• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد۔ مترجم

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
*جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد۔ مترجم*

[[={(جامع الاصول ابن اثیر تعداد احادیث = 9523) }+{(مجمع الزوائد الہیثمیؒ تعداد احادیث= 18776) =]] *خریدی تھی مگر واپس کردی۔* اس میں بہت ضعیف احادیث ہیں۔
عصر صحابہ میں صرف صحیح احادیث پر عمل تھا پھر یہ تاریک ادوار آئے کہ ضعیف احادیث کا فتنہ شروع ہوگا۔ یہ فتنہ ختم ہونے کا نام نہیں لیے رہا۔
انصارالسنہ والوں نے
*صحیح جامع صغیر ابانی*
کا اردو ترجمہ 18/20 سال سے رکھا ہوا ہے وہ شائح نہیں کیا
اور یہ اوٹ آف ڈیٹ کتاب طبع کردی۔
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
اس سے بکواس اور بیہودہ پوسٹ زندگی میں کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس سے بکواس اور بیہودہ پوسٹ زندگی میں کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
جہالت بیوقوں کے بنائے سے نہیں بنتی، خدا جب عقل لیتا ہے، جہالت آہی جاتی ہے...!!!
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
گالی باز سیلفی ... ہاہاہا..
جب علم سے نرے جاہل ہو تو پھر ہر پوسٹ پر اپنی جہالت بکھیرنے کیوں آتے ہو ؟ علم نہیں تو اس فورم سے کنارہ کش ہوجاو جاہلوں کے لیے جگہ نہیں ہے!
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد
کتاب کا اصل عربی نام : جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اصل کتب حدیث (امھات الکتب ) جیسے ((صحیح البخاري، ومسلم، وأبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجة، وموطأ مالك، والمسانيد لأحمد بن حنبل، وأبي يعلى الموصلي، وأبي بكر البزار، والمعاجم الثلاثة للطبراني الكبير، والأوسط، والصغير. كما أضاف إلى هذه الكتب - جامع الأصول لابن الأثير الجزري (بزيادات رَزين) - ومعجم الزوائد للحافظ الهيثمي))
کی جامع ہے ،یعنی اس کتاب میں ان کتب کی احادیث کو " جامع " کی ترتیب پر مرتب و مدون کیا گیا ہے ، اس کے ابواب کی ترتیب صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسی ہے ، کتاب الایمان سے شروع ہو کر کتاب الجنۃ والنار پر مکمل ہوتی ہے ، اس کی ضخامت چار جلدوں میں ہے
اس میں احادیث کی تعداد (10131 ) دس ہزار ایک سو اکتیس ہے ،
یہ گیارہویں صدی ہجری میں لکھی گئی ، یہ عثمانی خلافت کا دور تھا،
اس کتاب کا موجودہ نسخہ تحقیق و تخریج کے ساتھ 1998ء کویت سے شائع ہوا،
مصنف مراکش کے جید عالم اور محدث الإمام محمد بن سليمان المغربي المتوفى سنة 1094 ھ ۔۔۔ ہیں ،
جنہوں نے زندگی کے کئی سال مکہ مکرمہ میں علم کا نور پھیلاتے گزارے،
مکہ کے قیام کے دوران بدعات و خلاف شرع امور پر سختی سے رد فرماتے تھے ، بالخصوص قبر پرستی اور قبے بنانے کے سخت خلاف تھے
پھر آخر عثمانی حکومت کے حکم پر مکہ سے اخراج ہوا ،
ان کا سن وفات
توفي سنة (1094هـ) دمشق میں دفن ہوئے
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
میں ملک سکندر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ پہلے مذکورہ کتاب کا مکمل مطالعہ فرما لیں ،پھر کوئی رائے دیں ۔ہمیں یقین ہے کہ کتاب کا مکمل عمیق مطالعہ کرنے کے بعد وہ اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرما لیں گے ۔ جزاک الله خیرا
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
جب علم سے نرے جاہل ہو تو پھر ہر پوسٹ پر اپنی جہالت بکھیرنے کیوں آتے ہو ؟ علم نہیں تو اس فورم سے کنارہ کش ہوجاو جاہلوں کے لیے جگہ نہیں ہے!
گالی باز سیلفی... جوکر
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
محدث ابوعبداللہ محمدبن سلیمان ؒ مغربی۔1037 تا 1094ھ کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب دستاویز تذکرة المحدثین: 192 تا 196۔
اس کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک محدث فورم پر موجود ہے۔
یہ میسج <جمع الفوائد> میں نے ”شیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ دار ابن بشیر قصور اور عبدالخاق صدیقی حفظہ اللہ مالک انصار السنہ لاہور۔“ کو ایک ساتھ وٹس سیپ کیا تھا اور انھوں نے جواب بھی دیا تھا۔
کسی نے نہیں کہا؟
اس سے بکواس اور بیہودہ پوسٹ زندگی میں کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔


تنقید اہلِ علم کا حق ہے۔
اس میں کون سی بکواس اور بیہودی ہے۔
نفسیاتی مریضوں کو اپنا علاج کرانا چاھیے۔

سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ‎ نے فرمایا۔
”جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ خالص < پکا > منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے حتیٰ کہ وہ اسے ترک کر دے ۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔“
متفق علیہ بخاری: 33 ، مسلم: 107، 109۔

لوگوں کو گالیاں دینا اور بڑے القاب سے پکارنا اہل بدعت کا مذہب ہے۔

کیا؟ یہ کہنا کہ اس کتاب میں ضعیف احادیث بہت ہیں،جرم ہے۔

محدثین کی ضعیف و موضوع حدیث پر تنقیدات {چند مثالیں}


1۔ امام مسلمؒ فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے فعل کی وجہ سے گناہگار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب <جھوٹ> ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کر دی ہیں“ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔“
صحیح مسلم مقدمہ:177۔179۔

2۔ امام حاکمؒ کے بارے علامہ عثمان ابن صلاحؒ فرماتے ہیں۔
”وہ صحیح حدیث کے شرائط کے بارے میں بڑے توسیع پسند اور صحیح حکم لگانے میں نہایت متساہل تھے۔“
مقدمہ ابن صلاح: ص۔11۔

3۔ امام زیلعیؒ حنفی کا بیان ہے کہ۔
”پس حاکم کا تساہل اور ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کی تصحیح مشہور و معروف ہے۔“
نصب الرایہ: جلد 1۔ ص۔ 360۔

پہلے.jpg


انوار الصحیفة فی الاحادیث الضعیفة من السنن الاربعة۔ زبیرعلی زئیؒ۔ تعداد حدیث < ضعیف اور موضوع >: 1000 سے زائد۔

5۔ محدث العصر زبیر علی زئیؒ کتب صلاة کے بارے لکھتے ہیں کہ۔
”ان میں سے اکثر کتابیں اکاذیب ، موضوع احادیث ، ضعیف و مردود روایات ، تضادات اور علمی مغالطوں پر مشتمل ہیں۔“
نماز نبوی: دارالسلام۔

یہ سارے محدثین جو ضعیف اور موضوع حدیث کو بیان اور شمار کر رہے ہیں۔

کیا؟ یہ بکواس اور بیہودہ لکھ رہے ہیں۔

یا آپ ایوب۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
54
سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے


1= سیدنا علیؒ روایت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ‎ نے فرمایا۔
”میرے متعلق جھوٹ مت بولو۔ یعنی ایسی بات جو میں نے نہ کہی ہو اپنی طرف سے گھڑ کر میری جانب منسوب نہ کرو۔ اس لئے کہ جو میرے بارے میں جھوٹ گھڑے گا وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 1

2= سیدنا انس بیان کرتے ہیں۔ مجھے تمہارے سامنے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ یہ ہےکہ نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 2

3= سیدنا ابو ہریرہؒ روایت کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا اسے چاھیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 3

4= سیدنا مغیرہؒ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی کریمﷺ‎ کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
”کہ میرے بارے میں جھوٹ بولنا کسی دوسرے شخص کے بارے جھوٹ بولنے کی مانند نہیں ہے۔ جو شخص عمداً جھوٹ گھڑ کر میری طرف منسوب کرگا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 4

5= عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
”اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر اس علم کو نہیں اٹھائے گا،بلکہ یہ علم،علماء(حق)کے چلے جانے سے ختم ہوگا، حتی کہ وقت آئے گا کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ لوگ اپنا سردار ،راہبر،راہنماجاہلوں کو بنا لیں گے،اُن (جاہلوں) سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔“
صحیح بخاری: کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،حدیث نمبر: 100،
صحیح مسلم: کتاب الزمان،باب رفع العلم و قبضہ و ظھر الجھل والفتن فی آخر الزمان، حدیث نمبر: 2673


6= نبی ﷺ‎ نے فرمایا۔
”آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے نہیں سنا ہو گا لہٰذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہِ میں ڈال دیں۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 7

7= نبی کریمﷺ‎ نے فرمایا۔
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بیان کردے۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 5

1= امام اسماء الرجال ابن عدیؒ 279تا 375ھ فرماتے ہیں۔
”صحابہؓ کی ایک جماعت نے رسول اللہﷺ‎ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان { جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے۔ } کے مصداق قرار پائیں۔“

2= امام مسلمؒ 206تا261 فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے فعل کی وجہ سے گناہگار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب <جھوٹ> ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کر دی ہیں“ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔“
صحیح مسلم مع شرح نوویؒ مقدمہ:177۔ 179۔

3= امام دار قطنی رحمہ اللہ 306تا385ھ فرماتے ہیں۔
”رسول اللہﷺ‎ نے اپنی طرف سے < بات > پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پرجھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی الہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔“
صحیح مسلم مقدمہ مع شرح نوویؒ

4= امام نووی رحمہ اللہ 631تا676ھ فرماتے ہیں۔
محققین محدثین اور ائمہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضغیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاھیے کہ
”رسولﷺ‎ نے فرمایا یا آپ نے کہا ہے یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے یا آپ نے منع کیا ہے“
اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہئے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبیﷺ‎ پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہو گا مگر< افسوس کہ > اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہ رکھا سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کونکہ وہ <علماء> بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ”یہ روایت بنیﷺ‎ سے روایت کی گئی“ اور بہت سی ضغیف روایات کے بارے کہتے ہیں کہ ”آپ نے فرمایا“ ”اسے فلاں نے روایت کیا ہے“ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔
مقدمة المجموع۔ امام نوویؒ

5= امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 661تا728ھ فرماتے ہیں۔
ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی۔
التوسل و الوسیلہ۔ ابن تیمیہؒ۔

6= ضعیف حدیث مطلقاً قابلِ حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضائل میں۔
یحییٰ بن معینؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام بن حزمؒ، قاضی ابن العربی مالکیؒ، خطیب بغدادیؒ، امام بن تیمیہؒ، امام شاطبیؒ، امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ، امام شوکانیؒ، علامہ احمدشاکرؒ، امام البانیؒ، محدث ضیاء الاعظمیؒ اور محدثین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
 
Top