۱۔ قرآن
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔النسا ۱۰۳
حدیث ۱:.
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہو جائے، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر ( صادق ) طلوع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔ ترمذی ۱۵۱
حدیث۲: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے اول وقت تک موخر کردیتے،پھر دونوں کو جمع کرلیتے اور مغرب کو موخر کرتے اور عشاء کے ساتھ اکٹھا کرکے پڑھتے جب شفق غائب ہوجاتی۔مسلم۱۶۲۷
حدیث۳: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: نماز ( پڑھ لی جائے ) ( تو ) ابن عمر نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دن اور رات میں تین دن کی مسافت طے کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جابر نے بھی نافع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔ابوداود۱۲۱۲
۱۔ قرآن کی نص نمازوں کو اپنے وقت میں پڑھنے کی ہے۔
۲۔ آپ صل نے نمازوں کا اول اور آخر وقت بیان فرمایا
۳۔ آپ صل کو سفر میں (جب جلدی ہوتی ناکہ ہمیشہ ) ظہر کو موخر کر کے بالکل آخری وقت اور عصر کو بالکل اول وقت میں پڑھتے۔ ایسے ہی مغرب کو موخر کر کے بالکل آخری وقت اور عشا کو مقدم کر کے بالکل اول وقت میں پڑھتے۔ اور یوں جمع بھی فرماتے اور قرآن کے حکم پر بھی عمل ہوتا۔
۴۔ صحابی رسول رض نے بھی اسی طرح کر کے نبی پاک صل کے عمل کی وضاحت و صراحت کی۔
اس کے بالمقابل اہلحدیث حضرات کا عمل قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے۔
۱۔ یہ جب جی چاہے عصر کو قبل دخول وقت ظہر سےُ ملا لیتے ہیں۔
۲۔ ظہر کو قضا کرکے عصر کے وقت میں پڑھ لیتے ہیں۔
۳۔ عشا کو قبل دخول وقت مغرب سے ملا کر پڑھ لیتے ہیں
۴۔ مغرب کو قضا کر کے عشا کے وقت میں عشا سے ملا کر پڑھتے ہیں۔
یہ اس معاملے میں نا قرآن پر عمل کرتے ہیں نا رسول صل کے عمل کی پیروی کرتے ہیں نا صحابی کے عمل کی۔
نوٹ: نماز کو عمدا قضا کرنے کا سخت گناہ ہے اور قبل دخول وقت نماز نا فرض ہوتی ہے اور نا ہی قبل دخول وقت پڑھ لینے سے اس کا فریضہ ساقط ہوتا ہے۔
وما علینا الالبلاغ
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔النسا ۱۰۳
حدیث ۱:.
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہو جائے، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر ( صادق ) طلوع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔ ترمذی ۱۵۱
حدیث۲: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے اول وقت تک موخر کردیتے،پھر دونوں کو جمع کرلیتے اور مغرب کو موخر کرتے اور عشاء کے ساتھ اکٹھا کرکے پڑھتے جب شفق غائب ہوجاتی۔مسلم۱۶۲۷
حدیث۳: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: نماز ( پڑھ لی جائے ) ( تو ) ابن عمر نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دن اور رات میں تین دن کی مسافت طے کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جابر نے بھی نافع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔ابوداود۱۲۱۲
۱۔ قرآن کی نص نمازوں کو اپنے وقت میں پڑھنے کی ہے۔
۲۔ آپ صل نے نمازوں کا اول اور آخر وقت بیان فرمایا
۳۔ آپ صل کو سفر میں (جب جلدی ہوتی ناکہ ہمیشہ ) ظہر کو موخر کر کے بالکل آخری وقت اور عصر کو بالکل اول وقت میں پڑھتے۔ ایسے ہی مغرب کو موخر کر کے بالکل آخری وقت اور عشا کو مقدم کر کے بالکل اول وقت میں پڑھتے۔ اور یوں جمع بھی فرماتے اور قرآن کے حکم پر بھی عمل ہوتا۔
۴۔ صحابی رسول رض نے بھی اسی طرح کر کے نبی پاک صل کے عمل کی وضاحت و صراحت کی۔
اس کے بالمقابل اہلحدیث حضرات کا عمل قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے۔
۱۔ یہ جب جی چاہے عصر کو قبل دخول وقت ظہر سےُ ملا لیتے ہیں۔
۲۔ ظہر کو قضا کرکے عصر کے وقت میں پڑھ لیتے ہیں۔
۳۔ عشا کو قبل دخول وقت مغرب سے ملا کر پڑھ لیتے ہیں
۴۔ مغرب کو قضا کر کے عشا کے وقت میں عشا سے ملا کر پڑھتے ہیں۔
یہ اس معاملے میں نا قرآن پر عمل کرتے ہیں نا رسول صل کے عمل کی پیروی کرتے ہیں نا صحابی کے عمل کی۔
نوٹ: نماز کو عمدا قضا کرنے کا سخت گناہ ہے اور قبل دخول وقت نماز نا فرض ہوتی ہے اور نا ہی قبل دخول وقت پڑھ لینے سے اس کا فریضہ ساقط ہوتا ہے۔
وما علینا الالبلاغ