• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جناح شیعہ تھا اور اسکا غسل اور پہلا جنازہ بھی شیعہ نے پڑھایا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان نے یہ پالیسی اختیار کی کہ یہاں سنی اور شیعہ کی کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ مردم شماری کیلئے مسلم اور غیر مسلم کافارمولا اختیار کیا گیا۔ جس میں فرقوں کے تناسب کو نظر اندازکردیا گیا۔ یہ گویا اس عہد کا اظہار تھا کہ حکومت فرقوں کے بنیاد پر امتیاز نہیں برتے گی۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اثناء عشری شیعہ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے عقیدے میں یہ تبدیلی اپنے آباء کے اسماعیلیہ فرقہ کو چھوڑ کرکی تھی۔ تاہم وہ پبلک میں اس کا اعلان نہیں کرتے تھے کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ ہیں اور جو کوئی اُن سے پوچھتا ، تو ان پر الٹایہ سوال کرتے تھے کہ تم بتاؤ رسول کریم صلعم شیعہ تھے یا سنی؟

انیس سو اڑتالیس میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی ہمشیرہ مس فاطمہ جناح کو اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنا پڑا تاکہ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق اُن کی جائیداد حاصل کرسکیں۔ یادرہے کہ سنی فقہ کے مطابق کلی طور پر اس قسم کی وصیت کی اجازت نہیں۔ جبکہ شیعہ فقہ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مس فاطمہ جناح نے ایک اقرار نامہ سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا جس پر وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دستخط تھے کہ جناح شیعہ خوجہ مسلم تھے اور عدالت سے درخواست کی کہ ان کی وصیت کے مطابق شیعہ قانون وراثت پر عمل کیا جائے۔ عدالت نے پٹیشن قبول کرلی۔6فروری1968کو فاطمہ جناح کی موت کے بعد ، ان کی بہن شیریں بائی نے ہائی کورٹ میں یہ دعویٰ داخل کیا کہ مس جناح کی جائیداد شیعہ قانون کے مطابق اسے دی جائے کیونکہ مرحومہ شیعہ تھیں۔

پہلے مس فاطمہ جناح کے احترام میں شیعہ فقہ پر عمل کیا گیا۔ جبکہ سنی ہونے کی صورت میں اُن کو صرف نصف حصہ مل سکتا تھا۔ بعد میں ان کی بہن شیریں بائی ممبئی سے کراچی پہنچیں جو اسماعیلی فرقہ چھوڑکر اثنا عشری ہوچکی تھیں اور اس بنیاد پر بھائی کی جائیداد کا دعویٰ کیا۔

اس موقع پر جناح کا باقی خاندان جو ابھی تک اسماعیلی فرقہ سے منسلک تھا نے جناح کے شیعہ عقیدے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ پہلے مس جناح کی پیٹشن قبول کرچکی تھی۔ عدالت کیلئے بابائے ملت قائداعظم کواسماعیلی کہنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ اس کیس کو عدالت نے ملتوی کر دیا جبکہ مس جناح کا عمل ہمیشہ یہی رہا کہ وہ شیعہ عقیدے پر عمل کرتی رہیں اور اپنے بھائی کے متعلق بھی اثناء عشری شیعہ ہونے کا یقین دلاتی رہیں۔

جناح کیوں اثناء عشری شیعہ رہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مذہب کی آزادی کیلئے سیکولر اصولوں کے حامی تھے۔ اس بات کے گواہ عدالت میں سید شریف الدین پیرزادہ تھے۔ اُن کے مطابق جناح نے اسماعیلی عقیدہ1901میں چھوڑا تھا۔ جبکہ اُن کی دو بہنوں رحمت بائی اور مریم بائی کے ایک سنی خاندان میں شادی کرنے کا مرحلہ در پیش تھا۔ کیونکہ اسماعیلی فقہ میں اس شادی کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے انہیں یہ فرقہ چھوڑنا پڑا۔ فرقہ کی یہ تبدیلی مسٹر جناح تک محدودرہی۔ اور ان کے بھائی ولجی اورنتھو بدستور اپنے سابقہ مذہب پر رہے۔

عدالت میں جو کارروائی ہوئی یہ مس جناح کے انتقال کے فوراً بعد ہوئی۔ اس میں گواہ سید اُنیس الحسن شیعہ عالم تھے۔ انہوں نے حلفی بیان دیا کہ مس جناح کے کہنے پر انہوں نے قائداعظم کو غٖسل دیا تھا اور گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں ان کی نماز جنازہ بھی شیعہ دستور العمل کے مطابق ادا کی جاچکی تھی۔ اس میں شیعہ عالم شریک تھے۔ جیسے یوسف ہارون، ہاشم رضا اور آفتاب حاتم علوی حاضر تھے۔ جبکہ لیاقت علی خان بطور سنی کمرے سے باہر کھڑے رہے۔

جب شیعہ رسومات ختم ہوئی تب جنازہ حکومت کے حوالے کیا گیا۔ تب متنازعہ شخصیت مولوی شبیر احمد عثمانی جو دیوی بندی فرقے کو چھوڑ چکے تھے اپنے فرقے کے خیالات کے برعکس جناح کی جدوجہد پاکستان کے حامی تھے۔ انہوں نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی۔ یادرہے شبیر احمد عثمانی شیعوں کو مرتد اور واجب القتل قراردے چکے تھے۔ یہ دوسری نماز جنازہ سنی طریق سے پڑھائی گئی۔ اور جنازہ کی جگہ وہی تھی۔ جہاں قائداعظم کا مقبرہ بنا۔ دوسرے گواہان تصدیق کرتے ہیں کہ مس فاطمہ کی موت کے بعد کلام اور پنجہ شیعوں کے دونشان مہتہ پیلس سے برآمد ہوئے تھے۔ جس میں ان کی رہائش بھی تھی۔ آئی ایچ اصفہانی نے یہ گواہی1968ء میں سند ھ ہائی کورٹ میں دی تھی۔ جس میں انہوں نے جناح کے فرقہ کی تصدیق کی تھی۔ وہ جناح فیملی کے دوست تھے اور1936ء میں اُن کے اعزازی سیکرٹری بھی تھے۔اس گواہی میں مسٹر مطلوب حسن سید بھی شامل ہوئے۔ جو قائداعظم کے1940-44تک پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔

مسٹر اصفہانی بتاتے ہیں خود جناح نے انہیں1936ء میں بتایا تھا کہ ان کی فیملی اور خود انہوں نے شیعہ مذہب اس وقت اختیار کیا جب وہ1894ء میں انگلینڈ سے لوٹے تھے۔ اور انہوں نے رتی بائی سے شادی کی تھی جو ایک پارسی تاجر کی بیٹی تھی۔ یہ شادی شیعہ رسوم کے مطابق ہوئی۔ ان کے نمائندے راجہ صاحب محمود آباد تھے جو ان کے شیعہ دوست تھے۔ اگرچہ اُن کا عقیدہ جناح سے مختلف تھا۔ لیکن وہ ان کے گہرے دوست تھے۔ وہ اثنا عشری شیعہ تھے۔ اور آزادی کے بعد نجف عراق گئے تھے۔ قائداعظم سے اُن کی دوستی کو بہت لوگوں نے حیرانی کے ساتھ دیکھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناح اور راجہ صاحب محمود آباد میں دوستی کی وجہ شیعہ ہوناتھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ممبئی سے ایک مرتبہ شیعہ کانفرنس میں ممبئی الیکشن میں جناح کی مخالفت کی تھی۔

جب مس فاطمہ جناح1967ء میں کراچی میں فوت ہوئیں تو اس موقعہ پر اصفہانی موجود تھے۔ انہوں نے مہتہ پیلس میں اُن کے غٖسل اور نمازہ جنازہ کا اہتمام خود کیا۔ جو شیعہ رسوم کے مطابق تھا۔ جنازہ پڑھانے کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی۔ تب پولو گراؤنڈ میں سنی طریق سے نماز جنازہ دوبارہ پڑھائی گئی اور بھائی کے مقبرہ میں جو جگہ انہوں نے تجویز کی وہاں اُن کی تدفین ہوئی۔ شیعہ رسم جنازہ کے مطابق میت کو آخری الوداعی نصیحت جسے تلقین(Talgin)کہتے ہیں اس وقت ادا کی گئی جب میت کو لحد میں اتارا گیا۔ رتی بائی کو آخری الوادعی نصیحت یا تلقین خود قائداعظم محمد جناح نے کی تھی جب وہ1929ء کو فوت ہوئی تھیں۔

فاطمہ جناح کی وفات پرجب شیعہ رسوم اداکی گئیں تو مخالفت کرنے والے لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ جس کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی اور سنی طریقے سے رسوم ادا کی گئیں۔ اس مخالفت کا ذکر فیلڈمارشل جنرل ایوب اپنی ڈائری میں یوں کرتے ہیں۔

۔۔۔جولائی1967ء۔۔ میجر جنرل رفیع میرے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وہ میری نمائندگی کیلئے کراچی گئے اور مس جناح کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔اُن کا بیان ہے کہ اہل فہم لوگ اس بات پر خوش ہوئے کہ حکومت نے مس فاطمہ کو ایک عزت کا مقام دیا۔ اس لئے یہ امر حکومت کیلئے بھی خوش کن ہے۔ تاہم وہاں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بہت برا سلوک کیا۔ اُن کی پہلی نمازہ جنازہ مہتہ پیلس میں شیعہ رسوم کے مطابق ادا کی گئی۔

پھر عوام کیلئے دوسری نماز جنازہ پولوگراؤنڈ میں ہوئی تو یہ سوال کیا گیا کہ امام سنی ہو یا شیعہ؟ تاہم بدایونی کو امامت کیلئے آگے کردیا گیا۔ جونہی امام نے اللہ اکبر کہا آخری صفوں میں کھڑے لوگ چھٹ گے جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ لاش کو بڑی مشکل سے ایک گاڑی میں رکھا گیا اور قائداعظم کے مزارپر لے گئے اور انہیں دفن کیا گیا۔ وہاں ایک ہجوم اکٹھاہوگیا جنہوں نے کہا کہ قبر کی جگہ بدلی جائے، اس پر عمل نہ کیا گیا۔

طلباء کے ہمراہ غنڈے تھے جنہوں نے پتھر برسائے تب پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ غنڈوں کو آنسو گیس کی مدد سے ہٹایا گیا تو جنازہ کا میدان پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ لوگوں نے جس بے حسی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس پر افسوس ہوتا ہے۔ کہ نماز جنازہ کی جگہ عبرت انگیز ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ اس پہ بھی بازنہ آئے۔*

نوٹ:۔ یہ مضمون خالد احمد کی کتاب
Sectarian war: Pakistan Sunni Shia Violence and its links to the Middle East
سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے شائع کی ہے۔ اس کتاب کا یہ حصہ فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوا۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جناح صاحب ایک دیانت دار اور صاحب عزم و ہمت انسان تھے اور ان میں بہت سی شخصی خوبیاں پائی جاتی تھیں لیکن دین و مذہب کا زیادہ علم نہ رکھتے تھے؛یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ آگا خانی سے شیعہ ہو گئے تھے۔وہ عوامی بیانات کی حد تک پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی بات کرتے تھے لیکن ان کا ذہن واضح نہ تھا؛اسی لیے انھوں نے اپنی کابینہ میں ہندو اور کابینہ کو بھی اساسی عہدوں پر فائز کر رکھا تھا؛اسی طرح اپنی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر میں بھی دانستہ یا نادانستہ سیکولر نظریے کی حمایت کر گئے تھے جس کی توجیہ و تاویل کی ناکام کاوشیں آج تک جاری ہیں ؛اصل بات یہ ہے کہ انھیں علم ہی نہ تھا کہ حقیقی اسلام کیا ہے؛وہ سمجھتے تھے کہ صرف نام قرآن اور اسلام کے نفاذ کے یہی معنی ہیں کہ اصول یہاں سے لیے جائیں لیکن ان کی تطبیق جدید طریقے پر ہو جس میں مسلم اور غیر مسلم چاہیں برابر کے شہری قرار پائیں تو بھی یہ خلاف اسلام نہیں!!
کچھ عرصہ پہلے اردو مجلس فورم پر اسی حوالے سے ایک موضوع پر میں نے کچھ نکات اٹھائے تھے لیکن وہاں اختلاف برداشت نہیں کیا جاتا اور بعض ارکان ذاتیات پر طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں اور انتظامیہ کے افراد جانب داری سے کام لیتے ہیں؛مجھے وہاں مراسلوں سے روک دیا گیا تھا؛اس کا لنک حاضر ہے:
کیا قائداعظم سیکولر تھے ؟
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
ابو سلمان شاہجہانپوری کی محمد علی جناح کی زندگی پر ایک کتاب ہے۔ اسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ نیٹ پر میرے علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جناح صاحب ایک دیانت دار اور صاحب عزم و ہمت انسان تھے اور ان میں بہت سی شخصی خوبیاں پائی جاتی تھیں لیکن دین و مذہب کا زیادہ علم نہ رکھتے تھے؛یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ آگا خانی سے شیعہ ہو گئے تھے۔وہ عوامی بیانات کی حد تک پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی بات کرتے تھے لیکن ان کا ذہن واضح نہ تھا؛اسی لیے انھوں نے اپنی کابینہ میں ہندو اور کابینہ کو بھی اساسی عہدوں پر فائز کر رکھا تھا؛اسی طرح اپنی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر میں بھی دانستہ یا نادانستہ سیکولر نظریے کی حمایت کر گئے تھے جس کی توجیہ و تاویل کی ناکام کاوشیں آج تک جاری ہیں ؛اصل بات یہ ہے کہ انھیں علم ہی نہ تھا کہ حقیقی اسلام کیا ہے؛وہ سمجھتے تھے کہ صرف نام قرآن اور اسلام کے نفاذ کے یہی معنی ہیں کہ اصول یہاں سے لیے جائیں لیکن ان کی تطبیق جدید طریقے پر ہو جس میں مسلم اور غیر مسلم چاہیں برابر کے شہری قرار پائیں تو بھی یہ خلاف اسلام نہیں!!
کچھ عرصہ پہلے اردو مجلس فورم پر اسی حوالے سے ایک موضوع پر میں نے کچھ نکات اٹھائے تھے لیکن وہاں اختلاف برداشت نہیں کیا جاتا اور بعض ارکان ذاتیات پر طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں اور انتظامیہ کے افراد جانب داری سے کام لیتے ہیں؛مجھے وہاں مراسلوں سے روک دیا گیا تھا؛اس کا لنک حاضر ہے:
کیا قائداعظم سیکولر تھے ؟
میں نے آج پہلی مرتبہ اردو مجلس کی زیارت حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا
محمد علی جناح کے حوالے سے طاہر اسلام صاحب کی گفتگو کے جواب میں یوں محسوس ہورہا ہے کہ انہیں جامعہ رحمانیہ یا محدث فورم سے کوئی ذاتی دشمنی ہے اور حسن اتفاق سامنے طاہر اسلام آگئے ان کا سارا غصہ ان پر نکل گیا
ویسے منتظم اردو مجلس فورم صاحب کو خود تربیت کی سخت ضرورت ہے
 

salfisalfi123456

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
6
((تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسلون عما کانوا یعملون)) البقرہ
 

salfisalfi123456

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
6
بانی پاکستان پر نکتہ چینی کرنے والے بے شک اکھنڈ بھارت کے متمنی ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ آپ کو تو محمد علی جناح رحمہ اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے آپ کو ایک الگ ملک قائم کر کے دیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم لوگ آزادی کے ساتھ اپنے ملک میں رہ رہے ہیں
کاش نکتہ چینی کرنے والے حضرات پڑوسی ملک بھارت کے اوپر نظر دوڑاتے جہاں ہر روز کبھی گاو کشی کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی گھر واپسی کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں لہذا اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھیے کہ اس نے ملک خداداد پاکستان عطا کیا. لعلكم تشکرون..
وگرنہ آج ہم بھی ہندو سامراج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوتے اور مودی کافر ظالم کے تسلط کے زیر سایہ زندگی گزارنی پڑتی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بانی پاکستان پر نکتہ چینی کرنے والے بے شک اکھنڈ بھارت کے متمنی ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ آپ کو تو محمد علی جناح رحمہ اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے آپ کو ایک الگ ملک قائم کر کے دیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم لوگ آزادی کے ساتھ اپنے ملک میں رہ رہے ہیں
کاش نکتہ چینی کرنے والے حضرات پڑوسی ملک بھارت کے اوپر نظر دوڑاتے جہاں ہر روز کبھی گاو کشی کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی گھر واپسی کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں لہذا اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھیے کہ اس نے ملک خداداد پاکستان عطا کیا. لعلكم تشکرون..
وگرنہ آج ہم بھی ہندو سامراج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوتے اور مودی کافر ظالم کے تسلط کے زیر سایہ زندگی گزارنی پڑتی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی!
موضوع کا عنوان ہے :
"جناح شیعہ تھا اور اسکا غسل اور پہلا جنازہ بھی شیعہ نے پڑھایا"
اگر عنوان کی مطابقت سے آپ کچھ معلومات پیش کرسکتے ہیں تو آپ شکریے کے مستحق ہونگے۔۔۔ابتسامہ!!! ان شاء اللہ!
 
Top