الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
کہا جاتا ہے کہ اس نظام میں شرکت کےلئے اگر یہی دلیل کافی نہیں کہ پارلیمنٹ سب کچھ کرنے میں آزاد ہے۔ اگر وہ انگریز کے قانون کو سند جواز دے سکتی ہے تو اپنا یہ حق اسلام کےلئے بھی تو استعمال کرسکتی ہے۔ خصوصاً اگر دوتہائی اکثریت حاصل کرلی جائے تو دستور تک بدل سکتا ہے!
اولاً: سب سے پہلے تو یہ مقدمہ ہی درست نہیں کہ ’پارلیمنٹ سب کچھ کرنے میں آزاد ہے‘ اسمبلیوں کاجو اس ملک میں حشر ہوتا آیا ہے اب وہ کسے معلوم نہیں۔ یہاں کوئی صرف حکومتیں تو برخاست نہیں کی جاتی رہیں ا سمبلیاں بھی تو ہر بار کسی کانچ کے برتن کی طرح ٹوٹیں۔ پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کی پارلیمانی تاریخ نظر میں کرلیجئے یہاں اسمبلیوں سے نا پائیدار چیز شاید کوئی پائی گئی ہو۔
ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینے میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہ یہ کھیل اسمبلیوں اور وزارتوں کی سطح سے بہت اوپر کی سطح کا ہے۔ اب بھی ان اسمبلیوں کی آزادی سے دھوکہ کھاتے چلے جانا دانشمندی کے زمرے میں کیونکر شمار ہوگا؟
ثانیاً: اگر اس بات کو ایک محدود معنی میں تسلیم کر لیا جائے اور ظاہر ہے کہ ایک خاص دائرے کے اندر اندر __جو کہ ’بڑے‘ اس کےلئے مقرر کردیں__پارلیمنٹ سب کچھ کرنے میں واقعی آزاد ہے۔ تو بھی سب کچھ کرنے میں آزاد ہونا اس کی رکنیت کے جواز کی نہیں حرمت کی دلیل ہوگی۔ یعنی پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے اللہ کی شریعت کے ساتھ جو چاہے سو کرسکتی ہے۔ چاہے تو وہ اللہ تعالی کےلئے دستور میں ‘حاکم اعلی‘ کا ’اعزازی‘ قسم کا عہدہ رکھ دے اور چاہے تو دستوری طور پر کبھی اس عہدے کو بھی ختم کردے۔ چاہے وہ عملاً ایسانہ کرے مگر اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کو دستوری طور پر اس بات کاپورا اختیار ہے کہ وہ حاکم اعلی والی اس شق کو بھی دوتہائی اکثریت سے ختم کردے۔ اور اگریہ ’بے ضرر‘ سی شق رہتی بھی ہے تو اس سے یہ تو بہرحال نہیں ہوجاتا کہ اللہ کی بات یہاں حرف آخر مانی جاتی ہے اور اس کے اوپر کسی کی بات نہ ہو ۔ شرک تو پھر بھی باقی رہا۔ چنانچہ یہ پارلیمنٹ ایک طرف اللہ کے حکم کو سادہ یا دوتہائی اکثریت سے قبول یا مسترد کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے اور دوسری طرف یہی پارلیمنٹ جو بھی پاس کردے اس میں یہ عوام کےلئے ہر حال میں واجب اطاعت۔ کیا جو سلوک پارلیمنٹ اللہ کے حکم کے ساتھ کرنے کی مجاز ہے کہ چاہے تو اسے پاس کردے اور چاہے توا س کو قانون کا درجہ نہ دے وہی سلوک پارلیمنٹ کے ماتحت ادارے پارلیمنٹ کے حکم کے ساتھ روا رکھ سکتے ہیں کہ چاہیں تو پارلیمنٹ سے صادر کسی حکم کو قانون مانیں اور چاہیں تو اس اپنے لئے قانون تسلیم نہ کریں؟؟؟
مخلوق کے سامنے یہ پارلیمنٹ ہر حال میں واجب اطاعت مگر خالق کے سامنے یہ پارلیمنٹ سب کچھ کرنے میں آزاد! پارلیمنٹ اللہ کی اتار ی ہوئی کسی بات کو ہاں یا ناں کرسکتی ہے مگر مخلوق اس پارلیمنٹ کی صادر کی ہو ئی ہر بات کو صرف ہاں کرے گی ناں نہیں کرسکتی طاغوت اس کے علاوہ آخر کیا ہوتا ہے؟
ثالثاً : یہ سوال سرے سے ہے ہی نہیں کہ پارلیمنٹ دوتہائی اکثریت سے اسلام کے ہر حکم کو قانون کا درجہ دے سکتی ہے۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ جب مسلمان صرف وہ ہوتا ہے جس کی نظر میں اللہ کی ہر بات خود بخود قانون کا درجہ رکھے اور اللہ کی بات کو اس کی نظر میں کسی مخلوق کی منظوری کی ضرورت نہ ہو ۔ اب اس مخلوق کو کیا نام دیا جائے جو اللہ کی بات کو منظوری دینے یا نہ دینے کی مجاز ہو؟ اسی بات کو تو خدائی اختیار کہتے ہیں ! اس اختیار کو رکھنا ہی تو خدائی کا دعوی کرنا ہے اور اس اختیار سے دستبردار ہوجانا اسلام۔ چنانچہ خدائی اختیار ہی تو اصل مصیبت ہے! پھر یہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے برحق ہونے کی دلیل کیسے ہوسکتا ہے؟
رابعاً: رہی یہ بات کہ یہ حق تو خو د اللہ تعالی نے انسانوں کو دیا ہے کہ چاہیں تو حق راستہ قبول کریں اور چاہیں تو باطل،پھر یہ اختیار پارلیمنٹ کو دیناکفر کیسا؟ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حق کا ناجائز استعمال غلط ہے۔
تو عرض ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ضرور دیا ہے مگر اسے اس بات کا حق نہیں دیا ۔ انسان کو حق و باطل میں ا ختیار ہونا اور بات ہے او ر اس بات کا حق حاصل ہونا بالکل اور بات ۔ کسی انسان کا یہ حق تسلیم کرنا ہی تو کفر ہے۔
مزید یہ کہ کوئی انسان مسلمان کب شمار ہوتا ہے؟ ظاہر ہے جب وہ اس حق سے دستبردار ہوجائے۔ کیا پارلیمنٹ اس حق سے دستبردار ہوچکی ہے؟
کسی کا یہ اختیار برقرار ر ہنا قرآن کی رو سے کیسا ہے؟
” کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کافیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے“
خامساً: انسان کا ذاتی حیثیت میں کفر و اسلام یا حق و باطل میں سے کوئی ایک اختیار کرنے میں آزاد ہونا بالکل ایک اور چیز ہے مگر کسی انسان کو قانون سازی کے ذریعے کروڑوں انسانو ں کار خ زندگی متعین کرنے کا دستوری اور آئینی حق ہونا بالکل اور چیز۔
اس سے پہلے ہم یہ بیان کر نے کی کوشش کرچکے ہیں کہ ایک کافر نظام میں تمام قوانین اوراحکام کاالہی شریعت سے سو فیصد برعکس اور متصادم ہونا ضروری نہیں بلکہ شریعت کا پارلیمنٹ کی دہلیز سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ہی اس کے طاغوت ہونے کےلئے کافی ہے۔
جب ایسا ہے تو پھر اس نظام کے اچھا ہونے کےلئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ اس میں بہت سے قوانین اسلامی قوانین سے ملتے جلتے ہیں ۔ اصل مسئلہ تو اس اختیار کا ہے جس کی رو سے کوئی مخلوق اللہ کے حکم کو قانون کے مرتبے پر فائز کرنے یا نہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔
سیکولرازم دراصل یہی تو ہے ۔ پارلیمنٹ منظوری دے دے تو قرآن کی کوئی بات قانون کا درجہ پا سکتی ہے نہ دے تو محض اخلاقی اپیل کا درجہ رکھتی ہے قانونی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ پارلیمنٹ کے حق میں یہ کس قدر زبردست بات ہے! حتی کہ جب قرآن کی کسی بات کو قانون کا مرتبہ دلا بھی دیا جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیاپارلیمنٹ صرف قرآن کی ایک بات کو ہی قانون کا درجہ دے سکتی ہے ۔ فلم انڈسٹری کوئی مطالبہ کر ے تو کیا اس کو قانون کا درجہ دینے کی مجاز نہیں؟
اب ذرا دیکھئے اس سے نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے پاس کرنے سے پہلے نہ قرآن کی بات آپ سے آپ قانون کا درجہ رکھتی تھی اور نہ ہی فلم انڈسٹری کا مطالبہ آپ سے آپ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ البتہ پارلیمنٹ کی منظوری دینے کے بعد قرآن کی بات بھی قانو ن کہلائے گی اور فلم انڈسٹری کا مطالبہ بھی قانون کی شکل دھار لے گا۔ بتایئے دونوں میںفرق کیا ہوا؟ پارلیمنٹ کے حکم سے پہلے بھی اور بعد بھی ان دونوں کی اخلاقی پوزیشن مختلف ہو تو ہو قانونی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں۔ قانون دان تکلف سے کام نہ لیں تواس سے انکار نہیں کرسکتے۔
اصل اعتراض اس نظام پر اور اس کے پارلیمنٹ کے اختیار پر یہی ہے ۔ لہذا جب یہ نظام اسلام کی کسی بات کو بھی قانون کا درجہ دے دیتا ہے تو اس کا ’باطل‘ ہونا موقوف نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اسلام کی اس بات کو ایک انسان کی منظوری ملنے کے بعد اب جو مانا جائیگا وہ اللہ کی اطاعت نہیں بلکہ اس انسان کی اطاعت سمجھی جائیگی۔ آپ ذرا ایک اور مثال لے لیجئے۔ اس نظام کے قانون ساز انسانوں کی کوئی مجلس اگر مزدوروں کے کسی مطالبے کی منظوری میں قانون پاس کردے تو اس کے بعد اس قانون کی ملک میں جو فرمانبرداری اور اطاعت ہوگی کیا ہم اسے اس مجلس قانون ساز کی اطاعت شمار کریں گے یا مزدوروں کی اطاعت شمار کریں گے؟ ظاہر ہے کہ مجلس قانون ساز کی اطاعت۔ اصل مسئلہ تو اتھارٹی کا ہے نہ کہ اس بات کا کہ اس نظام کے کون کونسے قوانین شریعت کے احکام سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یہاں اتھارٹی اللہ کی نہیں، حرف آخر اس کی بات نہیں تو باقی جو مرضی ہوتا رہے، یہ نظام شرک ہی کہلائے گا۔ اور ایسا اختیار رکھنے والے انسانوں کی مجلس میں رکنیت پانا حرام ہوگا۔
یہ بات کہ کسی نظام کے بہت سے قوانین اسلام سے مماثلت رکھتے ہیں لہذا اب وہ اسلام سے قریب تر ہوگیا ہے اگرچہ اتھارٹی اور حرف آخر اللہ کی بات نہ بھی ہو، بالکل ایک غلط منطق ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ قوانین تو پھر بھی انسانوں کے ناقص دماغوں کی پیداوار ہیں تورات اور انجیل تو اللہ کے ہاں سے اتری ہوئی کتابیں ہیں اور احکام کی ایک بڑی تعدادآسمانی کتب اور قرآن میں مشترک ہے۔ قرآن اور تورات وانجیل کے احکام میں ظاہر ہے بہت تھوڑے معاملات میں کوئی فرق پایا جاتا ہے ۔ فرض کریں آج اگر اصلی تورات یا انجیل کہیں سے مل جاتی ہے اور کوئی شخص اصلی تورات کی بھی یہ اتھارٹی تسلیم کرلے کہ اس کی ہر بات قانون کہلائے گی تو اس شخص کے کفر میں بھی کیا شک ہے حالانکہ وہ اصلی تورات اللہ کے ہاں سے اتری ہوئی چیز ہوگی اور اکثر احکام میں قرآن کی شریعت سے مشابہ بھی۔ آج اس وقت اصل تورات کے احکام کوقانون کی حیثیت سے ماننا بھی اگرواضح کفر ہے تو پھر انسانوں سے صادر ہونے والے اس نظام کا کیا حکم ہو گا چاہے اس کے بہت سے قوانین اسلام کی شریعت سے ملتے جلتے ہی کیوں نہ ہوں؟ آخر اس بات میں کوئی وزن ہی کیسے ہوسکتا ہے اور ایک مسلمان کےلئے یہ بات درخور اعتنا ہی کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی انسان ساختہ نظام کے بہت سے قوانین اسلام سے لئے گئے ہیں یا اسلام سے بہت مماثلت رکھتے ہیں یہاں اصل تورات اور انجیل کی قانونی حیثیت ماننا کھلا کفر ہے تو ان انسان ساختہ نظاموں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اللہ تعالی محمد کی صاف صاف پیروی کرائے بغیر ماننے والا نہیں۔ یہاں تو موسی اور عیسیٰ علیہما السلام آجائیں تو ان کو بھی محمد کی پیروی اور صرف پیروی کئے بنا چارہ نہیں پھر یہ نظام اور یہ پارلیمنٹ کیا چیز ہے جس کے قوانین کی شریعت سے موافقت کی’ فیصدی‘ نکالی جائے!؟؟
ایسے نظام او رایسے ایوان کا حصہ بننا جس کے اختیارات کی دست درازی یہاں تک ہو کیونکر درست ہوسکتا ہے ؟ محمد کی شریعت کے سوا کسی کی بات کو قانون ماننا کیسے شرک نہ ہوگا؟ ایسے نظام کا اسلام میں کیا حکم ہونا چاہیے، یہ کوئی دقیق اور پیچیدہ سوال نہیں رہ جاتا۔
’نہیں، اے محمد ! تمہارے رب کی قسم ، یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو ا س پر اپنے اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی تک نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کریں“۔
یہ سوال بھی ہمارے ان دیندار بھائیوں کی جانب سے اکثر ہوتا ہے جو انتخابی سیاست میں شرکت کو خدمت اسلام کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
انتخابی سیاست اور اسمبلیوں میں شمولیت اسلام پسندوں سے ہر وقت ان کے اصولوں کی قربانی مانگتی ہے ۔سب جانتے ہیں کہ اس کوچے میں ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اصول سے دستبردار ہونا ہی پڑتا رہتا ہے اور کسی وقت بعض اصولوں پر ڈٹ جانا ہر قیمت پر ضروری سمجھ لیا جائے تو انتخابی سیاست میں اسی قدر پیچھے آرہنا ضروری ٹھہر جاتا ہے ۔ گویا یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں کامیابی اصولوں کی قیمت پر ملتی ہے۔ اور اصولوں پر ڈٹ جانا کامیابی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ انتخابی سیاست کا یہی مزاج ہے او ر اس میدان کی یہ صفت ہم پیچھے بیان بھی کر آئے ہیں اور اس پر بھی کچھ بحث کر آئے ہیں کہ شرعاً اس کی کہاں تک گنجائش ہے۔
مگر اس کی واقعاتی افادیت کہاں تک ہے؟شرعی ممانعت ایک طرف ، اس تجربے کی عملی افادیت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی۔ انتخابی سیاست کا تجربہ اب خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ یہ میدان لا دین قوتوں کے لئے خالی چھوڑ دینا بہت سی دینی قوتوں کو کبھی گوارا نہیں ہوا۔ عملاً ان قوتوں نے اس میدان کو لا دینوں کے لئے خالی چھوڑ نے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ سوال یہ ہے کہ اس طریقے سے کفر کا راستہ پھر کہاں تک رو ک لیا گیا؟ اصولی مواقف کی تمام تر قربانی کے باوجود اسلام پسندوں کے حصے میں جتنی نشستیں آئیں۔ یہ اسلام پسند متحد بھی ہوجاتے ،جس کا امکان تقریباً کبھی نہیں رہا ، تب بھی ان کے حصے میں اس سے کچھ زیادہ نشستیں آجاتیں مگر کفر کا راستہ آج تک اس سے کہاں تک رک گیا، یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی ہے۔ مصر میں اسلام پسندوں کے ارکان پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے کیمپ ڈیورڈ سمجھوتہ ہوا۔ پاکستان میں دینی جماعتوں کا انتخابی سیاست میں پورا زور لگنے کے باوجود بنگلہ دیش بن کر رہا۔ اسلام پسندو دیگر ارکان پارلیمنٹ کے تعاون سے کتنے شریعت بل آئے کتنے گئے، کتنے پاس ہوئے اور کتنے پاس ہونے سے رہے مگر شریعت کہاں تک آئی؟ اور کیا پارلیمنٹ کواسلام کا رنگ دینے سے شریعت کا نفاذ ہوا یا پھر شریعت دشمنوں کو شریعت کا استحصال کرنے کا موقع ملا؟ ان سب سوالوں کے جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ جواب دینا خود ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری تمام تر محنت اور اصولوں سے پسپائی کے باوجود ہمارے دشمنوں کے لیے تو میدان پھر بھی خالی رہاہو اور ہمارے کہے پریا ہمارے کہے بغیر پارلیمنٹ نے جو اسلامی اقدامات کئے نہ صرف یہ کہ وہ ہمار ے دین کے لئے عملاً بے فائدہ رہے بلکہ وہ ہمارے دین کا استحصال کرنے کا سبب بھی بنے!؟چنانچہ فائدے میں عملاً ہم نہیں وہی رہے۔ اس میدان میں ’مار مار اور بس بس‘ عملاً انہی کی رہی اور ہم کبھی کسی قطار شمار ہی میں نہ آسکے۔ سوائے اس وقت کے جب کبھی ان کوہماری ضرورت پڑی۔ ہم سے سب کچھ لیا گیا مگر ہمیں کچھ نہ دیاگیا۔ اس نظام کوجیسے اور جس انداز سے چاہا انہوں نے ہی چلایا ہماری حیثیت کبھی بلائے اور کبھی بن بلائے مہمان سے زیادہ نہ رہی۔ ہمارا وہا ں پر پایا جانا اور اسلامی شریعت کو موضوع بحث بنانا فائدہ مند ہوا بھی تو اسی حد تک کہ عوام الناس کو اس باطل کے چہرے پر اسلام کی کچھ رونق نظر آنے لگے اور وہ اس’ قبائے اسلام‘ میں اسلام کے بالفعل برآمد ہونے کی امید میں نصف صدی کا عرصہ بڑے چین اور اطمینان سے گزاردیں!
حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑی برائی کے سد باب کے لئے اس سے ایک کم تر برائی کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو تو ایسی کم تر برائی کو اختیار کرنا ایک شرعی اصول ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم ہے۔
فقہا ءکرام اس کی مثال یہ بیان کرتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ نے بطور ثالث یہود بنی قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل اور نابالغوں کو زندہ چھوڑ دینے کا فیصلہ دیا اور رسول اللہ نے سعد کے اس فیصلے کو درست اور لاگو قرار دیا تو بالغ اور نابالغ لڑکوں کے تعین کے لئے صحابہ نے جہاں پر ضرورت محسوس کی ان کو برہنہ کیا۔ چنانچہ کسی کے زیر ناف ستر پر نظر ڈالنا اگرچہ شرعاً ممنوع ہے مگر کسی کی ناحق جان لے لینا اس سے زیادہ بڑا اور کبیرہ گناہ ہے۔ لہذا جہاں کسی کی بلوغت کے بارے میں شک ہوا وہا ں اس کاستر دیکھ لینا کم تر برائی قرارپایا اسی طرح خواتین کےلئے مرد طبیب کے سامنے جب کوئی اور چارہ یا متبادل نہ ہو، جسم کے بعض حصے بغرض علاج کھول دینا جائز قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ جسم کا کوئی حصہ کھولنا اگرچہ ایک برائی ہے مگر جان کا نقصان کرنا اس سے بڑی برائی ہے۔ کسی ظالم کو مال دے کر جان بچا نا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
بنا بریں اس اصول کے اطلاق کے لئے ان دو شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
١۔ جس برائی کو دفع کیا جارہا ہے، وہ واقعتا بڑی برائی ہو اور اسے دفع کرنے کے لئے جس برائی کو اختیار کیا جارہا ہے وہ واقعتا اس سے چھوٹی ہو۔ مثال کے طور کسی چھوٹے موٹے مالی نقصان سے بچنے کے لیے اپنے دین کو خطرے میں ڈال لینا اس شرط کی رو سے درست نہ ہوگا۔ کیونکہ ایمان کو بچانا چھوٹے موٹے مالی نقصان سے بچنے کی نسبت زیادہ بڑا فرض ہے۔ لہذا فقہ میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جس چیز کو اختیار کیا جارہا ہے واقعتا وہ چھوٹی برائی ہو اور جس چیز کو چھوڑ ا جارہا ہو وہ واقعتا بڑی برائی ہو۔
٢۔ دوسری شرط یہ ہے کہ چھوٹی برائی بھی صرف اسی وقت اور اسی حد تک اختیار کی جائے جب اور جہاں تک اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو ۔
اب آیئے انتخابی سیاست میں شرکت کے مسئلہ پر ذرا اس اصول اور ان شروط کا اطلاق کرےں۔
انتخابی سیاست میں شرکت کوجائز ثابت کرنے کے لیے کس چیز کو چھوٹی برائی سمجھ کر اختیار کیا جائے گا؟ جیت ہار کے غیر اسلامی اورباطل اصولوں کوتسلیم کرنا، انتخابی مہم میں ہر اچھے اور برے آدمی سے پرچی کا سوال کرنا، انتخابی مہم کے دنوں میں شرک اور توحیدتک کے بہت سے معاملات پر سکوت اختیار کرلینا، بہت سے لادینوں اور شرک کے سرغنوں سے اتحاد اور یکجہتی کااظہار کرنا۔ کل جن لوگوں کو اسلام کا دشمن کہا جاتا رہا، ان سے کسی قسم کا توبہ کااعلان ہوئے بغیر ، آج ان کے ساتھ کھڑے ہونا اور عوام الناس کے سامنے ’ہم ایک ہیں‘ کا اعلان کرنا ، کل جن سے یکجہتی تھی آج اسلام کی خاطر ان کے مد مقابل کھڑا ہونااور یوں لوگوں کو یہ بات کہنے کا موقع فراہم کرنا کہ کوچہ سیاست میں دوستی اور دشمنی کے معیار موسموں کی طرح تبدیل ہونے سے دین داروں کے اصول بھی مستثنیٰ نہیں، پھر انتخابات میں ہار جانے کی صورت میں انتخابی قواعد اور جمہوری اقدار کے احترام میں جیتنے والے فاسقوں کے حق حکمرانی کو ’کھلے دل‘سے تسلیم کرنا اور انتخاب میں جیت پانے کی صورت میں قانون سازی ایسے خدائی اختیار کے حامل انسانوں میں اپنا باقاعدہ اندراج کروانا، باطل نظام اور آئین سے وفاداری اور غیر اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری کا باقاعدہ حلف اٹھاناوغیرہ وغیرہ یہ سب چھوٹی برائی ہے!
اور بڑی برائی کیا ہے جس کا اس چھوٹی برائی کو اختیار کرکے خاتمہ کردیا جاتا ہے؟ بڑی برائی کے خاتمہ میں جو چیز آتی ہے وہ ہے غیراسلامی نظام کاخاتمہ کرکے اس کی جگہ اسلامی حکومت کاقیام ، کفریہ قانون کی جگہ اسلامی شریعت کا نفاذ، ملک کے اندر اور باہر مسلم مفادات کا حصول، معاشرے میں فحاشی اور عریانی کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی اقدار کا فروغ ، ٹی وی ، اخبارات ، ذرائع ابلاغ اور نظام تعلیم میں اباحیت، بے حیائی اور لادین رجحانات کا خاتمہ کرکے ان سب اداروں کو اسلامی تہذیب کا عکاس بنانا۔
اب ذراآپ خود ہی ’چھوٹی برائی‘ اور’ بڑی برائی‘ کا موازنہ فرما لیجئے۔
پہلی بات تو یہ کہ جس چیز کو آرام سے چھوٹی برائی قرار دے دیا گیا بلکہ اس کا’برائی‘ ہونا کسی توجہ کے قابل ہی نہ سمجھا گیا اسکے بارے میں یہ فتوی دینا کہ یہ چھوٹی برائی ہے اور بڑے آرام سے اختیار کی جاسکتی ہے ، نہ حقیقت پر مبنی ہے اور نہ شرعی اصولوں پر۔ اپنے دین کے بالکل بنیادی اصولوں کی ایک ایک کر کے قربانی دے دینا اور اس کے نتیجے میں شرک و توحید کا فرق تک نظرو ں سے اوجھل کردینا چھوٹی برائی کیسے ہوگیا؟
اس ’چھوٹی برائی ‘کواختیار کرنے کے عوض یہاں توچند سیٹوں کا ہی امکان ہوتا ہے، اور وہ بھی یقینی نہیں صرف ’امکان‘ ہوتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں قریش کی جانب سے رسول اللہ کو کچھ اصولوں کی قربانی کے عوض کل اقتدار کی پیش کش ہوتی ہے ۔ اندازہ کر لیجئے ’چند سیٹیں‘ نہیں اور بھی جن کا صر ف ’امکان‘ ہو بلکہ اقتدار کی کلی اور یقینی پیش کش۔ مگر اللہ کے رسول عتبہ بن ربیعہ کے ذریعے ملنے والی قریش کی اس پیشکش کو صاف ٹھکرا دیتے ہیں اور اس ’پیشکش‘ کی ’تفصیلات‘ میں جانے کی ادنی سی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ اصولوں کی قربانی اور وہ بھی عقیدے کے بنیادی اور اساسی اصول ہوں، آخر چھوٹی برائی کیسے قرار پاگئی۔ امت مسلمہ کی تو پہچان ہی اصولوں پر مفاہمت سے صاف انکار کردینے میں ہے ۔ ہماری اصل شناخت ’اصول پسندی‘ میں ہے نہ کہ عمل کی ’نتیجہ خیزی‘ میں۔ اپنے دین اور عقیدے کے دیئے ہوئے اصولوں پر صبر و استقامت اور پامردی و دلجمعی سے چلتے چلے جانا ہمارا کام ہے اور اس سے نتائج پیدا کرنا خدا کا کام۔ خدا کا کام ہم اپنے ذمہ کیوں لیں اور اپنے کام کو خود محنت کیے بغیر خدا پر کیوں چھوڑدیں؟
دوسری بات یہ کہ وہ چیز بھی ذرا قابل غور ہے جسے ’بڑی برائی کے دفع ‘یا’بڑی خیر کے حصول‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت جو چیز بیان کی جاتی ہے اس کا ایک بار پھر اعادہ کرلیتے ہیں:
”غیر اسلامی نظام کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی حکومت کا قیام، کفریہ قانون کی جگہ اسلامی شریعت کا نفاذ ،ملک کے اندر اور باہر مسلم مفادات کا حصول، معاشرے میں فحاشی اور عریانی کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی اقدار کا فروغ، ٹی وی ،اخبارات ، ذرائع ابلاغ اور نظام تعلیم میں اباحیت ،بے حیائی اور لادین رجحانات کا خاتمہ کرکے ان سب اداروں کو اسلامی تہذیب کا عکاس بنانا“
مان لیا کہ ہم نے چھوٹی برائی کا چناؤ کرلیا، اپنے عقیدے اور اصولوں کی قربانی کرلی مگر اس کے عوض ہمیں جس چیز کی امیددلائی جارہی ہے وہ کہاں تک ہمارے ہاتھ آنے والی ہے اور کہاں تک اس کا کبھی امکان پیدا ہوا ہے؟ پچاس پچپن سال کا عرصہ کیا یہ اندازہ کروانے کے لئے بھی کافی نہیں؟
ا ور ویسے سوال تو یہ ہے کہ اصولوں کی قربانی کرکے کبھی مسلمانوں کے ہاتھ کچھ آیا بھی ہے؟؟؟ اصولوں کی قربانی کا فائدہ ہوتا ضرور ہے مگر صرف ان لوگوں کو جو بے اصول ہو ں مگراسلام پسند ،نیک اور مخلص مسلمانوں کے ہاتھ اس سودے میں کیا آئے گا، اس بات سے اگرہم پچاس سال پہلے لا علم تھے تو اس سے غافل رہنے کا ہمارے پاس شاید اب کوئی عذر نہیں۔
چنانچہ چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے اس فلسفے میں ہم مسلمان بہت بری طرح مار کھاتے ہیں ۔جو چیز ہم سے لی جانا ہے ہمارا وہ اپنے ہاتھ سے دے دینا یقینی ہے۔ حتی کہ عقیدے کی یہ قربانی اور اصولوں کی یہ بھینٹ بلاتامل دے دینا اب ہمارے لیے اس قدر معمول کی بات ہو گئی کہ اسلام کی یہ’ خدمت‘ ابتداءمیں ہم کبھی ایک’ ناگوار فرض‘ سمجھ کر انجام دیا کرتے تھے تو اب یہ حالت ہے کہ ہم اس ’چھوٹی برائی‘ کو اختیار کرتے وقت اتنا تردد اور اتنی اذیت بھی شایدہم محسوس نہ کرتے ہوں جتنی ایک پردہ دار خاتون نبض دکھاتے وقت کسی غیر محرم طبیب کے ہاتھ کے لمس سے ایک شدید حرج اور بے چینی کی صورت میں محسوس کیا کرتی ہے!
اس لحاظ سے غور کریں تو انتخابات میں شرکت کو ہم مجبوری یا چھوٹی برائی بھی شاید ازراہ محاورہ کہہ لیتے ہیں مگر محسوسات کی دنیا میں کہاں تک یہ ہمارے لیے واقعی ایک برائی کا درجہ رکھتی ہے اور پارلیمانی سیاست اورانتخابی اکھاڑ پچھاڑمیں زندگی گزارتے ہوئے سرے سے ہم اس کو برائی سمجھتے بھی ہیں یا نہیں ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور کسی حد تک اس کا اظہار ہمارے روز مرہ معمولات اور تاثرات سے بھی شاید ہوجاتا ہے۔
غرض چھوٹی برائی اور بڑی برائی کا یہ موازنہ دلچسپ بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ چھوٹی برائی اختیار کرتے ہوئے ہمیں اپنے جن اصولوں کی بھینٹ دینی ہے اور جو کچھ اپنے ہاتھ سے دینا ہے اور پھر دیتے ہی چلے جانا ہے یہ سب کچھ ہاتھ سے جانا یقینی ہے۔ مگر اسکے بدلے میں بڑی برائی سے بچنے کے نام پر ہم جو حاصل کریں گے اس کاہاتھ آنے کا نہ کوئی یقین ہے اور نہ کوئی صورت بلکہ اگر حقیقت پسندی سے کچھ بھی کام لیا جائے تو اس کی امید تک نہیں۔ آج پچاس سال بعد بھی نہ اس راہ سے ’اسلامی حکومت‘ کے قیام کی کوئی امید ہے نہ شریعت کے نفاذ کی کوئی آس رہ گئی ہے۔ بے حیائی ، فحاشی اور عریانی میں بھی کچھ کمی آنے کی بجائے روز بروز اضافہ ہی ہوا اور ٹی وی و اخبارات کا چہرہ شرم و حیا سے عاری ہونے میں بھی اور سے اور بد نما ہوا اور معمولی غور و فکر سے بھی یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ چہرہ ابھی آئندہ اور بھی بد نما ہوگا چاہے اسلام پسندوں کو حاصل ہونےوالی سیٹیں معمولی سے کئی گنا اور بھی بڑھ جائیں۔
چنانچہ اس راہ میں ہمارے ہاتھ سے جو کچھ جائے گا اسکا جانا قطعی اور یقینی ہے اور یہ سب دیئے بغیر اس کھیل میں شرکت کی اجازت تک نہ ملے گی۔ البتہ یہ سب کچھ دے دلا کر جو ہاتھ آنا ہے اس کا آنا بے یقینی ہے اور نرا وہم!
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ سودا ہرگز وار ے کا نہیں۔
قرآن مجید میں ایک آدمی کو جان بچانے کی غرض سے مردار یا سور کا گوشت اس حد تک کھالینے کی، جس سے اس کی جان بچ جائے، اجازت ہے اس چیز کو اضطرار کہتے ہیں۔
ہمارے اسلام پسند بھائی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کو اسلام کا سیاسی تقاضا سمجھتے ہیں ایک ہی وقت میں متعدد بلکہ متعارض دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔ حالیہ جمہوری سیاست کو کبھی شورائیت کی ایک اعلیٰ صورت قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کم تر برائی کا نام! ظاہر ہے اگر یہ اسلامی شورائیت کی ایک عملی صورت ہے تو اسے کم تر برائی یا سرے سے کوئی برائی فرض کرنے کا کیاسوال؟ پھر کبھی اسے مصلحت مرسلہ کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی وہی پیچیدگی ہے۔ اگر یہ مصلحت ہے اور وہ بھی فقہی اصطلاح کے لحاظ سے مصلحت مرسلہ ہے تو پھر یہ برائی کیسے ہوئی ؟اور اگر یہ برائی ہے تو مصلحت کیونکر ہوگی؟ پھرآپ دیکھتے ہیں کہ معاً یہ اسلامی شورائیت یا مصلحت مرسلہ سے تبدیل ہو کرکبھی اضطرار کادرجہ پالیتی ہے۔ اضطرار ظاہر ہے مردار کاگوشت بامر مجبوری ، اور وہ بھی صرف جان بچانے کی حدتک، کھانے جیسی اذیت ناک حالت کانام ہے۔ اب کہاں اسلامی شورائیت کاخوبصورت فریضہ اور کہاں اضطرار ایسی ناگوار اور تکلیف دہ حالت! ایک ہی چیز کو بیک وقت یہ دونوں حیثیتیں کیونکر حاصل ہوسکتی ہیں؟
اب جہاں تک ’اضطرار‘ کی دلیل کا تعلق ہے اور جو کہ جان بچانے ایسی مجبوری کا نام ہے تو ظاہر ہے اس کے ہوتے ہوئے ایک حرا م چیز صرف اس حد تک جائز ہوجاتی ہے جس حد تک انسان کی جان بچ سکے۔
مگر سوال یہ ہے کہ دلیل برائے دلیل کے طور پر اگر اضطرار کی بات کی جاتی ہے تب تو اس پر سنجیدہ ہو کر گفتگو کرنے کی خیر ضرور ت ہی نہیں لیکن اگر کوئی اضطرار کی یہ دلیل دینے میں واقعی سنجیدہ ہے تو پھر کتنے ہیں جواس کوچہ سیاست میں اتنی ہی مجبوری اور ناگواری کے احساس کے تحت ناک پر ہاتھ دھر کر قدم رکھتے ہیں جتنی مجبوری اور ناگواری سے کوئی مردار کی سڑاند سہنے پر تیار ہوا کرتا ہے؟ کیا اضطرار کے مفہوم سے ہم پوری طرح آگاہ بھی ہیں؟
پھر دعوت اور تحریک کے معاملے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہاں کلمہ کفر کہنا یا کسی اسلامی عقیدے اور اصول سے لفظی حد تک اور بہت ہی وقتی طور پر دستبردار ہونا مسئلہ اضطرار میں سر ے سے آتا ہی نہیں بلکہ فقہائے اسلام کے ہاں یہ مسئلہ اکراہ کے باب میں ذکر ہوتا ہے اور یہ مسئلہ رخصت اور عزیمت سے تعلق رکھتا ہے۔
اضطرار کے مسئلہ میں اور رخصت و عزیمت کے مسئلہ میں کیا فرق ہے ؟اگر کسی کواضطرار درپیش ہو تو وہاں مردار یا سور کا گوشت کھانے ایسا کام کرکے جان بچانا فرض ہوجاتا ہے۔ یعنی وہا ں جان بچانا یا جان دے دینا آپ کی مرضی یا آپ کی نیکی پر نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ ایسی صورت میں اگر آپ پھنس گئے ہوں تو ایک ایسا کام جو اصولاً اور عام حالات میں حرام ہے وقتی طور پر کرکے جان بچانا آپ پر شرعاً لازم ہوگا چاہے آپ جان دے دینے پر تیار بھی ہوں۔
مگر جہاں تک رخصت و عزیمت کا معاملہ ہے تو اگرچہ یہاں بھی بعض رخصتیں اختیار کرنا اور عزیمت کی راہ ترک کرنا شرعاً لازم ہوتا ہے ،مثلاًسفر کی حالت میں نماز دوگانہ رخصت ہے مگر یہ رخصت اپنانا انسان پر لازم ہوتا ہے تاہم جہاں تک دعوتی اورتحریکی راستے میں اکراہ کا معاملہ ہے تو یہاں عزیمت اپنانا نہ صرف انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے بلکہ بلندی درجات کا سبب بھی ہے۔ اضطرار اور اکراہ میں یہی فرق ہے۔
چنانچہ مردار کھانے سے اگر کہیں آپ کی جان بچ سکتی ہے تو اس حد تک مردارکھا کر اپنی جان بچانا آپ پر لازم ہوگا۔ پینے کی کوئی حلال چیز دستیاب نہیں اور اتفاقاً وہاں پر شراب ہی دستیاب ہے تو غيرباغ ولا عاد ایسی ناگواری کے ساتھ کچھ گھونٹ اس حرام مشروب کے پی کر اپنی جان بچانا آپ پر لازم ہوگا۔ آپ کہیں کہ جان دے دونگا مگر اس غلیظ مشروب کو منہ نہیں لگاؤں گا، اس کی گنجائش نہیں۔ اس حالت میں جان بچانا آپ پر فرض ہے۔
تاہم کفر کے دو لفظ بول کر اگر آپ کی جان بچ سکتی ہے تو یہا ں صورت حال مردار کھانے یا شراب کے چند گھونٹ پی کر جان بچانے سے مختلف ہے۔ یہاں جان بچانا آپ پر فرض نہیں۔ کفر کے دوبول شدید ناگواری سے بول کر جان بچالینا آپ کے لئے جائز ضرور ہے ، اور اس کو فقہی اصطلاح میں ’رخصت‘ کہا جاتا ہے مگر مردار یا شراب کی گذشتہ مثال کی طرح یہاں جان بچانا آپ پر فرض نہیں بلکہ جان دے دینا شہادت ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں عزیمت کی راہ اپنانا رخصت اختیار کرنے سے کہیں اعلی وا رفع عمل ہے۔
چونکہ انتخابی سیاست میں شرکت کی ’مجبوری ‘ ایک دعوتی اور تحریکی نوعیت کی ہے اس لیے اگر اس مجبوری کا اعتبار کر بھی لیا جائے اور یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ یہ چھوٹی موٹی نہیں بلکہ ’جان بچانے‘ ایسی نوعیت کی مجبوری ہے تو بھی یہ اضطرار قرار نہیں دیا جائے گا جس میں جان بچانا واجب اور جان دینا ممنوع ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اگر ایسی کوئی مجبوری ہے تو وہ ا کراہ کے زمرے میں شمار ہوگا جس میں جان بچانے کی فرضیت نہیں صرف اجازت ہے اورجان دینا شہاد ت کارتبہ پانا ہے۔
پھر دعوتی اورتحریکی عمل میں اکراہ کے مسئلے کی بابت یہ معلوم ہونابھی ضروری ہے کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام کے عمل سے یہی چیز واضح ہوتی ہے کہ رخصت کا معاملہ افراد اور خصوصاً ضعیف اور ناتواں افراد سے زیادہ متعلق ہے اور عزیمت کا معاملہ تحریکوں کی مجموعی روش سے۔ عمار بن یاسر کوجان بچانے کےلئے مجبوراً کفر کے کچھ الفاظ زبا ن سے ادا کرنے پڑے انہوں نے انتہائی دکھ اور ناگواری کے ساتھ یہ الفاظ ادا کردیئے آپ نے انہیں اس بات کی رخصت دی۔ مگر کیا رسول اللہ نے اپنی پوری تحریک کےلئے بھی مجموعی طور پر یہی کچھ تجویز کیا؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
چنانچہ انتخابی سیاست میں شرکت ، آئین سے حلف و فاداری، کفر کے قانون کا اقرار پاسداری، اکثریت کے فیصلوں کا بموجب پارلیمانی قواعد احترام وغیرہ وغیرہ کی صورت میں اصولوں کی قربانی دینے کو ایک پوری تحریک کا سیاسی منہج قرارد ینا بلکہ اس منہج کو ایک مثالی طریق کارکے طور پر سب مسلمانوں کےلئے پیش کرنا اور اس میں سب کو شمولیت کےلئے صدائے عام دینا کہاں تک کسی دیکھنے والے کےلئے یہ تاثر لینے کی گنجائش چھوڑتا ہے کہ ” یہ سب کچھ اکراہ اور ایک ناگوار اور نا پسندیدہ ترین مجبوری کی صورت ہے جس میں عزیمت کاراستہ چھوڑ کر رخصت کی راہ اپنائی گئی ہے ورنہ حق تو یہ تھا کہ عزیمت ہی کا راستہ اپنایا جاتااور ہر نقصان کو برداشت کرتے ہوئے اس راستے سے اجتناب ہی برتا جاتا“!
اگر ہم اس کو اکراہ(مجبوری) کا نام دیتے ہیں تو اس کی دلیل ظاہر ہے ہمیں عمار بن یاسر ایسے واقعات سے ہی ملے گی ۔ پھر جب ہم اس کو اکراہ قرار دے کر لوگوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں تو پھر ہمیں نوجوانوں کو یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ رخصت کی راہ اپنا کر عمار بن یاسر کس طرح بلکتے ہوئے رسول اللہ کے پاس آئے تھے!ہوسکتا ہے ہم عمار بن یاسر ایسی ایمانی حالت میں نہ ہونے کے باعث اس قدر افسوس اور ندامت اپنے اندر نہ پاسکیں اور ظاہر ہے اس میں ہمیں اپنے اوپر اختیار بھی نہیں، مگر افسوس اور دکھ کی وہ کم سے کم حالت خود پر طاری کرنے کی کوشش تو ہم اس وقت کریں جب ہم انتخابی سیاست اور پارلیمانی جمہوریت کے بعض ’ناگوار مراحل ‘طے کررہے ہوتے ہیں۔ اور چلئے اگر دکھ اور افسوس کی کم ترین حالت بھی نہیں تو اس میدان میں بعض ’کامیابیاں‘ حاصل کرتے وقت کم از کم اس شدید ترین خوشی کے اظہار سے تو اجتناب کریں جو ہم سرعام ظاہر کرتے ہیں!
مگر یہ جب ہے اگر واقعی ہم اس کو شرعی طور پر اضطرار یا اکراہ قراردینے میں سنجیدہ ہو ں اور اضطرار یا اکراہ کے مسئلے کی سنگینی سے پور ی طرح آگاہ ہوں۔
چنانچہ ایک فرد کسی وجہ سے رخصت کی راہ اپنائے تواپنائے کیا ایک پوری تحریک کا منہج بھی عزیمت کو ترک کرکے رخصت کی راہ ا پناناہوجائیگا؟ اور اگر بالفرض ایک پوری تحریک کےلئے بھی رخصت کا راستہ اختیار کرنا درست سمجھ لیا جائے تو بھی لوگوں کو بتایا تو جائے اور خاص طور پر لوگوں کو دعوت دیتے وقت تو ان پر واضح کیا جائے کہ انہیں ایک رخصت کی دعوت دی جارہی ہے نہ کہ ایک عزیمت کی راہ کی!
اور اگر یہ کہا جائے کہ انتخابی سیاست میں شرکت اور پارلیمانی راستے کا انتخاب ہم کوئی رخصت سمجھ کر نہیں کرتے اور نہ ہی ایک رخصت کی راہ پر چلنے کی ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوگا کہ انتخابی سیاست میں شرکت کرنا پھر مجبوری بھی قرار نہیں پا سکتا۔ اور ظاہر ہے اگر یہ کوئی مجبوری نہیں بلکہ صحیح اور درست راستہ ہے یا عزیمت کی راہ ہے تو اس کو اکراہ یا اضطرار قرار دینا پھر سرے سے درست نہیں۔
یہ تو ہوا اس مسئلے کاشرعی پہلو۔ رہا مجبوری یا اکراہ یا اضطرار کے حوالے سے اس مسئلے کا واقعاتی پہلو ، تو اس پر بھی آیئے کچھ نظر ڈالتے چلیں۔
اضطرار یا اکراہ کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ آپ کو درپیش مجبوری حقیقی ہو نہ کہ ایک واہمہ۔ پھر آپ اس مجبوری سے نکل کر آنے کےلئے ایک اصولاً حرام کا م کاارتکاب کرتے ہیں تو اصولاً اس حرام کام کو اس مجبوری سے نکل آنے کاواقعی ذریعہ ہونا چاہیے نہ کہ ایک فریب یا کوئی سراب۔
چنانچہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انتخابی سیاست کے غیر شرعی پہلو جو کہ ہیں تو اصولاً حرام مگر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت ایسی ناگزیر مجبوری کے پیش نظر اس کام کی شریعت میں اس حد تک اجازت ہے جس حد تک مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہو جائے تو یہ دیکھنا پھر بھی باقی ہے کہ یہ کام کرکے بھی آیا مسلمانوں کے جان و مال اور دیگر مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور جب یہ ایک واقعاتی حقیقت سے متعلقہ سوال ہے تو اس سوال کو بھی فرضی بحث کی بجائے پچھلے پچاس سالہ تجربے کی روشنی میں دیکھ لینا شایدکہیں بہتر ہو۔
اس سلسلے میں بعض مثالوں کا ذکر مفیدرہے گا
مثال کے طور پر مصرکے صدر انور سادات نے اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں بیس ہزار سے زائد اسلام پسندوں کو مصر کی جیلوں میں ٹھونس دیا جبکہ اسلام پسند ممبران پارلیمنٹ درجنوں کی تعداد میں موجود تھے اور پارلیمنٹ میں انکا ایک باقاعدہ بلاک تھا۔ مگر یہ سب اسلام پسند ممبران پارلیمنٹ ان میں سے کسی قیدی کی رہائی کےلئے کچھ بھی نہ کرسکے اور اسمبلیوں کی ممبری کسی قیدی کے کسی بھی کام نہ آئی۔
سوڈان میں صدرنمیری نے جب اسلام پسندوں پرہاتھ ڈالنے کافیصلہ کیا اور ان سے جیلیں بھرنی شروع کردیں تو اس وقت کچھ اسلام پسند صدر نمیری کے مشیر تک کی اعلی سطح پر فائز تھے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ان بیچاروں کے کام نہ آیا۔
۹۲ءکی خلیج کی جنگ میں کئی ملکوں کے پارلیمانوں میں اسلام پسندوں کی ایک معتدبہ تعدادکے احتجاج اور چیخ و پکار کے علی الرغم ان مسلم ممالک کی حکومتوں نے امریکی اتحاد میں شامل ہونے اور عراق کے خلاف اپنی فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد کرکے دکھایا۔
مسلمانوں پر ہر ملک میں وقتاً فوقتاً ظالموں کے ہاتھوں جو مصیبتیں اور آفتیں پڑتی رہتی ہیں شاید کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہاں کے اسلام پسند ممبران پارلیمنٹ اپنی پارلیمانی حیثیت میں ان مظالم یا مصائب کو رو ک دینے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ بلکہ عموماً یہ ہوا کہ ایسے واقعات پر احتجاج کرنے اور اپنی آواز دنیا کے آزاد ذرائع تک موثر طور پر پہنچانے کےلئے بھی جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ سڑکیں اور عوامی جلسہ و جلوس کے پارک تھے نہ کہ سینٹ واسمبلی کے فلور۔ بہت تھوڑے اور ناقابل ذکر واقعات کو مستثنیٰ کردیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے نالہ وفریاد تک سنے جانے کےلئے ایوان ہائے پارلیمان کوئی اچھی جگہ ثابت نہ ہوسکے۔
آپ یہ دیکھ کر حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں کہ عوام الناس ہوں یا اخباری صحافی، سب کی نظر میں ایک اسلام پسند رکن پارلیمنٹ کا ایوان پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے اکٹھے ہوئے عوام کے احتجاجی مظاہر ہ سے خطاب کرنا کہیں زیادہ وقعت کاحامل واقعہ ہے!
پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کےلئے آخر رکن پارلیمنٹ ہونا کیا ضروری ہے!؟ اس کے لئے ظاہر ہے صرف ایک اچھا مقرر ہونے کی شرط ہے۔ حدتو یہ ہے کہ اس شرط کو پورا کرنے کےلئے بھی پارلیمنٹ کوئی بہت کامیاب تجربہ نہیں!
یہ پارلیمانی تجربہ اس ’اضطرار‘ کو دور کرنے کےلئے کس حد تک کوئی موثر ذریعہ ہے، اس پرمیرا خیال ہے بہت کچھ کہنے کی اب ضرور ت نہیں۔
بہت سے مسلمانوں میں ایک غلط فہمی بڑی شدت کے ساتھ عام ہوچکی ہے اور وہ یہ کہ ’اسلامی حکومت‘ کاقیام ایک ایسا فرض ہے جو ہر حال میں اور ہر قیمت پر اور فوری طور پر ادا کردینا چاہیے خواہ اس مقصد کےلئے دین کے اور بے شمار فرائض اور مقاصد کوپس پشت ڈال دینا پڑے اور اس فرض کوجیسے کیسے پورا کردینے کےلئے جتنے مرضی اصول، عقائد اور نظریا ت قربان کردینے پڑیں۔
ہم اس سے پہلے بھی بیان کرآئے ہیں کہ رسول اللہ کو کچھ اصولو ں کی قربانی کے عوض چند سیٹیں یا اقتدار میں کچھ حصہ نہیں بلکہ کلی اقتدار کی پیشکش ہوئی ۔ مگر اللہ کے پیغمبر نے اس پیشکش کی کوئی تفصیل تک دریافت کرنا گوارا نہ کیا۔
پھر ہم یہ بھی پیچھے بیا ن کرآئے ہیں کہ جمہوری سیاست میں اسلام پسندوں کی شرکت میں عقیدہ کے کون کون سے اصول ، نہ چاہتے ہوئے بھی، قربان ہوجاتے ہیں۔
پھر اس میں طرفہ یہ ہے کہ ہم اسلام پسندوں کو آج کسی پورے تو کیا آدھے پونے اقتدار کی بھی کوئی پیشکش ہوئی ہے اور نہ یقین دہانی۔ چند سیٹیں بھی بڑی جان کھپا کر لینی پڑتی ہیں اور ان کےلئے عوام کے نیک اور بد ، گمراہ اور ہدایت یافتہ سبھی طبقوں کے آگے ’ووٹ‘ کےلئے دامن پھیلانا پڑتا ہے۔ پھر بھی اس میں کچھ پڑے نہ پڑے ، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر جو سیٹیں مل بھی جائیں تو وہ اسلام لے آنے یا اسلامی حکومت قائم کرنے کےلئے قابل ذکر حد تک فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ پھر بھی ان سیٹوں سے کوئی امید رہ جائے تو یہ معلوم نہیں ہوتا اسمبلیوں کی عمر کتنی ہے۔ ’اسمبلی‘ کی بے ثباتی اب شایدیہاں ضرب المثال بننے کے لائق ہو۔
مگر دوسری طرف دیکھئے اللہ کے رسول اس قدر زبردست پیشکش پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کا قیام اگر کوئی نیکی ہے تو اس کی تڑپ اللہ کے رسول میں ہم سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ پھرپیشکش بھی چند بے وقعت اور ’بے ثبات‘ نشستوں کی نہیں، کلی اقتدار کی یقینی پیشکش ہےمگر کسی ادنی ترین حد تک بھی درخوراعتنا نہیں سمجھی جاتی۔
١۔ اس وقت کی جمہوری انتخابی سیاست میں جس انداز سے اسلام پسندوں کی شرکت ہوتی ہے اس میں بے شمار شرعی مفاسد لازم آتے ہیں۔ جن کی کچھ نشاندہی پیچھے ہم کر آئے ہیں۔اس کی بنیاد پر ’اسلامی حکومت‘ کے قیام کا لہذا یہ کوئی شرعی طریق کار نہیں۔
٢۔ پھر دوسری بات یہ کہ اس عمل پر شریعت کی موافقت یا ممانعت اگر ذرا دیر کے لئے زیر بحث نہ بھی لائی جائے تب بھی یہ بات شاید کسی سے اوجھل نہ ہو کہ ’اسلامی حکومت‘ کے ہدف تک پہنچنے کےلئے عملاً بھی یہ طریقہ کار گر نہیں۔ اسلام پسندوں کی پچاس سالہ جدو جہد اور انتھک و بے مثال محنت جو اس راستے میں کی گئی یہ بات واضح کردینے کے لئے بہت کافی ہے کہ اس راستے میں اور کچھ بھی ہو اسلامی حکومت قائم ہوجانے کی اس سے امید رکھنا ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ درست ہے کہ بظاہر یہ راستہ بند بھی نہیں ہوتا ۔ بہت کم ملکوں میں اسلام پسندوں کو سیدھا صاف جواب دیا گیا کہ بھائی آپ اسلام قائم کرنے کا تجربہ کرنے کےلئے پارلیمنٹ میں نہیں آسکتے ،زیادہ ملکوں میں توپارلیمنٹ کے دروازے ہم پر کھلے ہی رکھے گئے بلکہ خوش آمدید و مرحبا کی صدائیں بھی آتی اور ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ ہم اس راستے پر چلتے بھی رہے۔ کبھی رکنے کا نام بھی نہیں لیا۔ الیکشن کم ہونے کا ہمارا گلہ بھی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ اسمبلیاں ٹوٹنے اور بار بار الیکشن کرانے کے تجربات یہاں دل کھول کر کئے گئے۔ ہم نے ہر طرح کی پارٹی سے اتحاد کا تجربہ کیا۔ ہر سیاسی قوت کے ساتھ راہ و رسم بنانے کی کوشش کی تاکہ کسی نہ کسی کے ساتھ مل کر اکثریت حاصل کرنے کی مشکل شرط پوری کرلی جائے اور اسکے نتیجے میں اسلام آجائے۔ بسا اوقات ہمار ا قائم کیا ہوا انتخابی اتحاد رنگ بھی لے آیا اور ہماری ہم خیال جماعتوں کے اتحاد کواکثریت بھی مل گئی مگر اسلام ہے جو اس راستے سے آنا تھا اور نہ آیا۔ ہر بار ہمارے ساتھ’کچھ‘ ہوجاتا رہا ۔ ہم سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہوئے اور ہر ظالم ہمیں وقت پر دھوکہ دے جاتا رہا۔ ہم اپنی منزل سے اب بھی اتنا ہی دور ہیں جنتا آج سے پہلے تھے۔ ایک لحاظ سے ہمیں اپنے مقاصد اب قریب لگنے لگے ہیں تو کسی دوسرے لحاظ سے ہم اپنے ہدف سے اب بھی دور ہیں اور اتنا بھی ہوش نہیں رکھتے جتنا ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہم محسوس کررہے تھے۔
’سراب‘ کی خوبی یہی ہے کہ یہ ہر دم قریب ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات بہر حال واضح ہے کہ یہ راستہ ہم پر اگر بند نہیں تو یہ ہمارے لیے بھول بھلیاں ضرور ہے۔ ’بھول بھلیاں‘ شاید اس راستے سے کہیں خطرناک ہوں جو سیدھا سیدھا ’بند ‘ ہو ۔اس میں آپ چلتے ضرور ہیں مگر پہنچتے کہیں نہیں۔
اگر یہ دوباتیں واضح ہوجاتی ہیں یعنی یہ کہ(١) شرعاً یہ راستہ درست نہیں اور (٢) عملاً یہ ممکن نہیں تو پھر اس راستے کوبدلنے کی دعوت دی جانے پر یہ اعتراض بہرحال نہیں ہونا چاہیے کہ’ پھر آخر اسلامی حکومت کےسے قائم ہوگی؟‘
اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے یا نہیں اور اگر ہوتی ہے تو کب قائم ہوتی ہے، سب کچھ اللہ کے علم میں ہے مگر کسی مثبت سمت کو آگے بڑھنے کے لئے یہ طے ہے کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے راستہ بہرحال کوئی اور ہے۔ راستہ بدلنا نہ صرف شریعت کا تقاضا ہے بلکہ، جیسا ہم نے ا بھی واضح کیا ، عملاً بھی اس کے سوا چارہ نہیں۔
رہ گیا یہ سوال کہ پھر متبادل کیا ہو؟ تو یہ بھی گوایک طویل موضوع ہے ۔ جسکی وضاحت کے لئے زیادہ وقت درکارہے ،مگر یہاں یہ کہہ دینا پھر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک ’متبادل‘ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ’اہداف‘ کا تعین اور وضاحت ضروری ہے۔ہوسکتا ہے ’اسلامی حکومت ‘ کو آپ اپنی تحریک کاسب سے بڑا ہدف سمجھتے ہوں اور ہم ’اسلامی حکومت‘ کو راستے کے دوران کی ایک منزل سمجھتے ہوں۔’درمیان کی ایک منزل‘ قافلے کا کلی موضوع کبھی نہیں بنتی۔ یہ منزل کب آتی ہے اور کب آ کر گزر جاتی ہے ،یہ بھی ہمارا ایک مسئلہ تو ہے مگر بنیاد ی اور اساسی مسئلہ نہیں۔
انبیائے کرام نے ’اسلامی حکومت‘ کے قیام کی دعوت نہیں دی۔ ’ریاست‘ کا مسئلہ اپنی دعوت کا کلی موضوع نہیں بنایا سیاسی انقلا ب کو اپنی تحریک کا اصل مطمع نظر نہیں ٹھہرایا ۔ کوئی مسئلہ اٹھایا تو وہ اللہ کی بندگی کا مسئلہ تھا۔ کوئی موضوع کھڑا کیا تو وہ اللہ کی پہچا ن اور اس کے حقوق کو جاننا تھا۔ معاشرے میں کسی تنازعے کو ہوا دی تو وہ غیر اللہ کی بندگی اور حاکمیت تھی۔
کتنی آیات ایسی ہیں جن میں اہل ایمان کو ’اسلامی حکومت‘ کا جلد از جلد قیام عمل میں لانے کی تاکید کی جاتی ہے؟ کتنی احادیث ایسی ہیں جن سے واضح ہو کہ مکی زندگی میں رسول اللہ کا منشور ’تبدیلی حکومت‘ تھا؟
مگرجب ایسا نہیں تو کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ اسلام کو حکومت اور ریاست سے کوئی سروکار نہیں؟ کوئی آپ کوآ کراور اصرار کرکے حکومت دے جائے تو بادل نخواستہ ’ہدیہ‘ قبول فرمایا جائے ورنہ حد درجہ بے نیازی اور کمال استغناء سے کام لیا جائے اور کار ریاست کو ایک نگاہ غلط انداز سے زیادہ کسی التفات کے لائق نہ سمجھا جائے !؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض کوئی طنز نہیں بلکہ دین کی یہ بھی ایک تعبیر ہے اور زہدو دینداری کی یہ بھی ایک تشریح ہے۔ ایک طرف اگر وہ انتہا ہے جس میں ’دین‘ کے عنوان سے صبح شام حکومت اور سیاست کی بحث ہے اور انبیاء کی بعثت کااصل الاصول ’حکومت الہیہ کا قیام‘ اورسب آسمانی کتابوں کا لب لباب ’اسلامی انقلاب‘ ہے تو دوسری طرف دین کی یہ انتہا پسندانہ تعبیر بھی کچھ کم معروف نہیں کہ اسلام صرف اور صرف ’بندے کے خدا سے تعلق‘ کا نام ہے بس یہ نفس کی اصلاح سے بحث کرتا ہے اور ذکر و فکر سے غرض رکھتا ہے۔ رہا کاروبار دنیا ،معاشرتی فساد، طاغوتوں کی سرکشی، خالق سے بغاوت، انسانوں کا استبداد اور استحصال ، تو ان باتوں سے اسلام کو کیا کام!
آپ رسولوں کی بعثت پر نظر ڈال لیجئے ، آسمانی کتابوں کے جلی موضوعات کا استقصا کر لیجئے ،رسول اللہ کی دعوت اور سیرت کا بغورمطالعہ کر لیجئے اور قرآن کی تفسیر دیکھ لیجئے شاید آپ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہ رہیں گے کہ ’حکومت‘ اور ’انقلاب‘ انبیاءاور آسمانی کتب کا بنیا دی موضوع نہیں۔ مگر معاً آپ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر بھی شاید نہ رہیں کہ انبیاءکرام نے پہلے دن سے معاشرتی فساد، طاغوتوں کی سرکشی،خالق سے بغاوت اور دنیا میں جاری انسانوں کے استبداد اور استحصال سے کوئی ایسا صرف نظر بھی نہیں کیا جیسا ہمارے بعض روحانیت پسند طبقے تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانو ں کی قیادت بدکاروں سے لے کر نیکوکاروں کے ہاتھ میں دینا کبھی ایسا مقصد نہیں رہا جسے انبیاءاور آسمانی کتب نے کلیتاً اپنے عدم التفات کے لائق سمجھا ہو یا جس پر کسی کوشش کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔
چنانچہ ’اسلامی حکومت کا قیام‘ اسلام کی ایک ضرورت بھی ہے مگر یہ دین کا اساسی ہدف اور اسلام کا کلی موضوع بھی نہیں۔ نہ یہ کوئی غیر اہم اور بے وقعت چیز ہے اور نہ یہ اسلام کا علی الاطلاق اعلی ترین اور اہم ترین نصب العین۔ نہ یہ ایسی چیز ہے جو اسلامی تحریک کی توجہ کے سرے سے قابل نہ ہو اور نہ وہ چیز جسے ہم تحریک کی تمام تر جدو جہد کےلئے نقطہ ارتکاز کہیں۔
قرآنی تکرار اور تاکید ہمیشہ سے مفسرین کی توجہ کا مرکزرہا ہے قرآنی تکرار اور تاکید کی آپ اپنے ذہن میں جو کوئی فہرست بنا پائے ہوں اس فہرست میں دیکھئے ’اسلامی حکومت‘ ترتیب کے اعتبار سے کس نمبر پر آتی ہے۔ اس مسئلے کو اپنی تحریک میں بھی بس وہی نمبر دے دیجئے ، نہ کم نہ زیادہ۔ خو دبخود آپ کی تحریک کا نبوی منہج ہوجائیگا۔ تب آپ اسلام کے کسی کام پر اتنی ہی توجہ دیں گے اور اس پر اتنی ہی محنت کریں گے جتنی قرآن آپ کو تاکید کر ے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ اہداف کا تعین اور فرائض کی درجہ بندی وہ پہلا زینہ ہے جو معاشرے میں ایک متوازن تحریکی عمل برپا کرنے کےلئے طے کرنا ضروری ہے۔
اور جہاں تک ’متبادل‘ کے سوال کاتعلق ہے تو ہمارا خیال ہے اس کاجواب ایک متوازن تحریکی عمل برپا کرنے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ یہ ’نبوی منہج تحریک ‘ اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے۔
قرآن کی روشنی میں تحریکی اہداف کا ازسر نو تعین اور اجتماعی فرائض کی صحیح اور دقیق درجہ بندی وہ چیز ہے جو اس ’متوازن تحریکی عمل‘ کے برپا کرنے کےلئے کل کام تو نہیں مگر اس منزل پر پہنچنے کےلئے پہلا زینہ ضرور ہے۔ آخری زینے تک پہنچنے کےلئے پہلا زینہ چڑھنا نا گزیر ہے۔ اس کے بغیر آپ کو چھلانگ لگانا پڑے گی۔ اگر ہماری اس بات کا بر ا نہ منایا جائے تو ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ پچھلی پوری صدی میں ’اسلامی ریاست‘ تک پہنچنے کی متعدد کوششیں اپنی محنت اور اخلاص کے باوجود ایک ’طبعی اٹھان‘ کی بہ نسبت ’چھلانگ‘ کے زیادہ قرین قیاس رہی ہیں۔
تحریکی اہداف اور اجتماعی فرائض کے واضح اور ازسر نو تعین کے بعد دوسرا بڑا چیلنج ان اہداف اور فرائض کی بنیاد پر معاشرے کی تربیت ہے۔ معاشرے پر اگر کام نہیں کیا جاتا اور ایک طویل محنت معاشرے کی ذہنی ، فکری اور اخلاقی حالت تبدیل کرنے پر نہیں کی جاتی اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی سماجی اور سیاسی جہت تبدیل کرنے کی خود معاشرے میں ہی ایک بے چینی اور تڑپ پیدا نہیں کردی جاتی تو سیاسی میدان میں کسی کامیابی سے آپ کوئی خاص امید نہیں رکھ سکتے۔ حتی کہ ایسی حالت میں اگر حکومت کی تبدیلی عمل میں آبھی جائے ، جوکہ فی الحال ہمیں خیال اور محال نظر آتا ہے ، تب بھی معاشرے میں کسی بڑی سطح پر اسلام کے سماجی مقاصد کا حصول ناممکنات میں رہتا ہے۔
معاشرے کی فکری جہت تبدیل کئے بغیر ’تبدیلی حکومت‘ کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنانا اور پھر اسے ہر حال میں پانے کےلئے انتخابات کا فوری ’متبادل ‘ دریافت کرنا کچھ خاص فائدہ مند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سوال کا براہ راست جواب دینے کی کوشش کرنا اور’تبدیلی حکومت‘ کے فوری نسخے ڈھونڈنا یا ان کی عملی تفصیلات میں جانا ہمارے خیال میں اس اصل موضوع سے غیر متعلق ہے۔ ہماری ناقص رائے میں سوال اس طرح سامنے رکھا جائے تو کہیں فائدہ مند ہوگا کہ’ اس وقت ہمارے کرنے کا کام کیا ہے؟‘
معاشرہ تبدیل کئے بغیر کسی اسلامی تحریک کو اگر حکومت چلانے کاچیلنج ملتا ہے تو اگرچہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے یہ چیلنج فوری طور پر مسترد ہی کردینا چاہیے پھر بھی یہ ضرور ہے کہ یہ چیلنج قبول کرلینے سے پہلے اسے کئی بار سو چنا ہوگا ۔ خاص طور پر اس بات کے پس منظر میں کہ یہودی پروٹوکول کا یہ باقاعدہ حصہ ہے کہ اسلامی قوتوں کو سیاسی اور عسکری میدان میں ایسے چیلنج دیئے جائیں جن کےلئے وہ ابھی پوری طرح تیار نہ ہو پائی ہوں۔ یو ں انہیں قبل از وقت بڑے بڑے سیاسی اور فوجی منصوبوں میں الجھا کر پہلے ان کی توانائیوں کا خاتمہ کیا جائے اور پھر ان کو ’ناکام‘ ثابت کرکے میدان سے باہر کردیا جائے اور وقفے وقفے سے نئی جماعتوں اور تحریکوں کوان میدانوں میں ہمت آزمانے ا ور توانائی صرف کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ بہر حال ہر ملک میں مسلم امیدوں کا پھل پوری محنت ہوئے بغیر اور پوری طرح پکے بغیر ہی تڑوا دینا عالمی یہودیت کی ایک ماکرانہ چال ہے۔
چنانچہ معاشرے پر محنت سے پہلے اقتدار کا چیلنج قبول کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اگر یہ چیلنج کہیں مل ہی جائے تب تو صورت حال کابغور تجزیہ کرکے آگے بڑھنا ضرور ایک مجبوری ہوسکتی ہے اور اگر ایک محتاط جائزے کی روشنی میں یہ ظاہر ہو کہ پورا اترنا ممکن نہیں تو اس سے ابتداءہی میں انکارکردینا تب بھی ایک کہیں باعزت اورمحفوظ راستہ ہوگا ۔تاہم خو د کوشش کرکے کسی مجبوری کواپنے سر لینا، جبکہ دشمن دیکھ چکے ہوں کہ انتخابی سیاست کے ہر قدم پر ہم کس طرح اپنے اصولوں کی قربانی کرلینے پر آمادہ ہوجاتے رہے ہیں، کہا ں تک حکمت کا تقاضا ہے؟
یہ خیال کہ اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد سب مسائل آپ سے آپ حل ہوجائیں گے اور اصولوں کی قربانی دینے کی حاجت بھی جو بس اس سے پہلے پہلے درپیش تھی اب باقی نہ رہے گی، ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کےلئے ابھی جتنی بھی مجبوریاں ہوں اصل تو اقتدار ملنے کے بعد پیش آتی ہیں۔تب آپ کومحسوس ہوگا کہ اس سے پہلے تو کچھ مسائل ہی نہ تھے۔ تب آپ اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ ’اصولوں کی قربانی‘ کا وقت تو معاذ اللہ آیا ہی اب ہے۔ اس مرحلے میں اصولوں کی بھینٹ دینے سے صرف وہی تحریک بچے گی جو اس سے پہلے اصولوں کی قربانی کو ہر حال میں اپنے لیے خارج ازامکان جانتی رہی ہو۔ لا عاصم من امر اللہ الا من رحم۔
معاشرے کی تربیت عمل میں لائے اور معاشرتی رجحانات کو تبدیل کئے بغیر اقتدار سے فائدہ اٹھانا کس قدر مشکل ہے؟ اسلام نافذ کرنا تو خیر ایک بڑاکا م ہے برسر اقتدار آ کر مسلمان رہنا بھی کس قدر مشکل کام ہے؟ اس با ت کا اندازہ بخاری میں مذکور اس واقعہ سے کیجئے ۔
قیصر روم ہرقل رسول اللہ کا نامہ مبارک پڑھنے اور آپ کے ایلچی کے چہرے پر ایمان کے اثرات دیکھ لینے کے بعد اور پھر آپ کے بدترین دشمن (ابو سفیان) سے تحقیق کرلینے کے بعد پہچان چکا تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور دل سے اس بات کےلئے تیار تھا کہ آپ پر ایمان لے آئے۔ اللہ کے رسول سے اس قدر گرویدگی اس کے دل میں موجزن ہوچکی تھی کہ ابوسفیان ایسے دشمن اسلام سے بھی وہ یوں گویا ہوا کہ اگر وہ آپ کی صحبت کا شرف پالے تو وہ آپ کے پیر دھو دھو کر پئے۔ مگر دیکھئے یہ اقتدار کتنی بڑی مجبوری ہے۔ بخاری کی روایت کے مطابق اس نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ اپنے ایوان کے سب دروازے بند کروادیئے اور عمائدین روم سے کہا:اے اہل روم کیا تمہیں فلاح اور سعادت کی طلب ہے؟تم اگر چاہتے ہو کہ تمہاری سلطنت ہمیشہ کےلئے باقی رہے تو اس نبی کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دو۔ یہ سنتے ہی عمائدین سلطنت پاؤں سرپر رکھ کر بھاگے ۔ گویا اب وہ قیصر کی شکل بھی نہ دیکھیں گے ۔ مگرحسب پروگرام ایوان کے دروازے پہلے سے بند تھے۔ قیصر نے فوراً پینتر ا بدلا اور گویا ہوا۔ یہ تو میں تمہاری اپنے دین پر ثابت قدمی دیکھنے کےلئے کہہ رہا تھا۔ یہ ایک جملہ سننے کی دیر تھی کہ عمائدین سلطنت قیصر کے رو برو سجد ہ کرنے لگے!
کیسا ہوگا یہ سجدہ جسے کروانے کو قیصر روم دل سے نہ چاہتا تھا!؟ ایوان اقتدار ایک غیر معمولی آزمائش گاہ ہے جہا ں ایک اوروں کو’ سجدہ‘ کرنے کی مجبوری ہی لاحق نہیں ہوتی ’قاعدے‘ کی رو سے خود کو بھی ’سجدہ‘ ہو تو کم از کم بھی چپ رہنا پڑتا ہے!
چنانچہ اقتدار کا ملنا اگر واقعات کی ایک خاص ترتیب سے ہو تو تبھی اس سے کسی اعلی مقصد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ اقتدار بذات خود اگر کوئی سلیمانی انگوٹھی ہوتا تو عمائدین روم کا یہ سجدہ قیصر اپنے بجائے اللہ تعالی کو کروالیتا!
نجاشی کی مثال قیصر سے مختلف ہے مگر اس میں بھی ہمارے لئے کچھ دروس ہیں۔ نجاشی کا قبول اسلام مکہ کے کمزور مسلمانوں کے پناہ لینے کے کا م تو ضرور آیا ، بلکہ یو ں کہئے کہ مسلمان اس کے عدل وانصاف اور رحمد لی کا سن کر اس کے ملک میں پناہ تو اس کے قبول اسلام سے پہلے ہی لے چکے تھے مگر پھر اس کااسلام قبول کرلینا وہاں امن اور چین سے رہنے کےلئے مسلمانوں کے اور بھی کام آیا اور خود اسے بھی آگ کی پکڑ سے بچنے کےلئے فائدہ دے گیا۔ مگر رسول اللہ کا نجاشی کے قبول اسلام کے واقعہ کو یہ رنگ دینا کہ چلیں اس تحریک کو دنیا میں اب کہیں تو اقتدار ملا اور تحریک کی زندگی میں چلیں کوئی تو منزل سر ہوئی رسول اللہ کا اس واقعہ سے یہ تاثر قائم کرلینا کہاں تک سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے ، ہم سب کے علم میں ہے۔ حتی کہ آپ کی زندگی میں یہ سوال تک نہ اٹھا کہ جہاں اس تحریک کے کسی فرد کو اقتدار حاصل ہے، مکہ کی اذیت ناکی سے جان چھڑا کر آپ وہیں نقل مکانی کرجائیں اوروہا ں حاصل ہونے والے اس اقتدار کے ثمرات کو سمیٹ کر اسلام کی حکومت مضبوط کریں۔ اس کے برعکس معاشرے کی تعلیم اور تربیت کا جو کام آپ عرب میں شروع کرچکے تھے بدستور آپ نے اسی طرح کام کو جاری رکھا۔ قریش کو چھوڑ کر بھی جس طر ف گئے پورے قبیلے کو اسلام کی دعوت دی اور پورے قبیلے ہی کے سامنے اسلام کی بنیاد پر اپنی زندگی تبدیل کرلینے کا مطالبہ رکھا۔
جہاں تک خود نجاشی کا معاملہ تھا تو اس کے خاص شخصی اوصاف ، اس کی خاندانی وجاہت اور قوم میں اس کےلئے پائی جانے والی قبائلی عصبیت کی بنا پر اور سب سے بڑھ کرنبی کی دعا اور اللہ کے خاص فضل سے اس کے اسلام قبول کرلینے کے باوجود اس کا اقتدار تو باقی رہا مگر چونکہ حبشہ میں کلیسا بہت مضبوط تھا اس لیے نجاشی کا اقتدار اہل حبشہ میں اسلام پھیلانے کےلئے بھی کچھ خاص کام نہ آیا۔ یہا ں تک کہ جب وہ فوت ہوا اسکی نماز جنازہ بھی رسول اللہ نے مدینہ میں ادا کی، حبشہ میں اس کا جنازہ ادا کرنے کےلئے حبشی مسلمانوں کی کوئی جماعت تک نہ پائی گئی۔
چنانچہ اقتدار پاس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لازماً ملک میں اسلام ہی لے آئیں گے۔ معاشرے کی تربیت اور تیاری اس کا بنیادی پایہ ہے۔ اس کے بغیر اقتدار کسی بیساکھی سے بڑ ھ کر کام نہیں دیتا۔ یہ ایک شرعی حقیقت بھی ہے اور ایک عمرانی طریقہ بھی۔
لہذا حصول اقتدار کے لئے انتخابی سیاست کا متبادل تو آپ تب پوچھیں اگر اقتدار ہی ہر مرض کا یقینی علاج ہو۔ تب توضرور ہم کوئی ایسا نسخہ تلاش کر نے کےلئے دوڑ دھوپ کریں جو مختصر ترین وقت میں یہ مقصد پورا کرادے۔ لیکن ایک حقیقی تبدیلی کی جانب راستہ اگر معاشرے کی تربیت سے ہو کر جاتا ہے تو پھر مرحلہ اقتدار تک پہنچنے کےلئے انتخابی سیاست کا متبادل ابھی دریافت کرنے اور اس متبادل کی تفصیلات میں محنت اور وقت صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اسلامی تحریکوں کے کرنے کا کام کیا ہے؟ ’متبادل‘ کی بحث میں یہ سوال بھی دراصل ساتھ آجاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے اس سوال پر یہاں اختصار سے کچھ بات کرنا ضروری سمجھا ہے۔ بہر حال ’اسلامی تحریکوں کے کرنے کا کام‘ کے حوالے سے ہمارا پچھلی بار کا اداریہ (ایقاظ جون تا اگست٢٠٠٢) جو اڑتیس صفحات پر مشتمل ہے ، بھی دیکھ لیا جائے تو امید ہے فائدہ مند رہے گا۔ علاوہ ازیں ایقاظ کے آئند ہ شمارے میں ہمار ا مضمون ’وہ ذہنی تبدیلی جس کی ضرورت ہے‘ بھی کسی حد تک اسی سوال سے بحث کرے گا۔ وما توفيقي الا بالله وصلی الله علی نبي