• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھنا

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جمعہ کے دن یا جمعۃ کی رات میں سورۃ الکھف پڑھنے کی فضیلت میں نبیﷺ سے صحیح احادیث وارد ہیں جن میں سےکچھ کا ذکرذیل میں کیا جاتا ہے:
1۔ عن أبي سعيد الخدري قال : " من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق " . رواه الدارمي ( 3407 ) . والحديث : صححه الشيخ الألباني في " صحيح الجامع " ( 6471 )

’’سیدنا ابوسعید خدری﷜ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ( جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نورکی روشنی ہوجاتی ہے ) سنن دارمی ( 3407 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6471 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
2۔ من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين ". رواه الحاكم ( 2 / 399 ) والبيهقي ( 3 / 249 ) . والحديث : قال ابن حجر في " تخريج الأذكار " : حديث حسن ، وقال : وهو أقوى ما ورد في قراءة سورة الكهف۔ انظر : " فيض القدير " ( 6 / 198 ) . وصححه الشيخ الألباني في " صحيح الجامع " ( 6470 ) .
’’فرمان نبویﷺ ہے: (جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے ) مستدرک الحاکم ( 2 / 399 ) بیھقی ( 3 / 249 ) اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی " تخریج الاذکار " میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ سورۃ الکہف کے بارہ میں سب سےقوی یہی حديث ہے ۔ دیکھیں " فیض القدیر " ( 6 / 198 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6470 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
3۔ وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة سطع له نور من تحت قدمه إلى عنان السماء يضيء له يوم القيامة ، وغفر له ما بين الجمعتين ". قال المنذري : رواه أبو بكر بن مردويه في تفسيره بإسناد لا بأس به . " الترغيب والترهيب " ( 1 / 298 ) .
’’ابن عمر ﷜ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لیکر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگا اور اس دونوں جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کردیۓ جاتے ہیں ۔‘‘
منذری کا کہنا ہے کہ : ابوبکر بن مردویہ نے اسے تفسیر میں روایت کیا ہے جس کی سند میں کوئ حرج نہیں ، لا بأس به کہا ہے ۔ الترغیب والترھیب ( 1 / 298 ) ۔
سورۃ الکھف جمعہ کی رات یا پھر جمعہ کے دن پڑھنی چاہیے ، جمعہ کی رات جمعرات کومغرب سے شروع ہوتی اور جمعہ کا دن غروب شمس کے وقت ختم ہوجاتا ہے ، تو اس بناپر سورۃ الکھف پڑھنے کا وقت جمعرات والے دن غروب شمس سے جمعہ والے دن غروب شمس تک ہوگا ۔
مناوی﷫ کا کہنا ہے کہ :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " امالیہ " میں کہا ہے کہ : کچھ روایا ت میں اسی طرح ہے کہ یوم الجمعۃ اور کچھ روایات میں لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ ہیں، اور ان میں جمع اس طرح ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ لیا جاۓ کہ دن اس کی رات کے ساتھ اور رات اپنے دن کے ساتھ ، ( یعنی یوم الجمعۃ کا معنی دن اوررات اورلیلۃ الجمعۃ کا معنی یہ ہوگا کہ رات اور دن ) فیض القدیر( 6 / 199 )۔
اور مناوی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھنی مندوب ہے اورجیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے یہ منصوص ہے کہ جمعہ کی رات بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ دیکھیں فیض القدیر ( 6 / 198 )​
 

ضحاک

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2012
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
23
سورۃ الکھف جمعہ کی رات یا پھر جمعہ کے دن پڑھنی چاہیے ، جمعہ کی رات جمعرات کومغرب سے شروع ہوتی اور جمعہ کا دن غروب شمس کے وقت ختم ہوجاتا ہے ، تو اس بناپر سورۃ الکھف پڑھنے کا وقت جمعرات والے دن غروب شمس سے جمعہ والے دن غروب شمس تک ہوگا ۔
مناوی﷫ کا کہنا ہے کہ :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " امالیہ " میں کہا ہے کہ : کچھ روایا ت میں اسی طرح ہے کہ یوم الجمعۃ اور کچھ روایات میں لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ ہیں، اور ان میں جمع اس طرح ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ لیا جاۓ کہ دن اس کی رات کے ساتھ اور رات اپنے دن کے ساتھ ، ( یعنی یوم الجمعۃ کا معنی دن اوررات اورلیلۃ الجمعۃ کا معنی یہ ہوگا کہ رات اور دن ) فیض القدیر( 6 / 199 )۔
اور مناوی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھنی مندوب ہے اورجیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے یہ منصوص ہے کہ جمعہ کی رات بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ دیکھیں فیض القدیر ( 6 / 198 )​
جمعہ کی رات کو سورۃ الکھف پڑھنے کے بارے جو الفاظ لیلۃ الجمعۃ کے آتے ہیں وہ ہمیں کس کتاب میں مل سکتے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جمعہ کی رات کو سورۃ الکھف پڑھنے کے بارے جو الفاظ لیلۃ الجمعۃ کے آتے ہیں وہ ہمیں کس کتاب میں مل سکتے ہیں؟
میری پوسٹ کی پہلی حدیث مبارکہ میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے:
جمعہ کے دن یا جمعۃ کی رات میں سورة الكهف پڑھنے کی فضیلت میں نبیﷺ سے صحیح احادیث وارد ہیں جن میں سےکچھ کا ذکرذیل میں کیا جاتا ہے:
1۔ عن أبي سعيد الخدري قال : " من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق " . رواه الدارمي ( 3407 ) . والحديث : صححه الشيخ الألباني في " صحيح الجامع " ( 6471 )

’’سیدنا ابوسعید خدری﷜ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ( جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نورکی روشنی ہوجاتی ہے ) سنن دارمی ( 3407 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6471 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
 

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت ہوجائے تو بہت بہتر ہوگا۔

جیسا کہ ’’فرمان نبویﷺ ہے: (جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے )

سوال یہ ہے کہ یہاں نور سے کیا مراد ہے؟

جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
ابن عمر رضی الله عنه کی روایت تو ضعیف جدا هے
اس راویت کو ابن مردویه سے سیوطی نے در منثور ج ۹ ص ۴۷۷ پر اور ابن حجر نے تلخیص الحبیر ج ۲ ص ۷۲, ابن کثیر نے تفسیر میں ج ۹ ص ۱۰۰ پر اور الترغیب والترهیب میں منذری نے نقل کیا هے.
اور منذری نے اسکی سند کو لا باس به کها هے.
.
حالانکه یه راویت ضعیف جدا هے. علامه البانی نے بهی منذری هی کے قول پر اعتماد کرتے هوئے اسکو لا باس بهی بتایا
(ارواء الغلیل ج ۳ ص ۹۵.)
اس کی سند کو ابن مردویه سے مقدسی نے بهی المختارۃ میں نقل کیا هے.
"عن محمد بن علی بن یزید بن سنان عن اسحاق بن ابراهیم المنجنیقی عن اسماعیل بن خالد المقدسی عن محمد بن خالد البصری عن خالد بن سعید بن ابی مریم عن نافع عن ابن عمر رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم..."
بیان کی.
علامه ذهبی نے بهی تعلیقا اس سند کو نقل کیا هے
دیکھے میزان الاعتدال ج ۳ ص ۵۳۴ ت ۷۴۷۱, نیز لسان ج ۵ ص ۱۵۱.
.
اس میں پهلی علت یه هے کے اسکی سند میں محمد بن خالد البصری الختلی هے جسکے متعلق ابن منده کهتے هیں "صاحب مناکیر"
(لسان ایضا, ومیزان ایضا.)
وقال ابن الجوزی "کذبوه"
(موضوعات الکبری ج ۲ ص ۴۵, المغنی ۵۳۶۴, والکشف الحثیث ۲۲۷ وغیره.)
حافظ نے لسان میں نقل کیا هے کے ذهبی نے مستدرک حاکم کی تلخیص میں اس راوی کو وضعه کها.
.
علت نمبر ۲:
اسکی سند میں خالد بن سعید بن ابی مریم مجھول هے.
حافظ کهتے هیں کے ابن المدینی نے لا نعرفه کها.
(تهذیب ج ۳ ص ۹۵.)
ابن القطان نے مجھول کها
(بیان الوهم والایھام ج ۳ ص ۵۳۷.)
.
رها منذری کا اسکی سند کی تصحیح کرنا تو عرض هے کے نووی نے تو اسکی کی تضعیف بهی کی هے دیکھے.
(المجموع ج ۴ ص ۴۲۳.)
نیز ابن کثیر کهتے هیں کے ابن مردویه نے اسکو غریب سند سے نقل کیا. پهر اسکے بعد کهتے هیں کے اس روایت کے مرفوع هونے میں نظر هے صحیح بات یه هے کے یه روایت موقوفا هے.
(تفسیر ابن کثیر ج ۹ ص ۱۰۰؛)
نیز علامه مناوی منذری کے رد میں کهتے هیں کے منذری سے محمد بن خالد کا حال مخفی رها جو انهوں نے اسکو لا باس به کها, محمد بن خالد پر ابن منده نے کلام کیا هے.
(فیض القدیر ج ۶ ص ۱۹۹.)
.
معلوم هوا کے یه روایت ایک تو محمد بن خالد کی کذاب هونے اور خالد کے مجھول هونے کی وجه سے ضعیف هے اور یه راویت مرفوع نهیں بلکه موقوف هے جیسا کے ابن کثیر نے صراحت کی.
.
 
Top