• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن ایک دفعہ ہی اذان کہی جائے گی ، جب امام منبر پر بیٹھ جائے

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی :
دوم کہ اگر راشد محمود صاحب کا بیان کردہ مفہوم معتبر تسلیم کیا جائےتو لازم آئے گا کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی اور صحابی یا جمہور صحابہ کے فہم کو قبول کرنا لازم نہ ٹھہرے! بلکہ صرف خلفائے راشدین کا فہم لازم قرار پاتا ہے!

ازالہ : ہمارا بیان کردہ مفہوم آپ نے صحیح سمجھا ہی نہیں ہے ۔ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ نیک لوگوں کے راستہ پر چلیے ۔ لیکن آپ کو شاید نیک لوگوں کے راستہ کا نہیں پتا ؟
قارئین ! صدیقین ، شہداء یعنی الله کے مقرب بندوں کا راستہ صرف قرآن اور احادیث پر عمل کرنا ہے (دیکھیے النساء -٦٩ )
ہم تو کسی کے فہم کو تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ صرف قرآن اور احادیث نبوی کو تسلیم کرتے ہیں ۔
یہ فرقہ واریت مختلف لوگوں کے فہم کو تسلیم کرنے والوں نے ہی ڈالا ہے ، یہ آسمان سے تو نہیں اترے فرقے !بلکہ یہ اپنے اپنے سلف کے فہم کو تسلیم کرنے سے ہی بنے ہیں ۔
اگر لوگ صرف قرآن اور احادیث نبوی پر عمل کرتے تو یوں بری طرح فرقہ واریت کے عذاب کا شکار ہر گز نہ ہوتے !
لیکن ذہن پرستی ایسے ہی گل کھلاتی ہے !
پھر ابن داود صاحب حق بات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ۔
جبکہ ایسا ہے نہیں! راشد محمود صاحب کی ہی اوپر پیش کی گئی حدیث اس کو باطل ثابت کرتی ہے، اور خود راشد صاحب بھی اسی کے قائل ہیں!

تبصرہ : ۔ جناب جب آپ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن اور سنّت رسول کے خلاف کام جو ہو گا ، اس کا رد کر دیا جائے گا !
تو پھر آپ قارئین تو کیوں الجھانا چاہتے ہیں اپنے غلط استدلال میں !؟
(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی :
اور قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة البقرة 137)
پس اگر وہ بھی ایمان لے آئيں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا گئے اور اگر وہ نہ مانیں تو وہی ضد میں پڑے ہوئے ہیں سو تمہیں ان سے الله کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
یاد رہے کہ ایمان میں عمل بھی شامل ہے!
اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کا پیمانہ صرف خلفاء کو قرار نہیں دیا! فتدبر!
پھر لکھا :

جس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ یہ ہے:
وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ
یعنی کہ ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت
اب یہ کیا ہے اور کس معاملہ میں ہے؟
سنت کی فہم اور اس پر عمل کے لئے صرف خلفاءراشدین کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، یہ تو اوپر واضح کردیا گیا ہے!
اور یہاں خاص خلفاء راشدین کا کا ذکر ہے!

ازالہ : ۔
جناب یہ آیت بھی ہماری تائید میں ہے ۔الحمد للہ

آپ کا یہ کہنا کہ " اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کا پیمانہ صرف خلفاء کو قرار نہیں دیا"
درست ہے ۔ اور اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ کوئی بھی امتی ہو !اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے دین اسلام میں ۔دین اسلام یعنی صرف قرآن اور احادیث نبوی کے خلاف جس کی بھی بات ہو گی وہ ہر گز قبول نہ کی جائے گی بلکہ اس کا رد کر دیا جائے گا جس طرح ابن عمر اور دوسرے صحابہ نے کیا ۔
قارئین ! دین اسلام، الله کے رسول ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوا اور اس بات کا واضح اعلان بھی الله تعالیٰ نے کر دیا -
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے (المائدہ -3)
قارئین ! اس مکمل دین کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
(------------------جواب جاری ہے -------------------)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ابن داود صاحب لکھتے ہیں :
بھائی ! آپ کے مؤقف کا فساد اوپر بیان کیا ہے، اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بات اس بارے میں نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں!

تبصرہ : جناب ! آپ کے موقف کے فساد کا ازالہ بھی کر دیا گیا ، ملاحظہ کیجے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ایک اعتراف اور غلط فہمی :

معاملہ یوں کہ کہ شریعت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے! وگرنہ یہ ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہنے کی ضرورت نہ تھی، اور جب ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہا ہے تو خلفاء کا تعلق امور خلافت و مملکت و سیاسیات سے ہوتا ہے!
ان شاء اللہ آپ کو یہ بات واضح ہو گئی ہو گی، کہ آپ کے فہم میں خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کے حکم کی نفی تھی، جبکہ اسحاق سلفی بھائی یہی بات سمجھا رہے تھے کہ آپ صرف (واحد) کو لازم پکڑنے کی جو بات کررہے ہیں وہ اس حدیث میں تحریف کے مترادف ہے!
ازالہ :

جناب یہ بات تو آپ آغاز ہی میں لکھ سکتے تھے !؟ لیکن آپ نے اسے اتنی لمبی تحریر کے آخر میں کیوں لکھا !؟
بہرحال ! آپ کی یہ بات درست ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں کہ خلیفہ کی

امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے!"
معروف میں اطاعت ہے جب کہ منکر میں نہیں ہے ۔
لیکن آپ اپنی بات پر کہاں تک قائم ہیں !؟ آئیے دیکھتے ہیں :

چلیں یہ بتائیے کہ جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا کیا سنّت رسول ہے ؟؟؟
اگر احادیث نبوی سے ثابت ہے تو وہ پیش کیجے اور اگر آپ کی دلیل یہ ہو کہ خلفاء کی سنّت کو بھی پکڑنا ہے تو اس کا رد آپ نے خود ہی یہ کہہ کر دیا ہے کہ
"
امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے!"
جمعہ کے دن دو دفعہ اذان دینا نہ ہی امور خلافت میں شامل ہے ، نہ مملکت میں اور نہ ہی سیاسیات میں !
اور چونکہ جمعہ کے دن دو دفعہ اذان دینے کا حکم احادیث نبوی میں نہیں ہے لہذا یہ عمل غلط ثابت ہوا اور نا قابل قبول ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
الله تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے !
آمین یا رب العالمین

والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@راشد محمود صاحب! آپ کا جواب مکمل ہو گیا؟
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب نے میری پچھلی عبارت کو تو نقل کیا لیکن اس سے اگلی جو نقل کی اس میں لکھنے میں تھوڑی غلطی ہوئی تھی اور تصحیح کر دی گئی تھی لیکن شائد موصوف نے پچھلی گفتگو کو ملاحظہ نہیں کیا !؟ اسی لئے شائد انہیں وہ تصحیح نظر نہیں آئی۔
جناب! ہم نے پوری گفتگو کا ملاحظہ کیا ہے، اور آپ کی ساری باتوں کو مدنظر بھی رکھا ہے!
جناب میرے پچھلے پیغام میں یہ بات واضح ہے کہ
ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ۔
لیکن جناب نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اسے خاطر میں نہیں لائے ۔ بہر حال یہ ترجمہ اب ذہن نشین کر لیجیے اچھی طرح اور آئندہ اگر پچھلے پیغامات میں یہ غلطی نظر آئے تو اسے اس ترجمہ کی بنیاد پر نظر انداز کر دیجیےگا ۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہمارے مراسلہ کا مطالعہ بغور نہیں کیا، کیونکہ آپ کی اس عبارت کا اقتباس بھی ہم نے پیش کیا تھا؛ ملاحظہ فرمائیں:
عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )
تو میاں! وہ کہتے ہیں کہ :
ہم الزام انہیں دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

پھر آپ نے ہمارا یہ اقتباس پیش کیا:


ابن داود, post: 275788, member: 707"]راشد صاحب کا مدعا یہ ہے کہ یہاں ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنا'' مراد ہے!
یعنی راشد صاحب کہ بقول اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح لازم پکڑنے کا حکم ہے! اس کے علاوہ کسی اور امر کا حکم نہیں![/QUOTE]

اور اس درج ذیل سرخی لگاتے ہیں:
تصحیح :۔
اب راشد صاحب! پہلے یہ تو بتلاتے کہ ہم نے ان سے جو بات منسوب کی ہے، وہ ان کے کلام میں نہیں! اور اپنے کلام سے میرے بیان کا تضاد بیان فرما تے تو پھر بعد میں انہیں میرے بیان کی تصحیح کرتے تو الگ بات تھی!
تو میاں! ہمارا بیان آپ کے کلام پر بالکل صحیح ہے، اس میں تصحیح کی کوئی حاجت نہیں!
میں آپ کا کلام اور اپنا بیان پھر پیش کر دیتا ہوں؛ آپ ان دونوں میں تضاد بیان کیجئے کہ ہم نے ایسی کون سی بات آپ سے منسوب کردی ہے، جو آپ کے کلام میں نہیں:
راشد محمود کا کلام:

عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )
اس پر مزید تعلیق یہ لگائی ہے کہ:
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
ہمارا بیان:
راشد صاحب کا مدعا یہ ہے کہ یہاں ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنا'' مراد ہے!
یعنی راشد صاحب کہ بقول اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح لازم پکڑنے کا حکم ہے! اس کے علاوہ کسی اور امر کا حکم نہیں!
پہلے ہمارے بیان میں نقص بیان کیجئے کہ ہم نے ایسی کوئی بات بیان کی ہو جو آپ کے کلام میں نہ ہو!
پھر آپ ''تصحیح'' کا نعرہ بلند کیجئے گا!

جناب دین میں میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کی بات کی اہمیت ہے ۔
آپ سرخ رنگ میں بیان کردہ بات درست ہے، اور نیلے رنگ میں کی ہوئی بات درست نہیں!
کہ جہلا کا دین کے معاملہ میں قرآن و حدیث کی تفسیر و شرح بیان کرنا اور ان کا کسی حدیث سے کوئی معنی اخذ کرنا اور مسائل کا استدلال و استنباط کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ یہ گمراہی ہے کا گڑھا ہے!
جبکہ علماء کا قرآن و حدیث کی تفسیر و شرح بیان کرنا اور ان کا کسی قرآن و حدیث سے مسائل کا استدلال و استنباط کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، اور اس سے مستفیذ ہونا لازم ہے!

دین اسلام میں حجت صرف اور صرف قرآن اور احادیث نبوی ہیں ۔
دین اسلام میں اصل ، بنیادی اور بذاتہ حجت صرف قرآن و حدیث ہے، اور باقی ان کے تابع ، اور انہیں سے ماخوذ ہے!

الله تعالیٰ فرماتا ہے

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ

تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )
جی جناب! اور جن کی وحی نے حکم دیا ہے، وہ وحی کے تابع ہے، یعنی قرآن و حدیث کے تابع، فتدبر!
غلط فہمی :۔
اگر راشد محمود صاحب کا فہم معتبر تسلیم کیا جائے تو لازم آئے گا کہ کسی خلیفہ راشد نے شریعت کے بیان میں تمام اقوال درست تسلیم کیئے جائیں اور شریعت کے بیان میں انہیں معصوم تسلیم کیا جائے!
میاں جی! ہمیں کوئی غلط فہمی لاحق نہیں ہوئی! یہ بات آپ کے کلام میں موجود ہے!
ازالہ : ۔
قارئین ! ابن داود صاحب کا یہ کہنا کہ
"اگر راشد محمود صاحب کا فہم معتبر تسلیم کیا جائے تو لازم آئے گا کہ کسی خلیفہ راشد نے شریعت کے بیان میں تمام اقوال درست تسلیم کیئے جائیں اور شریعت کے بیان میں انہیں معصوم تسلیم کیا جائے!"

اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جناب نے میری بات کو صحیح طرح سمجھا ہی نہیں ہے ۔ اگر سمجھا ہوتا تو مذکور بالا غلط فہمی قطعا نہ ہوتی ۔
راشد محمود صاحب! یہ بات آپ کے بکلام میں موجود ہو! اگر آپ کا مدعا یہ ہے کہ ہمارا بیان آپ کے کلام میں موجود نہیں، تو آپ ہمارے بیان اور اپنے کلام کا موازنہ کرکے ثابت کیجئے! آپ کا یہ کہنا کہ ہمارے بیان سے اس بات کا ثبوت ہے کہہ ہم نے نہیں سمجھا، عبث ہے!
بہرحال ! میں مزید وضاحت کرتا ہوں ۔ان شاء الله
قارئین کرام ! نیک صدیقین ہوں یا خلفاء راشدین، ان کی سنّت (یعنی طریقہ ) سے کیا مراد ہے ؟؟؟
چلیں ہم بھی دیکھتے ہیں آپ یہاں کیا گل گھلاتے ہیں!
ایک غلط فہمی جو پیدا ہوتی ہے اس جملہ میں کہ "سبیل المؤمنین کی پیروی کرنی ہے !؟
جی جناب ! تو یہاں تو سبیل المومنین کی پیروی کا معاملہ ہے! نہ کہ خاص خلفاء الراشدین کے حوالہ سے!
جبکہ زیر بحث حدیث میں خاص خلفاء الراشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم ہے!


ازالہ : ۔
آپ کی غلط فہمی کا ازالہ تو ہم نے ابھی اوپر کردیا ہے! اگر سمجھ آجائے تو!
اس فقرے سے ہر فرقہ اپنا مطلب پورا کرتا ہے ، یعنی کوئی اس سے تقلید کو ثابت کرتا ہے تو کوئی کچھ وغیرہ وغیرہ ....۔
اس فقرے پر غور و فکر کیا جائے تو معاملہ حل ہو جاتا ہے لیکن لوگ تحقیق کی بجائے تقلید کرتے ہیں تو غور
و فکر کیسے ہو ؟؟؟

قارئین ! اس جملہ کو غور کے ساتھ سمجھیں -
اس میں یہ نہیں کہ مؤمنین کی یعنی اولیاء الله کی پیروی کرنی ہے بلکہ اس میں لکھا ہے کہ مؤمنین یعنی اولیاء الله کے راستہ کی پیروی کرنی ہے ۔ اور مؤمنین کا راستہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے ۔
جی جناب! یہاں بلکل اولیاء اللہ کے راستہ کی پیروی کرنی ہے!
لیکن ہمارا موضوع گفتگو وہ حدیث ہے کہ جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص خلفاء کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے!


اس فقرے سے ہر فرقہ اپنا مطلب پورا کرتا ہے ، یعنی کوئی اس سے تقلید کو ثابت کرتا ہے تو کوئی کچھ وغیرہ وغیرہ ....۔
اس فقرے پر غور و فکر کیا جائے تو معاملہ حل ہو جاتا ہے لیکن لوگ تحقیق کی بجائے تقلید کرتے ہیں تو غور
و فکر کیسے ہو ؟؟؟

قارئین ! اس جملہ کو غور کے ساتھ سمجھیں -
اس میں یہ نہیں کہ مؤمنین کی یعنی اولیاء الله کی پیروی کرنی ہے بلکہ اس میں لکھا ہے کہ مؤمنین یعنی اولیاء الله کے راستہ کی پیروی کرنی ہے ۔ اور مؤمنین کا راستہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے ۔
آئیے اس بات کا جواب قرآن مجید سے دیکھتے ہیں ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے : ۔


وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیائ، صدیقین، شہیدوں اور صالحین [٩٩] کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں
(النساء -٦٩ )

قارئین ! اس آیت میں الله تعالیٰ نے نیک لوگوں کا راستہ بتا دیا ۔نیک لوگوں یعنی ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ صرف الله اور اس کے رسول کی اطاعت ہے یعنی صرف قرآن اور احادیث نبوی ۔
یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کا شمار ان لوگوں کے زمرے میں ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں :


(اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ)

آیت زیر مطالعہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ“ کی تفسیر ہے۔کیونکہ قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ۔
تو میاں صاحب! اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو ماننا بھی لازم ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص خلفاء کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے!

غلط فہمی : ۔
راشد محمود صاحب اسے اپنے مؤقف کے اثبات میں پیش کررہے ہیں، جب کہ اس سے ان کا مؤقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے!
وہ یہ کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو کہ خلیفہ راشد ہیں، ان کے اس قول و حکم کو رد کردیا!
یعنی کی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کے مفہوم کی مخالفت کررہے ہیں کہ جس کا حکم خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے دیا تھا۔
میاں جی! یہ بات ہم نے یہ حدیث کا مقتضیٰ بیان نہیں کیا، یہ ہم نے آپ کے کلام کا مقتضیٰ بیان کیا ہے!
اورغلط فہمی آپ کو لاحق ہے ، اور اسے آپ ہمارے سر باندھ رہے ہو!
ازالہ : ۔ شاید ابن داود صاحب نے صحیح طرح روایت کو سمجھا نہیں ہے !؟ اور اگر سمجھنے کی کوشش بھی کی !؟ تو غلط سمجھے ۔
جناب اس سے ہمارا موقف غلط ثابت نہیں ہوتا بلکہ ثابت ہوتا ہے ۔
آپ کی عقل کو داد دینے کا جی چاہتا ہے! ہم آپ کے کلام پر بات کر رہے ہیں، اور آپ اسے حدیث پر محمول کر رہے ہیں!
وضاحت : ۔ اگر ابن عمر خلیفہ کے حکم کو مان لیتے ، تب ہمارا موقف غلط ثابت ہو سکتا تھا !؟
کیوں جناب! عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو نہ ماننے سے آپ کا مؤقف کیونکر ثابت ہوتا ہے!
آپ کا مؤقف تو یہ ہے کہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی خلفاء راشد کے طریقہ کے مطابق کرنی ہے!
لیکن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خلفاء راشد کے طریقہ کا انکار فرما رہے ہیں!


لیکن انہوں نے اس حکم کو جو کہ سنّت رسول کے خلاف تھا ، اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
یعنی کہ عبد اللہ بن عمر نے سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خلفاء راشد کے طریقہ سے ماننے سے انکار کردیا!
یہ تو آپ کے مؤقف کے برخلاف ٹھہرا!


اور عمر رضی الله عنہ نے بھی رجوع کر لیا کیوں کہ وہ ہدایت یافتہ تھے اور ان کا راستہ(طریقہ ، سنّت ) صرف قرآن اور حدیث کی اطاعت تھا اور اسی چیز کی اطاعت کا حکم دیا گیا
راشد محمود صاحب! آپ کا مدعا یہ ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو خلفاء الرشدین کے طریقہ کے مطابق پکڑنا ہے! جب کہ خلیفہ راشد کے طریقہ کے مطابق نہ تو ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اس حدیث میں اختیار کیا ، بلکہ خلیفہ راشد نے خود بھی رجوع کرلیا!
یعنی کہ آپ کا مؤقف باطل ثابت ہوا!


"ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ۔"
ثابت ہو گئی ۔
آپ کے مؤقف کا بطلان ثابت ہو چکا ہے!
غلط فہمی :
دوم کہ اگر راشد محمود صاحب کا بیان کردہ مفہوم معتبر تسلیم کیا جائےتو لازم آئے گا کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی اور صحابی یا جمہور صحابہ کے فہم کو قبول کرنا لازم نہ ٹھہرے! بلکہ صرف خلفائے راشدین کا فہم لازم قرار پاتا ہے!
ازالہ : ہمارا بیان کردہ مفہوم آپ نے صحیح سمجھا ہی نہیں ہے ۔ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ نیک لوگوں کے راستہ پر چلیے ۔ لیکن آپ کو شاید نیک لوگوں کے راستہ کا نہیں پتا ؟
راشد محمود صاحب! ہوش و حواس میں تو ہیں!
جو حدیث زیر بحث ہے، وہاں خاص خلفاء الرشدین کی بات ہے!
اور وہاں آپ کا مدعا یہ ہے کہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خلفاء راشدین کے طریقہ کے مطابق لازم پکڑا جائے!
یہاں خلفاء الراشدین کے علاوہ کسی دوسرے نیک لوگوں کے حوالہ سے اس حدیث میں حکم نہیں!
راشد محمود صاحب! اگر آپ اس حدیث کے ترجمہ میں ایک اور تحریف کر کے وہاں ''خلفاء الراشدین'' کے بجائے ''نیک لوگ'' لکھ دیں!
پھر اگر آپ یہ بات کریں تو الگ بات ہے!

قارئین ! صدیقین ، شہداء یعنی الله کے مقرب بندوں کا راستہ صرف قرآن اور احادیث پر عمل کرنا ہے (دیکھیے النساء -٦٩ )
جی ! اور قرآن و حدیث پر عمل کرنے میں خلفاء الراشدین کی سنت کو لازم پکڑنا بھی شامل ہے! جو خلفاء الراشدین کی سنت سے اعراض کرتا ہ، وہ قرآن و حدیث کے حکم سے اعراض کرتا ہے!
ہم تو کسی کے فہم کو تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ صرف قرآن اور احادیث نبوی کو تسلیم کرتے ہیں ۔
تو آپ کے سر پر سینگ ہیں؟ یا آپ کو سرخاب کے پر لگے ہیں؟ یا آپ آسمان سے ٹپکے ہیں؟

کہ آپ کی قرآن و حدیث کی اس ناقص فہم کو مانا جائے!

یہ فرقہ واریت مختلف لوگوں کے فہم کو تسلیم کرنے والوں نے ہی ڈالا ہے ، یہ آسمان سے تو نہیں اترے فرقے !بلکہ یہ اپنے اپنے سلف کے فہم کو تسلیم کرنے سے ہی بنے ہیں ۔
اگر لوگ صرف قرآن اور احادیث نبوی پر عمل کرتے تو یوں بری طرح فرقہ واریت کے عذاب کا شکار ہر گز نہ ہوتے !
اس کا حک آپ نے یہ نکالا کہ تمام کی فہم کو چھوڑ کر اپنی ناقص فہم کو اختیار کرکے خود ایک نئی ''فرقی'' بنا ڈالی!
اور آپ کا تعلق اب کسی غیر فرقہ سے نہیں ہے، بلکہ خود ایک ''فرقی'' کے بانی ٹھہرے!


لیکن ذہن پرستی ایسے ہی گل کھلاتی ہے !
بالکل درست فرمایا! آپ اپنی اٹکل پرستی میں جو گل کھلارہے ہیں وہ دیکھا جاسکتا ہے!
پھر ابن داود صاحب حق بات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ۔
حق سے اعراض کرنا اہل الحدیث کا شیوہ نہیں!
جبکہ ایسا ہے نہیں! راشد محمود صاحب کی ہی اوپر پیش کی گئی حدیث اس کو باطل ثابت کرتی ہے، اور خود راشد صاحب بھی اسی کے قائل ہیں!
تبصرہ : ۔ جناب جب آپ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن اور سنّت رسول کے خلاف کام جو ہو گا ، اس کا رد کر دیا جائے گا !
تو پھر آپ قارئین تو کیوں الجھانا چاہتے ہیں اپنے غلط استدلال میں !؟
میاں جی! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس حدیث پر ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہاں خلفاء الرشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا جو حکم ہے، اسے ماننا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف نہیں!
استدلال ہمارا غلط نہیں! بلکہ آپ اپنے تحریف شدہ ترجمہ کہ بناء پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے منکر ہو رہے ہو!

غلط فہمی :

اور قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة البقرة 137)
پس اگر وہ بھی ایمان لے آئيں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا گئے اور اگر وہ نہ مانیں تو وہی ضد میں پڑے ہوئے ہیں سو تمہیں ان سے الله کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
یاد رہے کہ ایمان میں عمل بھی شامل ہے!
اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کا پیمانہ صرف خلفاء کو قرار نہیں دیا! فتدبر!

جس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ یہ ہے:
وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ
یعنی کہ ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت
اب یہ کیا ہے اور کس معاملہ میں ہے؟
سنت کی فہم اور اس پر عمل کے لئے صرف خلفاءراشدین کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، یہ تو اوپر واضح کردیا گیا ہے!
اور یہاں خاص خلفاء راشدین کا کا ذکر ہے!


ازالہ : ۔
جناب یہ آیت بھی ہماری تائید میں ہے ۔الحمد للہ
آپ کا یہ کہنا کہ " اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کا پیمانہ صرف خلفاء کو قرار نہیں دیا"
درست ہے ۔ اور اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ کوئی بھی امتی ہو !اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے دین اسلام میں ۔دین اسلام یعنی صرف قرآن اور احادیث نبوی کے خلاف جس کی بھی بات ہو گی وہ ہر گز قبول نہ کی جائے گی بلکہ اس کا رد کر دیا جائے گا جس طرح ابن عمر اور دوسرے صحابہ نے کیا ۔
ارے میاں! آپ کو یہ آیت اس لئے پیش کی گئی کہ آپ کو سمجھ آئے کہ خلفاء الرشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کے لئے جو حکم ہے وہ حکم خاص خلفاء الراشدین کے لئے ہے، جبکہ ایمان کا پیمانہ تو تمام صحابہ ہیں!
اور آگے آپ کو یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ حدیث میں خاص خلفاء الراشدین کے حوالہ سے حکم کیوں ہے!

قارئین ! دین اسلام، الله کے رسول ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوا اور اس بات کا واضح اعلان بھی الله تعالیٰ نے کر دیا -
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے (المائدہ -3)
جی اور اسی مکمل دین نے خلفاء کو خلافت ، سیاست اور ملکی امور میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے، اور خلفاء الراشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم اسی مکمل دین نے دیا ہے!
قارئین ! اس مکمل دین کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
جی کل کو آپ ہوائی جہاز میں سفر کرنے کو بھی بدعت نہیں کہہ دیجئے گا!
یہ بات ان امور میں نہیں ہے کہ جس میں خلفاء الراشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے!

تبصرہ : جناب ! آپ کے موقف کے فساد کا ازالہ بھی کر دیا گیا ، ملاحظہ کیجے ۔
اور آپ کی اس غلط فہمی و ازالہ کی حقیقت بھی ہم بیان کرتے آئے ہیں!
ایک اعتراف اور غلط فہمی :
معاملہ یوں کہ کہ شریعت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے! وگرنہ یہ ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہنے کی ضرورت نہ تھی، اور جب ''ہدایت یافتہ خلفائے راشدین'' کہا ہے تو خلفاء کا تعلق امور خلافت و مملکت و سیاسیات سے ہوتا ہے!
ان شاء اللہ آپ کو یہ بات واضح ہو گئی ہو گی، کہ آپ کے فہم میں خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کے حکم کی نفی تھی، جبکہ اسحاق سلفی بھائی یہی بات سمجھا رہے تھے کہ آپ صرف (واحد) کو لازم پکڑنے کی جو بات کررہے ہیں وہ اس حدیث میں تحریف کے مترادف ہے!
ازالہ :
جناب یہ بات تو آپ آغاز ہی میں لکھ سکتے تھے !؟ لیکن آپ نے اسے اتنی لمبی تحریر کے آخر میں کیوں لکھا !؟
میاں جی! اب آپ کو یہ کس حکیم نے کہا تھا مکمل تحریر پڑھے بغیر ایک ایک بات پڑھتے جاؤ اور اپ پر اپنی اٹکل کے تیر چلاتے جاؤ!
آپ کو پہلے مکمل تحریر پڑھنا چاہیئے تھی!
پہلے ہم نے اپنے کے مؤقف کا بطلان بیان کیا ہے، اور پھر ہم نے اس حدیث کی صحیح فہم بیان کی ہے!

بہرحال ! آپ کی یہ بات درست ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں کہ خلیفہ کی
جب آپ کو تسلیم ہے کہ ہماری بات درست ہے ، تو آپ نے غلط مؤقف اختیار کیا ہے اس سے رجوع کا اعلان کیجئے!
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شرعی حکم میں اپنے والد ، خلیفہ راشد ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حکم کا رد کیا تھا، نہ کہ کسی امور سلطنت کے مسئلہ میں!
معروف میں اطاعت ہے جب کہ منکر میں نہیں ہے ۔
لیکن آپ اپنی بات پر کہاں تک قائم ہیں !؟ آئیے دیکھتے ہیں :
یہ آپ نے کس بناء پر کہہ دیا کہ ہم اپنے مؤقف پر قائم نہیں!
چلیں یہ بتائیے کہ جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا کیا سنّت رسول ہے ؟؟؟
جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں!
اگر احادیث نبوی سے ثابت ہے تو وہ پیش کیجے اور اگر آپ کی دلیل یہ ہو کہ خلفاء کی سنّت کو بھی پکڑنا ہے تو اس کا رد آپ نے خود ہی یہ کہہ کر دیا ہے کہ
" امور خلافت و مملکت و سیاسیات میں خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیا ہے!"
ارے میاں! لوگوں میں اعلان کرنا، لوگوں کو باخبر کرنا، لوگوں کو خبردار کرنا، یہ حکومت کے امور میں داخل ہے!
اور مسجد باہر لوگوں کو اذان دے کر خبردار کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت نہیں!
اور اس اذان سے کوئی شرعی حکم لازم نہیں آتا! یعنی کہ جیسے کاروبار کا چھوڑنا وغیرہ!
مخالفت اس وقت ہوگی، مسجد میں ہی دو اذانیں مشروع سمجھ کر دی جائیں!

جمعہ کے دن دو دفعہ اذان دینا نہ ہی امور خلافت میں شامل ہے ، نہ مملکت میں اور نہ ہی سیاسیات میں !
یہ آپ کی غلط فہمی ہے! نظم و ضبط قائم رکھنے اور افرا تفری کے سد باب کے معاملات امور خلافت و مملت و سیاسیات میں داخل ہیں!
اور چونکہ جمعہ کے دن دو دفعہ اذان دینے کا حکم احادیث نبوی میں نہیں ہے لہذا یہ عمل غلط ثابت ہوا اور نا قابل قبول ہے ۔
اس کی وضاحت ابھی ابھی کی گئی ہے!
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
میں نے اوپر لکھا تھا کہ کہیں کل کو آپ ہوائی جہاز میں سفر کو بھی بدعت قرار نہ دے دیں!
جمعہ کے اعلان عامہ اور اور تنبیہ الوقت کے لئے اذان دینا شرعی عبادات کا معاملہ نہیں! اور نہ یہ مشروع ہے، بلکہ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے، اسے بدعت کے تحت شمار کرنا درست نہیں!
ہاں اگر کوئی اسے مشروع سمجھے تو الگ بات ہیں!

الله تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے !
آمین یا رب العالمین[/QUOTE]
آمین
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم​
قارئین کرام ! آپ خود ہماری تحریر کو اور پھر @ابن داؤد صاحب کے تبصرہ کو ملاحظہ کیجیے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے -
البتہ ہم تبصرے کے آخری حصے کے متعلق وضاحت کرتے ہیں - ان شاء الله​
ہم نے سوال پوچھا تھا کہ :
"
چلیں یہ بتائیے کہ جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا کیا سنّت رسول ہے ؟؟؟"
ابن داؤد صاحب کا
جواب
:

جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں!

تبصرہ : -

قارئین ! اعتراف آپ کے سامنے ہے ۔ یہ بات واضح ہوئی کہ ایک مسجد میں دو دفعہ جمعہ کی اذان دینا سنّت نبوی سے ثابت نہیں ہے ۔لہذا یہ آج جتنی بھی مساجد میں عمل ہو رہا ہے یہ خلاف سنّت ہے ۔ اور خلاف سنّت عمل بدعت ہوتا ہے یعنی مردود ہوتا ہے !
اب چاہے یہ مساجد کسی بھی فرقے کی تعمیر کی گئی ہوں۔ لیکن حق ان کو قبول نہیں ہے ! اب ملاحظہ کیجیے تضاد بیانی !


غلط فہمی : -

ارے میاں! لوگوں میں اعلان کرنا، لوگوں کو باخبر کرنا، لوگوں کو خبردار کرنا، یہ حکومت کے امور میں داخل ہے!
اور مسجد باہر لوگوں کو اذان دے کر خبردار کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت نہیں!
اور اس اذان سے کوئی شرعی حکم لازم نہیں آتا! یعنی کہ جیسے کاروبار کا چھوڑنا وغیرہ!
مخالفت اس وقت ہوگی، مسجد میں ہی دو اذانیں مشروع سمجھ کر دی جائیں!

ازالہ : -
لوگوں کو باخبر کرنا ، ان میں اعلان کرنا ، خلیفہ کے ذمہ ہے اور وہ یہ کام صرف قرآن اور حدیث نبوی کے مطابق کرے گا ، نہ کہ اسے کوئی اختیار ہے کہ وہ شریعت کے کاموں میں اپنی مرضی سے حکم لگائے۔ البتہ مختلف دنیاوی کاموں میں اسے اختیار ہے کہ وہ کس طرح انتظام کرتا ہے ۔
اب جہاں تک بات ہے دوسری اذان کی !؟ تو آج کل تو ایک ہی مسجد میں دی جاری ہے یعنی تقریبا آدھے گھنٹہ کا وقفہ کیا جاتا ہے ۔
قارئین ! یقینا ًباخوبی آگاہ ہیں اس متعلق کیوں کہ وہ ہر جمعہ کو سنتے ہیں ایک مسجد میں دو دفعہ اذان ۔ اس لئے الله کا خوف کیجیے اور صحیح بات بیان کیجیے ۔
پھر کہتے ہیں کہ : -
اور مسجد باہر لوگوں کو اذان دے کر خبردار کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت نہیں!
تبصرہ : ۔
پہلے کہتے ہیں کہ : -
جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو دفعہ اذان دینا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں!
اور اب کہتے ہیں کہ دوسری اذان دینا خلاف سنّت نہیں ہے ؟؟؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟؟؟
یقینا ہے ! اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی کو قبول نہیں کرنا ، بس اپنے فرقے کا دفاع کرنے بیٹھے ہیں ! افسوس !

پھر کہتے ہیں کہ : -
اور اس اذان سے کوئی شرعی حکم لازم نہیں آتا!
تبصرہ : - لیجیے قارئین ! ایک اور اعتراف !
اب انہوں نے دوسری اذان کو شریعت سے خارج تسلیم کر لیا ہے یعنی کہ دوسری اذان دینا دین اسلام میں نہیں ہے -
جب یہ شرعی حکم ہی نہیں ہے ، تو پھر آپ کا اس پر عمل کیوں ہے !؟؟؟
اپنی باتوں پر غور کیجیے !
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی !

قارئین ! تضاد بیانی ختم نہیں ہوئی ! اعتراف کرنے کے بعد اب ان کے درج ذیل جملہ پر غور کیجیے !
مخالفت اس وقت ہوگی، مسجد میں ہی دو اذانیں مشروع سمجھ کر دی جائیں!
تبصرہ : - اب ان کے اس جملے پر کیا کہا جائے ؟ مسجد نہیں بلکہ فرقوں کی تعمیر کی گئیں تمام مساجد میں دو اذانیں دیں جاتی ہیں -
بہتر ہے کہ سوچ سمجھ کر لکھیں ،،،،! اور اس سے بہتر ہے کہ حق بات کو قبول کر لیجیے - اور تضاد بیانی کرنے سے باز آ جائیں !




(،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،)
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
قارئین ! ہم نے لکھا تھا کہ :
"

جمعہ کے دن دو دفعہ اذان دینا نہ ہی امور خلافت میں شامل ہے ، نہ مملکت میں اور نہ ہی سیاسیات میں
!"

اب داؤد صاحب ! اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے! نظم و ضبط قائم رکھنے اور افرا تفری کے سد باب کے معاملات امور خلافت و مملت و سیاسیات میں داخل ہیں!
ازالہ : - دین نازل ہوا الله کی طرف سے ، اور الله تعالٰی نےاپنے نبی کو بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے پاس سے کوئی فیصلہ کرے بلکہ فرمایا :
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ

اور یہ کہ فیصلہ کرو ان کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا اور نہ پیروی کرو انکی خواہشات کی (المائدہ – 49 )

یہ بات واضح ہوئی کہ کسی نبی یا مقرب کو یہ اختیار الله نے نہیں دیا کہ وہ اپنے پاس سے کوئی دین کا کام مقرر کرے !اور جو ایسا کرتے ہیں ، الله فرماتا ہے : -

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(الشوریٰ -٢١ )
اور یہ بات ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ دوسری اذان دینا جمعہ کے دن سنّت رسول سے ثابت نہیں ہے -
اور ابن داؤد صاحب بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں -
باقی ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ابن داؤد صاحب کی مکمل تحریر کا جواب تحریر کریں اور ویسے بھی اس میں ایسی کوئی علمی بات ہے بھی نہیں جس کا جواب دینا ضروری ہے !
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قارئین کرام ! آپ خود ہماری تحریر کو اور پھر @ابن داؤد صاحب کے تبصرہ کو ملاحظہ کیجیے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے
طرفین کی تحریرات یہاں تک پڑھنے کے بعد یہی بات سمجھ میں آئی ہے کہ آپ کو ابن داود بھائی کی بات سجھ میں نہیں آرہی...
 
Top