• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک دینِ جدید

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
تو اے اسلامی جمہوریت کی دعوت دینے والو! تمہیں کس نے اس باطل کی طرف دعوت دینے کا حق دیا ہے؟ جس چیز کی دعوت تم دیتے ہو وہ دینِ اسلام کے ساتھ کیوں کر مجتمع ہوسکتی ہے؟ دینِ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ رب العزت حرام ٹھہرائے نہ کہ پارلیمان۔ اور دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا نہ کہ پارلیمان نے۔ اورسزا کا حقدار وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ورزی کرے نہ کہ وہ جو پارلیمان کی حکم عدولی کرے۔ حقیقتاً آپ لوگ یہ دعویٰ تو رکھتے ہیں کہ آپ کی دعوت اسلام کی دعوت ہے اور آپ کا راستہ سیدھا۔ نبی کا راستہ ہے۔ مگر پھر آپ اپنے اس دعوے کو ملیامیٹ کرتے ہوئے لوگوں کو جمہوریت کی طرف بلاتے اور پارلیمنٹ کی طرف لے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس کے گن گا کر لوگوں کے دلوں میں اس جدید بت کی محبت اور عقیدت راسخ کرتے ہیں۔ آپ کی مثال تو اس عورت کی طرح ہے جو سوت کاتنے کے بعد خود ہی اسے ریزہ ریزہ کر دے۔

آپ ایک طرف توحید کی دعوت دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی توحید کو منہدم کررہے ہیں؟ رحمن کی شریعت کو نافذ کرنے کی یہ کیسی جدو جہد ہے کہ جس میں عملی طور پر شیطان کی شریعت کو بالادست اور مقدس بنانے کے لیے کوشش کی جاتی ہو؟ پارلیمنٹ کے خود ساختہ قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اولین خدمت گارانِ جمہوریت بھلا کیوں کر لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کاحکم دیتے ہیں؟ عصر حاضر کے صنم اکبر کو تعمیر کرکے اور اپنی جماعتوں کے افراد کو اس جمہوری بت کدے میں بٹھا کرآپ اپنے اسلاف کی مانند بت شکنی کس طرح کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح آپ دعوت الیٰ القرآن کا دعوی کرتے ہیں جو طاغوت سے کفر اور ایک اللہ پر ایمان کا حکم دیتا ہے جبکہ، آپ اسی طاغوت پر ایمان لانے اور اس کے علمبرداروں کی تعظیم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ‘‘( الصف: ٢-٣)
’’اے ایمان والو!تم ایسی بات کیوں کرتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے۔کتنا ناپسندیدہ ہے اللہ کے نزدیک کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم عمل نہیں کرتے‘‘۔

اسی طرح فرمایا:
’’أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ‘‘(البقرۃ:٤٤ )
’’بھلا تم لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہو او ر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو،سو تم عقل کیوں نہیں کرتے‘‘۔

اور فرمایا:
’’مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‘‘(آل عمران: ٧٩-٨٠)
’’کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اُسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور و ہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ یہ کہ تم ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتاب پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ او ر اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنا لو۔ بھلا جب تم مسلمان ہو چکے تو کیا اُسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اس سارے معاملے کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں، اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی تلبیس اور دھوکہ دہی کی کوئی گنجائش ہے۔ اگر جمہوریت جیسی فضول چیزوں کے ذریعے اور فقط نعرے لگانے سے اسلام کا قیام ممکن ہوتا تو پھر انبیاء و رسل علیہم السلام کو اپنی جان جوکھوں میں نہ ڈالنی پڑتی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ ‘‘( الانعام: ٣٤ )
’’اور تم سے پہلے بھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے ، تو وہ تکذیب اور ایذا پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی، اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں اور تم کو پیغمبروں کی خبریں پہنچ چکی ہیں‘‘۔

ہمارے رب کی کتاب حکیم تو ہمیں یہ کہتی ہے کہ:
’’ وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ‘‘( الانعام: ١٢١)
’’اور جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیاطین اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک ہوجاؤ گے‘‘۔

اس کے برعکس جمہوریت کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کی بالا دستی قبول کرو، ان کی اطاعت کرو اور انہیں مقدس و محترم جانو۔ اگر ایسا کرو گے تو تم پر کوئی ملامت یا مواخذہ نہیں بلکہ یہی عین مصلحت ہوگی۔ گویا پارلیمنٹ کی کامل اطاعت کریں گے تو دین جمہوریت کے مطابق آپ موحدین میں شمار ہوجائیں گے۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ بعض کفارنے مسلمانوں سے بحث کرتے ہوئے یہ شبہ پیش کیا کہ تمہارا زعم ہے کہ تم اللہ کی رضا جوئی چاہتے ہو حالانکہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ ذبح کردے)یعنی خود مر جائے( اسے نہیں کھاتے اور جسے تم خود ذبح کرتے ہو اسے کھاتے ہو؟ تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
’’اگر تم نے ان کی اطاعت کی) یعنی مردار کھایا( تو یقینا تم بھی مشرک ہو جاؤگے‘‘۔

یہ تو ایک مشتبہ قسم کی بات تھی جو شیاطین نے اپنے دوستوں کو سمجھائی اور ان مشرکین نے پیش کی، اور اس بات کا تعلق بھی فقط ایک مسئلے یعنی مردار کی حِلّت سے تھا۔ ممکن تھا کہ کوئی اس معاملے کو معمولی خیال کرے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم نے ان کاکہا مانا اور مردار کو حلال سمجھنے میں ان کی پیروی کی تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔ توپھر آخر ان اسمبلیوں کی پیروی کرنے والے کو کیا کہا جائے گا جن کا قیام ہی حلال و حرام کا فیصلہ کرنے اور خود ساختہ قانون سازی کرنے کے لیے عمل میں آیا ہے۔ یہ اسمبلیاں اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کے سوا کسی بات کی پابند نہیں ہیں۔ یہ لوگ تو جاہل و سادہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہی سہی.اپنے بنائے ہوئے قوانین اور حلال و حرام کے فیصلوں کا شریعت سے ناتا جوڑنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں شریعت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اپنی خواہشات کو قوم کی مصلحت کے نام دیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق قانون سازی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اقتصادی مصلحت کے نام پر سود کو حلال کرتے ہیں، شخصی آزادی کے نام پر زنا و فواحش کے اجازت نامے جاری کرتے ہیں اور سیاحت و ترقی کے نام پر شراب و کباب کو مباح گردانتے ہیں۔

مثال کے طور پر یہ ایک معلوم شدہ امر ہے کے دینِ اسلام میں شراب قطعاً حرام ہے، لیکن اگر کوئی احمق رکنِ پارلیمان یہ قرارداد پیش کرتا ہے کہ ایک دو سال یا پھر ہمیشہ کے لیے شراب کی خرید و فروخت سے پابندی اٹھائی جائے تاکہ ملک میں اقتصادی ترقی ہو اور سیاحوں کے لیے کشش و سہولت پیدا ہو تو اس احمق پر کوئی مواخذہ نہیں بلکہ اس ’’ عظیم اقتصادی بل‘‘ کو اپنے نفاذ کے لیے صرف اکثریت درکار ہوگی۔ اور اگر پارلیمنٹ کی اکثریت اس کی توثیق کر دے تو پھر شراب کی خریدو فروخت مباح ہوگی اور کسی کو یہ حق نہ ہوگا کہ اس کا انکار کرے بلکہ جو اس کی مخالفت کریگا اس پر فردِ جرم عائد ہوگی اور سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔

ارکان پارلیمنٹ میں سے اگر کوئی ہم جنس پرستی کا دلدادہ ہے اور اسے قانونی جواز مہیا کرکے اپنے اور اپنے جیسے دوسرے بدمعاشوں کو سہولت دینا چایتا ہے تواسے بھی بل پیش کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح سودی لین دین کرنے والی بڑی کاروباری مچھلیاں اپنی پسند کی سودی اصلاحات کے نفاذ کے لیے قانون سازی کروا سکتی ہیں، شراب و کباب کے رسیا بھی اسمبلی سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے بل پیش کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہیجڑے بھی اپنی تنظیمیں بنا کر ہیجڑا سازی کے کاروبار کو قانونی جواز عطا کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ صرف ایک ہی شرط ہے کہ وہ دستور کے مخالف نہ ہو، جبکہ اسلام کے مخالف ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے بعد اگر پارلیمنٹ کی اکثریت چاہے تو ان تمام قراردادوں اور مطالبات کو منظور کرکے انہیں جواز مہیا کرسکتی ہے اور اس کے بعد تمام لوگوں پر انہیں تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

اور اسی طرح وہ قانون جو پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے. اگرچہ کہ وہ شریعت سے کلی طور پر متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ دینِ جمہوریت میں اسے ہر طرح کا تحفّظ اور تقدّس حاصل ہوگا کیونکہ پارلیمنٹ کی بالادستی اِس کے نزدیک ہر قسم کی حاکمیت سے بالاتر ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ثالثاً: دین اسلام میں کسی چیز پر یہ حکم لگانا کہ یہ حق ہے یا باطل ، جائز ہے یا ناجائز، حرام ہے یا حلال.اُس دلیلِ شرعی کی بنیاد پر ہوتا ہے جو کتاب اللہ اور سنت نبوی ﷺ پر مشتمل ہے، جبکہ اجماع و قیاس بھی اسی کے تابع اور اسی سے مستنبط ہوتے ہیں۔ ایسے احکام کا ثبوت محض عقل، ذوق، رغبت ، صلاحیت یا تجربہ پر مبنی نہیں ہوتا ۔حق تو وہ ہے جو خالص اور پاکیزہ آسمانی احکام پر مبنی ہو۔یہ کسی گروہ یا جماعت کی ملکیت نہیں خواہ وہ کیسے ہی اوصاف کے حامل کیوں نہ ہوں ،چاہے وہ سیاست سے متعلق ہوں ،چاہے اکثریت کے حامل ہوں،چاہے عربی ہوں اور چاہے عجمی۔ وہ صرف اس وجہ سے حق ہے کہ شریعت نے اسے حق کہا ہے۔ اور جو باطل ہے وہ اس لیے باطل ہے کہ شریعت اسے باطل قرار دیتی ہے۔ اگر آسمانوں اور زمینوں کے تمام لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ شریعت سے ثابت شدہ حق کو باطل اور باطل کو حق قرار دیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔حق، حق ہی رہے گا اور باطل، باطل ہی کہلائے گا۔ ہدایت کو ہدایت ہی کہا جائے گا اور گمراہی، گمراہی ہی قرار پائے گی۔جبکہ لوگوں کی قیاس آرائیوں اور اٹکل کی کوئی حیثیت نہیں۔

یہ بات اسلام سے ثابت ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس کے برعکس دینِ جمہوریت میں کسی چیز کے صحیح یا باطل ہونے پر اور اس کے حسن و قبح پر حکم لگانا پارلیمنٹ کی غالب اکثریت کا حق ہے۔(یہ عین وہی مسئلہ نہیں جس کا ذکر سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ پارلیمان کو تشریع و قانون سازی کا حق حاصل ہے۔یہاں ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق رائے دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ سابقہ مسئلے سے مختلف ہے اگرچہ اس کے مشابہ ضرور ہے۔)

عظیم ترین مصیبت تو یہ ہے کہ جب کوئی تجویز اکثریت کی حمایت سے منظور ہو جائے تو اسے تمام ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے سمجھا جاتا ہے اور ہر رکنِ پارلیمنٹ کو اس کا معترف اور موافق سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح مجلسِ ارباب )پارلیمنٹ( میں قانون سازی کا عمل تین مرحلوں میں طے ہوتا ہے ۔

پہلا مرحلہ: اس میں کوئی بھی رکنِ پارلیمنٹ اپنی مرضی اور منشاء سے دستور کی حدود میں رہتے ہوئے ایک تجویز )بل( پیش کرتا ہے۔

دوسرا مرحلہ: یہاں ہماری بحث اسی مرحلہ سے متعلق ہے، اس مرحلے میں اس تجویز پر رائے زنی اور مناقشہ و مباحثہ ہوتا ہے۔ ہر شخص اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ اس پر اعتراض کرے یا اس کی حمایت کرے۔ اس میں ترمیم کا مطالبہ کرے یا چاہے تو خاموش رہے ۔البتہ جب اکثریتی رائے سے وہ قانون منظور ہو جائے تو اسے قانونی و شرعی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔

تیسرا مرحلہ : یہ ہے کہ جب کوئی قانون بواسطہ پارلیمان کے منظور ہوجائے تو پھر یہ نہیں کہا جاتا کہ اکثریت کی حمایت سے منظور ہوا ہے ۔بلکہ ہر رکن پارلیمنٹ کو اس میں شریک سمجھا جاتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی طور پر وہ قانون سازی کے اس عمل میں شریک ضرور ہوا ہے اور وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اکثریت کی حمایت سے منظور شدہ قانون تمام لوگوں پر واجب الاطاعت ہوتا ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
بہت سے لوگ دینِ جمہوریت کے خدوخال کی داد و تحسین میں مگن ہیں مگر میں یہاں ایک مثال بیان کرتا ہوں جس کے ذریعہ اس کا مکروہ چہرہ نمایاں ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی گھٹیا ترین رکن پارلیمان دستور کی حدود میں رہتے ہوئے یہ تجویز پیش کرے کہ دو مردوں کو اعلانیہ طور پر شادی رچانے کی اجازت دی جائے اور اس سلسلے میں قانون منظورکیا جائے تو تمام ارکان پارلیمنٹ اس تجویز پر مناقشہ کرتے ہوئے اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ اپنی اپنی رائے دہی اور بحث کا اختیار استعمال کریں گے۔ پھر اس پر ووٹنگ ہوگی تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ اکثریت اس تجویز کی حمایت کرتی ہے یا مخالفت۔ اور اگر اکثریت اس کی حمایت میں ووٹ ڈال دے تو یہ تجویز ملکی قانون کا درجہ حاصل کرلے گی جسے ہر طرح کا احترام اور تقدس حاصل ہوگا اور اس قانون کو پورے پارلیمان سے منظور شدہ قرار دیا جائے گا، صرف اکثریت کی طرف سے نہیں ۔

رسمی اعتراض تو صرف اس وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ تجویز منظور نہ ہوئی ہو ، مگر جب اکثریت کی حمایت سے کوئی قانون پاس ہوجائے تو پھر کسی کو اس پر اعتراض کا حق باقی نہیں رہتا۔ ایک دفعہ قانون منظور ہونے کے بعد تو اقلیت و اکثریت تمام ارکانِ پارلیمان پر واجب ہوتا ہے کے اس پر’’ آمنّا وصدقنا‘‘ کہیں۔

یہ انتہائی خطرناک اور مہلک حقیقت ہے جسکی زد میں نام نہاد اسلامی ارکانِ پارلیمنٹ بھی آتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اسلام پسند لوگوں کے پارلیمنٹ میں جانے سے مفاسد کی روک تھام ہوگی اور اسلام کے بعض مفادات کی نگہبانی ہوسکے گی۔ مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اسی وجہ سے میں کہا کرتا ہوں کہ بالفرض اگر کسی پارلیمنٹ میں شرعی احکام کو محض جائزے ہی کے لیے پیش کیا جائے اور پھر ارکانِ پارلیمنٹ ان کے قبول و عدم قبول پر بحث کریں اور پھر ارکانِ پارلیمان کے اتفاق سے شرعی احکامات ہی نافذ بھی کر دیے جائیں تب بھی تمام ارکان پارلیمنٹ کی شرکیہ کفریہ اور طاغوتی حیثیت ختم نہیں ہو گی۔ وہ شرعی احکام بھی خود ساختہ قوانین کہلائیں گے جو چند انسانوں کے اتفاق سے منظور ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے یہی ارکان پارلیمنٹ آئندہ اجلاس میں ان قوانین کو کالعدم قرار دیں یا ان کے بعد آنے والے لوگ مختلف آراء و خواہشات رکھنے کی وجہ سے انہیں ختم کردیں۔

علاوہ ازیں ہماری شریعت نے عوام کی اکثریت کو معصوم یا درست قرار نہیں دیا بلکہ کتابِ عزیز میں عموماً اکثریت کی مذمت ہی کی گئی ہے جیسے کے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ‘‘ (یوسف: ١٠٣)
’’اور اکثر لوگ اگرچہ تم کتنی ہی خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘۔

نیز فرمایا:
’’ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ‘‘(یوسف: ١٠٦ )
’’اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان کا دعویٰ رکھنے کے ساتھ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں‘‘۔

’’ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلا يَخْرُصُونَ ‘‘( الانعام: ١١٦ )
’’اور اگر تم زمین میں بسنے والے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں گے، یہ محض خیال کے پیچھے چلتے ہیں اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں‘‘۔

اور فرمایا:
’’ وَمَا وَجَدْنَا لأكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ ‘‘ ( الاعراف: ۔ ١٠٢ )
’’ اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد نہیں پایا اور یقینا ہم نے ان میں سے اکثر کو نافرمان پایا‘‘۔

ایک اور مقام پر اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
’’ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلا كُفُورًا ‘‘(الاسراء: ٨٩)
’’اور ہم نے اس قرآن میں سب باتیں طرح طرح سے بیان کر دی ہیں لیکن اکثر لوگوں نے انکار ہی کیا، قبول نہ کیا‘‘۔

مزید ایک مقام پر فرمایا:
’’وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَھُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْن‘‘(الصافات )
’’اور ان سے پیشتر، پہلے لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوگئی تھی‘‘

اس حوالے سے دیگر بہت سی آیات بھی ہیں جو مشہور و معروف ہیں ۔

اکثریت کے حوالے سے قرآنِ حکیم کا بیان آپ پڑھ چکے ، اب سوال یہ ہے کہ اس دورِ جمہوریت میں کس نے اکثریت کو درست میزان اور انصاف پسند فیصل قرار دیکر شریعت سازی کا حق سونپ دیا ہے؟
’’ أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ ‘‘ (القمر: ٤٣)
’’کیا تمہارے کفار ان سابقہ کفار سے بہتر ہیں یا تمہارے لیے سابقہ صحیفوں میں براء ت لکھ دی گئی ہے؟‘‘۔

اس دینِ جدید )جمہوریت( پر بہت سے علماء ودعاۃ نے لکھا ہے اور اس کی قباحتوں کو بیان کیا ہے تاکہ لوگ اس کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں۔ یہاں ہمارا مدعا صرف یہی تھا کہ جمہوریت کی بحث کی بنیادی اور اہم باتوں کی نشاندہی کریں۔ ورنہ اگر ہم جمہوریت کے شیطانی راستوں کی تفصیل میں جائیں تو بات بہت طول پکڑ جائے ۔(واللہ المستعان)

آخر میں ایک اہم بات کی تنبیہ کرنا چاہوں گا۔ ہم نے جمہوریت میں پائے جانے والے واضح نواقض بیان کئے تاکہ ایک مسلمان کے ذہن میں اس کی صحیح تصویر بن سکے، اور وہ اس میں داخل ہوکر اپنے دین کو خسارے میں ڈالنے سے بچائے۔ کیونکہ یہی دین تو ایک مسلمان کی عزیز ترین متاع ہے اور اس میں نقصان عظیم ترین خسارہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مقصود نہیں کہ ہم اشخاص پر حکم لگائیں۔ یہاں جو حکم جمہوریت پر لگایا گیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو شخص جہالت یا تأویل کی بنا پر اس جمہوری عمل میں شامل ہوتا ہے اس پر بھی یہی حکم لگایا جائے۔ علمی و شرعی حقائق کا بیان ایک الگ چیز ہے اور اشخاص پر ان کا حکم لگانا ایک مختلف چیز۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہدایت پر ثابت قدم رکھے اور راہِ حق پر ہمارے دلوں کو جما دے، یہاں تک کہ ہم اس میں کوئی تبدیلی و تغیرکئے بغیر اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ آمین۔
والحمد للہ رب العالمین۔

بشکریہ: الموحدین ویب سائٹ
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
محترم سمیر خان صاحب نے نظم جمہوریت کی جو تکفیر کی ہے وہ بالکل درست ہے ، واقعی جمہوریت اسلام سے متضاد دین ہے جوکہ اپنی اصل میں اللہ کی بجائے عوامی حاکمیت پر مبنی ہے او رصراط مستقیم بھی نہیں ہے ۔لیکن اس حوالے سے سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنامیرے خیال میں مناسب نہیں کیونکہ موجودہ دنیامیں وہ ممالک جو خود کو اسلامی کہتے ہیں وہ جب جمہوریت کانام لیتےہیں تو اس میں سے عوامی حاکمیت کا باب نکال دیتےہیں وہ اپنی منتخب پارلیمنٹ کو صرف انتظامی امور کے بارے میں قانون سازی کاحق دیتے ہیں یاپھر اجتہادی امور میں علماسے رہنمائی لینے کے بعد درپیش مسئلہ میں جب کئی پہلو سامنے آتے ہیں تو ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے جو زیادہ قرین مصلحت ہو اس کے بارےمیں فیصلہ کرکنے کا اختیار مراد لیتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ اسے اسلامی جمہوریت کہتے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
محترم سمیر خان صاحب نے نظم جمہوریت کی جو تکفیر کی ہے وہ بالکل درست ہے ، واقعی جمہوریت اسلام سے متضاد دین ہے جوکہ اپنی اصل میں اللہ کی بجائے عوامی حاکمیت پر مبنی ہے او رصراط مستقیم بھی نہیں ہے ۔لیکن اس حوالے سے سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنامیرے خیال میں مناسب نہیں کیونکہ موجودہ دنیامیں وہ ممالک جو خود کو اسلامی کہتے ہیں وہ جب جمہوریت کانام لیتےہیں تو اس میں سے عوامی حاکمیت کا باب نکال دیتےہیں وہ اپنی منتخب پارلیمنٹ کو صرف انتظامی امور کے بارے میں قانون سازی کاحق دیتے ہیں یاپھر اجتہادی امور میں علماسے رہنمائی لینے کے بعد درپیش مسئلہ میں جب کئی پہلو سامنے آتے ہیں تو ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے جو زیادہ قرین مصلحت ہو اس کے بارےمیں فیصلہ کرکنے کا اختیار مراد لیتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ اسے اسلامی جمہوریت کہتے ہیں۔
برادر اسلامی جمہوریت ایک نئی چیز ہے۔ جس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں ہے۔اور نہ ہی سلف اس بدعت سے آشنا ہیں۔لہٰذا ایک ایسی چیز کے وجود کو کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے۔بلکہ جمہوریت جس کی تعریف ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ایک نیا دین ہے ۔ ایک باطل نظام ہے ۔ جو کہ دین اسلام کے مدمقابل اور حریف ہے۔دنیائے کفرکمیونزم سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کے ذریعے ہی سے اسلام سے متصادم ہے۔اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں جمہوریت ایک کفری نظام ہے۔تو اس کو کس طرح اسلامی کا لفظ لگا کر مسلمانوں کے لئے حلال کیا جاسکتا ہے۔یہ تو دین اسلام کے مدمقابل ایک نیا دین ہے۔ کل کو ایک دوسرا گروہ اٹھے گا اور کہے گا بت پرستی چونکہ کفر ہے ۔ اس لئے ہم اسلامی بت پرستی کے قائل ہیں۔جس کی مثال کچھ لوگوں کے ہاں سجدہ تعظیمی کی ہے۔
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
sameer sahb aap batain hum hukumraano ko kaisy muntakhib karain. Humain tu ik hi tariqa ata hai. Jamhoori tariqay se raye ka istemal kar k vote dala. Aap mutabadil rasta bata dain? Shukria
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
صوفی صاحب اپ کے الفاظ (ہمیں تو ایک ہی طریقہ اتا ہے) بتارہے ہیں کہ آپ کون ہیں آپ زحمت نہ کریں یہ مباحث مسلمانوں کے لیے ہیں صوفیوں کے لیے نہیں-شکریہ
Kia huwa mufti abdualama saab. Kia alfaaz bhi kaafir aur Musalmaan hoty hain. Roshni dalain. Waisy mera pahla sawal sameer sahab se tha
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محترم سمیر خان صاحب نے نظم جمہوریت کی جو تکفیر کی ہے وہ بالکل درست ہے ، واقعی جمہوریت اسلام سے متضاد دین ہے جوکہ اپنی اصل میں اللہ کی بجائے عوامی حاکمیت پر مبنی ہے او رصراط مستقیم بھی نہیں ہے ۔لیکن اس حوالے سے سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنامیرے خیال میں مناسب نہیں کیونکہ موجودہ دنیامیں وہ ممالک جو خود کو اسلامی کہتے ہیں وہ جب جمہوریت کانام لیتےہیں تو اس میں سے عوامی حاکمیت کا باب نکال دیتےہیں وہ اپنی منتخب پارلیمنٹ کو صرف انتظامی امور کے بارے میں قانون سازی کاحق دیتے ہیں یاپھر اجتہادی امور میں علماسے رہنمائی لینے کے بعد درپیش مسئلہ میں جب کئی پہلو سامنے آتے ہیں تو ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے جو زیادہ قرین مصلحت ہو اس کے بارےمیں فیصلہ کرکنے کا اختیار مراد لیتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ اسے اسلامی جمہوریت کہتے ہیں۔
اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب "توحید کے مسائل" میں لکھتے ہیں:
اگر ایک کافرانہ نظام ،سوشلزم کے ساتھ اسلام کا لفظ لگانے سے وہ نظام کفر ہی رہتا ہے تو پھر ایک دوسرے کافرانہ نظام جمہوریت کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے کیسے وہ مشرف بہ اسلام ہو جائے گا؟یہ فلسفہ ہماری ناقص عقل سے بالاتر ہے ہمارے نزدیک اسلامی جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کے دلائل صد فیصد وہی ہیں جو اسلامی سوشلزم کے غیر اسلامی ہونے کے ہیں۔کل کلاں اگر کوئی شاطر اسلامی سرمایہ داری یا اسلامی یہودیت یا اسلامی عیسائیت وغیرہ کا فلسفہ ایجاد کر ڈالے تو کیا اسے بھی قبول کر لیا جائے گا؟آخر اسلامی تاریخ میں پہلے سے استعمال کی گئی کتاب و سنت سے ثابت شدہ اصطلاحات نظام خلافت ،نظام شورائیت سے پہلو تہی کرنے کی وجہ کیا ہے؟کیا ہمارے مسلم دانشور اور مفکرین اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنا پسند فرمائیں گے؟
 
Top