رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق خلفائے راشدین کی سنت کو داڑھوں سے مضبوط پکڑنا لازم ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جن کی سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضبوطی سے پکڑنے کا حکم فرمائیں وہ دین میں بدعات جاری کرنے والے ہوں؟ ہر گز نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیا (نعوذ باللہ) عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کی تیسری آذان کا اضافہ کیا؟ آئیے اس کا صحیح اور مدلل جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سب سے پہلے قرآنِ پاک؛
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى
ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [الجمعة: 9]
مؤمنو، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے آذان دی جائے، تو اللہ کے ذکر کی طرف
لپکو، اور خرید و فروخت ترک کردو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اگر سمجھو تو ۔
O you who believe, when the call for Salah (prayer) isproclaimed on Friday, hasten for the remembranceof Allah, and leave off business. That is much betterfor you, if you but know.
آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ جب جمعہ کی آذان ہوجائے تو تمام کاروبارِ زندگی چھوڑ کر نمازِ جمعہ کی تیاری کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے لئے غسل کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا آذان کے بعد جمعہ کی نماز میں اتنا وقت ہوگا جتنے میں کوئی کاروبار چھوڑ کر غسل کر کے خطبہ جمعہ سے پہلے جتنا جلد ممکن ہو آسکے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب کا مستحق ٹھہرے۔ کیونکہ ثواب لکھنے پر مامور فرشتے جب خطبہ شروع ہوجاتا ہے تو اپنے رجسٹر بند کرکے خطبہ جمعہ سننے لگ جاتے ہیں۔
جمعہ کے دن کی یہ آذان دوسری نمازوں ہی کی طرح ہے جو کہ عموماً مساجد کے ملحقہ مناروں پر دی جاتی ہیں جوعموماً مسجد سے باہر ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ جمعہ کے دن ایک آذان اس وقت دی جاتی ہے جب خطیب منبر پرتشریف فرما ہوتا ہے۔ یہ آذان عموماً مسجد کے اندر کہی جاتی ہے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں بھی ایسا ہی تھا؟ جی ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میںبھی ایسا ہی تھا۔ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ کیدو اذانیں ہوتی تھیں۔ ایک مسجد سے ملحقہ منارہ پر اور دوسری منبر کے سامنے۔ یہی معمول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں تھا اور یہی معمول عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی تھا اور یہی معمول عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی رہا۔ ہاں البتہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں افراد کی کثرت کے باعث پہلی آذان جو مسجد سے ملحقہ منارہ پر دی جاتی تھی وہ بازار میں دی جانے لگی تاکہ سب آذان سن کر جمعہ کی تیاری میں مصروف ہو سکیں۔
شبہ کا ازالہ؛
کچھ حدیثوں سے شبہ ہوتا ہے کہ شائد عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک آذان کا اضافہ
کر دیا! حاشا وکلا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدعتی نہ تھے بلکہ متبع سنت تھے اور خلیفہ راشد تھے جن کی پیروی
کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
کسی حدیث کا وہی معنیٰ معتبر ہوگا جو قرآن اور دیگر صحیح احادیث سے متصادم نہ ہو۔
وما علینا الا البلاغ