• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماعت اہلحدیث کے 23 ذی وقار علمائے کرام کا مختصر تعارف

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جماعت اہلحدیث کے 23 ذی وقار علمائے کرام کا مختصر تعارف

تحریر: جناب عبدالرشید عراقی​

مولانا حافظ عبداللہ غازی پوریؒ
استاد الاساتذہ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ کے بارے میں شیخ الکل حضرت میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’میرے درس میں دو عبداللہ آئے‘ ایک عبداللہ غزنوی اور دوسرے عبداللہ غازی پوری۔‘‘
تدریس ان پر ختم تھی۔ مولانا سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے حلقہ درس کے بعد سب سے زیادہ شاگردوں کا مجمع حافظ عبداللہ غازی پوری کے حلقہ درس میں دیکھنے میں آیا۔ حافظ غازی پوری سربر آوردہ فقیہ تھے اور تمام علوم عالیہ وآلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ علمی تبحر کے ساتھ زہد وورع اور تقویٰ وطہارت سے بھی متصف تھے۔ ترک تقلید میں بڑا غلو رکھتے تھے۔ حافظ صاحب کے کتب خانہ میں بڑی نایاب ونادر کتابیں جمع تھیں جو آپ کے انتقال کے بعد آپ کے ورثا نے الجامعۃ السلفیۃ بنارس کو منتقل کر دیں۔

مولانا سلامت اللہ جیراج پوریؒ
بہت بڑے واعظ اور مدرس تھے‘ ان کی ساری زندگی دین اسلام کی دعوت وتبلیغ اور احکام شرعیہ کی نشر واشاعت میں گزری۔ ان کی دعوت وتبلیغ سے اعظم گڑھ‘ جون پور اور غازی پور کے اضلاع میں مسلک اہل حدیث کی خوب ترویج ہوئی۔

مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوریؒ
محدث‘ فقیہ‘ مجتہد‘ محقق اور مدرس ومصنف تھے۔ جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ اس شرح سے ان کو برصغیر کے علاوہ عالم اسلام میں شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی۔ حدیث اور تعلیقات حدیث پر ان کو عبور کامل تھا۔ تدریس میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔
مولانا حبیب الرحمن قاسمی (حنفی) فرماتے ہیں کہ ’’مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری کو اللہ تعالیٰ نے علم وعمل سے بھر پور نوازا تھا۔ دقت نظر‘ حدت ذہن‘ ذکاوت طبع اور کثرت مطالعہ کے اوصاف وکمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا‘ خاص طور سے علم حدیث میں تبحر وامامت کا درجہ رکھتے تھے۔ روایت کے ساتھ درایت کے مالک اور جملہ علوم آلیہ وعالیہ سے یگانہ روزگار تھے۔ قوت حافظہ بھی خدا داد تھی۔ بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے اور ہر قسم کے فتاویٰ لکھوایا کرتے تھے۔ مولانا اپنی تصانیف میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔ فقہاء خاص طور سے احناف کے بارے میں نہایت شدید رویہ رکھتے تھے اور بڑی شد ومد سے ان کا رد کرتے تھے۔ مگر یہ معاملہ صرف تصنیف تک محدود تھا جو سراسر علمی وتحقیقی تھا۔‘‘ (تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص ۱۴۵)

مولانا عبدالسلام مبارکپوری ؒ
مشہور علمائے اسلام میں سے تھے۔ ان کی ساری زندگی درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گزی۔ تکمیل تعلیم کے بعد صادق پور پٹنہ‘ مئو‘ گونڈھ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آخری عمر میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی تشریف لائے اور زندگی کے آخری ایام تک اس مدرسہ میں تدریس فرمائی۔ مولانا عبدالسلام بلند پایہ محقق‘ مدرس اور مؤرخ تھے۔ تصنیف میں ان کی عظیم شاہکار امام المحدثین‘ امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری (م ۲۵۶ھ) کی سوانح حیات بنام ’’سیرت البخاری‘‘ ہے۔
مولانا نذیر احمد رحمانی دہلویؒ
بلند پایہ مدرس اور علمائے فحول میں سے تھے۔ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ تصانیف میں ان کی دو کتابیں ’’انوار المصابیح بجواب رکعات التراویح‘‘ مصنفہ مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور دوسری کتاب ’’اہل حدیث اور سیاست‘‘ عظیم شاہکار ہیں۔ ان دونوں کتابوں کے مطالعہ سے آپ کے علمی تبحر‘ ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔

مولانا ابوالحسن عبیداللہ بن مولانا عبدالسلام مبارکپوریؒ
علمائے فحول میں سے تھے۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے شیخ الحدیث تھے۔ حدیث اور متعلقات حدیث پر گہری نظر تھی۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کے مکفوف البصر ہونے سے تحفۃ الاحوذی کی تالیف میں معاون رہے۔ تصنیف میں مشکوٰۃ المصابیح کی شرح ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ ان کی شاہکار تصنیف ہے۔

مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒ
صاحب ’’الرحیق المختوم‘‘ نامور عالم دین‘ شارح حدیث عربی ادب میں مہارت تامہ رکھنے والے‘ ادیان باطلہ پر عبور رکھنے والے اور عربی واردو کے نامور مصنف تھے۔ تدریس میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ مولانا جب پاکستان تشریف لائے تو راقم ان سے ملا تھا۔ بڑے اخلاق سے پیش آئے تھے۔

بعض اجلہ علمائے کرام کا مختصر تعارف
علامہ حسین بن محسن الیمانی ؒ
الشیخ الامام‘ العلامہ‘ المحدث‘ القاضی‘ حسین بن محسن الیمانی۔
نواب صدیق حسن خاںؒ
ترجمان القرآن والحدیث‘ رئیس بھوپال‘ (۱۲۲) عربی‘ فارسی اور اردو کتابوں کے مصنف
مولانا شمس الحق ؒ عظیم آبادی
نامور محدث ومحقق‘ سنن ابی داود کی دو شرحیں غایۃ المقصود اور عون المعبود تالیف فرمائیں۔
حافظ عبدالمنانؒ محدث وزیر آبادی
قال الشیخ شمس الحق الدیانوی عظیم آبادی لا اعلم احدا فی تلامذۃ السید نذیر حسین المحدث اکثر تلامذۃ منہ‘ قد ملأ بنجاب بتلامذتہ
علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی فرماتے ہیں: ’’میں نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں سے کسی کے شاگرد اُن سے زیادہ نہیں دیکھے۔ آپ نے پنجابب کو شاگردوں سے بھر دیا۔‘‘ (نزہۃ الخواطر: ۸/۳۱۲)
مولانا محمد بشیر سہوانی ؒ
بلندمایہ عالم‘ مدرس‘ مناظر‘ مصنف اور محقق
مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالویؒ
بلند پایہ عالم دین‘ صحافی‘ مصنف‘ سرخیل اہل حدیث‘ قادیانی فتنہ کے خلاف سب سے اول میدان عمل میں آنے والے اور برصغیر پاک وہند کے تمام فقہی مسالک کے دو سو علمائے کرام سے فتویٰ حاصل کر کے شائع کیا کہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ
دیوان سنگھ نے اپنی کتاب ناقابل فراموش میں لکھا ہے کہ اگر انسانوں میں کوئی فرشتہ دیکھنا ہے کہ وہ قاضی سلیمان منصورپوری کو دیکھ لے۔
مولانا ابوالقاسم سیف بنارسیؒ
مناظر اسلام‘ بلند پایہ مدرس ومصنف‘ حدیث نبویe کی حمایت ونصرت اور حفاظت ومدافعت میں سرگرم اور مسلک اہل حدیث کی تائید وحمایت میں شب وروز مصروف۔
مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسریؒ
شیخ الاسلام‘ حجۃ الاسلام والمسلمین‘ فاتح قادیان‘ امام المناظرین‘ شیر پنجاب‘ سردار اہل حدیث‘ صاحب تصانیف کثیرہ‘ مفسر قرآن‘ مفتی اہل حدیث‘ ناظم اعلیٰ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ انجمن اہل حدیث پنجاب‘ رکن اساسی ندوۃ العلماء وجمعیۃ العلماء ہند ومجلس خلافت۔
فتنہ قادیانیت کی تردید میں مولانا ظفر علی خاں فرماتے ہیں کہ
خدا سمجھائے اس ظالم ثناء اللہ کو جس نے
نہ چھوڑا قبر میں بھی قادیانیت کے بانی کو
مولانا حافظ محمد ابراہیمؒ میر سیالکوٹی
امام العصر‘ مفسر قرآن‘ بلند پایہ خطیب ومقرر‘ مناظر اسلام‘ صاحب تصانیف کثیرہ‘ تحریک پاکستان کے اکابرین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ بڑے صاحب جلال عالم دین تھے۔
حافظ نذیر احمد خانؒ دہلوی
مترجم قرآن مجید‘ اردو ادب کے نامور ادیب اور متعدد مذہبی‘ تاریخی اور ادبی کتابوں کے مصنف۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ
مولانا شبلی سے متاثر‘ سر سید احمد خاں کے افکار ونظریات کے سخت مخالف‘ احیائے مشرقیت کی تحریک کے بہت بڑے علمبردار‘ عظیم منفرد شخصیت‘ تحریک آزادی کے میر کارواں‘ بلند پایہ ادیب‘ نقاد‘ مدبر ومفکر‘ محقق ومؤرخ‘ مصنف‘ خطیب ومقرر اور عبقری تھے۔ علوم اسلامیہ کے متبحر عالم اور مجتہد۔ مولانا ظفر علی خاں فرماتے ہیں ؎
جہان اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہو گئی
ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے
نثر نگاری میں اعلیٰ وارفع۔ حسرت موہانی فرماتے ہیں ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
اور خطابت میں منفرد حیثیت کے حامل۔ بہ قول مولانا حسرت موہانی ؎
سب ہو گئے خاموش بس ایک حسرت
گویا ہیں … ابوالکلام آزادؔ
سیاست میں ان کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اول تا آخر آل انڈیا کانگریس سے وابستہ رہے اور ۵ سال تک کانگرس کے منتخب صدر رہے۔
مولانا محمد عطاء اللہ حنیفؒ بھوجیانی
بلند پایہ مدرس اور سنن نسائی کے شارح‘ اسماء الرجال میں یگانہ روزگار‘ صحافت میں اعلیٰ وارفع‘ وسیع المطالعہ اور جمع کتب میں ان کا کوئی ہم پایہ اہل حدیث جماعت میں نہیں ملتا۔ تدریس میں باکمال اور تصنیف وتالیف میں بھی جامع الکمال‘ درویش صفت عالم دین۔
مولانا محمد علیؒ جانبازؔ
بلند پایہ مدرس ومصنف‘ وسیع المطالعہ‘ جمع کتب میں بھی امتیازی حیثیت کے مالک‘ علوم اسلامیہ میں یگانہ روزگار‘ حدیث‘ متعلقات حدیث اور اسماء الرجال میں جامع الکمال‘ سنن ابن ماجہ کی ۱۲ جلدوں میں شرح ’’انجاز الحاجہ‘‘ (عربی) ان کا عظیم شاہکار ہے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیلؒ سلفی
عظیم مدرس ومصنف‘ خطیب ومقرر‘ دانشور وادیب‘ صاحب فہم وبصیرت‘ مفکر ومدبر‘ بلند پایہ سیاسی رہنما‘ حدیث نبوی e سے بہت زیادہ شغف رکھنے والے اور حدیث کے بارے میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔
مولانا سلفی کی تمام تصانیف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ومدافعت‘ حمایت ونصرت اور تائید میں ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ اور بعد میں امیر بھی رہے۔
علامہ احسان الٰہی ظہیرشہید رحمہ اللہ
فاضل السنہ الشرقیہ اور مدینہ یونیورسٹی کے چوٹی کے طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ عربی‘ اردو اور انگریزی کے بلند پایہ مصنف‘ جامع الصفات وجامع الکمالات‘ نامور خطیب اور مقرر‘ ملکی سیاست میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ‘ علم وفضل میں یگانہ روزگار‘ عالم اسلام کی منفرد شخصیت‘ مسلک اہل حدیث میں بہت زیادہ متشدد اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علامہ احسان الٰہی کی شخصیت بڑی متنوع‘ کثیر الجہت اور ہمہ گیر تھی۔ وہ ایک عظیم المرتبت عالم‘ مؤرخ‘ ادیب‘ خطیب ومقرر‘ اور مفکر ومدبر ودانشور‘ نقاد‘ صاحب فہم وبصیرت اور سیاستدان تھے۔
 
Top