• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ…

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اب سنئے اور اپنے عفریت بریلویت احمد رضا کو جھوٹا اور میلاد کا دشمن تسلیم کیجئے چنانچہ وہ لکھتا ہے ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف یوم دو شنبہ کو ہے اور اس میں وفات شریف ہے،، ۔(ملفوظات احمد رضا بریلوی حصہ دوم ص:۲۲۰)
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

احمد رضا جھوٹا اور دشمن میلاد بن گیا سعیدی کی بات سے

آج سے تقریباً تیس چالیس سال پہلے تک ۱۲ربیع الاول کو پاک و ہند کی جنتریوں میں ۱۲ربیع الاول کی تاریخ پر ۱۲وفات لکھا جاتا تھا۔ پھر اس تاریخ کو ۱۲میلاد مشہور کر دیا گیا جیسا کہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا ہندوستانی مؤلف و مصنف مولوی محبوب عالم لکھتا ہے’’بارہ وفات،، بارہ سے مراد ربیع الاول کی بارھویں تاریخ اور وفات سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے عام مشہور بارہویں تاریخ ربیع الاول ہے یہ دن تمام اسلامی ممالک میں قابل عزت شمار ہوتا ہے۔ مدارس اور محکمہ جات میں تعطیل کی جاتی ہے مسجدوں میں اور گھروں میں میلاد شریف کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات مبارک سنا کر لوگوں کو حب نبی کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور پردرد اور مؤثر نعتوں سے اس محبت میں جوش پیدا کیا جاتا ہے مگر وہابی لوگ اس قسم کی کاروائیوں کو خلاف سنت اور بدعت بتاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ بھی ۱۲ربیع الاول ہے گویا مسلمانوں کا تہوار ۱۲ربیع الاول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات دونوں واقعات کی یادگار ہے مگر مسلمانان ہند وغیرہ نے وفات کی ہیئت کو غالب رکھ کر نام بارہ وفات رکھ لیا۔ ۱۳۲۷میں ملک شام و عرب میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس دن کو عید المولود النبوی الانور کے نام سے تمام اسلامی تہواروں سے زیادہ شاندار تہوار بنایا جائے۔ اس تحریک کی گونج ہندوستان اور دیگر ممالک اسلام میں بھی پہنچی اور مسلمانان ہند نے ۱۳۲۸میں مختلف شہروں میں اس روز عید منائی ، نو تعلیم یافتہ حضرات اور قدامت پسند بزرگوں نے متفقہ جلسے کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس لائف پر پر زور سپیچیں دی گئیں اور اس تہوار کا نام بارہ وفات کے بجائے عید میلاد مشہور کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض اخبارات نے اس عید کی خوشی میں رنگین اور زبردست مضامین شائع کئے الخ (ص:۱۳۱) گویا ۱۳۲۸ھ (آج ۱۴۲۶سے ٹھیک۱۰۰سال پہلے) ہندوستان (پاکستان و ہندوستان بنگلہ دیش کشمیر) میں پہلی بار عید میلاد ۱۲ربیع الاول کو منائی گئی۔ پہلے ہندوستان میں ۱۲ربیع الاول کو عید میلاد منانے کا رواج نہیں تھا بلکہ یہ تاریخ جنتریوں اخباروں میں بارہ وفات کے نام سے مشہور تھی پھر رفتہ رفتہ کام اور نام بڑھتا گیا تا آخر بارہ وفات کے بجائے بارہ میلاد طے کر لیا گیا اور بارہ میلاد نام رکھ دیا گیا اور بارہ وفات کا نام جنتریوں سے ختم کر دیا گیا۔ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مدظلہ العالی نے آج سے تقریباً چالیس سال پہلے تقریباً ۱۹۶۵ اگست میں ایک مضمون ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’جشن ولادت یا دین و مذہب سے مذاق،، اس میں انہوں نے لکھا تھا: کہ آنکھوں دیکھی بات ہے چند سال قبل ولادت کی یہ رسم برائے نام ’’بارہ وفات،، کے نام پر محدود پیمانے پر گھروں کی چار دیواری میں بطور ’،حلوہ پختن و خوردن،، کی صورت میں منائی جاتی تھی پھر رفتہ رفتہ اس کے بال و پر نکالے اور کہیں کہیں بعض گھروں میں معمولی سی روشنی بھی نظر آنے لگی، بریلوی علماء نے اس کو آب و دانا ڈالا جس سے اس میں طاقت پرواز آئی اور اس نے ہمہ گیر سیلاب کی صورت اختیار کر لی الخ (مروجہ عید میلاد کی تاریخی و شرعی حیثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ ص:۴۷) اور یہی مولوی محبوب عالم صاحب دوسری جگہ لکھتا ہے سن ولادت باسعادت آپ دو شنبہ کے دن بارھویں ربیع الاول ۴۲کسروی کو دنیا میں ظہور فرما ہوئے الخ (اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص:۶۵۶) اور آگے جا کر لکھتے ہیں ’’تاریخ ویوم و سن وفات شریف، آپ نے بعمر ۶۳سال ۱۲ربیع الاول یوم دو شنبہ ۱۱ھ کو انتقال فرمایا (ص:۶۶۱) اور امام سھیلی کی تحقیق کے متعلق تحقیق آگے آتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن کثیر کی تحقیق

سعیدی: وہابیوں کے امام حافظ ابن کثیر ان کی تحقیق انیق کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ السلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول من سنۃ احدی عشرة۔
کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کا دن ۱۱ھ ۱۲ربیع الاول پیر کے دن ہونا کسی صورت میں ممکن نہیں (البدایہ والنھایہ ج:۵، ص:۲۵۶) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۱)

محمدی
اول: یہ جھوٹ اور الزم ہے سعیدی صاحب نے اس مقام کو غور سے نہیں پڑھا یا غلط پریشرڈالنے کے لئے یوں لکھ دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ابن کثیر نے علامہ سہیلی کی تحقیق کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کے اس اعتراض کو نقل کیا ہے پھر اس کا جواب لکھا ہے جس کو سعیدی صاحب سمجھ نہیں سکے۔

دوم: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں (فائدہ)
قال ابو القاسم السھیلی فی الروض ما مضمونہ ’’لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ السلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول سنۃ احدی عشرۃ وذلک لانہ علیہ السلام وقف فی حجۃ الوداع سنۃ عشر یوم الجمعۃ فکان اول ذی الحج یوم الخمیس فعلی تقدیر ان تحسب الشھور تامۃ او ناقصۃ اوبعض تامٍ وبعض ناقصٍ لا یتصور ان یکون یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول ۔(البدایہ والنھایہ ج:۵، ص:۲۵۶)

جس کا واضح مطلب ہے کہ یہ سھیلی کا اعتراض ہے جو انہوں نے نقل کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے سھیلی کے اعتراض کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس اعتراض کا دفعیہ کیا ہے اور اس کا جواب باصواب دیا ہے جس کو سعیدی عنیدی سمجھ نہیں سکا۔چنانچہ حافظ ابن کثیر سھیلی کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقد اشتھر ھذا الایراد علی ھذا القول وقد حاول جماعۃٌ الجواب عنہ ولا یتمکن الجواب الا بمسلک واحدٍ وھو اختلاف المطالع بان یکون اھل مکۃ رأوا ھلال ذی الحج لیلۃ الخمیس واما اھل المدینۃ فلم یروا الا لیلۃ الجمعۃ ویؤید ھذا قول عائشۃ وغیرھا خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لخمس بقین من ذی القعدة یعنی من المدینۃ الی حجۃ الوداع ویتعین بما ذکرنا انہ خرج یوم السبت ولیس کما زعم ابن حزم انہ خرج یوم الخمیس لانہ قد بقی اکثر من خمسٍ بلاشک ولا جائز ان یکون خرج یوم الجمعۃ لان انساً قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الظھر بالمدینۃ اربعاً والعصر بذی الحلیفۃ رکعتین فتعین انہ خرج یوم السبت لخمسٍ بقین فعلی ھذا انما رای اھل المدینۃ ھلال ذی الحج لیلۃ الجمعۃ واذا کان اول ذی الحج عند اھل المدینۃ الجمعۃ وحسبت الشھور بعدہ کوامل یکون اول ربیع الاول یوم الخمیس فیکون ثانی عشر یوم الاثنین واللہ اعلم ۔(البدایہ والنھایہ ج:۵، ص:۲۵۶)
اور بیشک یہ اعتراض اس قول،کہ ۱۲ربیع الاول کو سوموار کا دن ہو سکتا ہے پرمشہور ہے اور تحقیق ایک جماعت نے اس کا جواب دینے میں کوشش کی ہے اور اس کا جواب اس صورت میں ممکن ہے کہ اختلاف مطالع کا ہو اس طور پر کہ اہل مکہ نے چاند ذوالحج کا خمیس کی رات کو دیکھا اور اہل مدینہ نے ذوالحج کا چاند خمیس کی رات کو نہیں دیکھا بلکہ جمعہ کی رات کو دیکھا اور اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کیلئے مدینہ سے اس وقت چلے جب ذوالحج کے چاند کو ابھی پانچ دن باقی تھے اور جو ہم نے ذکر کیا ہے اس سے یہ متعین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن مدینہ سے روانہ ہوئے تھے نہ کہ وہ جو ابن حزم نے کہا کہ آپ خمیس کے دن چلے تھے کیونکہ بلاشک اس وقت پانچ دن سے زیادہ دن باقی رہ رہے تھے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ آپ مدینہ سے جمعہ کے دن چلے ہوں کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ کے مقام پر دو رکعت (قصر) پڑھی تو یہ بات متعین ہو گئی کہ آپ مدینہ سے ہفتہ کے دن چلے تھے جب ذوالحج کے چاند کو ابھی پانچ دن باقی تھے، پس اس حساب سے اہل مدینہ نے چاند ذوالحج جمعہ کی رات کو دیکھا اور جبکہ اہل مدینہ کے ہاں پہلی ذوالحج جمعہ کو ہوئی اور باقی مہینے کامل مکمل تیس تیس دن کے ہوئے تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ خمیس کے دن ہو گی تو پھر بارہ ربیع الاول سوموار کو ہو گی ۔ واللہ اعلم۔

جس سے واضح ہے کہ حافظ ابن کثیر نے سھیلی کے اعتراض کا جواب دیا ہے اور کہا کہ سوموار کے دن ۱۲ربیع الاول بن سکتا ہے نیز اس مشہور قول کو آگے جا کر پھر بیان کیا کہ توفی فیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد بن عبد اللہ سید ولد آدم فی الدنیا والاخرۃ وذلک فی ربیع الاول یوم الاثنین ثانی عشر علی المشہور کما قدمنا بیانہ الخ ۔(البدایہ والنھایہ ج:۶، ص:۳۳۲) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد بن عبد اللہ دنیا و آخرت کے سیدِ اولاد آدم سن گیارہ ہجری کو وفات پائی اور وفات مشہور قول کے مطابق ۱۲ربیع الاول سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سوم: بالفرض ۹ربیع الاول کو وفات نبوی ہو یا ۸یا ۲ربیع الاول کو تو پھر بھی آپ (سعیدی) پر اعتراض بحال ہے کہ یکم ربیع الاول سے تم تو خوشی منانا شروع کر دیتے ہو اور یہ ۱۲ربیع الاول تک رہتی ہے تو ۲، ۸، ۹تاریخ وفات تو پھر بھی درمیان میں آ گئی گویا ۲، ۸،۹تاریخ وفات کے دن بھی تم کو خوشی ہوتی ہے ذرہ بھر بھی فوتگی کا خیال نہیں آتا۔

امام سیوطی رحمہ اللہ نے وفات نبوی کا دن ۱۲ربیع الاول کو جمہور کا قول تسلیم کیا ہے ۔
فالجمہور علی ما ذکرہ المصنف انہ فی یوم الثانی عشر ۔(تدریب الراوی ج:۲، ص:۳۵۱)

پھر آگے لکھتے ہیں کہ وفات ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی اس میں کوئی اختلاف نہیں، ہاں کس تاریخ وفات ہوئی اس میں اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک ۱۲ربیع الاول ہے اور موسیٰ بن عقبہ اور لیث بن سعد کے نزدیک یکم ربیع الاول اور سلیمان تیمی کے نزدیک ۲ربیع الاول اور آگے ۱۲ربیع الاول پر سہیلی کا اشکال نقل کیا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری …

سعیدی: دلیل : ائمہ اسلام میں سے وہابیوں کے مشہور امام حافظ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری ۱۲ربیع الاول کو آپ کا وصال قرار دینا مسترد کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ عقلا و نقلا یہ تاریخ وصال نہیں ہو سکتی (فتح الباری شرح بخاری ج:۸، ص:۱۶۴) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)۔
امام علامہ عینی حنفی …

محمدی: بریلویوں کے امام علامہ عینی حنفی نے آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف نقل کیا ہے کہ امام سلیمان تیمی نے اپنی کتاب المغازی میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفر کی بائیس تاریخ کو بیمار ہوئے…اور بیماری کا پہلا دن ہفتہ کا تھا اور آپ کی وفات سوموار کو ہوئی جبکہ ربیع الاول کی ۲تاریخ تھی جو مدینہ شریف کے آنے پر دس سال پورے ہو گئے اور واقدی نے کہا ہے کہ مجھے ابو معشر نے بیان کیا کہ وہ محمد بن قیس سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بروز بدھ ۱۹صفر ۱۱ھ کو حضرت زینب بنت حجش کے گھر شدید بیمار ہوئے تو آپ کی تمام ازواج مطہرات آپ کے پاس اکٹھی ہوئیں تو تیرہ دن بیمار رہے اور سوموار کے دن ۲ربیع الاول ۱۱ھ کو وفات پائی اور واقدی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بدھ کے دن ۲۸صفر کو شروع ہوئی اور وفات سوموار ۱۲ربیع الاول کو ہوئی اور اسی کو محمد بن سعد کاتب واقدی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بدھ کے دن۲۸صفر کو شروع ہوئی اور وفات سوموار ۱۲ربیع الاول کو ہوئی اور اسی کو محمد بن سعد کاتب واقدی نے قطعی تاریخ وفات قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ آپ بدھ کو دفن ہوئے… محمد بن اسحاق نے کہا کہ آپ ۱۲ربیع الاول کو فوت ہوئے اس دن جس دن آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے اور یعقوب بن سفیان سے روایت ہے وہ ابوبکر سے بیان کرتے ہیں وہ لیث سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن ۱۲ربیع الاول کو فوت ہوئے اور سعد بن ابراہیم زہری نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن ۲ربیع الاول کو فوت ہوئے اور ابو نعیم فضل بن دکین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن یکم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور سیف بن عمر اپنی سند سے حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں اس نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ادا کر لیا تو آپ واپس مدینہ چلے اور مدینہ شریف پہنچ گئے اور مدینہ شریف میں ذوالحج محرم صفر (تین ماہ) قیام فرمایا اور سوموار کے دن ۱۲ربیع الاول ۱۱ہجری کو فوت ہوئے اور سھیلی نے روض الانف میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۲ربیع الاول کو واقع ہونا ممکن نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جمعہ کے دن وقوف عرفات ۱۰کو فرمایا تھا یکم ذوالحج خمیس کا دن تھا تو اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ یہ تینوں ماہ مکمل تیس تیس دن کے تھے یا انتیس انتیس دن کے یا کوئی مہینہ تیس کا اور کوئی مہینہ انتیس کا تو یہ ناممکن ہے کہ سوموار کا دن ۱۲ربیع الاول کو ہو۔ اس کا جواب اختلاف مطالع کی صورت میں دیا گیا ہے کہ مکہ والوں نے ذوالحجہ کا چاند خمیس کی رات کو دیکھا اور مدینہ والوں نے چاند جمعہ کی رات کو دیکھا ہو (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری للعلامہ بدر الدین عینی حنفی ج:۱۸، ثامن عشر ص:۶۰، طبع منیریہ) تو گویا علامہ عینی حنفی نے بھی تاریخ وفات نبوی ، یکم، دوم ، بارہ وغیرہ کو نقل کیا پھر بارہ تاریخ پر سھیلی کے اشکال اور اعتراض کو نقل کر کے اس کا حل مکہ و مدینہ کے اختلاف مطالع کے حساب سے دیا جیسا کہ علامہ حافظ ابن کثیر نے دیا ہے جو پہلے بیان ہوا، گویا علامہ عینی حنفی کا اپنا نظریہ وفات نبوی ۱۲ربیع الاول سوموار کا دن ہوا۔ اس عینی بیان سے یہ بھی واضح ہوا کہ وفات نبوی ربیع الاول (یکم سے بارہ ربیع الاول کے اندر اندر) ہوئی جو سعیدی کیلئے یہاں بھی مصیبت ہے کہ یہ لوگ یکم ربیع الاول سے میلاد کی خوشی شروع کرتے ہیں اور ۱۲ربیع الاول پر جا کر ختم کرتے ہیں اور یہی دن وفات نبوی کے دن بھی ہیں اور علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی وفات کے دن میں اختلاف نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سوموار کو ماہ ربیع الاول میں ہوئی اس حد تک تو کوئی اختلاف نہیں گویا اس پر اجماع ہے لیکن حدیث ابن مسعود میں جو بزار میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۱رمضان کو ہوئی پھر امام ابن اسحاق اور جمہور کے نزدیک آپ کی وفات ۱۲ربیع الاول کو ہوئی اور موسیٰ بن عقبہ لیث اور خوارزمی اور ابن زبر کے نزدیک آپ کی وفات یکم ربیع الاول کو ہوئی اور ابن محنف اور کلبی کے نزدیک ۲ربیع الاول کو ہوئی اور اسی کو ترجیح دی امام سھیلی نے اور انہیں دونوں قولوں (یکم اور دوم ربیع الاول) کے قریب امام رافعی کا قول… کہا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے بعد ۸۰یا ۸۱دن زندہ رہے اور جو قول صاحب روضہ نے حتمی طور پر لکھا ہے اس قول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے بعد ۹۱دن زندہ رہے اور امام سھیلی اور جو اس کے موافق ہیں انہوں نے آپ کی وفات سوموار کے دن ۱۲ربیع الاول پر اعتراض اور اشکال پیش کیا ہے کہ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالحجہ کی یکم خمیس کے دن تھی تو جس حساب سے بھی فرض کر یں تین ماہ پورے پورے ۳۰دن کے تھے یا تینوں ماہ ۲۹، ۲۹کے تھے یا بعض ۲۹کے اور بعض ۳۰کے، کسی صورت میں سوموار کا دن ۱۲ربیع الاول نہیں پڑتا اور جو بھی اس میں توجہ کرے گا اس کے سامنے یہ بات واضح ہے اور امام بازوی اور پھر حافظ ابن کثیر (پھر علامہ عینی حنفی) نے جواب دیا ہے کہ تینوں ماہ مکمل تیس تیس دن کے ہوں اور اہل مکہ نے چاند ذوالحجہ کا خمیس کی رات کو دیکھا ہو اور مدینہ والوں نے ذوالحجہ کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا ہو اور وقوف عرفات مکہ والوں کی رویت پر ہوا ہو پھر مدینہ میں لوٹے ہوں تو انہوں نے مدینہ والوں کی رویت کے حساب سے تاریخ بیان کر دی ہو یکم ذوالحجہ جمعہ کو اور آخری تاریخ ذوالحجہ کی ہفتہ کو، اور یکم محرم اتوار کو اور آخر محرم سوموار کو اور یکم صفر منگل کو اور آخر صفر بدھ کو اور یکم ربیع الاول خمیس کو، پس ۱۲ربیع الاول سوموار کو ہو گی مگر یہ جواب بعید ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ تین ماہ کے تین ماہ (ذوالحجہ، محرم، صفر) تیس تیس کے ہوں اور امام سلیمان تیمی جو ثقہ راوی ہیں اس نے یقین اور جزم کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتدا ہفتہ کے دن ۲۲صفر کو ہوئی اور سوموار ۲ربیع الاول کو فوت ہوئے تو اس بنا پر صفر کا مہینہ ۲۹کا بنے گا اور یہ ناممکن ہے کہ یکم صفر ہفتہ کے دن ہو۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ہاں جب ذوالحجہ اور محرم کو ۲۹، ۲۹دن کا مہینہ مانیں تو پھر ممکن ہے تو پھر بھی تین ماہ لگاتار انتیس انتیس کے ہونا لازم آتا ہے اور اس قول کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ربیع الاول کو فوت ہوئے تو دو ماہ انتیس انتیس کے اور ایک ماہ تیس دن کا پڑے گا۔ اس لئے امام نے اس کو ترجیح دی ہے (کہ آپ کی وفات یکم ربیع الاول کو ہوئی) اور ابو معشر کی مغازی میں محمد بن قیس سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۱صفر بدھ کو بیمار ہوئے اور یہ قول سلیمان تیمی کے قول کے موافق ہے جس کا مقتضی یہ ہے کہ صفر کی یکم ہفتہ کے دن ہو اور جوابن سعد نے روایت کیا ہے عمر بن علی بن ابی طالب سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن ۲۹صفر کو بیمار ہوئے اور تیرہ رات بیمار رہے اور سوموار کے دن ۱۲ربیع الاول کو فوت ہوئے تو اس پر پہلے والا اعتراض وارد ہوتا ہے اور یکم صفر ہفتہ کا دن ہو کیسے صحیح ہو سکتا ہے پس ہو گا ۲۹صفر بدھ کا دن۔ الغرض ذوالحج کی یکم خمیس کو ہو گی پس اگر فرض کر لیں کہ صفر اور محرم کامل مکمل تیس تیس دن کے تھے تو صفر کی یکم سوموار کو ہو گی تو پھر کیسے مؤخر ہو سکتے ہیں بدھ کے دن تک پس اعتماد والی بات وہ ہے جو ابن محنف نے کہی ہے ۔ (۲ربیع الاول کو فوت ہوئے) دوسروں کی غلطیوں کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ماہ ربیع الاول کی ۲تاریخ کو، پس ثانی شھر ربیع الاول تبدیل ہو کر ثانی عشر ربیع الاول ہو گیا اور یہ وہم چلتا گیا بعض بعض کی متابعت کرتے گئے۔(فتح الباری ج:۸، ص:۱۳۸، ۱۳۹مکتبہ سلفیہ) تو حافظ ابن حجر نے اختلاف کو نقل کر کے سب اقوالوں کی تردید کی کہ یہ اقوال خلاف واقع ہیں اور انہوں نے ۲ربیع الاول بروز سوموار کو یوم وفات نبوی کو ترجیح دی جس کے قائل ابن مخنف اور علامہ سھیلی ہیں۔

بہرحال سعیدی کو یہ وفات نبوی کا دن اس وقت مفید ہوتا اگر وہ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور ماہ میں وفات نبوی کو تسلیم کرتے جب یہ لوگ ۲ربیع الاول کو وفات نبوی تسلیم کرتے ہیں اور سعیدی میلادی برادری بھی یکم و دوم سے میلاد کی خوشی میں جشن منانا شروع کرتے ہیں تو پھر بات تو وہی خود بخود آ گئی کہ ۲ربیع الاول کو وفات نبوی ماننے والے بھی مسلمانوں کو ذکر میلاد سے محروم کرنے کی کوشش کر کے شیطان لعنتی کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں الخ۔

یعنی وہی وجہ جو ۱۲ربیع الاول کو یوم وفات تسلیم کرنے میں تھی بریلوی میلادی سعیدی کے نزدیک وہی وجہ ۲ربیع الاول کے دن بھی آگے کھڑی ہے کہ میلاد منانے والے یکم ربیع الاول سے ۱۲ربیع الاول تک جشن مناتے ہیں ۲ربیع الاول والی وفات نبوی کی تاریخ تو پھر بھی درمیان میں آ گئی، اس پر علامہ سھیلی، ابن مخنف وغیرہ کو کیا القاب عنایت کرو گے۔

نیز علامہ عینی حنفی بھی وفات نبوی ۱۲ربیع الاول کو تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہوا تو یہ عینی حنفی بزرگ جو میلادیوں کے مشہور امام ہیں گویا یہ بھی شیطان کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں نیز علامہ صاوی جو میلادی سعیدی کا معتبر امام ہے جو ۱۲ربیع الاول کو وفات نبوی مانتا اور تسلیم کرتا ہے۔ وذلک لان الھجرۃ کانت لاثنتی عشر خلت من ربیع الاول وکانت وفاتہ لاثنتی عشرۃ خلت من ربیع الاول ۱۲صاوی۔ (تعلیقات جدیدہ من التفاسیر المعتبرۃ لحل جلالین ص:۵۰۸درسی)۔ یہ اس لئے ہے کہ ہجرت نبوی اور وفات نبوی ۱۲ربیع الاول کو ہوئی تو سعیدی میلادی مفتی اپنے اس صادی علامہ پر بھی یہی فائر پھینکے کہ یہ بھی شیطان لعنتی کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ قد بدت البغضاء من افواہھم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
علامہ حلبی نے ۱۲ربیع الاول کو سرکار کے …

سعیدی: دلیل۔ علامہ حلبی نے ۱۲ربیع الاول کو سرکار کے وصال کا دلائل کی دنیا میں انکار کیا ہے۔ سیرت حلبیہ اردو ج:۶، ص:۵۱۰ (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)۔
علامہ عینی حنفی، علامہ صاوی اور احمد رضا بریلوی نے …

محمدی: علامہ عینی حنفی اور علامہ صاوی اور احمد رضا بریلوی نے ۱۲ربیع الاول کو سرکار کی وفات اور وصال کا دن تسلیم کیا ہے تو گویا ان تینوں نے بقول سعیدی میلادی دلائل کی دنیا سے بغاوت کر کے برملا وفات نبوی ۱۲ربیع الاول کو تسلیم کیا ہے تو ان کو کیا القاب دو گے۔

نیز علامہ حلبی نے اگر وفات نبوی ۱۲ربیع الاول میں ہونے کا انکار کیا ہے تو کیا وفات نبوی ۲ربیع الاول کے دن میں ہونے کا بھی انکار کیاہے؟

۱۲ربیع الاول وفات نبوی کی تاریخ ہونے کا انکار سعیدی میلادی کو اس وقت مفید تھا جب علامہ حلبی ماہ ربیع الاول کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ میں وفات کا دن تسلیم کرتے جبکہ یہ علامہ وفات نبوی ربیع الاول میں تسلیم کرتے ہیں اور تم اسی وفات نبوی کی تاریخ میں میلاد کی خوشی منا رہے ہوتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
علامہ علی قاری نے ۱۲والے قول کو رَدّ کر دیا؟

سعیدی: دلیل ۔ امام مکہ علامہ علی قاری نے ۱۲والے قول کو رد کر دیا ہے(جمع الوصائل شرح شمائل ج:۲، ص:۲۵۳)(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)

محمدی: علامہ ملا علی قاری کا رد آپ کو اس وقت مفید تھا اگر ملا علی قاری وفات نبوی کو ماہ ربیع الاول کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ میں تسلیم کرتے حالانکہ وہ ربیع الاول کو وفات نبوی کا مہینہ تسلیم کرتے ہیں اور تم اسی ماہ میں جشن مناتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
علامہ شبلی اور سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ۹ذوالحجہ…

سعیدی (دلیل نمبر:۶) : وہابیوں کے شبلی اور سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ۹ذوالحجہ ۱۰ہجری بروز جمعہ سے ۱۲ربیع الاول تک حساب لگاؤ۔ ذوالحج، محرم، صفر۔ ان تینوں کو خواہ ۲۹خواہ ۳۰،بعض ۲۹، بعض ۳۰کسی حالت میں اور کسی شکل سے ۱۲ربیع الاول کو دو شنبہ (پیر) نہیں پڑ سکتا اس لئے درایۃً بھی یہ تاریخ قطعاً غلط ہے (سیرت النبی ج:۲، ص:۱۱۰حذیفہ اکیڈمی لاہور)(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)

محمدی: اس کا حل علامہ ابن کثیر، علامہ عینی حنفی نے بیان کر دیا ہے(دیکھئے البدایہ والنھایہ ج:۵، ص:۲۵۶عمدۃ القاری شرح بخاری ج:۱۸، ص:۶۰طبع منیریہ)

اور جو تاریخ وفات شبلی اور ندوی نے لکھی ہے وہ تمہیں مفید نہیں کہ تم اس تاریخ کے دوران جشن میلاد اور خوشی مناتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں

سعیدی:(دلیل نمبر۷): حافظ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: وفات آپ کی شروع ربیع الاول دو شنبہ کو قبل از زوال یا بعد از زوال آفتاب ہوئی بارھویں جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہے کیونکہ اس سال ذوالحج کی نویں (قیام عرفات) جمعہ کی تھی یوم وفات دو شنبہ (پیر) ثابت ہے پس جمعہ کو نویں ذوالحجہ ہو تو بارہ ربیع الاول دو شنبہ (پیر) کسی صورت نہیں ہو سکتی (نشر الطیب ص:۲۴۱)۔
خواجہ محمد اسلام وہابی نے لکھا ہے

(دلیل نمبر۸) خواجہ محمد اسلام وہابی نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ۹ربیع الاول دو شنبہ پیر کے دن ہوا (قصص الانبیاء مرتبہ خواجہ اسلام ص:۶۵۰) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)

محمدی
اول : اس مشہور اعتراض کی حقیقت حافظ ابن کثیر اور علامہ عینی حنفی نے بیان کر دی ہے جیسا کہ ابھی گزرا۔

دوم: ۱۲ربیع الاول سوموار کے دن وفات نبوی نہ ہونے سے تم بریلویوں کو کیا فائدہ سعیدی صاحب تم ۱۲ربیع الاول کے دن وفات نبوی کا انکار اس لئے کر رہے ہو تا کہ ۱۲ربیع الاول کے جشن میلاد پر کوئی زد نہ پڑے حالانکہ تم ۹ربیع الاول کو یوم وفات تسلیم کرو یا یکم اور دوم ربیع الاول کو جیسا تھانوی ، خواجہ صاحبان نے کہا ہے ہرحال میں یکم ربیع الاول تا ۱۲ربیع الاول میلاد کے جشن منانے پر زد پھر بھی آتی ہے کہ تم وفات نبوی ۲یا ۹ربیع الاول کے دوران یکم تا ۱۲ربیع الاول تک میلاد کا جشن مناتے ہو۔

ان اقوال سے تمہیں کسی طرح فائدہ نہیں۔ تم اگر صرف بارہ ربیع الاول کو جشن میلاد مناتے اور یکم سے گیارہ ربیع الاول میں تمہارے ہاں جشن کا سماں نہ ہوتا تو پھر تم کو یہ اقوال مفید پڑتے حالانکہ جو جو حضرات ۱۲ربیع الاول کو وفات کا دن تسلیم نہیں کرتے ۔ وہ ماہ ربیع الاول کو وفات کا مہینہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کوئی یکم کو کوئی دوم کو کوئی ۹ربیع الاول کو بات تو پھر وہی بنی کہ میلاد بھی ربیع الاول کو ہوا اور وفات بھی ربیع الاول کو سعیدی پر الزام تو پھر بھی بدستور قائم ہے کہ تم وفات کے دنوں میں میلاد کی خوشی کیوں کرتے ہو؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا ۱۲ربیع الاول کو یوم وفات کہنا شیطان کوخوش کرنا ہے

سعیدی: جو لوگ اس تاریخ (۱۲ربیع الاول)کو یوم وصال قرار دینے پر زور لگاتے ہیں وہ محض مسلمانوں کو ذکر میلاد سے محروم کرنے کی مذموم کوشش کر کے شیطان لعنتی کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۲)

محمدی
اول: ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بارہ ربیع الاول بروز سوموار کو وفات نبوی عفریت بریلویت احمد رضا بریلوی تسلیم کرتا ہے اور اسی تاریخ میں میلاد بھی تسلیم کرتا ہے اور علامہ عینی حنفی علامہ صاوی بھی ۱۲وفات کو تسلیم کرتا ہے تو کیا یہ بریلویوں کے مسلمہ امام بھی ذکر میلاد سے محروم کرنے کی کوشش مذموم کر کے شیطان لعنتی کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ باش ہرچہ خواہی کن اور مولوی محمد عمر اچھروی بریلوی لکھتا ہے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا تو بارھویں تاریخ مقرر کر کے آپ کا وصال ہوا تو مہینہ ربیع الاول اور بارھویں تاریخ مقرر کر کے الخ (مقیاس حنفیت ص:۶۹) اور آگے لکھتا ہے اور آیت کا ظاہر اور سیاق و سباق اس بات پردال ہے کہ بارھویں تاریخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی ہے الخ (مقیامی حنفیت ص:۷۰)
 
Top