- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
آج کل لوگ جمہوریت کو بہت رگیدتے ہیں اور مجھے بھی جمہوریت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن لوگوں کی جمہوریت پر تنقید دیکھ کر یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اب تنقید کا معیار بہت گر گیا ہے۔ بعض اوقات ہمیں مصطلحات کے معانی، پس منظر، ارتقاء، مترادفات اور مروجہ استعمالات سے واقفیت نہیں ہوتی لیکن اس ناواقفیت کے باوجود ہم ان اصطلاحات کو بنیاد بناتے ہوئے لوگوں پر فتوے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اس تھریڈ کے لگانے کا صرف مقصد یہ ہے کہ جب ہم جمہوریت کے حوالہ سے کسی پر فتوی لگائیں تو ہمیں جمہوریت کا معنی ومفہوم بھی ذہن میں ہو۔
جمہوریت تو خیر کوئی اصطلاح سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ اردو ترجمہ ہے ڈیموکریسی کا۔ اور میری رائے میں یہ غلط ترجمہ ہے کیونکہ اس ترجمے میں ڈیموکریسی کی مغربی یا انگریزی اصطلاح کا اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کے معنی میں ہے اور جمہوریت سے سادہ الفاظ میں اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے۔ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے جمہوریت بمعنی اکثریتی رائے کوئی مذموم چیز نہیں ہے۔ ہم علم فقہ میں اکثر یہ پڑھتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے یعنی اکثر فقہاء کی اس مسئلے میں یہ رائے یہ ہے اور ایسا ہونا قابل مذمت نہیں ہے، چاہے یہ اکثریتی رائے وقت کے گزرنے سے وجود میں آئی ہو یا ایک مجلس میں ہی قائم ہوئی ہو جسے ہم اجتماعی اجتہاد کہتے ہیں۔
جو چیز در اصل کفر ہے وہ ڈیموکریسی ہے جو کہ ایک مغربی اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کا جوہر عوام کا اقتدار اعلی ہے۔ ڈیموکریسی، اکثریت کی رائے کا نام نہیں ہے بلکہ ڈیموکریسی سے مراد عوام کسی ریاست میں سپریم پاور ہیں یعنی فائنل اتھارٹی ہیں۔ یہ کفریہ اور شرکیہ نقطہ نظر ہے اور اس کے ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں جو سیاسی نظام رائج ہے یہ ڈیموکریسی نہیں ہے کیونکہ اس میں سپریم پاور یا مقتدر اعلی یا فائنل اتھارٹی عوام نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ جیسا کہ پاکستانی آئین میں یہ بات درج ہے:
پاکستانی سیاسی نظام اگر ڈیموکریسی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اسلامی نظام ہے۔ بات ابھی صرف یہ ہے کہ یہ ڈیموکریسی ہے یا نہیں ہے۔ اگر ہے تو ڈیموکریسی کی جو عالمی تعریف ہے، یہ نظام اس پر پورا اترتا ہے؟ اور اگر نہیں تو پاکستان کے سیاسی نظام کو عالمی سیاسی نظاموں کی فہرست میں سے کیا ٹائٹل دیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں کئی ایک سیاسی نظام معروف ہیں وہ ڈیموکریسی، ارسٹو کریسی، مونارکی، آٹوکریسی وغیرہ ہیں۔
جمہوریت تو خیر کوئی اصطلاح سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ اردو ترجمہ ہے ڈیموکریسی کا۔ اور میری رائے میں یہ غلط ترجمہ ہے کیونکہ اس ترجمے میں ڈیموکریسی کی مغربی یا انگریزی اصطلاح کا اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کے معنی میں ہے اور جمہوریت سے سادہ الفاظ میں اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے۔ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے جمہوریت بمعنی اکثریتی رائے کوئی مذموم چیز نہیں ہے۔ ہم علم فقہ میں اکثر یہ پڑھتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے یعنی اکثر فقہاء کی اس مسئلے میں یہ رائے یہ ہے اور ایسا ہونا قابل مذمت نہیں ہے، چاہے یہ اکثریتی رائے وقت کے گزرنے سے وجود میں آئی ہو یا ایک مجلس میں ہی قائم ہوئی ہو جسے ہم اجتماعی اجتہاد کہتے ہیں۔
جو چیز در اصل کفر ہے وہ ڈیموکریسی ہے جو کہ ایک مغربی اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کا جوہر عوام کا اقتدار اعلی ہے۔ ڈیموکریسی، اکثریت کی رائے کا نام نہیں ہے بلکہ ڈیموکریسی سے مراد عوام کسی ریاست میں سپریم پاور ہیں یعنی فائنل اتھارٹی ہیں۔ یہ کفریہ اور شرکیہ نقطہ نظر ہے اور اس کے ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں جو سیاسی نظام رائج ہے یہ ڈیموکریسی نہیں ہے کیونکہ اس میں سپریم پاور یا مقتدر اعلی یا فائنل اتھارٹی عوام نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ جیسا کہ پاکستانی آئین میں یہ بات درج ہے:
- Sovereignty belongs to Allah alone but He has delegated it to the state of Pakistan through its people for
- being exercised within the limits prescribed by Him as a sacred trust.
ہمارے ہاں پاکستان میں جو سیاسی نظام رائج ہے، وہ ڈیموکریسی تو نہیں البتہ ارسٹوکریسی سے کسی قدر مماثلت رکھتا ہے۔ لیکن یہ خالص ارسٹوکریسی بھی نہیں ہے۔پاکستانی سیاسی نظام اگر ڈیموکریسی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اسلامی نظام ہے۔ بات ابھی صرف یہ ہے کہ یہ ڈیموکریسی ہے یا نہیں ہے۔ اگر ہے تو ڈیموکریسی کی جو عالمی تعریف ہے، یہ نظام اس پر پورا اترتا ہے؟ اور اگر نہیں تو پاکستان کے سیاسی نظام کو عالمی سیاسی نظاموں کی فہرست میں سے کیا ٹائٹل دیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں کئی ایک سیاسی نظام معروف ہیں وہ ڈیموکریسی، ارسٹو کریسی، مونارکی، آٹوکریسی وغیرہ ہیں۔