ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
جمع قراء ات کا مفہوم، ارتقاء اور شرعی حیثیت
مترجم: قاری محمد صفدر
جمع القراء ات یا الجمع بالقراء ات یا الجمع بین القراء ات یہ دو اَجزاء پر مشتمل مرکب ہے۔قرآن مجید کے منزل من اللہ سات حروف چونکہ قرآن مجید ہی کا حصہ ہیں چنانچہ ان کی تلاوت نماز میں ہو یا غیر نماز میں، انفرادی سطح پر ہو یا کسی اجتماعی محفل میں، ایک قراء ت کے ساتھ ہو یا مختلف قراء ات کو جمع کرکے (بغیر خلط کے)، سلف صالحین سے کوئی باقاعدہ عمل ثابت ہو یا نہیں یہ تمام اُمور اُصولی طور پر جائز اور مباح ہیں۔ مثلاً خیر القرون میں محافل قراء ات کا انعقاد اجتماعی سطح پر بالعموم نہیں ہوتا تھا یا کسی ایک مجلس میں مختلف قراء ات اکٹھا کرکے پڑھنے کا رواج موجود نہیں تھا، لیکن یہ چیزیں عمومی اعتبار سے حفاظت ِقرآن اور قرآن و علوم قرآن کی آگے منتقلی میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور کتاب و سنت یا خیر القرون سے اس کا کوئی تعارُض بھی نہیں، چنانچہ علمائے اُصول اس قسم کے معاملات کو ’مصالح مرسلہ‘ کے نام سے محمود شمار کرتے ہیں اس ضمن میں ’جمع قرآن صدیقی و عثمانی‘ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایک مجلس میں متعدد قراء ات کو لوگوں کی تعلیم کیلئے اکٹھا کرکے پڑھنا ایک ایسی مفید مصلحت ہے جس کے ثمرات آج عوامی سطح پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ عوام الناس کا علم القراء ات کو سیکھنے کا شوق پیدا ہونا بنیادی طور پر انہی محافل قراء ات کی برکات سے تعلق رکھتا ہے۔
ان تمام اُمور کے باوجود اگر محافل ِقراء ات اَور ان میں پیش کی جانیوالی تلاوتوں میں ریاکاری یا کوئی غیر شرعی اَمر مدنظر ہو تو وہ بہرحال معیوب ہے۔ زیر نظر مضمون ڈاکٹر فتحي العبیدي﷾ کے پی ایچ ڈی کے مقالہ جمع القراء ات المتواترۃ کی ایک فصل کا انتخاب ہے، جس میں انہوں نے کسی محفل میں متعدد قراء ات کو اکٹھا پڑھنے کے مسئلے پر تحقیقی بحث کی ہے۔ شائقین کو اس علمی کاوِش کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ (ادارہ)
اِصطلاحی تعریف سے پہلے ہر دو جز کی لغوی تعریف درج ذیل ہے: