• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت دینِ ابلیس

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

مٹھو صاحب! دو سال ہونے ہو ہیں اور آپ جواب آج دے رہے ہیں، سمائل!

رہا آپ کا یہ کہنا کہ پاکستان کے آئین میں کونسے قوانین کفریہ شرکیہ اور اسلامی قوانین کے صریح خلاف ہیں؟
سوال پر جواب ہوتا ھے سوال نہیں! جب آپکو پاکستان کے آئین میں قوانین کا علم ہی نہیں تو پھر کفریہ کہاں سے اخذ کر لیا یہ کہہ سکتے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملدرآمد کرنے والے اور رعایا اس کا استعمال درست نہیں کرتے۔

والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم
مٹھو صاحب! دو سال ہونے ہو ہیں اور آپ جواب آج دے رہے ہیں، سمائل!
سوال پر جواب ہوتا ھے سوال نہیں! جب آپکو پاکستان کے آئین میں قوانین کا علم ہی نہیں تو پھر کفریہ کہاں سے اخذ کر لیا یہ کہہ سکتے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملدرآمد کرنے والے اور رعایا اس کا استعمال درست نہیں کرتے۔
والسلام
اسکا جواب شیخ طاہر اسلام عسکری بھائی کے تھریڈ "پاکستان دارالسلام" میں موجود ہے نیچے کوٹ کر دیتا ہوں
یہ سارے خیالی پلاؤں ہیں جو میں بھی پہلے پکاتا تھا مگر جب اللہ نے علم دیا تو ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون کے تحت اللہ کا شکر ادا کیا
ذرا آپ کو آئین کی سیر کروا دیتے ہیں
آرٹیکل 238 کہتا ہے

"Subject to this Part, the Constitution may be amended by act of [Majlis-e-Shoora(Parliament)]" [CONSTITUTION OF PAKISTAN XI Amendment of Cooonstitution, Article 238].
یعنی پارلیمنٹ آئین کی کسی بھی شق کو تبدیل کرنے کا حق رکھتی ہے (دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی اکثریت کی شرط ہے)

آرٹیکل 239 کی کلاز 5 کہتی ہے
No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatever.
آئین کی تبدیلی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چاہے شرعی عدالت ہو یا سپریم کورٹ ہو

آرٹیکل 239 کی کلاز 6 کہتی ہے
For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239]
یعنی جو اوپر پارلیمنٹ کو آئین کی تبدیلی کا حق دیا گیا ہے اس میں کوئی بھی شرط (limitation) نہیں رکھی گئی یعنی شریعت کے مطابق ہو یا خلاف ہو ہاں جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی کی شرط لگائی گئی ہے

جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل اور دائرہ اختیار کی بات ہے تو اس کی بھی ہلکی سی سیر کر لیتے ہیں
وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار سے مستثنیٰ امور
دفعہ ۲۰۳Bاس فصل میں ذکرکردہ تعریفات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے:
''قانون میں ہرایسارواج یا عرف شامل ہے جوقانونی قوت کاحامل ہو.........لیکن اس میں دستور،مسلمانوں کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین،کسی بھی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قانون،یااس باب کے نافذالعمل ہونے کے دس سال بعدتک ہرقسم کے مالی قوانین،یا محصولات اورفیسوں کے عائد ہونے اور ان کی وصولی سے متعلقہ قوانین،یابینکاری اور بیمہ کے عمل اور کے طریقۂ کارسے متعلقہ قوانین شامل نہیں ہوں گے''

(c) "law" includes any custom or usage having the force of law but does not include the Constitution, Muslim personal law, any law relating to the procedure of any court o tribunal or, until the expiration of ten years from the commencement of this Chapter, any fiscal law or any law relating to the levy and collection of taxes and fees or banking or insurance practice and procedure [PART VII The Judicature, CHAPTER 3A. - FEDERAL SHARIAT COURT, Article 203B]

اس دفعہ کاجائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دستوربنانے میں کس قدر مکروفریب اورشیطنت سے کام لیاگیاہے ،اورقوم کے ساتھ کیساسنگین مذاق کیا گیاہے
ا س فصل کے ابتدائی حصے میں ہی دستورسازوں نے نہایت سلیقے کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت سے تمام اہم اختیارات سلب کرلیے ہیں۔نتیجتاً یہ عدالت ایک ایسا بے بس سامحکمہ بن کررہ گیا ہےجو شریعت نافذکرنے سے کلی طور پر عاجز ہے:
اولاً،اس دفعہ نے شرعی عدالت کو دستورکا جائزہ لینے سے روک دیاہے،جس سے واضح ہوتاہے کہ:
الف ۔وفاقی شرعی عدالت ایک کمزوراوربے بس ادارہ ہےکیونکہ اسے یہی حق حاصل نہیں کہ وہ دستورپاکستان کا جائزہ لے.........حالانکہ دستورتوان کے نزدیک ''ابوالقوانین''اور قانون سازی کااصل مصدرہے۔گویاوفاقی شرعی عدالت کو اتناحق بھی نہیں کہ یہ قانون سازی کے مصدرکا جائزہ لے سکے ۔جبکہ اس کے برعکس،پاکستان کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دستوری دفعات کی تشریح وتفسیرکرے
صرف یہی نہیں،بلکہ دستورکی دفعہ ۱۸۴توسپریم کورٹ کو مکمل اختیاردیتی ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں فیصلہ صادرکرے جو دستور میں بیان کردہ''بنیادی حقوق''سے تعلق رکھتے ہیں۔
Without prejudice to the provisions of Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article. [PART VII The Judicature, CHAPTER 2. - THE SUPREME COURT OF PAKISTAN, Article 184]

وفاقی شرعی عدالت کو تویہ حق حاصل نہیں کہ وہ دستورکا جائزہ لے ،لیکن دستورِپاکستان کووفاقی شرعی عدالت پر مکمل اختیاراورغلبہ حاصل ہے۔جیسا کہ ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں،دستورکی دفعات۲۳۸اور۲۳۹ارکانِ پارلیمان کو بلاکسی قیدوشرط یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جیسے چاہیں دستور کے احکام میں ترمیم و تبدیلی اور تغیروابطال کریں۔چنانچہ اگردوتہائی ارکانِ پارلیمان''وفاقی شرعی عدالت"کو ''انسدادِشریعت عدالت''میں بدلنا چاہیں توان پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ وہ قانون سازی کا مکمل حق رکھتے ہیں۔اس سادہ سی مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ :
٭پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ شریعت کو نہیں حاصل،بلکہ عوام اور عوامی ارادہ ہی حاکمِ اعلیٰ ہے اور پارلیمان کی غالب اکثریت کی رضانظام چلانے والوں کے نزدیک عوامی رضامندی ہی کی دلیل ہے۔اس بات سے قطعِ نظرکہ کیا واقعتاً ارکانِ پارلیمان امت کے نمائندے ہیں یا نہیں.........یہ بات توبہرحال ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ نہ تو شریعت کوحاصل ہے ،نہ ہی قرآنِ کریم اورسنت مطہرہ کو،اقتداراعلیٰ کی مالک تو وہ دیگر قوتیں ہیں جو پاکستان کو اسلام سے دورلے جارہی ہیں اوراپنی خواہشات کے مطابق اہلِ پاکستان کی قسمت سے کھیل رہی ہیں
اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو مسلمانوں کے شخصی امور سے متعلقہ قوانین کا جائزہ لینے سے بھی روک دیا گیاہے۔''اسلامی ''جمہوریۂ پاکستان کے ''اسلامی''دستورمیں پائے جانے والے ان تضادات کا حل تو میری سمجھ سے بالاتر ہے؟اگرایک شرعی عدالت مسلمانوں کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین کا جائزہ بھی نہیں لے گی ،تو آخرکس کے شخصی امورسے متعلقہ قوانین کا جائزہ لے گی؟مشرکین عرب کے .........!؟فرعونِ مصرکے.........!؟یا اسرائیلی یہودیوں کے.........!؟عربی زبان کی مشہور ضرب المثل ہے.........''شرالبلیة ما یضحک''،بدترین مصیبت وہ ہوتی ہے جس پر ہنسی آئے
اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ کسی عدالت اور ٹریبونل کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قوانین کا جائزہ لے۔یہ حق سلب کرنے سے شرعی احکام سے کھیلنے اور دینی تعلیمات سے انحراف کا دروازہ چوپٹ ہوجاتاہے۔عدالتی کاروائیوں سے متعلقہ قوانین توانتہائی اہمیت کے حامل ہیں،مثلاًدعویٰ قبول یا رد کرنا،عدالت کے دائرۂ اختیار کا تعین ،گواہی،وکالت،اثباتِ جرم کے دلائل ،اثباتِ جرم کے وسائل وذرائع،قانون ودستورکی تفسیرکا عدالتی حق،عدالتی فیصلوں کے ابطال اور ان میں ترمیم کا حق اور ایسے اہم ترین مسائل عدالت کے ضابطۂ کار سے متعلقہ قوانین کے تحت ہی آتے ہیں.........لیکن وفاقی شرعی عدالت کو یہ حق نہیں حاصل کہ وہ ان کاجائزہ لے یا انہیں زیربحث لائے۔اس سے یہ تلخ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ پاکستان میں بیک وقت دوعدالتی نظام چل رہے ہیں ،ایک عاجز ،کمزور اورناقص اختیارات کا حامل نظام جو وفاقی شرعی عدالت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسراوہ سیکولر عدالتی نظام جو پاکستان کی باقی تمام عدالتوں میں جاری وساری ہے

وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل میں پائی وانے والی خامیاں
دفعہ۲۰۳Cمیں وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل پر بات کی گئی ہے ۔ذیل میں اس دفعہ کے مندرجات پر اٹھنے والے اعتراضات درج کئے جارہے ہیں:
(۱)اس دفعہ کی شق۳اور شق ۳الف میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اورججوں کی اہلیت پر بات کی گئی ہے اور شرائطِ اہلیت میں ''عادل''(پابندِ شرع)ہونے کا تذکرہ نہیں کیا گیا،حالانکہ اس شرط پرتوبلااختلاف تمام علمائے امت کا اجماع ہے،پس ایک توججوں کے تعین میں ہی شریعت کی عائدکردہ شروط کی مخالفت کی گئی ہے،اورپھراس بات کا اندازہ کرناتوزیادہ مشکل نہیں کہ جب غیرعادل ججوں کو عدالت میں شامل کرکے انہیں قوانین کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا جائزہ لینے پرمامور کیاجائے گاتواس سے کس قدر بگاڑ پیداہوگا۔اس پر مستزاد یہ کہ اسی دفعہ کی شق ۲نے شرعی عدالت کے ججوں اور چیف جسٹس کے تعین کا اختیارصدرِ مملکت کو تفویض کیاہے۔توہرشخص خود ہی سوچ سکتا ہے کہ ایسی''شرعی عدالت''کیسے ظلم وفساد کا باعث بنے گی؟
(۲)اسی دفعہ کی شق ۴ب میں صدرِ مملکت کو یہ حق دیا گیاہے کہ وہ ججوں کے تعین کی شروط مقرر کرے،یاجج کو کوئی دوسرامنصب سونپ دے،یا منصبِ قضاء کے ساتھ ساتھ کچھ دیگرذمہ داریاں بھی اس کے حوالے کردے۔اس شق پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ جب صدرِ پاکستان دین سے جاہل لوگوں کو..شرعی عدالت سے متعلق اس قسم کے وسیع اختیارات دے دئیے جائیں توکیا عدالت محض ایک مذاق نہیں بن جائے گی
(۳)اسی دفعہ کی شق۷ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور ججوں سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے منصب پر فائز ہونے سے پہلے صدرِ مملکت یا اس کے نمائندے کے سامنے حلف اٹھائیں ۔اس حلف میں نہ توشریعت کا ذکر ہے ،نہ ہی قرآن وسنت کا،بلکہ جج اور چیف جسٹس صرف اس بات پر حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پاکستانی قانون کے مطابق ادا کریں گے۔یہ حلف خود بھی ایک تضاد کا مظہر ہے۔کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ ایک جج سے قانون کی تصحیح ودرستی کا مطالبہ بھی کیاجائے اوراسے اسی قانون کا پابند بھی بنادیاجائے؟

پورے آئین کی مزید تفصیل ان شاءٰاللہ بعد میں فرصت سے کروں گا
قرارداد مقاصد میں مندرجہ ذیل طریقہ سے ابہامی بات کی گئی ہے
''یہ بات اظہرمن الشّمس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ کل ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار واختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا حق حاصل ہے،وہ ایک مقدس امانت ہے۔
.........جمہوریت ،آزادی،مساوات،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر،جیسا کہ اسلام نے انہیں بیان کیا ہے،پوری طرح عمل کیاجائے گا۔
اور دفعہ۲الف میں مذکور ہے کہ :
''قراردادِ مقاصد،جسے دستورکے ساتھ بطور ضمیمہ بھی ملحق کیا گیا ہے،میں درج اصول واحکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیاجاتا ہےجو بعینہ من وعن مؤثر ہوں گے''۔
اسی طرح دفعہ۲۲۷ میں ہے
''تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں بیان کردہ اسلامی احکامات کے موافق بنایاجائے گا.........،اورکوئی ایسا قانون نہیں بنایاجائے گا جوان احکامات کے خلاف ہو''۔
ان ساری باتوں پر اعتراض
1-ایک تو ان ساری باتوں کو اس لے شامل کیا گیا ہے کہ آج اکژریت نے انکو منظور کر لیا ہے پس کل انکو اکثریت کے بل بوتے پر نکالا بھی جا سکتا ہے اگر اسکے ساتھ یہ بھی لکھ دیں کہ اسکو کسی طرح نکالا نہیں جا سکتا تو سمجھ آتی ہے کہ اسکو اسلام کی وجہ سے ڈالا گیا ہے ورنہ ابھی تو بچہ بھیہ سمجھ سکتا ہے کہ اکثریت کی وجہ سے ڈالا گیا ہے
2-چونکہ یہ سارا کچھ دھوکا دینے کے لئے کیا گیا ہے اس لئے ان کو ایسا مبہم رکھا گیا ہے کہ ان کی بنیاد پر آپ شریعت نافذ نہیں کروا سکتے چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ اللہ حاکم مطلق ہے مگر پارلیمنٹ کے پاس یہ حق امانت ہے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ پارلیمنٹ اکثریت سے بھی شریعت کے متصادم قانون پاس نہیں کر سکتی بلکہ اوپر قرارداد مقاصد میں الٹا کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ یہ حق استعمال کرتے ہوئے جمہوریت اور رواداری جیسی چیزوں کو دیکھے گی یا للعجب
3-تیسرا اگر قانون اور شریعت کا اختلاف ہو بھی جائے تو دیکھنے کا اختیار کس عدالت کو ہو گا یہ بھی اوپر بتایا جا چکا ہے پس شرعی عدالت کے ہاتھ باندھ کر اسکا جائزہ (کچھ بے ضرر باتوں کا) لینے کی اجازت دی گئی ہے
4-اگر ایس واقعی ممکن ہے تو ہمارے اہل حدیث سیاستدان ایک وکیل کو کے ساری غیر اسلامی شقیں ختم کیوں نہیں کروا دیتے (اصل میں انکو پتا ہے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اسکا جواب شیخ طاہر اسلام عسکری بھائی کے تھریڈ "پاکستان دارالسلام" میں موجود ہے نیچے کوٹ کر دیتا ہوں
ایک کے بعد ایک، اسطرح اگر آپکو ہی جواب دینا ھے تو اپنے قلم سے یہاں لکھ دیں تاکہ بات نکھر سکے۔ شکریہ!

والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم
ایک کے بعد ایک، اسطرح اگر آپکو ہی جواب دینا ھے تو اپنے قلم سے یہاں لکھ دیں تاکہ بات نکھر سکے۔ شکریہ!
والسلام
محترم بھائی جواب میرے ہی قلم سے ہے جو اوپر کوٹ کیا ہے اور لنک بھی دیا ہے وہاں بھی محترم اشماریہ بھائی سے اسی پر بات ہو رہی تھی اور میرا موقف محترم اشماریہ بھائی کے خلاف تھا پس یہاں بھی چونکہ میرے موقف کی دلیل مانگی گئی تھی تو اسکا لنک دے دیا ہے لیکن یاد رکھیں یہ میرا اجتہادی موقف ہے کسی اور موقف رکھنے والے کو میں گمراہ نہیں سمجھتا بلکہ اگر کوئی مخالف موقف رکھنے والا بھائی مجھے یہاں یا دوسرے لنک میں سمجھائے گا تو میں ضرور اسکا مشکور ہوں گا مگر اس میں صرف علمی گفتگو کی جائے کسی پر طنز یا گمراہ نہ کہا جائے تو بہتر ہو گا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کسی پر طنز یا گمراہ نہ کہا جائے تو بہتر ہو گا
یہ کام آپ مجھ پر کر چکے ہوئے ہیں جسے اگنور کر چکا ہوا ہوں میری طرف سے ایسی کوئی بات ہو تو پیش کریں میں ایسی حرکتوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ گفتگو چھوڑ دیتا ہوں۔

اشماریہ کی گفتگو اسی کے ساتھ میں کسی دو کے درمیان ہونے والی گفتگو میں حصہ نہیں لیتا، آپ نے حصہ لیا ھے تو میری بات پر جو آپ پیش کرنا چاہتے ہیں کوئی ایک دو مثال علمی طریقہ سے پیش کریں کتابی شکل نہیں پھر دیکھتے ہیں۔

والسلام
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
السلام علیکم

مٹھو صاحب! دو سال ہونے ہو ہیں اور آپ جواب آج دے رہے ہیں، سمائل!



سوال پر جواب ہوتا ھے سوال نہیں! جب آپکو پاکستان کے آئین میں قوانین کا علم ہی نہیں تو پھر کفریہ کہاں سے اخذ کر لیا یہ کہہ سکتے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملدرآمد کرنے والے اور رعایا اس کا استعمال درست نہیں کرتے۔

والسلام
پہلی بات کا جواب یہ کہ مجھے بھی پتا چل گیا تھا کہ یہ سوال 2 سال پرانہ ہے تقریبا
اس سے پہلے وقت نہیں ملا اگر ملا تو یاد نہیں رہا مصروفیت کی وجہ سے انسان بھول بھی سکتا ہے یہ اعتراض میرے تھرید میں تھا لہذا اس کا جواب دینا بنتا تھا جلد یا دیر سے۔
میں نے ان کے سوال کا ہی جواب دیا تھا مگر آپ اس پہلو سے شاید دیکھنا نہیں چاہتے!
آپ کے سوال کا جواب عبدہ بھائی نے دے دیا ہے امید ہے تسلی ہو گئی ہوگی اگر نہیں تو آپ مزید وضاحت مانگ سکتے ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم
یہ کام آپ مجھ پر کر چکے ہوئے ہیں جسے اگنور کر چکا ہوا ہوں میری طرف سے ایسی کوئی بات ہو تو پیش کریں میں ایسی حرکتوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ گفتگو چھوڑ دیتا ہوں۔
وعلیکم السلام
پیارے بھائی میرا فورمز پر ویسے ایک ہی موقف رہا ہے کہ اہل حدیث سے اختلاف بھی ہو جائے تو طنز کر کے اسکی اصلاح نہیں کرتا کیونکہ وہ تو اصلاح نہیں بلکہ اپنا بدلہ لینا ہو گا اسی طرح باقی موحدوں میں بھی میری یہی کوشش ہوتی ہے البتہ کلمہ گو مشرک یا غیر مسلموں کے معاملے میں کبھی جب سمجھتا ہوں کہ اگلا واقعی اصلاح کے لئے بات کر رہا ہے تو کوشش یہی رہتی ہے اور اگر معاملہ الٹ ہو تو کبھی گھی الٹی انگلی سے نکالنا پڑتا ہے
البتہ میں بھی کیونکہ انسان ہوں تو میرے اس اصول کی اگر کہیں غلطی آپ کو نظر آئے تو مجھے لازمی بتا دیا جائے میں اگر غلطی پاؤں گا تو اللہ کی توفیق سے ضرور معافی مانگ لوں گا ان شاءاللہ
اشماریہ کی گفتگو اسی کے ساتھ میں کسی دو کے درمیان ہونے والی گفتگو میں حصہ نہیں لیتا، آپ نے حصہ لیا ھے تو میری بات پر جو آپ پیش کرنا چاہتے ہیں کوئی ایک دو مثال علمی طریقہ سے پیش کریں کتابی شکل نہیں پھر دیکھتے ہیں۔
والسلام
محترم بھائی میں نے تو کوئی کتاب نہیں پیش کی بلکہ آپ کے اشکال کا ہی جواب لکھا تھا البتہ وہاں تھریڈ سے کوٹ کر کے لکھا تھا
چلیں وہی دوبارہ بغیر کوٹ کیے سیدھا لکھ دیتا ہوں
آپ نے پوچھا تھا کہ
جب آپکو پاکستان کے آئین میں قوانین کا علم ہی نہیں تو پھر کفریہ کہاں سے اخذ کر لیا یہ کہہ سکتے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملدرآمد کرنے والے اور رعایا اس کا استعمال درست نہیں کرتے۔
میں نے جواب دیا تھا کہ مجھے قوانین کا علم ہے میں اس قانون میں سے میرے نزدیک کفریہ عبارات کے چند نمونے آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں (دوسرے کے ہاں ہو سکتا ہے یہ کفریہ نہ ہوں وہ اسکا اجتہاد ہو سکتا ہے مگر یہ ایک علیحدہ بحث ہے جو آپ مجھ سے کر سکتے ہیں)
آرٹیکل 238 کہتا ہے
"Subject to this Part, the Constitution may be amended by act of [Majlis-e-Shoora(Parliament)]" [CONSTITUTION OF PAKISTAN XI Amendment of Cooonstitution, Article 238].
یعنی پارلیمنٹ آئین کی کسی بھی شق کو تبدیل کرنے کا حق رکھتی ہے (دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی اکثریت کی شرط ہے)
آرٹیکل 239 کی کلاز 5 کہتی ہے
No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatever.
آئین کی تبدیلی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چاہے شرعی عدالت ہو یا سپریم کورٹ ہو
آرٹیکل 239 کی کلاز 6 کہتی ہے
For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239]
یعنی جو اوپر پارلیمنٹ کو آئین کی تبدیلی کا حق دیا گیا ہے اس میں کوئی بھی شرط (limitation) نہیں رکھی گئی یعنی شریعت کے مطابق ہو یا خلاف ہو ہاں جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ دوسری جگہ اسکے لئے دو تہائی کی شرط لگائی گئی ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بھائی جزاک اللہ خیر۔

سلف کے (بعد کے ادوار کے) گزرے مسلم حکمرانوں میں سے چاہے کتنے ہی فاسق و فاجر رہے ہوں، کم از کم اس شرک کے مرتکب تو نہیں تھے جس کا نام ’جمہوریت‘ ہے۔

آج جو ممالک اور حکمران دین کی اساسی عبادات جیسے نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کو تو قائم رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسق و فجور کے اسباب کو بھی کھلی چھٹی دیتے ہیں۔۔۔ اور اس سارے مکسچر کو اوپر سے جمہوری نظام کے شرک کی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں تو ان کے بارے میں آخری حکم کیا لگے گا؟؟ کیا عبادات کا اہتمام اس نظام کے شرک کو کمتر کر دے گا یا نظام کا شرک عبادات کے اہتمام کی حیثیت کو باطل و بے معنی کر دے گا؟؟؟

جواب کا انتظار رہے گا۔

شکریہ۔
متفق
 
Top