• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماعت میں اکیلا پیچھے نماز پڑھنا

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر امام کے پیچھے صف لگی ہوئی ہو اورمذید کسی آدمی کی گنجائش نہ ہو تو اکیلا صف کے پیچھے نما ز میں شامل ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ چونکہ بلوغ المرام حصہ اول ص 113 ابودائود ترمذی کی روایت سے حدیث شریف میں موجود ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اکیلے کی صف کے پیچھے نما ز نہیں ہوسکتی۔ اسی وقت اگلی صف سے دوسرا آدمی کھینچ کر نکالناچاہیے۔ اور یہی مذہب امام احمد بن حنبل ؒ کا ہے۔ اس کے علاوہ بلاغ المبین میں لکھاہے۔ باقی آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے۔ کہ اکیلے کی بھی صف کے پیچھے نماز ہوستکی ہے۔ اور ان کی دلیل بخاری شریف میں حدیث شریف بروایت ابوبکرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ موجود ہے۔ آپ فرمایئن کون سی دلیل صحیح ہے۔
 

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے مطابق صحیح یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے۔ اگر اکیلا ہو تو پہلی صف سے کسی کو کھینچ کر ملالے۔ واللہ اعلم (7 جنوری 1938ء)

فتاویٰ ثنائیہ
جلد 01 ص 534​

 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اکیلے آدمی کی صف


سوال :

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور جماعت کھڑی ہو اور صف میں خالی جگہ نہ ہوتو کیا وہ اکیلا پیچھے کھڑاہوسکتاہے
؟
(فتاویٰ الامارات:40)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پہلے والی صف میں شامل ہوجائے۔آج کل تو لوگوں میں صف ملا کر کھڑے ہونے کاشوق بھی تو نہیں ہے۔تو اگر ممکن ہو اور آسانی کے ساتھ اگلی صف میں جگہ مل سکے۔اگر اسے جگہ ملنا ممکن نہ ہو اور تمام نمازی صف میں مل کر کھڑےہوئے ہوں تو ایسی صورت میں اکیلا پیچھے نماز پڑھے گا۔اگلی صف سے کسی آدمی کو پیچھے کھینچ نہیں سکتا۔کیونکہ اگلی صف سے کسی کو پیچھے کھینچنا یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ابویعلیٰ کی ایک ضعیف سند کے ساتھ حدیث،پھر صف سے بندہ کھینچنے کامطلب ہے،اس صف میں خلل ڈالنا۔تو اس آدمی کے لیے صف سے پیچھے نماز پڑھنا کہ جسے اگلی صف میں جگہ نہ ملے اور دوسرا وہ آدمی جو مسجد میں جب داخل ہوتو امام رکوع میں ہو اور وہ رکوع میں شامل ہوکررکعت پالے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔کیونکہ:
"لا صلاة لمن صلى في الصف وحده"
کہ جو شخص صف میں اکیلا نماز پڑھے اس کی نماز نہیں ہے۔اور دوسری حدیث:
"لا صَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"

ان دونوں حدیثوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:184
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز


تحریر: حافظ ابو یحییٰ نورپوری
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 :
سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ان رجلا يصلي خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .
’’ ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا ی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔“ [جامع الترمذي : 230، سنن أبى داود : 682، سنن ابن ماجه : 1004، مسند الإمام أحمد : 228/4، مسند الدارمي : 815/2، ح : 1322، وسنده صحيح]
* اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن “جبکہ امام ابن جارود [319] اور امام ابن حبان [الموارد : 405] رحمہ اللہ نے ’’صحیح“ کہا ہے۔

امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ثبت هذا الحديث احمد واسحاق
’’ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔“ [الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف لابن المنذر:184/4]

دلیل نمبر 2 :
سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانصرف، ‏‏‏‏‏‏فراى رجلا يصلي فردا خلف الصف، ‏‏‏‏‏‏ فوقف نبي الله صلى الله عليه وسلم حتي انصرف الرجل من صلاته، ف‏‏‏‏‏‏قال له :‏‏‏‏ ”استقبل صلاتك، ‏‏‏‏‏‏فلا لفرد خلف الصف“
’’ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نماز سے فارغ ہونے تک اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ پھر (جب اس نے سلام پھیرا تو) اس سے فرمایا : اپنی نماز نئے سرے سے پڑھو، کیونکہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔“ [مسند الامام احمد: 23/4، ح:24293، سنن ابن ماجه : 1003، و سندهٔ حسن]
* امام اثرم، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں :
’’ یہ حدیث حسن ہے۔“ [التلخيصں الحبير : 37/2]

امام ابن خزیمہ [1569] اور امام ابن حبان [2206] رحمها اللہ نے اس حدیث کو ’’ صحیح“ کہا ہے جبکہ حافظ نووی رحمہ اللہ نے [خلاصه الاحكام :2517] اس کی سند کو ’’ حسن“ قرار دیا ہے۔
بوصیری لکھتے ہیں :
اسنادۂ صحيح، رجاله ثقات
’’ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔“ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه للبوصيري : 122/1]

صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز ائمہ دین کی نظر میں
(1) امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ، امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ (م : 196ھ) سے نقل کرتے ہیں :
يدخل فى الصف، أو يخرج إليه رجلا من الصف، فيقوم معه.
’’ وہ (صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو) صف میں داخل ہو جائے ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور (پچھلی صف میں) اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔“ [مسند على بن الجعد : 112 و سندهٔ صحيح]

(2) حماد بن ابی سلیمان تابعی (م:120ھ) کہتے ہیں :
يعيد الصلاة.
’’ ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے۔“ [ايضا:113، وسند تصحيح]

(3) (4) امام احمد بن حنبل (م :241 ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ (م:238ھ) رحمها اللہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اسے نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔“ [جامع الترمذي، تحت الحديث : 230، و سندهٔ صحيح]
(5) امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ (م:197ھ) فرماتے ہیں :
إذا صلى الرجل خلف الصف وحده، فإنه يعيد.
’’ جب کوئی آدمی صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے تو وہ نماز نئے سرے سے پڑھے۔“ [أيضا، تحت الحديث : 231، و سندهٔ صحيح]

(6) امام ابن منذر رحمہ اللہ (م:218ھ) فرماتے ہیں :
صلاة الفرد خلف الصفت باطل، لثبوت خبر وابصة وخبر على بن الجعد بن شيبان.
’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز فاسد ہے کیونکہ اس بارے میں سیدنا وابصہ اور سیدنا علی بن جعد بن شیبان کی بیان کردہ احادیث پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہیں۔“ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر : 184/4]

(7) امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی رحمہ اللہ (181-255ھ) سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : أقول به. ’’ میں اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں۔“ [مسند الدارمي : 816/2، ح : 1323]
(8) امام ابن حزم رحمہ اللہ (م:456ھ) اس بارے بحث کے بعد فرماتے ہیں :
فبطل أن يكون لمن أجاز صلاة المنفرد خلف الصف، وصلاة من لم يقم الصفوف، حجة أصلا، لا من قرآن ولا من سنة ولا إجماع، وبقولنا يقول السلف الطيب.
’’ اس بحث سے ثابت ہو گیا ہے کہ جو شخص صف کے پیچھے اکیلے آدمی اور صف کو قائم نہ رکھنے والے کی نماز کو درست قرار دیتا ہے، اس کے پاس قرآن و سنت اور اجماع سے بالکل کوئی بھی دلیل نہیں۔“ [المحلى لابن حزم : 58/4، رقم المسئلة: 415]

(9) امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م:311 ھ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب الزجر عن صلاة المأموم خلف الصف وحده.
’’ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کو نماز پڑھنے سے منع کرنے کا بیان۔“

نیز فرماتے ہیں :
إن صلاته خلف الصف وحده غير جائزة، يجب عليه استقبالها.
’’ یقیناً صف کے پیچھے اکیلے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے۔“ [صحيح ابن خزيمة: 30/3]

مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
مذکورہ دلائل کے برعکس بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام پیش کیا جا چکا ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے :
دلیل نمبر 11 :

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم حلفنا .
’’ میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی) تھیں۔“ [صحيح البخاري : ۰727 صحيح مسلم: 658]

تجزیہ : اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں :
باب : المرأة وحدها تكون صفا. ’’ اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو شمار ہوتی ہے۔“

اگر مرد بھی اکیلا شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا ؟ نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : سؤوا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة
’’ صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔“ [صحيح البخاري :723، صحيح مسلم: 433]

اب اکیلی عورت کا ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
أن تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده، وهذا الاحتجاج عندي غلط، لأن سنة المرأة أن تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امرأة أخرى، وغير جائز لها أن تقوم بحذاء الإمام ولا فى الصف مع الرجال، والمأموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته أن يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا فى صف خلف الإمام حتى يكمل الصفك الأول، ولم يجز للرجل أن يقوم خلف الإمام والمأموم واحد، ولا خلاف بين أهل العلم أن هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، ومأموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبى صلى الله عليه وسلم.
’’ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔“ [صحیح ابن خزیمة :3 / 30]

امام ابن حزم رحمہ اللہ (384-456 ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں :
وهذا لا حجة لهم فيه، لأن هذا حكم النساء خلف الرجال، وإلا فعليهن من إقامة الصفوف إذا كثرن ما على الرجال لعموم الأمر بذلك، ولا يجوز أن يترك حديث مصلى المرأة المذكورة لحديث وابصة، ولا حديث وابصة لحديث مصلي المرأة.
’’ اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے (اکیلی) عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔“ [المحلي لابن حزم : 57/4]

معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
دلیل نمبر 2 :

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
فقام يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فتناولني من خلف ظهره، فجعلني على يمينه.
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے مجھے میرے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔“ [صحيح البخاري:6726 صحيح مسلم : 763]

اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ منقول ہے۔ [صحيح مسلم : 3010]
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر اپنے پیچھے سے دائیں جانب لانا ہے اور وجہ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا تو وہ خلف الصف یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزیہ : اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کا استدلال درست نہیں کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا اداکر لے بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔ صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی جبکہ باہر سے آ کر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمان رسول یہی ہے۔ یوں سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا لا حجة فيه لهم، لما ذكرنا من أنه لا يحل ضرب السنن بعضها ببعض، وهذا تلاعب بالدين، وليت شعري ما الفرق بين من ترك حديث جابر وابن عباس الحديث وابصة وعلي بن شيبان، وبين من ترك حديث وابصة وعلي الحديث جابر وابن عباس، وهل هذا كله إلا باطل بحت، وتحكم بلا برهان، بل الحق فى ذلك الاخذ بكل ذلك، فكله حق، ولا يحل خلافه
’’ اس حدیث میں ان کے لیے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کی ایک دوسرے سے ٹکر دینا جائز ہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر وابصہ و علی بن شیبان رضی اللہ عنہم کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل ہیں اور بلا دلیل فتوے ہیں۔ اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے، یہ ساری حق ہیں، ان کی مخالفت جائز نہیں۔“ [المحلي لابن حزم : 57/4]

نیز لکھتے ہیں :
وما سمي قط المدار عن شمال إلٰي يمين مصليا و حدهٔ خلف الصف.
’’ بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔“

دلیل نمبر 3 :
سیدنا ابوبکرۃ ب رضی اللہ عنہ یان کرتے ہیں :
إنه انتهى إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال : زادك الله حرضا ولا تعد.
’’ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا (پھر چلتے چلتے صف میں مل گئے)، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تمہاری حرص کو مزید بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کرنا۔“ [صحيح البخاري: 783]

تجزیہ :
اس روایت سے بھی ویسا ہی باطل استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ روایت کے ذریعے امام کی بائیں جانب سے دائیں جانب آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی گئی تھی اور اس روایت کے ذریعے رکوع کی حالت میں چل کر آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ بالکل واضح بات ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً تعمیل کے جذبے کے تحت پچھلی صف سے ہی رکوع کی ہیئت میں منتقل ہو گئے اور پھر چل کر اگلی میں شامل ہو گئے، یعنی ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔

اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی تو پھر بھی اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آئندہ کے لیے اس کام سے منع بھی فرما دیا تھا، یعنی اب بقول رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں :
وهذا الخبر حجة عليهم لنا . . . . . فقد ثبت أن الركوع دون الصف، ثم دخول الصفت كذلك لا يحل .
’’ یہ حدیث تو ان لوگوں کے خلاف ہماری ہی دلیل بنتی ہے۔۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں (چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا)۔“ [المحلى لابن حزم : 58,57/4]

اب رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا ؟ تو معترض پہلے یہ ثابت کرے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت اٹھ کر نہیں پڑھی تھی۔
عدم ذکر، عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز دوہرانے کا صریح حکم ثابت ہے۔ صریح کو چھوڑ کر مبہم کو دلیل بنانا انصاف نہیں۔
صحابہ و تابعین سے منسوب غیر ثابت اقوال
صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کو جائز قرار دینے والے لوگ صحابہ و تابعین کی طرف منسوب بعض غیرثابت فتوے بھی ذکر کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
* سیدنا حدیفہ رضی اللہ عنہ سے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : وہ نماز نہ دوہرائے۔ [مصنف ابن أبى شيبة:12/2]

تبصرہ : لیکن اس روایت کی سند کئی وجہ سے سخت ’’ضعیف“ ہے :
(1) ابومعاویہ محمد بن خازم ضریر راوی ’’مدلس“ ہے۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
(2) جویبر بن سعید ازدی راوی سخت ’’ضعیف“ اور ’’متروک“ ہے۔
(3) ضحاک بن مزاحم کا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔

* امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے یہ فتویٰ منسوب ہے :
’’ ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی۔“ [مصنف ابن أبى شيبة:193/2]

تبصرہ : لیکن اس کی سند بھی سخت ’’ضعیف“ ہے کیونکہ :
(1) حفص بن غیاث ’’مدلس“ ہے۔
(2) اشعث بن سوار نامی راوی ’’ضعیف“ ہے۔
(3) اگر عمرو سے مراد عمرو بن عبید ہے تو وہ ’’متروک“ راوی ہے۔

* امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں اسی طرح کی ایک اور راویت بھی ہے۔ [ایضاً]

تبصرہ : لیکن اس کی سند بھی یونس بن عبید کی تدلیس کی وجہ سے ’’ضعیف“ ہے۔
معلوم ہوا کہ صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے کچھ ثابت نہیں۔

رہی امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات کہ ایسے شخص کی نماز ہو جاتی ہے۔
تو ان کی دلیل وہی سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس کے مطابق ان کی والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی۔ مجوزین کی پہلی دلیل چونکہ یہی تھی لہٰذا اس بارے میں مکمل بحث اسی کے ضمن میں ہو چکی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس حدیث سے خاص عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مردوں کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے کاجواز نکالنا درست نہیں۔
اگر پہلی صف مکمل ہو تو ؟
سیدنا وابصہ بن معبد اور سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی حدیث بہت واضح ہے کہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے نمازی کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی ایسا کر لے تو اس کے لیے اپنی اس طرح پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ بعض لوگ بغیر دلیل کے ان عام احادیث کو خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو پھر صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہی تو بعض لوگ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز قبول نہ ہونے والی عام حدیث سے مقتدی اور مدرک رکوع کو بغیر دلیل مستثنیٰ کر لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جب حدیث میں عموم ہے تو ایک خاص صورت کو بغیر دلیل کے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔
صف کے پیچھے اکیلا آنے والا کیا کرے ؟
اگر کوئی شخص نماز باجماعت کے لیے مسجد میں آئے اور صف مکمل ہو چکی ہو، صف کے پیچھے وہ اکیلا ہی ہو تو اس کے لیے دو صورتیں ہیں :
(1) وہ اگلی صف سے ایک آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی یہ حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر پچھلی صف میں کر دیا۔ [صحيح مسلم : 3010]

ائمہ دین بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ، امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ (م : 196ھ) سے نقل کرتے ہیں :
يدخل في الصف، او يخرج اليه رجلا من الصف، فيقوم معه
’’ وہ (صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو اگلی) صف میں داخل ہو جائے، ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور (پچھلی میں) اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔“ [مسند علي بن الجعد: 112، وسنده صحيح]

اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پیچھے آنے والے اکیلے شخص کے لیے نئی صف بنانے کی خاطر اگلی صف سے آدمی کو پیچھے کیا جا سکتا ہے اور ایک صف بنانے کے لیے اتنی حرکت بھی جائز ہے۔ اگر کوئی شخص پہلی صف سے آدمی کھینچنے کے عمل کو توڑنا شمار کرے اور صف توڑنے کی وعیدیں اس پر منطبق کرتے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ کسی عذر کی بنا پر کسی شخص کا صف سے نکلنا صف توڑنے میں شمار نہیں ہوتا، مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں بے وضو ہو جائے تو بھلا وہ صف سے نکل کر نہیں جائے گا ؟ اگر جائے گا اور یقیناً جائے گا تو کیا اس کا یہ عمل صف توڑنا شمار ہو گا ؟ اور کیا اس طرح پہلی صف ناقص ہو جائے گی ؟ قطعاً نہیں۔ لہٰذا
بعض لوگوں کا اس موقف کے خلاف یہ حدیث پیش کرنا درست نہیں کہ :
من وصل صفا، وصله الله، ومن قطع صفا، قطعه الله
’’ جو شخص صف کو ملاتا ہے، اللہ تعالیٰٰ اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے، اللہ تعالیٰٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔“ [مسند الامام احمد: 5724، سنن ابي داود :666، وسنده صحيح]
کیونکہ اس حدیث کا تعلق بغیر عذر کے صف کو خراب کرنے والے شخص سے ہے، صحیح احادیث کی روشنی میں اگلی صف سے ایک آدمی کھینچنے کر صف بنانے والے شخص سے نہیں۔

(2) اگر پیچھے آنے والا شخص کسی بنا پر اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچنا نہیں چاہتا یا کسی وجہ سے کھینچ نہیں پاتا تو وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کوئی مزید نمازی نہ آ جائے۔ اگر اسی انتظار میں جماعت نکل جانے کا خطرہ ہو تو صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا بہرحال جائز نہیں کیونکہ انتظار کرتے رہنے سے تو ایک مجبوری کی بنا پر صرف جماعت ضائع ہو گی لیکن اگر اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ لی تو سرے سے نماز ہی ضائع ہو جائے گی۔ ایسے شخص کے لیے نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہو گا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بعد میں آنے والے شخص کا پہلی صف میں عدمِ گنجائش کی صورت میں کسی آدمی کو کھینچنا


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزشتہ دنوں رحیم یارخان سے ہمارے ایک قاری ’’سہیل اسلم‘‘ نے فون پر پوچھا کہ بعد میں آنے والے نمازی کو اگلی صف میں جگہ نہ ملے تو کیاوہ اگلی صف سے آدمی کو پیچھے کھینچ سکتا ہے؟ بعض لوگ اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ میں نے اُنہیں حضرت الاستاذ مفتی حافظ ثناء اللہ خان مدنی dاور استاد گرامی قاری نعیم الحق نعیم کے درجِ ذیل فتوے کا حوالہ دیا تھا، اسی طرح اور بھی کئی ایک لوگ یہ سوال کرتے رہتے ہیں، اسی باعث ۱۴ ستمبر ۱۹۸۹ء میں شائع ہونے والا فتوٰی دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عَن وَابِصَةَ بنِ مَعبَدٍ، قال: ’ رَاٰی رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ رَجُلًا یُصَلِّی خَلفَ الصَّفِّ وَحدَهٗ، فَأَمَرهٗ أَن یُعیِدَالصَّلَاةَ‘(رواه احمد والترمذی وابوداؤد وقال الترمذی: هذا حدیث حسن (مشکوٰة المصابیح حدیث ۱۱۵) سنن أبی داود،بَابُ الرَّجُلِ یُصَلِّی وَحْدَهُ خَلْفَ الصَّفِّ،رقم:۶۸۲

’’وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔ ‘‘

یہ روایت ’’مسند احمد‘‘، ترمذی ، ابودائود کی ہے جسے امام ترمذی حسن قرار دیتے ہیں۔ امام احمد اور دیگر محدثین سے اس کی تصحیح ثابت ہے۔

نماز باجماعت میں شریک ہونے کا خواہش مند اگر صف میں جگہ نہ پائے تو وہ کیا کرے؟

۱۔ وہ اگلی صف کے کنارے سے یا درمیان سے ایک شخص کو کھینچ کر اپنی صف بنالے۔

۲۔ وہ امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہو جائے۔

۳۔ وہ صف کے پیچھے اکیلا نمازپڑھے۔

آخری صورت مذکورہ بالا حدیث میں منع کر دی گئی ہے، لہٰذا اب بقیہ دو صورتوں میں ترجیح دی جائے گی۔

امام کے ساتھ مل جانے کی کوئی مثال حدیث میں موجود نہیں ۔ سوائے اس خاص شکل کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں کی جماعت کرا رہے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بائیں جانب آکر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امام بن گئے، جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی امامت کراتے رہے، یہ صورت مخصوص ہونے کے باوجود مقتدی کا امام کے ساتھ ملنا ثابت نہیں کرتی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کے بجائے امام بنے تھے۔ اس بناء پر ہمارے نزدیک پہلی صورت ہی راجح ہے۔ جس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ کیونکہ کسی شخص کو پیچھے کھینچ کر اپنی صف بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حدیث مذکورہ بالا کی رُوسے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی۔

اُصولِ فقہ کا قاعدہ ہے: ’’ مَا لَا یَتِمُّ الوَاجِبُ إِلَّا بِهٖ فَهُوَ وَاجِبٌ‘‘ یعنی جس کام کے بغیر واجب کی تکمیل نہ ہوسکتی ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی کو اپنے ساتھ شامل کرنا تعمیل وجوب یا شریعت کی مخالفت سے احتراز کرنا ہی ہے۔

باقی رہا یہ مسئلہ کہ صف کے کنارے سے کسی شخص کو کھینچنے سے اس کی حرکت لازم آتی ہے۔ تو نماز میں نماز کی ضرورت کے لیے حرکت جائز ہے، اگرچہ کسی کو آگے سے کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کرنے والی حدیث ضعیف ہے۔ تاہم اس سے استدلال کی بجائے تائید حاصل ہوجاتی ہے لہٰذا یہی صورت راجح معلوم ہوتی ہے۔ شیخ المکرم حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے کنارے سے کسی شخص کو کھینچنے کی بجائے درمیان سے کسی کو اپنے ساتھ ملانے کی صورت بتائی ہے، تاکہ امام درمیان میں رہے اور ایک شخص کی زیادہ حرکت کی بجائے صف کے شرکاء معمولی حرکت سے درمیانی خلا کو پُر کر لیں۔ بہرصورت دونوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ اگلی صف سے کسی شخص کو اپنے ساتھ ملانے کی ہی شکل ہے۔ میں اسی موقف کی تائید کرتا ہوں۔(واﷲاعلم بالصواب وعلمہ اتم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اضافہ : از حافظ نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ :

اگلی صف میں سے کسی شخص کو کھینچنے یا نہ کھینچنے کا مسئلہ راجح اور مرجوح کا مسئلہ ہے۔ صحیح اور غلط کا مسئلہ نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فتاوٰیٰ میں اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ‘‘ اور ’’إرواء الغلیل‘‘ میں اگلی صف میں سے کسی کو نہ کھینچنے کو ترجیح دی ہے، جب کہ صاحب سبل السلام امیر صنعانی رحمہ اللہ اور صاحب ’’نیل الأوطار‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان اس طرف معلوم ہوتا ہے، کہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کے بجائے اگلی صف میں سے کسی کو کھینچ کر ساتھ ملا لینا چاہیے۔ راقم کے خیال میں بھی یہی دوسرا قول قابلِ ترجیح ہے اور وجوہ ِترجیح یہ ہیں:

(۱) جماعت کا لفظ جمع سے بناء ہے اور جمع کا لفظ کم از کم دو افراد کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر صرف ایک مقتدی ہو، تو وہ امام کے پیچھے کھڑا ہونے کے بجائے امام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ حالانکہ لفظ مقتدی (پیچھے چلنے والا) کا تقاضا یہ تھا، کہ وہ امام کے پیچھے کھڑا ہو اور لفظ امام (آگے چلنے والا) کا تقاضا یہ تھا، کہ امام مقتدی سے آگے ہو۔ مگر دونوں لفظوں کے تقاضوں سے قطع نظر کرتے ہوئے شریعت نے لفظِ جماعت کے تقاضے کو ملحوظ رکھا ہے اور اکیلے مقتدی کو امام کے ساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنا لفظِ جماعت کے معنی و رُوح کے منافی ہے۔

ہاں عورت کو شرعی طور پر اس سے اس لیے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، کہ ایک تو اس پر نماز باجماعت سِرے سے فرض ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ مرد کے ساتھ شرعی طور پر کھڑی نہیںہوسکتی۔ کیونکہ یہ چیز دونوں کی نماز میں خلل انداز ہوسکتی تھی۔ ہاں اگر عورتوں کی صف موجود ہو اور اس میں مزید گنجائش نہ ہو، تو بعد میں آنے والی عورت کے لیے ہمارے خیال میں مناسب یہی ہے، کہ وہ بھی کسی عورت کو پیچھے کھینچ کر صف بناء لے۔ تاکہ لفظِ جماعت ان پر صادق آسکے۔

اسی طرح حدیث (ابن ماجہ حاکم وغیرہ) میں ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے منع کیا گیاہے۔ اس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے، کہ اس سے جماعت کی جمعیت پارہ پارہ ہوتی ہے۔

(۲)شیخ البانی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال حضرات کہتے ہیں ’’چوں کہ اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی۔ لہٰذا راجح امر یہ ہے، کہ بعد میں آنے والا شخص صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ لے۔‘‘

اس سلسلہ میں قابلِ غوربات یہ ہے کہ جب صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز کا صحیح نہ ہونا۔ بلکہ اس کے اعادہ کا ضروری ہونا علی الإطلاق ثابت ہو چکا ہے، تو پھر ایسے شخص کے بارے میں تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱۔ یا تو ہم یہ کہیں کہ اگلی صف میں سے کسی کو کھینچ لے۔

۲۔ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ لے اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے۔( محمد جاوید سیالکوٹی متعلم جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجراں والا کا لکھا ہوا ایک مضمون ہمیں موصول ہوا ہے، جس میں انہوں نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔) (ن۔ ح۔ ن)

۳۔ اور یا پھر یہ کہیں کہ وہ اکیلا ہی نماز پڑھ لے اورا س کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کے صحیح نہ ہونے کا حکم اس شخص کے ساتھ خاص ہے، جو اگلی صفوں میں گنجائش ہونے کے باوجود پیچھے اکیلا ہی کھڑا ہو جائے۔

تیسری صورت ہمارے خیال میں تقیید بلا مُقَید اور تخصیص بلا مُخَصِّص کے ذیل میں آتی ہے۔ یعنی کسی عام اور مطلق حکم کو خواہ مخواہ مخصوص اور مقید قرار دے دینا۔ دوسری صورت ویسے ہی غیر معقول معلوم ہوتی ہے۔ آخر بعد میں آنے والے کا کیا قصور ہے، کہ اسے ایک نماز دو دفعہ پڑھنے کی تکلیف دی جائے!

پہلی صورت سب سے زیادہ معقول اور راجح معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس کی نظیر موجود ہے اور وہ یہ کہ امام کے ساتھ جب ایک ہی مقتدی کھڑا ہو اور دوسرا مقتدی آجائے تو اسے پہلے مقتدی کو پیچھے کھینچنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرا اس کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور وابصۃ بن معبد رضی اللہ عنہ کی دو تین ضعیف حدیثیں (سنن بیہقی اور مسند ابی یعلی وغیرہ میں) اور ایک مقاتل بن حیان کی مرسل حدیث (مراسیل ابی دائود میں) موجود ہے۔ مرسل حدیث اگرچہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہی کی ایک قسم ہے۔ لیکن عام ضعیف حدیث اور مرسل میں یہ فرق ہے، کہ ضعیف حدیث کا حجت نہ ہونا متفق علیہ ہے۔ جب کہ مرسل کے بارے میں اختلاف ہے، حنفی اور مالکی اس کی حجیت کے قائل ہیں۔ نیز ’’رسالۃ ابی دأود إلی اہل مکہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’مسند حدیث کی عدمِ موجودگی میں مرسل حجت ہے۔ تاہم اس کی حجیت میں صحیح حدیث والی قوت نہیں ہوگی۔‘‘گویا امام ابودائود رحمہ اللہ کے نزدیک اگر مسند حدیث کسی مسئلہ میں موجود نہ ہو، تو مرسل روایت حسن درجے کی حدیث کا کام دے سکتی ہے۔

(۳)شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے کا فتویٰ دینا ’’تَشرِیعٌ بِدُونِ نَصٍّ صَحِیحٍ‘‘ہے۔‘‘ یعنی اپنی طرف سے شریعت گھڑنے کے مترادف ہے۔

ہمارے خیال میں یہ فتویٰ ’’تَشرِیعٌ بِدُونِ نَصٍّ صَحِیحٍ‘‘ کے زُمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ ’’قِیَاسٌ صَحِیحٌ‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے۔ نیز اس کے لیے حسن درجے کی نص بھی موجود ہے۔ جیسا کہ تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔

(۴) بعض حضرات کا خیال ہے کہ ’’اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے سے دو قباحتیں لازم آتی ہیں۔ ایک تو ساری صف ہلچل اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتی ہے اور دوسرا یہ کہ کھینچنے والے شخص کو خواہ مخواہ پہلی صف کے ثواب سے محروم کر دیا جاتا ہے۔‘‘

پہلی ’’قباحت‘‘ کے بارے میں یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے، کہ نماز کی کسی ضرورت کے تحت صف کے ہلچل میں مبتلا ہونے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ کیوںکہ اس کی نظیر موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے اور وہ کسی مقتدی کو امام بناء کر وضو کرنے کے لیے چلا جائے، تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں پہلی صف والوں کو تھوڑی بہت حرکت کر کے خالی جگہ کو پُر کرنا ہی ہوگا۔ بلکہ راقم کے خیال میں ان کو ’مَن وَصَلَ الصَّفَّ وَصَلَهُ اللّٰهُ‘… الخ (سنن النسائی ،بَابُ مَنْ وَصَلَ صَفًّا ،رقم:۸۱۹) کے تحت اس ہلچل کا اجر و ثواب بھی ملے گا۔

اسی طرح دوسری ’’قباحت‘‘ کے متعلق یہ خیال رہنا چاہیے۔ کہ’اِنَّمَا الاَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘(صحیح البخاری،کَیْفَ کَانَ بَدْء ُ الوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟،رقم:۱) یعنی عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اس لیے وہ شخص اپنی نیت کی وجہ سے (ان شاء اللہ العزیز) پہلی صف کے ثواب سے ہرگز محروم نہیں ہوگا۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے صفِ اوّل کے اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ پچھلی صف قائم کرنے اور اپنے اکیلے بھائی کی نماز کی صحت میں تعاون کرنے کا اضافی ثواب بھی مل جائے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:323
محدث فتویٰ
 
Top