محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
@بلال ساہی صاحباسلامی اصولوں کی حکمرانی بلا شبہ ہمارا نصب العین ہے ۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہ اصول انتخابات کے ان ضابطوں اور جیت ہارکے ان قوانین ہی سے متصادم ہیں جن کی راہ سے ہم اپنے ان اصولوں کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جان لینے کے بعد بھی اگر ہم انتخابات کے ان قاعدوں ضابطوں کو قبول کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت ہیں تو اپنے اصولوں کو آپ ہی تو ڑتے ہیں اور اگر اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو اور ان پر کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں تو اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ظاہر ہے کسی کھیل میں آپ اسی وقت حصہ لے سکتے ہیں جب آپ میں اور کھیل کے باقی سب کھلاڑیوں میں کھیل کے کچھ اصولوں پر پیشگی اتفاق ہو۔ اب یہاں آپ کو جو دقت درپیش ہے وہ یہ کہ دوسروں کے تو کوئی خاص اصول نہیں اس لیے وہ ہرکھیل میں حصہ لے سکتے ہیں مگر آپ کے پہلے سے کچھ اپنے اصول ہیں ،جو آپ اپنے دین سے لیتے ہیں۔ یہ اصول اس کھیل کے اصولوں سے صاف صاف متصادم ہیں جو آپ کھیلنے جار ہے ہیں۔ آپ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ سب کھلاڑی ان پراتفاق نہیں کرتے اور اگر آپ کھیل کے ان اصولوں اور ضابطوں کو تسلیم کرلیتے ہیں جن کے مطابق سب کھلاڑی کھیلنے پر متفق ہیں اور جو کہ کھیل کے ’منتظمین ‘جاری کرتے ہیں ، تو آپ کے اپنے اصول جاتے ہیں۔ اب اگر آپ اس کے باوجود’ منتظمین‘ کی شروط پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ کھلے دل سے تسلیم کرلیا جائے کہ آپ اپنے اصولوں سے کلی یا جزوی طور پر دستبردار ہوچکے ہیں۔
میں آپ کی اصلاح کا منتظر ہوں