• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ،احکام ،آداب اورفضائل

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
تحریر : خالد ابوصالح​
ترجمہ:مبصرالرحمن القاسمی (کویت)​
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یوم جمعہ کا احترام کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن۔" [زاد المعاد 1/375]. پیارے بھائی ! کتنے جمعہ مہمان کی طرح گذر گئے، اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں دی، بلکہ بہت سے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ جمعہ کے دن کا اس لیے انتظار کرتے ہیں تاکہ اس میں گناہ کا ارتکاب کریں۔


احکام وآداب​

1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کے دن نمازفجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاءنہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔
2-جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بے ہوشی طاری ہو گی، لہذا مجھ پر اس دن کثرت سے درود پڑھو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے" [احمد].
3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔ [الشرح الممتع 5/7-24].
4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ غسل کرے" [متفق علیہ]
. 5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب ؓ فر ماتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے"۔ [احمد وصححہ ابن خزیمہ]. ابوسعید خدری ؓسے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا" [مسلم].
6-نماز ِجمعہ کے لیے جلدی جانا مستحب ہے، لیکن آج اس سنت کا جنازہ نکل رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس سنت کو زندہ کرنے والوں کی زندگی میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پرفرشتے کھڑے ہوکرپہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں،سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کیا، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں۔ [مسلم850 ]
7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کے لیے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔
8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی" [متفق علیہ]. اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے: "اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے"۔ اور ابوداود کی روایت میں ہے: اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔ [صیحح ابن خزیمہ].
9-جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن سورہ¿ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے"۔[صحیح الجامع].
10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].
11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کے لیے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار روزے رکھ رہا ہو"۔ [مسلم].
12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہیے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو روزہ رکھے؛ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے ایک دن"۔ [متفق علیہ ]
. 13-جمعہ کی سنتیں: حدیث میں آیا ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے" [متفق علیہ] اسی طرح یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا"[مسلم]. اسحاق کہتے ہیں: اگر جمعہ کی (سنتیں) مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے، اور اگر گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے۔ ابوبکر الاثرم کہتے ہیں: دونوں بھی جائز ہے۔ [الحدائق لابن الجوزی 2/183].
14-اس شخص کے لیے مستحب ہے جو مسجد میں ا±س وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو کہ بیٹھنے سے پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھ لے؛ حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ¿ جمعہ دے رہے تھے، سلیک الغطفانی آئے، اور بیٹھ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے"۔ [مسلم
]. 15-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ ¿ جمعہ اور سورہ ¿منافقون، یا سورہ اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے"۔ [مسلم].


جمعہ اور ہماری غلطیاں​
الف ۔ نمازیوں کی غلطیاں​


1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے"۔ [مسلم].
2-بعض لوگ نمازِ جمعہ کے لیے آتے وقت جمعہ کی نیت کے استحضار کا خیال نہیں رکھتے، اور عام معمول کے مطابق مسجد پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ جمعہ اور دیگر عبادات کی درستگی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"۔ [البخاری].
3-جمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے' ۔ [صحیح 566].
4-خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔
5-جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔
6-اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت کرنا؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: "مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔" [الجمعة:9]. ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:"اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے. "
7-بعض افراد نافرمانی کے کاموں کو جمعہ کے دن عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، مثال کے طورپربعض لوگ کمالِ نظافت خیال کرتے ہوئے داڑھی کاٹتے ہیں۔
8-بعض لوگ اگلی صفوں کے پر ہونے سے پہلے ہی مسجد کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مسجد کے اندرونی حصے میں جگہ ہونے کے باوجود بیرونی حصے میں ہی بیٹھتے ہیں۔
9-کسی شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر اس جگہ پر خود بیٹھنا: حضرت جابر ؓسے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جمعہ کے دن کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے،کہ اس جگہ پر خود بیٹھے، بلکہ کہے: جگہ کشادہ کرو "۔ [مسلم].
10-گردنوں کو پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔ " نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی" ۔[صحیح الترغیب والترھیب وصحیح ابن ماجة].
11-باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، جس سے نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کوتکلیف ہوتی ہے۔
12-بغیر عذر کے اذان کے بعد مسجد سے نکلنا۔
13-خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا۔
14-دونوں خطبوں کے درمیان دو رکعت کا پڑھنا، ہاں دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
15- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا۔
ب-خطباءاور واعظین کی غلطیاں:
1-خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا، حضرت عمارہ ؓسے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، تو نماز کو طویل کرو اور خطبہ کو مختصر، اور بیشک تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے" [مسلم].
2-خطبہ کے لیے مناسب موضوع کا انتخاب نہ کرنا اور اسی طرح مناسب تیاری نہ کرنا، اور ایسے موضوعات پر تقریر کرنا جس کی لوگوں کو کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔
3-بہت سے واعظین اور خطباءلغوی غلطیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
4-بعض مقررین موضوع اور ضعیف احادیث اور بغیر سوچے سمجھے غلط اقوال نقل کرتے ہیں۔ 5- بعض خطیب حضرات دوسرے خطبہ میں صرف دعا پر اکتفاءکرتے ہیں اور اسی کے عادی ہیں۔.
6-خطبہ یاتقریر کے دوران قرآن کی آیات سے روگردانی کرنا؛ یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے، حضرت حارثہ بنت نعمانؓ فرماتی ہیں: میں نے سورہ (ق وَالقرآن) ہر جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبوں میں سن سن کر یاد کر لیا۔ [مسلم]
. 7-بعض خطباءاور مقررین کا خطبہ کے دوران جوش وولولہ کا اظہار نہ کرنا،حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں " ۔ [مسلم].
***​
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].

اس کی وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].

اس کی وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علامہ شمس الدین ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفی 751ھ ) نے "زاد المعاد " میں بڑی تفصیل سے اس مسئلہ پر فقہی مذاہب و آراء نقل کی ہیں ،
اس تفصیلی عبارت کا ترجمہ پیش کرنے کا تو وقت نہیں ؛
البتہ اس مسئلہ پر احادیث اور سلف کے اقوال پیش ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ ناصرالدین البانی اپنی کتاب " الاجوبۃ النافعۃ " میں فرماتے ہیں :
((وقد روى ابن أبي شيبة في ((المصنف)) (1/205/1) عن صالح بن كيسان أن أبا عبيدة خرج يوم الجمعة في بعض أسفاره ولم ينتظر الجمعة. وإسناده جيد.
امام ابن ابی شیبہؒ نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ :سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن ایک سفر آغاز کیا ،اور نماز جمعہ کا انتظار نہیں کیا ،
وروى هو والإمام محمد بن الحسن في ((السير الكبير)) (1/50 ـ بشرحه) والبيهقي (3/187) عن عمر أنه قال: ((الجمعة لا تمنع من سفر)) وسنده صحيح،
امام ابن ابی شیبہؒ اور امام محمد حنفی نے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جمعہ کی وجہ سفر منع نہیں ،

ثم روى ابن أبي شيبة نحوه عن جماعة من السلف.
امام ابن شیبہؒ نے اسی طرح دیگر سلف سے بھی جمعہ کے دن سفر کا جواز نقل کیا ہے ،
أما حديث ((من سافر بعد الفجر يوم الجمعة دعا عليه ملكاه ...)) فهو ضعيف كما بينته في ((الأحاديث الضعيفة)) (216، 217)، وأما قول الشيخ البجيرمي في ((الإقناع)) (2/177) بأنه ((قد صح)) فمما لا وجه له البتة، لا سيما وهو ليس من أهل الحديث فلا يغتر به)).
وقال رحمه الله في ((السلسلة الضعيفة)) بعد حديث ((من سافر يوم الجمعة دعا عليه ملكان أن لايصحب في سفره ولا تقضى له حاجة.)) وهو برقم (219) وهو (موضوع):


علامہ البانیؒ فرماتے ہیں :جہاں تک وہ حدیث جس میں ہے کہ : جس نے جمعہ کے دن فجر کے بعد سفر شروع کیا اس کےلئے دو فرشتے بد دعاء کرتے ہیں ،
تو واضح رہے کہ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ،اس کی تفصیل "سلسلہ احادیث ضعیفہ " میں بیان کردی گئی ہے ، اور شافعی فقیہ علامہ بجیرمیؒ کا اس ضعیف حدیث کو صحیح کہنا بے بنیاد ہے ،بالخصوص جبکہ علامہ بجیرمیؒ اہل حدیث (یعنی علم حدیث کے ماہر بھی نہیں ،اس لیئے ان کے صحیح کہنے سے دھوکہ میں نہیں آنا چاہیئے ۔

((وليس في السنة ما يمنع من السفر يوم الجمعة مطلقاً بل روي عنه صلى الله عليه وسلم أنه سافر يوم الجمعة أول النهار, ولكنه ضعيف لإرساله. وقد روى البيهقي عن الأسود بن قيس عن أبيه قال: أبصر عمر بن الخطاب رضي الله عنه رجلاً عليه هيئة سفر, فسمعه يقول: لولا أن اليوم يوم جمعة لخرجت. قال عمر رضي الله عنه: اخرج فإن الجمعة لا تحبس عن سفر. وهذا سند صحيح)).
علامہ ناصرالدین البانیؒ فرماتے ہیں : سنت (یعنی حدیث میں ) ایسی کوئی دلیل نہیں کہ جمعہ کے دن مطلقاً سفر منع ہے ، بلکہ ایک روایت جو مرسل ہونے کے سبب ضعیف ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے جمعہ کے دن پہلے پہر ایک سفر کا آغاز کیا ،
اور سنن کبریٰ بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی جمعہ کے دن سفر کی علامات و آثار کے ساتھ دیکھا ،آپ نے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اگر آج جمعہ کا دن نہ ہوتا تو میں سفر کر رہا ہوتا ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے (اگر جمعہ ہے تو کیا ہوا ) تم سفر پر نکلو ،کیونکہ جمعہ سفر سے نہیں روکتا ۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہے ۔
https://archive.org/details/FP44605/page/n115
____________________
علامہ البانیؒ اپنی دوسری کتاب ((تمام المنة)) میں فرماتے ہیں:
((ومن (السفر يوم الجمعة) ذكر أثراً: ((عن عمر: إن الجمعة لا تحبس عن سفر. وآخر عن أبي عبيدة أنه سافر يوم الجمعة. وحديث عن الزهري أن النبي صلى الله عليه وسلم سافر يوم الجمعة))
قلت: وقد أخرجها كلها ابن أبي شيبة ( 2 / 105 - 106 ) وعبد الرزاق ( 3 / 250 - 251 ) وأثر عمر له طريقان عنه أحدهما صحيح وهو مخرج في ((الضعيفة)) تحت الحديث ( 219 ). وأثر أبي عبيدة منقطع. وحديث الزهري مرسل, ومعناه صحيح ما لم يسمع النداء, فإذا سمعه وجب عليه الحضور والله أعلم.))

https://archive.org/details/FP0045/page/n319
_____________
اور شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ کا فتوی ہے ؛
حكم السفر قبل دخول وقت صلاة الجمعة
السؤال: لظروف عملي أسافر يوم الجمعة قبل أذان الظهر أو بعد الأذان وأقوم بصلاة الظهر والعصر جمع تقديم وقصر في نفس الوقت هل هذا جائز، وهل يجوز لي التأخير، علماً بأن هذا يحدث في كل شهر مرة؟

سوال : اپنے کام کے سلسسلہ میں ہر مہینہ ایک دفعہ میں جمعہ کے روز سفر کرتا ہوں ،کبھی اذان ظہر سے پہلے اور کبھی اذان کے بعد ،تو اس لئے میں نماز ظہر اور عصر اس وقت جمع مقدم کر لیتا ہوں ،

الجواب: بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله، وصلى الله وسلم على رسول الله، وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه.
أما بعد: فإذا كان السفر قبل الأذان -قبل زوال الشمس- فلا حرج إن شاء الله، والأفضل لك عدم السفر حتى تصلي الجمعة هذا هو الأفضل لك،

جواب : حمد و صلاۃ کے بعد واضح ہو کہ : جمعہ کے دن اگر اذان سے پہلے ۔۔ زوال سے پہلے ۔۔ سفر شروع کیا جائے ،توان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ،لیکن آپ کیلئے افضل و بہتر یہ ہے کہ جب تک نماز جمعہ نہ پڑھ لیں اس وقت تک سفر نہ کریں، یہ آپ کیلئے بہتر صورت ہے ،
لكن إن سافرت قبل دخول الوقت فلا حرج عليك في ذلك، ولا حرج في الجمع ما دام السفر سفر قصر كالسفر إلى الخرج أو مكة أو الحوطة وغير ذلك المقصود مسافة ثمانين كيلو تقريباً، يعني: يوم وليلة للمطية سابقاً وهي الآن بالكيلو سبعون كيلو ثمانون كيلو ما يقارب هذه المسافة تعد سفراً،
اور اگر نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے آپ نے سفر شروع کیا تو سفر کرنے میں کوئی گناہ و مضائقہ نہیں ، اور سفر قصر والا سفر ہو یعنی یہ سفر آج کل کے حساب سےتقریباً اسی (80 ) کلومیٹر مسافت پر محیط ہو ،تو دو نمازیں جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ،
لكن ينبغي لك -يا أخي- أن تحرص على حضور الجمعة لما فيها من الخير العظيم والفائدة الكبيرة، ولئلا تتخذ هذا عادة فيقسو القلب ويقل الاعتناء بهذا الأمر، فأنصحك أن تجاهد نفسك حتى تصلي الجمعة ثم تسافر، لكن لا يلزمك ذلك إذا كان السفر قبل وقت الجمعة، قبل الزوال، نعم.
لیکن میرے بھائی ! (جمعہ کے دن ) آپ کو نماز جمعہ میں شرکت و حاضری کی حرص و شوق ہونا چاہیئے ، کیونکہ نماز جمعہ میں شمولیت و شرکت میں عظیم بھلائی و بڑے فائدے ہیں ،
اور جمعہ کے دن سفر کو آپ عادت نہ بنائیں ورنہ دل سخت ہوجائے گا ، اور جمعہ و جماعت کا اہتمام ہاتھ سے جاتا رہے گا ، اس لئے میری آپ کو نصیحت ہے کہ آپ پوری کوشش سے پہلے نماز جمعہ پڑھا کیجئے ،بعد ازاں سفر پر نکلیں ، لیکن اگر آپ زوال آفتاب ،وقت جمعہ سے پہلے سفر کریں تو نماز جمعہ تک سفر سے رکنا آپ کیلئے شرعاً لازم نہیں ، (یعنی زوال سے پہلے سفر کرنے میں مضائقہ نہیں )
المقدم: جزاكم الله خيراً سماحة الشيخ! يقول: إنه يفعل هذا في كل شهر مرة؟
الشيخ: سواء في الشهر مرة أو في الشهرين الحكم واحد، نعم.
المقدم: بارك الله فيكم.


https://binbaz.org.sa/fatwas/12964/
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
جزاک اللہ خیراً کثیرا شیخ محترم اسحاق سلفی صاحب
اللہ تعالیٰ آپکے علم و عمل میں برکات عطاء فرائے۔ آمین
 
Top