے لیے جانی اور مالی‘عملی اور فکری غرضکہ ہر قسم کی قربانی اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبوب خدا کی خوشنودی کے لیے ہونی چاہئے۔
٭قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 963)پرلکھتے ہیں کہ’’میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے والا‘اس کا عقیدہ رکھنے والا‘جلوس کا اہتمام کرنے والا ایک طرف تو حضور ﷺ سے اتنی محبت کرے کہ میلاد النبیﷺ کی خوشی کو جزء ایمان سمجھے یہ سب کچھ اپنی جگہ درست اور حق ہیں۔
٭ قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی کے صفحہ نمبر 933)پر لکھتے ہیں کہ’’ہمارے نزدیک حضور نبی کریم ﷺ سے محبت اصل ایمان ہے اور اس ٰکا مؤثر ترین اظہار جشن میلاد النبی ﷺ منا کر ہی ہوتا ہے ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبی ﷺکے صفحہ نمبر 409)پر لکھتے ہیں کہ ولادت مصطفٰی ﷺپر جشن منانا ایمان کی علامت ہے ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر 353)پر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود میلادالنبیﷺکا جشن منایا۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب میلاد النبی ﷺ کے صفحہ نمبر 362)پر لگھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے خود جشن میلاد منایا۔
٭قادری صاحب اپنی کتاب میلاد النبیﷺ کے صفحہ نمبر400)پرلکھتے ہیں کہ حضور اکرمﷺکے ذکرجمیل کے ہزاروں طریقوں میں سے ایک طریقہ جو قرون اولیٰ سے چلا آ رہا ہے ’’محافل میلاد کا اہتمام کرنا ہے ۔
٭۔قادری صاحب اپنی کتاب (میلاد النبیﷺکے صفحہ نمبر 959)پر لکھتے ہیں کہ اعمال حسنہ اور عبادت و ریاضت میں کثرت پر فخر اور غرور کرنا اور اسی پر ہی بھروسہ کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیرہ کے مقابلہ میں حضور اکرم ﷺکی آمد کی خوشی منانا اللہ کی نگاہ میں زیادہ افضل ہے ۔
نوٹ:قارئین قادری صاحب کی جہالت پر مبنی باتیں اور قادری صاحب کا نظریہ انحراف عبادت کس قدر کذب بیانی اور گمراہی کی عقاسی کرتا ہے اور کس قدر عبادت کی حقیقت کو مسخ کرنے والا ہے ذرا فیصلہ خوود کریں ۔
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بدعتی کا حکم قرآن و سنت اور اقوال صحابہ و آئمہ محدثین کی روشنی میں:
قرآن:
٭۔ام لھم شرکاء شرعولھم من الدین ما لم یاذن بہ اللہ (صورۃ:شوریٰ......)
٭۔فلیحذ رالذین ........عذاب الیم(توبہ:63)
٭۔واتل علیھم نباء الذی اتینہ آیتناٰ(الاعراف :175۔176)
٭۔افمن زیّن لہ سوء عملہ(الفاطر :8)
٭۔افمن کان علی بیّنۃ من رتبہ(محمد:14)
٭۔قل ھل ننبئکم(الکھف:103۔106)
احادیث:
٭۔ابراھیم بن میسرۃ آپﷺ سے نقل کرتے ہیں قال رسو ل اللہﷺمن وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام (فتح الباری :جلد نمبر 28صفحہ نمبر 44)
٭۔قال رسول اللہ ﷺالالیذادنّ رجال عن حوض کما یزاد البعیر الضال انّھم قد بدّلوا بعدک سحقاًسحقاً.........)
٭۔مَن رغب عن سنّتی فلیس مِنّی..............)
٭۔انّک لا تدری ما احدثوا بعدک...............)(بخاری :6585)
٭۔عن ّعلی ﷜ قال رسول اللہ ﷺ لعن اللہ مَن ذبح لغیر اللہ ولعن اللہ مّن سرق ضارالارض ولعن اللہ من لعن والدہ ولعن اللہ من آذیٰٖ محدثاً(مسلم:کتاب الاضاحی !باب تحریم الذبح لغیر اللہ :حدیث نمبر 1978)
عن ابی ھریرۃ ﷜ انّ رسول اللہ ﷺ قال ! ومن دعا الی ضلالۃ کان علیہ مِن الاثم مثل آثام مَن یّتبعہ لا ینقص ذلک مِن آثامھم شیاءً(مسلم:کتاب العلم ‘‘حدیث نمبر 2674)
اقوال صحابہ:
٭۔عن ابن مسعود﷜ انّہ سمع قوماً اجتمعوا فی مسجد یھلّلون و یصلّون علی النبی ﷺ جھراً فقام الیھم فقال ما عھد نا ذلک فی عہد وما اراکم الاّ مبتدعین وما زال یذکر ذلک حتّی اخرجھم من المسجد..............)
٭۔تابعی :عن حسان بن عطیہ ﷫ قال ما ابتدع قومً بدعۃ فی دینھم الاّ نزع اللہ مِن سنتھم مثلھا ثمّ لا یعید ھا الیھم الی یوم القیامۃ (دارمی مقدمہ)
٭۔امام بضاوی ﷫:سورۃ کہف کی آیت (الذین سعیھم )کےے تحت رقمطراز ہیں کہ ’’کا لرہبانیۃ فانّھم خسروا دیناھم وآخرھم وھم یحسبون انّھم یحسنون صنعا ...واعتقادھم انھم علی الحق(تفسیر بضاوی :395)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بدعت کی شرعی حثیت:
قرآن :
٭۔واذا زیّن لھم الشیطان (الا انفال )
حدیث:
٭۔من رغب عن سنتی فلیس مِنّی (................)
٭۔من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ..............)
٭۔الحلال بیّن والحرام بیّن و بینھما المشتبھات .......ومن وقع فی الشبہات وقع فی الحرام(بخاری :جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 13)
٭۔کلّ محدثۃ بدعۃ وکل ّ بدعۃ ضلالۃ وکلّ ضلالۃ فی النّار (نسائی ‘مرقاۃ:جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 217)
صحابی کا قول :قال عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما !کل ّ بدعۃ ضلالۃ وانّ راھا الناس حسینۃ (السنۃ :للمروزی ‘‘صفحہ نمبر 68)
تابعی :قال سفیان الثوری ﷫!البدعۃ احبّ الی ابلیس من المعصیۃ المعصیۃ یتاب منھا والبدعۃ الا یتاب منھا (فتاویٰ امام ابن تیمیہ ﷫:جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 9)
آئمہ محدثین:
٭۔ابن جوزی ﷫:انھم لقبروا علی غیر اصل فابتدعوا فحزو الاعمار والاعمال (فتح الباری :جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 40)انّ ہولاء القوم یبتدعون فی العقائد ویراؤن بالاعمال فلا یعود وبال البدعۃ والریا الا الیھم (روح البیان :جلد نمبر 5 صفحہ نمبر304)
مجدد الف ثانی ﷫:ضرر فساد مبتدع زیادۃ از فساد صحبت کافر است(مکتوبات ‘دفتر اول ‘مکتوب نمبر 549)
٭۔امام مالک﷫ :من ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم انّ محمداًﷺ خان الرسالۃ لانّ اللہ تعالیٰ یقول’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی(متاب الاعتصام :للشا طبی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 47)
٭۔ ملاعلی قاری حنفی ﷫:اھل الفتن ای من الیغاۃ والخوارج والروافض و سائر اھل البدعۃ (مرقاۃ جلد نمبر 11)
٭۔ علامہ شامی حنفی ﷫:لاشک ان فعل الصحابۃ حجۃ وما راہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن (شامی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 207)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
میلادیوں کو دعوت فکر:
قرآن:
٭۔ولا تتبع الھویٰ...........(ص:26)
٭۔ومن اضلّ ............(القصص:50)
٭۔و انّ ھذا صراطی مستقیما..(الانعام:153)
حدیث:
٭۔الحلال بین والحرام بین وبینھما المشتبھات...........)
٭۔عن عبد اللہ بن مسعود﷜قال! خطّا لنا رسول اللہ ﷺ خطّاً ثمّ قال ’ھذا سبیل اللہ ‘ثمّ خطذ خطّ خطوطاّ عن یمینہ و عن شمالہ وقال ! ھذا سبل ُُُُعلی کلّ سبیل منھا شیطان یدعوا الیہ وقرء ’’وانّ ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ......(قال الحاکم ھذا حدیث صحیح الاسناد :المستدرک علی الصحیحین :بتحقیق مصطفیٰ قادر عطاؤ:جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 318)وقال البانی﷫ اسنادہ حسن(مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق علامہ البانی ﷫ :حدیث نمبر 1166)
٭۔عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ انّ رسول اللہﷺ قال ! من دعا الی ھدی کان لہ مِن الاخر مثل اجورمن یتبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئاً(مسلم :کتاب العلم :حدیث نمبر 2674)
٭۔قال عبد اللہ بن عمر ﷜ !کل بدعۃ ضلالۃ وان راھا الناس حسنۃ(السنۃ :للمروزی :صفحہ نمبر 68)
٭۔من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ(...............)
٭۔کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار(..............)
٭۔سیدنا عمر ﷺ کا قول :نعمۃ البدعۃ ھذا(.............)باجماعت نماز تراوی ‘‘
٭۔ابن تیمیہ ﷫ فرماتے ہیں :لیس بدعۃشرعیۃ !فان البدعۃ الشرعیۃ التی ھی ضلالۃ ما فعل بغیر دلیل شرعی (منہاج السنۃ :صفحہ نمبر 224)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
جناب عالی ابھی بھی اگر سمجھ نہیں آئی تو ایک بار پھر میں بدعت کی تعریف آپ کو سمجھا نا چاہتا ہو آئے مجھےآپ نے کہا کے بدعت کی تعریف سے واقف نہیں ذرا سنیں ! ٭بدعت کی لغوی بحث!
لفظ بدعت بدع یبدع سے فعل ماضی ہےاور اس کا عربی بدعۃ بدع سے مشتق ہے جس کا معنی ہے دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی چیز داخل کرنا جس کا ثبوت شریعت محمدی سے نہ ملتا ہو جیسا کہ لغۃ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے۔
1
۔استنبطھا واحدثھاوالبدعۃ‘‘الحدث وماابتدع من الدین بعدالاکمال(جلد نمبر 6صفحہ نمبر 82)
2
۔کل محدثة بدعة‘‘انّما يريد ما خلف اصول الشريعة ولم يوافق السنّة اوقال (ابوعدنان)المبتدع الذي ياتي امرًا علي شبه لم يكن ابتداه ايّاه او فلان بدع في هذا لامر ايﷺلم يسبقه اًحد(ماده"بدع"لسان العرب جلد نمبر 8صفحه نمبر6)
3-والبدعة بالكسر!الحدث في الدين بعد الاكمال او ما استحدث بعد النبي(ﷺ)من الاهواء والاعمال (القاموس المحيط جلد نمبر 3 صفحه نمبر3)
4-ابدعت الشيء قولاً او فعلاًاذا ابتداته لا عن سابق مثال (والله بديع السموٰت والارض)والعرب "تقول"ابتدع فلان الرّكي اذا استنبطه وفلان بدع في هذاالامر(معجم مقاييس اللغة للابي الحسن احمد بن فارس بن ذكريا....جلد نمبر1صفحه نمبر 209)
5-ابدعت الشيء لا عن مثال "اذاكلّت ركابة
وسمّيت البدعة لان قائلها ابتدعها من غير مقال اِمام(معجل اللغة جلد نمبر1صفحه نمبر118)
6-بدعتی کی تعریف کرت
ے ہوئےصاحب تاج العروس والے لکھتے ہیں......المبتدع!يقال جئت بامربديعِِاي محدث عجيب لم يعرف قبل ذلك(تاج العروس جلد نمبر 5صفحه نمبر 370)قاله الكسائي اي صار غاية في وصفه خيرًا كان او شرًا(والبدعة بالكسر الحدث في الدين بعدالاكمل )ومنه الحدث:اياكم والمحدثات الامور فاِنّكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة(اوهي)ما استحدث بعدالنبي من الا هواء والاعمال وهذا قول الليث(تاج العروس :جلد نمبر 5صفحه نمبر 371
7-البدعة :دین می
ں نئی چیز پیدا کرنا اور ابدع کا معنی بدعت جاری کرنا اور بَدع (ضمہ سے)بمعنی کسی کام میں انتہا کو پہنچاخواہ وہ کا اچھا ہو یا برا ہو(معجم الوسی صفحہ نمبر 58)
8
۔ابتدع ’’بدعت جاری کرنا نئی چیز پیدا کرنا ایجاد کرنا (القاموس الوحید.صفحہ نمبر 153)
9
۔ابدع!اذاطلبت الباطل ابدع بک(معجم الامثال العربیہ’’جلد نمبر 1 صفحہ نمبر143)
10
۔والبدعۃ فی المذہب ایراد قول لم یستنّ قائلھاو فائلھا فیہ بصاحب الشریعۃ و اماتلھا المتقدمۃ واصولھا المتقنۃ وروی کلّ محدثۃ بدعۃ وکلّ ضلالۃ وکلّ ضلالۃ فی النار(المفردات فی غریب القرآن...صفہ نمبر37)
11
۔ابن حجر العسقلانی!البدعۃ اصلھا مااحدث علی غیرمثال سابق(فتح الباری جلدنمبر 4صفحہ نمبر 219)
112
۔قادری صاحب لکھتے ہیں’’بدعت‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہےاس کا معنیٰ ہے ’’اخترعہ وصفہ لاعلی مثال(المنجد کے حوالے سے اپنی کتاب میلاد النبی کے صفحہ نمبر 673)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بدعت کی اصطلاحی بحث!
٭
يلنووی فی التھذیب الاسماء والغات‘‘البدعۃ فی الشرع ھی احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم
( الحاوی للفتاوی...جلد نمبر1 صفحہ نمبر255)
٭امام شاطبی بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’بدعت دین میں میں ایجاد کردہ اس طریقہ کا نام ہےجس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو(الاعتصام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 37)
٭شیخ بن باز﷫بدعت کی تعریف یوں بان کرتے ہیں کہ’’عبادت میں ایجاد کردہ وہ فعل جس پر قرآن وسنت و خلفاء راشدین کے عمل کے مطابق نہ ہو
(مجموعہ فتاوٰی ابن بازجلد نمبر 2 صفحہ نمبر837)
٭ابن رجب ﷫رقمطراز ہیں کہ’’بدعت ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہ ہو(جامع العلوم والحکم ...صفحہ نمبر 252)
٭امام ابن تیمیہ﷫ بدعت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں’’انّما
اسمھا لانّ ما فعل ابتداء بدعت لغۃ ولیس ذلک بدعۃ شرعیۃفانّ البدعۃ الشرعیۃ التی ھی ضلالۃما فعل بغیر دلیل شرعیی(منہاج السنّۃ جلد نمبر 4صفحہ نمبر 224)
٭امام نووی بدعت کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ’’کلّ شیء عمل علی غیر مثال (شرح مسلم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 285)
٭ابن رجب حنبلی﷫بدعت کی تعریف بیان کرتے ہیں’’المراد بالبدعۃ ما احدث مما لا اصل لہ فی شریعت یدل علیہ و امّا ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ فلیس ببدعۃ شرعًا وان کان ببدعۃ لغۃ(جامع العلوم والحکم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 252)
٭قادری صاحب بدعت کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے فرماتے ہیں کہ’’کسی عمل کو فقط بدعت کہنے سے وہ ناجائز نہیں ہوتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرے گا کہ اس پر قرآن و سنت اور عمل صحابہ سے کوئی سند اور دلیل نہیں ہے(میلاد النبی..صفحہ نمبر 703)

٭نبی ﷺ نے بدعت کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا .من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ(ابن ماجہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7حدیث نمبر 14 باب تعظیم حدیث رسول اللہﷺ)
٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ(مسلم..باب الاقضیۃ’’جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 1343)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
محدثین کی نظر میں بدعت کی تعریف!
٭امام مسلم﷫ سے صحیح مسلم میں کتاب الاقضیۃ کے تحت باب باندھا ہے باب نقض الاحکام الباطلۃ وردّ محدثات الامور ’’کے تحت حدیث نمبر 4492 لائے ہیں
.....من احدث فی امرنا ھذا مالیس من فھو ردّ!اور حدیث نمبر 4493 ل من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ(صحیح مسلم صفحہ نمبر 762)
٭اماتم ابن ماجہ سنن ابن ماجہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’ومن ابتدع بدعۃ لا یرضا ھا اللہ ورسولہ(مقدمہ ابن ماجہ)
٭امام ابن حجر﷫ فتح الباری میں کتاب الصلح کے تحت با ب لائے ہیں’’باب اذا اصطلحوا علی صلح جورِِ فالصّلح مردود‘‘کے تحت حدیث ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ قالت قال!رسول اللہ‘‘من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو ردّ(حدیث نمبر 2697 فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 377)اس کی تشریع میں امام ابن حجر عسقلانی ﷫اپنی کتاب فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 379پر فرماتے ہیں....وھذا لحدیث معدود من اصول الاسلام وقاعدۃ من قواعدہ فانّ معناہ من اخترع فی الدین مالا شھید لہ اصل من اصولہ فلا یلتفت الیہ آگے چل کر امام ابن حجر عسقلانی امام نووی ﷫کا قول نقل کرتے ہیں...قال النووی !ھذا الحدیث مما ینبغی ان یقنی بحفظہ واستعمالہ فی ابطال المنکر و اشاعۃ الاستدلال بہ کذلک(فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 379)آگے چل کر امام ابم حجر العسقلانی ﷫ فرماتے ہیں ’’وقولہ’’رد‘‘معناہ مردود من اطلاق المعدود علی اسم المفعول مثل خلق ومخلوق و نسخ ومنسوخوکانہ قال !فھو باطل غیر معتدبہ‘والفظ الثانی وھو قولہ’’من عمل ‘‘اعمّ من اللفظ الاول وھو قولہ’’من احدث‘‘فیحتج بہ فی ابطال جمیع القعودالمنھیۃ وعدم وجود ثمر اتھا المر تبۃ علیھا وفیہ ردّ المحدثات وان النھیی یقتفی الفساد لان المنھیات کلّھا لیت من امر الدین فیجب ردّھا وستیفاد منہ ان حکم الحاکم لا یغیّر ما فی باطن الامر لقولہ(لیس علیہ امرنا)والمراد بہ امرنا الدین وفیہ ان الصلح الفساد منتقض والماخوذ علیہ مستحق الرد(فتح الباری جلد نمبر 6صفحہ نمبر 380)
٭ملا علی قاری !سورۃمائدہ کی آیت نمبر 3 کے تحت﷾ فرماتے ہیں’’وقال المفسرون ھذا اکبرنعم اللہ عزّرجل علی ھذا الامۃ حیث اکمل لھم دینھم فلا یحتاجون الی دین غیرہ ولا الی النبی ﷺغیر نبیھم ولھذا جعلہ اللہ خاتم الانبیاء وبعثہ الی الانس والجنّ فلاحلال الاما احلّہ اللہ ولا حرّم الا ما حرمہ اللہ ولا دین الا ما شرعہ وکلّ شیء اخبربہ فھو حق وصدق لا کذب فیہ ولا خلف (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر 128جلد نمبر 18 صفحہ نمبر 199)
٭عبدالرحمٰن مبارکپوری ﷫ اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی شرح جامع تر مزی کے مقدمہ میں آیت ’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
امر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی ھذہ الایۃ کل ّ من یدعیٰ محبتہ ان یتبع محمداً ﷺ وما معنی ٰ اتباعہ الا اتباعہ ﷺ فی جمیع اقوالہ و افعالہ و احوالہ و ھدیہ ومجموع اقوالہ و افعالہ و احوالہ و ھدیہ ھو المعنی ٰبالاحادیث النبویہ فثبت ان من لم یتبع الاحادیث النبویۃ ولم یرا العمل بھا واجباً فھو فی دعوی ٰ محبتہ للہ تعالیٰ کاذب بلا مریۃ (تحفۃ الاحوذی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 34)
٭۔ابن تیمیہ﷫لکھتے ہیں :ولاریب ان مَن فعل البدع متأولاً مجتهداً او مقلّداً كان له اجرعلي حسن مقصده وعلي عمله مِن حيث ما فيه مِن المشروع وكان ما فيه مِن المبتدع مغفوراً له اذا كان في اجتهاد او تقليده مِن المعذور ين (طري الو صول الي العلم الماصول :صفحہ نمبر 136 طبع مصر)
٭پیر عبد القادر جیلانی ﷫ ’’بدعت کی تعریف اور اھل بدعت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بدعت ‘‘دین میں ہر ایسا نیاء عمل جس کی قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہ ملے وہ بدعت کہلاتا ہے اور بدعتی کو کو قیامت کے دن حوض ِ کوثر نصیب نہیں ہوگا (غنیۃ الطالبین حاشیہ نمبر 594 صفحہ نمبر 204 )آگے اھلۃ بدعت کی نشانیاں بیان کرتے فرماتے ہیں کہ یاد رکھو ’’کہ اھل بدعت کی کچھ مخصوص نشانیاں اور علامات ہیں کہ جن سے ان کو پہنچاننے میں کو ئی مشکل پیش نہیں آتی ’’مثلاً‘‘اھل بدعت اھل حدیث پر طعن وتشنیع کرتےہیں (غنیۃ الطالبین صفحہ نمبر 205)مزید لکھتے ہیں ’’بدعت سے دنیاوی معاملات مستثنٰی ہیں البتہ !دین میں ضرورت وقت‘حالات کے تقاضے‘کے نام پر کوئی کمی بیشی درست نہیں اگرچہ اسے بدعت حسنہ کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے اسلیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کو حسنہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ حسنہ بھی دین میں اضافے کی وجہ سے فی الحقیقت سئیہ ہی ہوتی ہے (غنیۃ الطالبین حاشیہ نمبر 594‘صفحہ نمبر 205)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
٭بدعت کی لغوی بحث!
لفظ بدعت بدع یبدع سے فعل ماضی ہےاور اس کا عربی بدعۃ بدع سے مشتق ہے جس کا معنی ہے دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی چیز داخل کرنا جس کا ثبوت شریعت محمدی سے نہ ملتا ہو جیسا کہ لغۃ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے۔
1
۔استنبطھا واحدثھاوالبدعۃ‘‘الحدث وماابتدع من الدین بعدالاکمال(جلد نمبر 6صفحہ نمبر 82)
2
۔کل محدثة بدعة‘‘انّما يريد ما خلف اصول الشريعة ولم يوافق السنّة اوقال (ابوعدنان)المبتدع الذي ياتي امرًا علي شبه لم يكن ابتداه ايّاه او فلان بدع في هذا لامر ايﷺلم يسبقه اًحد(ماده"بدع"لسان العرب جلد نمبر 8صفحه نمبر6)
3-والبدعة بالكسر!الحدث في الدين بعد الاكمال او ما استحدث بعد النبي(ﷺ)من الاهواء والاعمال (القاموس المحيط جلد نمبر 3 صفحه نمبر3)
4-ابدعت الشيء قولاً او فعلاًاذا ابتداته لا عن سابق مثال (والله بديع السموٰت والارض)والعرب "تقول"ابتدع فلان الرّكي اذا استنبطه وفلان بدع في هذاالامر(معجم مقاييس اللغة للابي الحسن احمد بن فارس بن ذكريا....جلد نمبر1صفحه نمبر 209)
5-ابدعت الشيء لا عن مثال "اذاكلّت ركابة
وسمّيت البدعة لان قائلها ابتدعها من غير مقال اِمام(معجل اللغة جلد نمبر1صفحه نمبر118)
6-بدعتی کی تعریف کرت
ے ہوئےصاحب تاج العروس والے لکھتے ہیں......المبتدع!يقال جئت بامربديعِِاي محدث عجيب لم يعرف قبل ذلك(تاج العروس جلد نمبر 5صفحه نمبر 370)قاله الكسائي اي صار غاية في وصفه خيرًا كان او شرًا(والبدعة بالكسر الحدث في الدين بعدالاكمل )ومنه الحدث:اياكم والمحدثات الامور فاِنّكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة(اوهي)ما استحدث بعدالنبي من الا هواء والاعمال وهذا قول الليث(تاج العروس :جلد نمبر 5صفحه نمبر 371
7-البدعة :دین می
ں نئی چیز پیدا کرنا اور ابدع کا معنی بدعت جاری کرنا اور بَدع (ضمہ سے)بمعنی کسی کام میں انتہا کو پہنچاخواہ وہ کا اچھا ہو یا برا ہو(معجم الوسی صفحہ نمبر 58)
8
۔ابتدع ’’بدعت جاری کرنا نئی چیز پیدا کرنا ایجاد کرنا (القاموس الوحید.صفحہ نمبر 153)
9
۔ابدع!اذاطلبت الباطل ابدع بک(معجم الامثال العربیہ’’جلد نمبر 1 صفحہ نمبر143)
10
۔والبدعۃ فی المذہب ایراد قول لم یستنّ قائلھاو فائلھا فیہ بصاحب الشریعۃ و اماتلھا المتقدمۃ واصولھا المتقنۃ وروی کلّ محدثۃ بدعۃ وکلّ ضلالۃ وکلّ ضلالۃ فی النار(المفردات فی غریب القرآن...صفہ نمبر37)
11
۔ابن حجر العسقلانی!البدعۃ اصلھا مااحدث علی غیرمثال سابق(فتح الباری جلدنمبر 4صفحہ نمبر 219)
112
۔قادری صاحب لکھتے ہیں’’بدعت‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہےاس کا معنیٰ ہے ’’اخترعہ وصفہ لاعلی مثال(المنجد کے حوالے سے اپنی کتاب میلاد النبی کے صفحہ نمبر 673)
٭بدعت کی اصطلاحی بحث!
٭
يلنووی فی التھذیب الاسماء والغات‘‘البدعۃ فی الشرع ھی احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم
( الحاوی للفتاوی...جلد نمبر1 صفحہ نمبر255)
٭امام شاطبی بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’بدعت دین میں میں ایجاد کردہ اس طریقہ کا نام ہےجس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو(الاعتصام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 37)
٭شیخ بن باز﷫بدعت کی تعریف یوں بان کرتے ہیں کہ’’عبادت میں ایجاد کردہ وہ فعل جس پر قرآن وسنت و خلفاء راشدین کے عمل کے مطابق نہ ہو
(مجموعہ فتاوٰی ابن بازجلد نمبر 2 صفحہ نمبر837)
٭ابن رجب ﷫رقمطراز ہیں کہ’’بدعت ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہ ہو(جامع العلوم والحکم ...صفحہ نمبر 252)
٭امام ابن تیمیہ﷫ بدعت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں’’انّما
اسمھا لانّ ما فعل ابتداء بدعت لغۃ ولیس ذلک بدعۃ شرعیۃفانّ البدعۃ الشرعیۃ التی ھی ضلالۃما فعل بغیر دلیل شرعیی(منہاج السنّۃ جلد نمبر 4صفحہ نمبر 224)
٭امام نووی بدعت کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ’’کلّ شیء عمل علی غیر مثال (شرح مسلم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 285)
٭ابن رجب حنبلی﷫بدعت کی تعریف بیان کرتے ہیں’’المراد بالبدعۃ ما احدث مما لا اصل لہ فی شریعت یدل علیہ و امّا ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ فلیس ببدعۃ شرعًا وان کان ببدعۃ لغۃ(جامع العلوم والحکم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 252)
٭قادری صاحب بدعت کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے فرماتے ہیں کہ’’کسی عمل کو فقط بدعت کہنے سے وہ ناجائز نہیں ہوتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرے گا کہ اس پر قرآن و سنت اور عمل صحابہ سے کوئی سند اور دلیل نہیں ہے(میلاد النبی..صفحہ نمبر 703)

٭نبی ﷺ نے بدعت کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا .من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ(ابن ماجہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7حدیث نمبر 14 باب تعظیم حدیث رسول اللہﷺ)
٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ(مسلم..باب الاقضیۃ’’جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 1343)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
محدثین کی نظر میں بدعت کی تعریف!
٭امام مسلم﷫ سے صحیح مسلم میں کتاب الاقضیۃ کے تحت باب باندھا ہے باب نقض الاحکام الباطلۃ وردّ محدثات الامور ’’کے تحت حدیث نمبر 4492 لائے ہیں
.....من احدث فی امرنا ھذا مالیس من فھو ردّ!اور حدیث نمبر 4493 ل من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ردّ(صحیح مسلم صفحہ نمبر 762)
٭اماتم ابن ماجہ سنن ابن ماجہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’ومن ابتدع بدعۃ لا یرضا ھا اللہ ورسولہ(مقدمہ ابن ماجہ)
٭امام ابن حجر﷫ فتح الباری میں کتاب الصلح کے تحت با ب لائے ہیں’’باب اذا اصطلحوا علی صلح جورِِ فالصّلح مردود‘‘کے تحت حدیث ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ قالت قال!رسول اللہ‘‘من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو ردّ(حدیث نمبر 2697 فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 377)اس کی تشریع میں امام ابن حجر عسقلانی ﷫اپنی کتاب فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 379پر فرماتے ہیں....وھذا لحدیث معدود من اصول الاسلام وقاعدۃ من قواعدہ فانّ معناہ من اخترع فی الدین مالا شھید لہ اصل من اصولہ فلا یلتفت الیہ آگے چل کر امام ابن حجر عسقلانی امام نووی ﷫کا قول نقل کرتے ہیں...قال النووی !ھذا الحدیث مما ینبغی ان یقنی بحفظہ واستعمالہ فی ابطال المنکر و اشاعۃ الاستدلال بہ کذلک(فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 379)آگے چل کر امام ابم حجر العسقلانی ﷫ فرماتے ہیں ’’وقولہ’’رد‘‘معناہ مردود من اطلاق المعدود علی اسم المفعول مثل خلق ومخلوق و نسخ ومنسوخوکانہ قال !فھو باطل غیر معتدبہ‘والفظ الثانی وھو قولہ’’من عمل ‘‘اعمّ من اللفظ الاول وھو قولہ’’من احدث‘‘فیحتج بہ فی ابطال جمیع القعودالمنھیۃ وعدم وجود ثمر اتھا المر تبۃ علیھا وفیہ ردّ المحدثات وان النھیی یقتفی الفساد لان المنھیات کلّھا لیت من امر الدین فیجب ردّھا وستیفاد منہ ان حکم الحاکم لا یغیّر ما فی باطن الامر لقولہ(لیس علیہ امرنا)والمراد بہ امرنا الدین وفیہ ان الصلح الفساد منتقض والماخوذ علیہ مستحق الرد(فتح الباری جلد نمبر 6صفحہ نمبر 380)
٭ملا علی قاری !سورۃمائدہ کی آیت نمبر 3 کے تحت﷾ فرماتے ہیں’’وقال المفسرون ھذا اکبرنعم اللہ عزّرجل علی ھذا الامۃ حیث اکمل لھم دینھم فلا یحتاجون الی دین غیرہ ولا الی النبی ﷺغیر نبیھم ولھذا جعلہ اللہ خاتم الانبیاء وبعثہ الی الانس والجنّ فلاحلال الاما احلّہ اللہ ولا حرّم الا ما حرمہ اللہ ولا دین الا ما شرعہ وکلّ شیء اخبربہ فھو حق وصدق لا کذب فیہ ولا خلف (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر 128جلد نمبر 18 صفحہ نمبر 199)
٭عبدالرحمٰن مبارکپوری ﷫ اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی شرح جامع تر مزی کے مقدمہ میں آیت ’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
امر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی ھذہ الایۃ کل ّ من یدعیٰ محبتہ ان یتبع محمداً ﷺ وما معنی ٰ اتباعہ الا اتباعہ ﷺ فی جمیع اقوالہ و افعالہ و احوالہ و ھدیہ ومجموع اقوالہ و افعالہ و احوالہ و ھدیہ ھو المعنی ٰبالاحادیث النبویہ فثبت ان من لم یتبع الاحادیث النبویۃ ولم یرا العمل بھا واجباً فھو فی دعوی ٰ محبتہ للہ تعالیٰ کاذب بلا مریۃ (تحفۃ الاحوذی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 34)
٭۔ابن تیمیہ﷫لکھتے ہیں :ولاریب ان مَن فعل البدع متأولاً مجتهداً او مقلّداً كان له اجرعلي حسن مقصده وعلي عمله مِن حيث ما فيه مِن المشروع وكان ما فيه مِن المبتدع مغفوراً له اذا كان في اجتهاد او تقليده مِن المعذور ين (طري الو صول الي العلم الماصول :صفحہ نمبر 136 طبع مصر)
٭پیر عبد القادر جیلانی ﷫ ’’بدعت کی تعریف اور اھل بدعت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بدعت ‘‘دین میں ہر ایسا نیاء عمل جس کی قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہ ملے وہ بدعت کہلاتا ہے اور بدعتی کو کو قیامت کے دن حوض ِ کوثر نصیب نہیں ہوگا (غنیۃ الطالبین حاشیہ نمبر 594 صفحہ نمبر 204 )آگے اھلۃ بدعت کی نشانیاں بیان کرتے فرماتے ہیں کہ یاد رکھو ’’کہ اھل بدعت کی کچھ مخصوص نشانیاں اور علامات ہیں کہ جن سے ان کو پہنچاننے میں کو ئی مشکل پیش نہیں آتی ’’مثلاً‘‘اھل بدعت اھل حدیث پر طعن وتشنیع کرتےہیں (غنیۃ الطالبین صفحہ نمبر 205)مزید لکھتے ہیں ’’بدعت سے دنیاوی معاملات مستثنٰی ہیں البتہ !دین میں ضرورت وقت‘حالات کے تقاضے‘کے نام پر کوئی کمی بیشی درست نہیں اگرچہ اسے بدعت حسنہ کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے اسلیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کو حسنہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ حسنہ بھی دین میں اضافے کی وجہ سے فی الحقیقت سئیہ ہی ہوتی ہے (غنیۃ الطالبین حاشیہ نمبر 594‘صفحہ نمبر 205)
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
تقلید اور مسلکی بحث چھوڑ کر انصاف سے فیصلہ کریں ؟؟؟؟
 
Top