محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
تو اے اسلامی جمہوریت کی دعوت دینے والو! تمہیں کس نے اس باطل کی طرف دعوت دینے کا حق دیا ہے؟ جس چیز کی دعوت تم دیتے ہو وہ دینِ اسلام کے ساتھ کیوں کر مجتمع ہوسکتی ہے؟ دینِ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ رب العزت حرام ٹھہرائے نہ کہ پارلیمان۔ اور دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا نہ کہ پارلیمان نے۔ اورسزا کا حقدار وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ورزی کرے نہ کہ وہ جو پارلیمان کی حکم عدولی کرے۔ حقیقتاً آپ لوگ یہ دعویٰ تو رکھتے ہیں کہ آپ کی دعوت اسلام کی دعوت ہے اور آپ کا راستہ سیدھا۔ نبی کا راستہ ہے۔ مگر پھر آپ اپنے اس دعوے کو ملیامیٹ کرتے ہوئے لوگوں کو جمہوریت کی طرف بلاتے اور پارلیمنٹ کی طرف لے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس کے گن گا کر لوگوں کے دلوں میں اس جدید بت کی محبت اور عقیدت راسخ کرتے ہیں۔ آپ کی مثال تو اس عورت کی طرح ہے جو سوت کاتنے کے بعد خود ہی اسے ریزہ ریزہ کر دے۔
آپ ایک طرف توحید کی دعوت دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی توحید کو منہدم کررہے ہیں؟ رحمن کی شریعت کو نافذ کرنے کی یہ کیسی جدو جہد ہے کہ جس میں عملی طور پر شیطان کی شریعت کو بالادست اور مقدس بنانے کے لیے کوشش کی جاتی ہو؟ پارلیمنٹ کے خود ساختہ قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اولین خدمت گارانِ جمہوریت بھلا کیوں کر لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کاحکم دیتے ہیں؟ عصر حاضر کے صنم اکبر کو تعمیر کرکے اور اپنی جماعتوں کے افراد کو اس جمہوری بت کدے میں بٹھا کرآپ اپنے اسلاف کی مانند بت شکنی کس طرح کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح آپ دعوت الیٰ القرآن کا دعوی کرتے ہیں جو طاغوت سے کفر اور ایک اللہ پر ایمان کا حکم دیتا ہے جبکہ، آپ اسی طاغوت پر ایمان لانے اور اس کے علمبرداروں کی تعظیم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ‘‘( الصف: ٢-٣)
’’اے ایمان والو!تم ایسی بات کیوں کرتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے۔کتنا ناپسندیدہ ہے اللہ کے نزدیک کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم عمل نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح فرمایا:
’’أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ‘‘(البقرۃ:٤٤ )
’’بھلا تم لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہو او ر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو،سو تم عقل کیوں نہیں کرتے‘‘۔
اور فرمایا:
’’مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‘‘(آل عمران: ٧٩-٨٠)
’’کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اُسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور و ہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ یہ کہ تم ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتاب پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ او ر اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنا لو۔ بھلا جب تم مسلمان ہو چکے تو کیا اُسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے‘‘۔
آپ ایک طرف توحید کی دعوت دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی توحید کو منہدم کررہے ہیں؟ رحمن کی شریعت کو نافذ کرنے کی یہ کیسی جدو جہد ہے کہ جس میں عملی طور پر شیطان کی شریعت کو بالادست اور مقدس بنانے کے لیے کوشش کی جاتی ہو؟ پارلیمنٹ کے خود ساختہ قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اولین خدمت گارانِ جمہوریت بھلا کیوں کر لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کاحکم دیتے ہیں؟ عصر حاضر کے صنم اکبر کو تعمیر کرکے اور اپنی جماعتوں کے افراد کو اس جمہوری بت کدے میں بٹھا کرآپ اپنے اسلاف کی مانند بت شکنی کس طرح کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح آپ دعوت الیٰ القرآن کا دعوی کرتے ہیں جو طاغوت سے کفر اور ایک اللہ پر ایمان کا حکم دیتا ہے جبکہ، آپ اسی طاغوت پر ایمان لانے اور اس کے علمبرداروں کی تعظیم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ‘‘( الصف: ٢-٣)
’’اے ایمان والو!تم ایسی بات کیوں کرتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے۔کتنا ناپسندیدہ ہے اللہ کے نزدیک کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم عمل نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح فرمایا:
’’أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ‘‘(البقرۃ:٤٤ )
’’بھلا تم لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہو او ر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو،سو تم عقل کیوں نہیں کرتے‘‘۔
اور فرمایا:
’’مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‘‘(آل عمران: ٧٩-٨٠)
’’کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اُسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور و ہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ یہ کہ تم ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتاب پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ او ر اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنا لو۔ بھلا جب تم مسلمان ہو چکے تو کیا اُسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے‘‘۔