• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماع فی الدبر ،یک مشت ڈاڑھی اور عبد اللہ بن عمر،جلیل القدر صحابی پر بعض علمائے اہل حدیث کا الزام

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
وطی فی الدبر کے حوالے سے صحیح بخاری میں ایسی کوئی چیز منقول نہیں ہے جس سے یہ کہا جا سکے کہ عبداللہ بن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،صحیح بخاری کی وہ روایت یہ ہے : عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ {فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} قَالَ: يَأْتِيهَا فِي
امام بخاری یہاں مکمل روایت لے کر نہیں آئے،اگر وہ وطی ف الدبر کو جائز و درست سمجھتے تواختصار سے کام نہ لیتے، بلکہ ٖحرف جار'' فی'' کے بعد اس کے مجرورکا ضرور ذکر کرتے،یہ امام بخاری ایک بہترین طریقہ ہے جو انھوں نے نافع کی غلطی کو بیان کرنے کے لیے یہاں استعمال کیا ہے،مزید تفصیل کے لیے ہم شارحین بخاری کی طرف رجوع کرتے ہیں،شارح بخاری علامہ انور شاہ کاشمیری نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ بخاری میں ایسی کسی بات کی وضاحت نہیں کہ جس سے یہ دعوی کیا جائے کہ عبد اللہ بن عمر اس فعل شنیع کو جائز قرار دیتے تھے،چناں چہ وہ فرماتے ہیں:
''إن هذه النسبة إليه محض افتراء عليه، ومنشأ الغلط أنه يجوز أن يأتي الزوج من جانب الدبر والحال أن غرضه أن يكون الإيلاج في القبل لا في الدبر، وقد صرح ابن عمر خلاف ما نسب إليه'' (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:405/2)
سیدنا عبد اللہ بن عمر کی طرف وطی فی الدبر کی نسبت کرنا ان پر صرف افترا ہے، اور اس غلط انتساب کا سبب دبر کی جانب سے عورت کے ساتھ جماع کرنا ہے،حالاں کہ ان کا مقصد قبل میں دخول ہے نہ کہ دبر میں،اور ابن عمر نے اپنی طرف اس غلط انتساب کو صراحتا رد کیا ہے۔
امام بخاری کی ذکر کردہ روایت میں لفظ دبر کا ذکر ہی نہیں ہے تو پھر امام بخاری پر وطی فی الدبر کی تہمت کیا معنی رکھتی ہے،معلوم نہیں یہ نام نہاد علماء اَسلاف کے دامن کو داغ دار کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں،وطی فی الدبر کے اس مسئلے میں ہمارے ان علمائے کرام کو جو زبان ملی ہےوہ صرف اس مجرور سے ملی ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر نہیں کیا،یعنی:
''يأتيها في'' كا مجرور۔
اس لفظ كے ذكر نہ کرنے کا سبب اس دورکے ایک نامور دیوبندی عالم مولانا سلیم اللہ خان نے یوں ذکر کی ہے:
امام بخاری نے مجرور ذکر نہیں کیا،عام طور سے امام بخاری کو جب کسی لفظ کے متعلق اشکال ہوتا ہے تو وہ وہاں بیاض چھوڑ دیا کرتے ہیں کہ بعد میں جب اطمینان ہوگا تو دیکھیں گے،تاہم بسا اوقات وہ بیاض بیاض ہی رہ جاتا ہے،یہاں پر ایسا ہی ہواہے۔ (کشف الباری،کتاب التفسیر،ص:74)

''يأتيها في'' كا مجرور ذكر نہ کرنے کا سبب ایک اور دیوبندی عالم دین مولانا صوفی محمد سرورصاحب ،شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ،لاہور نے بھی کی ہے،وہ اپنی کتاب الخیر الجاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
امام بخاری کے نزدیک یہاں جو راوی نے دبر کا لفظ نقل کیا تھا وہ ثابت نہ تھا،کیوں کہ سعید بن یسار سے عن ابن عمر اس فعل کے بارے میں منقول ہے:
''أف أو يفعل ذلك مسلم''
وه مزيد اس كی توجیہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
راوی نے جو دبر کا لفظ نقل کیا تھا،یہ امام بخاری کے نزدیک روایت بالمعنی تھی،سیدنا ابن عمر کی مراد ''من جهة الدبر''
تھی کہ الٹا لِٹا کر فرج میں جماع کیا جائے،کسی راوی نے ان لفظوں سے ذکر کر دیا:''یأتها في الدبر'' اس سے غلط معنی کی طرف ذہن جاتا ہے،اس لیے امام بخاری نے دبر کا لفظ ہی ذکر نہ فرمایا۔ اس کی تائید نسائی کی روایت سے ہوتی ہے عن نافع عن ابن عمر اس میں اِدبار (یعنی پیچھے سے قبل میں جماع کرنا) اباحت کا ذکر ہے،ساتھ موضع حرث کی تصریح بھی ہے۔ (الخیر الجاری شرح صحیح البخاری:189/5)
شیخ الحدیث حضرت مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب لکھتے ہیں:

عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم
سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟
(سنن النسائي الكبرى : 8978 ، سنده صحيح ،الدارمي :1/260 ،الطحاوي شرح المعاني :3/41)
اس روایت سے صاف واضح ہے کہ ابن عمر اس فعل کے قائل نہیں تھے،علامہ ناصر الدین البانی نے آداب الزفاف میں اس اثر کو صحیح کہا ہے اور یہ اثر واضح دلیل ہے اس امر کی کہ انھوں نے سختی سے اس فعل کا انکار کیا ہے۔ (الاعتصام،جلد 60،شمارہ نمبر:3)
جامعہ رحمانیہ کے موجودہ شیخ الحدیث رمضان اثری صاحب سے ابن عمر کی طرف جماع فی الدبر کے جواز کے بارے میں بات ہوئی تو انھوں نے واشگاف الفاظ میں اس کی تردید کی اور ابن عمر کی طرف اس فعل کی نسبت سے انکار کیا،دلیل کے طور پر صحیح بخاری کی اسی روایت کو دلیل بنایا جسے لوگ اس فعل شنیع کے جائز ہونے کی دلیل بناتے ہیں،شیخ نے کہا کہ حرف جر ''فی '' کے بعد مجرور کا ذکر نہیں ہے،یہ اس بات کی دلیل ہے کہابن عمر کی طرف اس فعل کا انتساب غلط ہے۔
عصر حاضر کے نامور مفتی جناب مبشر ربانی سے ابن عمر کی طرف جماع فی الدبر کے جواز کے بارے میں بات ہوئی تو انھوں نے واشگاف الفاظ میں اس کی تردید کی اور ابن عمر کی طرف اس فعل کی نسبت سے انکار کیا،دلیل کے طور پرسنن النسائی الکبری کی اس روایت کا ذکر کیا:
عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم (سنن النسائي الكبرى : 8978 )
علامہ عبد اللہ البخاری رقم طراز ہیں:بلکہ ابن عمر ایک روایت وارد ہوئی ہے جو اس مسئلے میں افادیت رکھتی ہےاور وطی فی الدبر کے حرام ہونے کے بارے میں نص کا درج رکھتی ہے۔
ولكن وردت رواية عن ابن عمر رضي الله عنه تفيد و تنص على القول بالتحريم من اتيان الدبر ( اتحاف النبلاءبأدلة تحريم اتيان المحل المكروه من النساء،عبد الله بن محمد عبد الرحيم البخاري: ص:65)
نافع کا انکار:

سیدنا عبد اللہ بن عمر کے شاگردرشید ابو عبد اللہ نافع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،بلکہ انھوں نے تو عبد اللہ بن عمر سے اس کی حرمت کو روایت کیا ہے۔محدث کبیر جناب امام نسائی ابن عمر کے بارے رقم طراز ہیں:
عن أبي النضر أنه قال لنافع مولى عبد الله بن عمر قد أكثر عليك القول أنك تقول عن بن عمر إنه أفتى بأن يؤتى النساء في أدبارها قال نافع لقد كذبوا علي ولكني سأخبرك كيف كان الأمر إن بن عمر عرض المصحف يوما وأنا عنده حتى بلغ نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم قال يا نافع هل تعلم ما أمر هذه الآية إنا كنا معشر قريش نجيء النساء فلما دخلنا المدينة ونكحنا نساء الأنصار أردنا منهن مثل ما كنا نريد من نسائنا فإذا هن قد كرهن ذلك وأعظمنه وكانت نساء الأنصار إنما يؤتين على جنوبهن فأنزل الله تعالى نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم
ابو نظر سے مروی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمر کے غلام نافع سے کہا:تیرے بارے میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ تو ابن عمر اس سے ان کا یہ فتوی بیان کرتا ہے کہ عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے۔ نافع نے جواب دیا:بلاشبہ انھوں نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے،بلکہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ(حقیقت میں) مسئلہ کیا تھا:
ایک دن میری سامنے عبد اللہ بن عمر نے مصحف(قرآن مجید) کھولا،یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے(نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم)
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) اور پوچھا: اے نافع! کیا تو جانتا ہے کہ اس آیت میں کیا بیان ہوا ہے؟بے شک ہم قریشی لوگ جیسے چاہتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے،لیکن جب ہم مدینےآئے اور انصاری عورتوں سے شادیاں رچائیں تو ہم ان سے بھی اسی طریقے سے جماع کرنا چاہا جیسے ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے،انصاری عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور بہت غلط سمجھا،انصاری عورتوں پہلو کے بل جماع کیا جاتا تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتمتمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ)
سنن النسائي الكبرى ( 8978 ) سنده حسن .
محدث کبیر جناب امام نسائی وطی فی الدبر کے بارے رقم طراز ہیں:
عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم
سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟
سنن النسائي الكبرى : 8978 ) سنده صحيح ،الدارمي :1/260 )الطحاوي شرح المعاني :3/41)
سیدنا ابن عمر کے بارے میں جو بات سعید بن یسار نے بیان کی ہے صرف یہی درست ہے،اس لیے کہ اس میں دوسری روایات کے ساتھ تعارض نہیں ہے،کیوں کہ ان روایات میں دخول فی الدبر کی صراحت نہیں ہے۔
ابن عمر اور جماع فی الدبرکے بارےجید علمائے سلف کے اقوال:

امام ابن قيم نے تہذیب السنن میں عبد اللہ بن عمر سے وطی فی الدبر کی حرمت کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
(( فهذا هو الثابت عن ابن عمر ولم يفهم عنه من نقل عنه غير ذلك )) (تهذيب السنن :6/ 141)
یعنی عبد اللہ بن عمر سے صرف یہی (حرمت وطی فی الدبر) ثابت ہے،اور جس نے ابن عمر سے وطی الدبر کا جواز نقل کیا ہے،اسے عبد اللہ بن عمر کے اس قول(وطی فی الدبر) کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
یہاں پر علامہ البانی نے آداب الزفاف میں بہت اچھی بات لکھی ہے:

وهو نص صريح من ابن عمر في إنكاره أشد الإنكار إتيان النساء في الدبر فما أورده السيوطي في "أسباب النزول" وغيره في غيره مما ينافي هذا النص خطأ عليه قطعا فلا يلتفت إليه. )آداب الزفاف:ص(101:
''مندرجہ بالا اثر عبد اللہ بن عمر کی طرف اس بات پر صریح نص ہے کہ انھوں نے وطی فی الدبر کا سختی سے انکار کیا ہے اور جو بات امام سیوطی نے اسباب النزول میں اور دیگر علماء نے اس نص کے خلاف اپنی کتابوں لکھی ہے وہ ابن عمر پر جھوٹا الزام ہے،لہذا وہ قابل التفات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سےان سب علماء کو وہم ہوا ہے جو ان ابن عمر سے وطی فی الدبر کا جواز کرتے ہیں،کیوں عورت کی دبر کی طرف سے آنے کے جواز کی وجہ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ عورت کی دبر میں جماع جائز ہے،لیکن عبداللہ بن عمر کی یہ مراد نہیں ہے جیسا کہ اس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔
حافظ ابن کثیر سعید بن یسار کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

''عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم''
(
سنن النسائي الكبرى : 8978 )
((وهذا إسناد صحيح ونص صريح منه بتحريم ذلك فكل ماورد عنه مما يحتمل فهو مردود إلى هذا المحكم )) ( التفسير 1/265

(
اس روایت کی سند صحیح ہے اور عبد اللہ بن عمر کی جانب سے اس فعل کے حرام ہونے پر صریح نص ہے،لہذا ان کے اس صریح حکم کے ہوتے ہوئےہر احتمال والی بات کو رد کر دیا جائے گا۔
امام ابن تیمیہ ابن عمر کو اس فعل شنیع سے بری کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ونافع نقل عن ابن عمر أنه لما قرأ عليه: {نساؤكم حرث لكم} قال له ابن عمر: إنها نزلت في إتيان النساء في أدبارهن. فمن الناس من يقول غلط نافع على ابن عمر أو لم يفهم مراده؛ وكان مراده: أنها نزلت في إتيان النساء من جهة الدبر في القبل. وكان سالم بن عبدالله بن عمر يقول: كذب العبد على أبي. وهذا مما يقوي غلط نافع على ابن عمر. (مجموع الفتاوی:266/32)
اور نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ انھوں جب نافع پر اس آیت{نساؤكم حرث لكم} کو پڈھاتو اسے کہا:بے شک یہ آیت عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے،بعض لوگ کہتے ہیں کہ نافع نے ابن عمر سے اس روایت کو بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے یا نافع کو ابن عمر کی مراد سمجھ نہیں آئی اور ابن عمر کی مراد یہ تھی کہ یہ آیت دبر کی جانب سے عورتوں کی فرج میں جماع کرنے کے جواز کے بارے نازل ہوئی اور سالم بن عبداللہ کہا کرتے تھے کہ نافع نے میرے والد پر جھوٹ بولا ہے اور اس سے یہ بات مزید مضبوط ہو جاتی ہے کہ اس مسئلے میں نافع غلطی لگی ہے
. امام ذہبی اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقد جاءت رواية أخرى عنه بتحريم أدبار النساء وما جاء عنه بالرخصة فلو صح لما كان صريحا بل يحتمل أنه أراد بدبرها من ورائها في القبل وقد أوضحنا المسألة في مصنف مفيد لا يطالعه عالم إلا ويقطع بتحريم ذلك ))
( السير 5/100) و انظر ( السير 14/128)

بلاشبہ عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کے حرام ہونے کی روایت بھی مروی ہے،اور ان سے جو جماع فی الدبر کے جواز کے بارے منقول ہے اگر چہ وہ صحیح ہے مگر اس میں صراحت نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ دبر میں آنے سے ان کی مراد دبر کے پیچھے سے قبل میں آنا ہے،ہم نے اس مسئلے کی وضاحت ایک ایسی مفید کتاب میں کردی ہے جو بھی عالم اسے کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ اس فعل ضرور حرام کہے گا۔''
سالم بن عبداللہ کا نافع کی روایت سے انکار کرنا:

عبد اللہ بن عمر سے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے راویوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا ہے،عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم بن عبد اللہ نے بھی اس معاملے میں نافع کی تردید کی ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کی طرف اس فعل شنیع کی نسبت غلط ہےاور یہ سب راویوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے،علامہ طحاوی سالم اور نافع کے اختلاف کو بیان کرنے کے لیے یہ روایت لے کرآئے ہیں:
عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَنْ يُحَدِّثَهُ بِحَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا فِي إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَقَالَ سَالِمٌ: كَذَبَ الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: أَخْطَأَ، إِنَّمَا قَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْتَيْنَ فِي فُرُوجِهِنَّ مِنْ أَدْبَارِهِنَّ "(شرح معانی الآثار:42/3،المخلصیات، أبو طاهر المخَلِّص:353/2، الطبري في «تفسيره» (2/394)
جناب موسی بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس کے والد نے سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ وہ اسے نافع کی وہ حدیث بیان کرے جسے وہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کو جائز کہتے تھے،تابعی جلیل جناب سالم بن عبد اللہ یہ سن کے کہنے لگے : اس بندے(نافع) کو غلطی لگی یا اس سے خطا ہوئی ہے،عبد اللہ بن عمر نے صرف یہ کہا ہے:عورتوں سے دبر کی جانب سے فرج میں جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن عساکر کا نافع کی روایت کو رد کرنا:
تابعی جلیل جناب نافع سے روایات کو بیان کرتے ہوئے غلطی ہوجاتی تھی،جسے کئی علمائے کرام نے بیان کیا ہے،ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس بات کا ذکرابو بکر برقانی کے طریق سے کیا ہے،چناں وہ لکھتے ہیں:

عن إسماعيل بن أمية قال: «كنا نرد نافعاً على أن لا يلحن، فيأبى إلا الذي سمع))
جناب اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نافع کی غلطیوں پر اسے لقمہ دیتے تھے،لیکن وہ اسے ماننے سے انکار کر دیتا تھا،صرف اپنی سنی بات ہی بیان کرتا تھا۔
مؤرخ شہیر جناب ابن عساکر نے اس بات کونافع سے چار مختلف طرق سے بیان کیا ہے کہ احادیث کو بیان کرنے میں غلطیاں کیا تھا اور غلطی پر لقمہ بھی قبول نہ کرتا تھا،ان چار سندوں کو بیان کرنے کے بعد جناب ابن عساکر نے جناب نافع سے یہی وطی فی الدبر والی بات بیان کی ہے،وہ لکھتے ہیں:

عن خصيف قال: سألت سعيد بن جبير عن الذي روى نافع عن ابن عمر في قوله {فائتوا حرثكم أنى شئتم}؟ فقال سعيد: كذب نافع - أو قال: أخطأ نافع -، ثم قال لي خصيف: "إن ابن عمر لم يكن يرى العزل، فأي عزل أشد مما قال أمرت أن تعتزل في المحيض".
خصیف سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب سعید بن جبیر سے نافع کی اس روایت کے بارے سوال کیا جو اس نے سیدنا عبد اللہ بن عمر سے اللہ کے اس فرمان{فائتوا حرثكم أنى شئتم} کے بارے میں بیان کی ہے،تو انھوں نے کہا:نافع سے یہاں غلطی ہوئی ہے یا کہا: نافع سے یہاں خطا ہوئی ہے۔
راوی کہتا ہے کہ روایت بیان کرنے کے بعد خصیف نے کہا:بلاشبہ ابن عمر عزل کو جائز نہیں سمجھتے تھے،تو پھر اس سے بدترین عزل کیا ہوگا کہ وہ تجھے یہ کہیں کہ تجھے اس بات کا حکم ہے کہ تو حیض والی جگہ(یعنی دبر) میں عزل کر۔ (راوی نے مجازا دبر کو گندگی کی وجہ حیض والی جگہ کہا ہے)
ظاہر سی بات ہے کہ ابن عساکر نے پہلے نافع کی اغلاط کا ذکر کیا ہے،اس کے بعدنافع کی وطی فی الدبر والی روایت لے کر آئے ہیں،معلوم ہوتا ہے کہ نافع کے بارے میں ان کی بھی یہی رائے ہیں کہ نافع سے عبد اللہ بن عمر کی اس روایت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے،کیوں کہ نافع کےلحن کو بیان کرنےکے بعد وہ اس روایت کو لے کر آئے ہیں ،یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ وہ نافع کی وطی فی الدبر والی روایت کو غلط ثابت کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ابن عساکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نافع سے اس روایت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔
ہر شخص کویہ جان لینا چاہیےکہ ابن عمر سے اس مسئلے کو نقل کرتے ہوئے اجتہاد سے کام لیا گیا ہے،اس لیے اس مسئلے کو واضح کرنے کے لیے ہم نے ابن عمر سے منقول روایات کے صحیح فہم کوشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم،حافظ ابن کثیر اور علامہ ذہبی جیسے جلیل القدر علماء سے بیان کر دیا ہے کہ جن کی علمی پختگی،قوت نظر اور فقہی منزلت مسلم ہے۔
دور حاضر کے مفسر شہیر جناب امین شنقیطی عبد اللہ بن عمر کے بارے لکھتے ہیں:

وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ خِلَافُ هَذَا، وَتَكْفِيرُ مَنْ فَعَلَهُ وَهَذَا هُوَ اللَّائِقُ بِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَذَلِكَ كَذَّبَ نَافِعٌ مَنْ أَخْبَرَ عَنْهُ بِذَلِكَ، كَمَا ذَكَرَ النَّسَائِيُّ
سیدنا عبد اللہ بن عمر سے اس کے الٹ بھی مروی ہے اور اس شخص کی تکفیر بھی مروی ہے جو اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے،یہی بات ان کے شایان شان ہے،اسی طرح نافع نے اس شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے جو عبد اللہ بن عمرسے اس فعل کو بیان کرتا ہے،جیسا کہ امام نسائی نے عشرۃ النساء میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔
(أضواءالبيان في إيضاح القرآن بالقرآن،
محمد الأمين الشنقيطي:،سوره بقرة،آيت: 222 93/1)
ابن عباس کا اس مسئلے کو لے کر ابن عمر کے لیے مغفرت کی دعا کرنا:
جن لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر سے وطی فی الدبر کا جواز ثابت ہے،وہ اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیےعبد اللہ بن عباس کی اس دعا کا سہارہ لیتے ہیں جو انھوں ابن عمر کے لیے اس وقت کی تھی جب ان کو اس بات کا علم ہوا تھا کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے ہیں،گویا ابن عباس بھی اس روایت کے راوی بن کہ عبد اللہ بن عمر اس جائز سمجھتے تھے،اس کے ساتھ ساتھ ایسی روایات
(ابوداود:2164) بھی موجود ہیں کہ جن میں ابن عباس نے ابن عمر کے اس موقف کا درکیا ہے۔اس بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر ابن عباس سے سیدنا عبد اللہ بن عمر کی تردید صحیح سند سے مروی ہے تو یہ ان لوگوں کی غلطی ہے جنھوں نے اس روایت کو ابن عمر سے نقل کیا ہےاور وہ نافع ہیں،اس لیے ابن عباس کا رد تو ان لوگوں پر جنھوں نے اسے نقل کیا ہے نہ کہ عبد اللہ بن عمر پر۔ابن عباس کی یہ دعا اور رد عبد اللہ بن عمر کی غیر موجودگی تھا،یعنی ابن عمر کو اس بات کا علم ہی تھا کہ میری طرف وطی فی الدبر کے جواز کی نسبت کی جارہی ہے،یعنی کسی نے یہ بات ابن عباس کو بتائی کہ ابن عمر اس کے قائل و فاعل ہیں تو انھوں نے راوی کی بات سن ابن عمر کے لیے دعا کی اور اس کا رد بھی کیا۔ واللہ اعلم بالصواب!
وطی فی الدبر کی حرمت پر ابن عمر سمیت تمام صحابہ کا اجماع:

علامہ مارودی نے تو وطی فی الدبر کے حرام ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے،چناں چہ وہ الحاوی الکبیر میں لکھتے ہیں:

وَلِأَنَّهُ إِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ،فَإِنْ قِيلَ: فَقَدْ خَالَفَهُمُ ابْنُ عُمَرَ قِيلَ: قَدْ رَوَى عَنْهُ ابْنُهُ سَالِمٌ خِلَافَهُ، وَأَنْكَرَ عَلَى نَافِعٍ مَا رَوَاهُ عَنْهُ، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ لِنَافِعٍ أَنْتَ رَجُلٌ أعجمي، إنما قال ابن عمر مِن دُبُرِهَا فِي قُبُلِهَا، فَصَحَّفْتَ وَقُلْتَ فِي دُبُرِهَا فَأَهْلَكْتَ النِّسَاءَ.
(الحاوی الکبیر:144/1)

اور کیوں کہ وطی فی الدبر کے حرام ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے،اگر کوئی یہ کہے کہ اس مسئلے میں عبد اللہ بن عمر نے دیگر صحابہ کرام کی مخالفت کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے سالم بن عبد اللہ تو ان سے جماع فی الدبر کی حرمت بیان کی ہے،اور حسن بن عثمان نے جناب نافع سے کہا:آپ ایک عجمی آدمی ہیں،سیدنا عبد اللہ بن عمر نے تو صرف یہ کہا تھا کہ عورت کی دبر کی طرف سے اس کی قبل میں آؤ لیکن آپ نے اس میں اضافہ کر دیا ہےاور آپ نے دبر میں جماع کا کہہ دیا،گویا آپ نے عورتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔
علامہ عینی نے تو اس اجماع کو عمومی طور پر بیان کیا ہے،حتی کہ اس نے اس اجماع کو صحابہ کرام تک محدود نہیں کیا،بلکہ عام رکھا ہے،وہ البنایہ شرح ہدایہ میں رقم طراز ہیں:

''وقد انعقد الإجماع على تحريم إتيان المرأة في الدبر'' (البناية شرح الهداية:308/6)
بلاشبہ عورت کی دبر میں جماع کرنے کی حرمت پر اجماع منعقد ہوا ہے۔

 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
السلام علیکم !بہت سے علماء کی طرف منسوب ہے کہ وطی فی الدبر کی حرمت کے حوالہ سے کچھ ثابت نہیں ۔۔ سب سے بڑھ کر تو امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مؤقف ہے ۔۔ اس حوالہ سے رہنمائی فرما کر علم میں اضافہ فرمائے ۔ جزاک اللہ خیرا والسلام علیکم ۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
السلام علیکم !بہت سے علماء کی طرف منسوب ہے کہ وطی فی الدبر کی حرمت کے حوالہ سے کچھ ثابت نہیں ۔۔ سب سے بڑھ کر تو امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مؤقف ہے ۔۔ اس حوالہ سے رہنمائی فرما کر علم میں اضافہ فرمائے ۔ جزاک اللہ خیرا والسلام علیکم ۔۔
فأتوهن من حيث أمركم الله عورتوں کے پاس وہاں آؤ سے جہاں سے اللہ نے تمہیں آنے کا حکم دیا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی کا واضح حکم موجود ہے کہ اسی جگہ میں جماع کرو جس کا اللہ نے حکم دیا اور اللہ نےصرف کھیتی میں آنے کا حکم دیا ہے،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:فأتوا حرثکم أنی شئتم کھیتی کا لفظ دبر پر نہیں بولا جا سکتا۔ اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔اور اس بارے میں سینکڑوں احادیث موجود ہیں جن کی سند درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فأتوهن من حيث أمركم الله عورتوں کے پاس وہاں آؤ سے جہاں سے اللہ نے تمہیں آنے کا حکم دیا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی کا واضح حکم موجود ہے کہ اسی جگہ میں جماع کرو جس کا اللہ نے حکم دیا اور اللہ نےصرف کھیتی میں آنے کا حکم دیا ہے،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:فأتوا حرثکم أنی شئتم کھیتی کا لفظ دبر پر نہیں بولا جا سکتا۔ اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔اور اس بارے میں سینکڑوں احادیث موجود ہیں جن کی سند درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے۔
اس حدیث میں بھی نبی صلی علیہ وسلم کا واضح حکم ہیں


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اور داڑھی کو معاف کردو۔“[صحيح البخاري 7/ 160]

اس حدیث میں داڑھی کو معاف کرنے کا حکم ہے اس لئے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس حدیث میں بھی نبی صلی علیہ وسلم کا واضح حکم ہیں


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اور داڑھی کو معاف کردو۔“[صحيح البخاري 7/ 160]

اس حدیث میں داڑھی کو معاف کرنے کا حکم ہے اس لئے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے
جماع فی الدبر کے دھاگے میں داڑی آ گئی ہے۔
ویسے یہ معاف کرنا کس لفظ کا معنی ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس ویڈیو میں زبیر علی زئی نے یک مشت سے زائد داڑی کٹوانے کے جواز پر صحابہ کا اجماع بتایا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس ویڈیو میں ڈاکٹر ذاکر نے یک مشت سے زائد داڑی کاٹنے کو جائز بتایا ہے:
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میرے بھائی یہ ویڈیو تو علی مرزا کذاب کی ہے
اوہ اللہ کے بندے میں نے اس میں اس ٹکڑے کو دلیل بنایا ہے جس میں زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے یک مشت سے زائد داڑی کٹوانے کے جواز پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔
 
Top