مانعین جمع قراء ت کے دلائل اور اُن کا جائزہ
بعض فقہاء اور کئی علماء نے کہا ہے کہ ایک ختم یا مجلس میں جمع قراء ات ناجائزہے۔
ان میں حنفیہ ہیں۔’الحاوی القدسی‘ کے مؤلف قاضی اَحمد بن محمد غزنوی (۶۰۰ھ؍۱۲۰۳م) نے کہا ہے:
’’تلاوت قرآن کرتے ہوئے قراء ات معروفہ یا شاذہ کو ایک ہی دفعہ کلمات کو دوہرا کر پڑھنا مکروہ ہے۔‘‘
اُن کے نزدیک جمع قراء ات مکروہ ہے۔
عوامی مجالس میں قراء ات مجہولہ (عیر معروفہ) کی تلاوت کرنے سے اَحناف سختی سے منع کرتے ہیں اِس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عوام شبہات کا شکار ہوں گے اور بسا اَوقات وہ قراء کے قراء اتِ متواترہ صحیحہ پڑھنے کو غلط کہہ کر گناہ میں واقع ہوجائیں گے۔
شوافع کی بڑی فقہی کتب مثلاً المجموع شرح المھذب اَز نووی (۷۶۷ھ؍۱۲۷۷م) اور ’نھایۃ المحتاج شرح المنھاج‘ اَز رسلی (۱۰۰۴ھ؍۱۵۹۵م) وغیرہ میں جمع قراء ت مجلس واحد کے حکم شرعی سے متعلق کو ئی نص موجود نہیں۔ لیکن ’التبیان‘ اَز نووی میں ہے:
’’جب قاری کسی قراء ت کی اِبتداء کرتا ہے تو اس کے لیے مستحسن ہے کہ وہ اسی قراء ت میں پڑھتا رہے یہاں تک کہ کلام مکمل ہوجائے۔ ہاں جب کلام مکمل ہوجائے تو پھر دوسری قراء ت کی تلاوت شروع کرسکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ مجلس واحد میں وہ پہلی قراء ت ہی پڑھے۔‘‘