• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنرل ضیاء الحق کا یوم شہادت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیمیں ختم کر دی تھیں تو کالعدم کا قیام کالجز میں کیسے ممکن؟

والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم

مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیمیں ختم کر دی تھیں تو کالعدم کا قیام کالجز میں کیسے ممکن؟

والسلام
وعلیکم السلام و رحمت الله -

PSF، جمعیت، ایم کیوایم، سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں وغیرہ ضیاء دور میں ہی معارض وجود میں آئیں - جو بعد میں کلعدم قرار پائیں -
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

جنرل ضیاء کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ آج بھی پاکستانی بھگت رہے ہیں جن میں پاکستانی کالجوں کی کالعدم تنظیموں کا قیام و سرپرستی،
مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیمیں ختم کر دی تھیں تو کالعدم کا قیام کالجز میں کیسے ممکن؟
PSF، جمعیت، ایم کیو ایم، سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں وغیرہ ضیاء دور میں ہی معارض وجود میں آئیں - جو بعد میں کلعدم قرار پائیں -
بھائی میرے آپ کو شائد اس پر کوئی خاص علم نہیں، مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیموں پر بین لگا دیا گیا تھا۔

کسی سے پوچھ لیں PSF پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کب سے تھی اور کس کی طرف سے اسے سپورٹ حاصل تھی، اور جمعیت پر بھی، ہو سکے تو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے اس دور کے کسی طالب علم سے یہ بھی پوچھ لیں کہ یونیورسٹی میں جہاں سوئمنگ پول ھے اس کے دونوں طرف کی آمنے سامنے بلڈنگز پر پی ایس ایف اور جمعیت کا جنگی تبادلہ کیوں ہوا تھا کہ بغیر کسی جانی نقصان کے بلڈنگز کو بہت نقصان پہنچا تھا۔

والسلام
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم

مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیمیں ختم کر دی تھیں تو کالعدم کا قیام کالجز میں کیسے ممکن؟

والسلام
وعلیکم السلام و رحمت الله -

PSF، جمعیت، ایم کیوایم، سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں وغیرہ ضیاء دور میں ہی معارض وجود میں آئیں - جو بعد میں کلعدم قرار پائیں -
السلام علیکم





بھائی میرے آپ کو شائد اس پر کوئی خاص علم نہیں، مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیموں پر بین لگا دیا گیا تھا۔

کسی سے پوچھ لیں PSF پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کب سے تھی اور کس کی طرف سے اسے سپورٹ حاصل تھی، اور جمعیت پر بھی، ہو سکے تو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے اس دور کے کسی طالب علم سے یہ بھی پوچھ لیں کہ یونیورسٹی میں جہاں سوئمنگ پول ھے اس کے دونوں طرف کی آمنے سامنے بلڈنگز پر پی ایس ایف اور جمعیت کا جنگی تبادلہ کیوں ہوا تھا کہ بغیر کسی جانی نقصان کے بلڈنگز کو بہت نقصان پہنچا تھا۔

والسلام
ممکن ہے آپ کی بات صحیح ہو -

لیکن جب میں نے کالج میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا اس وقت لاہور کے تمام کالجوں میں ایم ایس ایف ، پی ایس ایف اور جمعیت کا زور تھا - اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ جنرل ضیاء کی شہادت سے کچھ عرصے پہلے کا ہی زمانہ ہے -تو پھر یہ کہنا کہ مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تمام کالجز کی تنظیمیں ختم کر دی تھیں - چہ معنی دارد ؟؟
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
کیا واقعی ایم کیو ایم جنرل ضیاء الحق نے ہی بنائی تھی ؟
یا چونکہ ان کی حکومت تھی تو ہر گناہ ثواب ان کے سر پر
کیوں کہ میں بھی اس عرصے میں سکولنگ لائف میں تھی اور چونکہ میرے سارے گھر والے ایم کیو ایم تھے اور ابھی بھی ہیں لیکن ضیاء الحق کو اچھا نہ سمجھنے والے اور انہیں برا کہنے والے
میرے سسر رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیے کسی متبادل سیٹ اپ کی ضرورت تھی اور اس کے لیے جی ایم سید اور غوث علی شاہ کا اہم کردار ہے اور ضیاء الحق کو اس سلسلے میں براہ راست مورود الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اگر اس دور کے اخبارات دیکھ لیے جائیں تو بہت کچھ سمجھ آ سکتا ہے
بہرحال یہ ایک نقطہ نظر ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے
اور اصل بات یہ ہے کہ کسی نے بھی بنائی ہو دعا کریں ختم ہو جائے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں مين پیپلز پارٹی کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی! یعنی اکثریت حاصل نہ کر سکی! بالخصوص کراچی میں تو جماعت اسلامی کا اثر تھا،
اور وہ کراچی سے جیتا کرتے تھے، ضیاء کے دور میں ہونے والے دونوں بلدیاتی انتخابات بھی جماعت اسلامی کے عبد الستار افغانی کراچی کے مئیر بنے!
اور جماعت اسلامی تو ضیاء الحق کی حلیف رہی ہے، جماعت اسلامی کا توڑ کرنے کی ضیاء الحق کو یا اس وقت کی حکومت کو کیا ضرورت تھی کہ جماعت اسلامی کے مقابلے میں وہ ایم کیو ایم تشکیل دیتے!
دوم کہ ایم کیو ایم تو شروع سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حلیف رہی ، حتی کہ 1988 کے عام اتنخابات میں فوجیوں کی کواہش تھی کہ وہ آئی جے آئی کے ساتھ شامل ہو، لیکن ایم کیوایم پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئی!
لیکن یہ بات کہ ایم کیو ایم ضیاء الحق یا فوجیوں نے بنائی ہے اتنی مشہور ہے کہ قرائین کی جانب لوگ نگاہ بھی نہیں کرتے!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جب ایم کیو ایم بنی، یہ احقر اس وقت بھی صحافت سے منسلک تھا، اس لئے مجھے یاد ہے سب کچھ ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ۔ مسکراہٹ

اس وقت غوث علی شاہ زندہ ہیں، جو اُس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ اور ضیاء الحق کے ”نور نظر“ تھے۔ غوث علی شاہ کئی بار پبلک میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ضیاء الحق کی ہدایت پر کراچی میں ایم کیو ایم کو انہوں نے بنوایا تھا۔ گویا (مبینہ طور پر ) ”مہاجروں کے حقوق“ کے لئے الطاف حسین کی قیادت میں جو سیاسی پارٹی بنی اُسے ایک پنجابی آرمی چیف اور صدر کی ہدایت پر ایک سندھی وزیر اعلیٰ نے بنوائی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے کراچی (اور پاکستان) کی صحافتی برادری بخوبی واقف ہے۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے باقاعدہ اعلان سے قبل الطاف حسین اپنی ٹیم کے ہمراہ جی ایم سید سے ان کے گاؤں جاکر ملے اور ان سے ایک ”خفیہ معاہدہ“ کرکے ان کی آشیرواد حاصل کیا تھا۔ اس ملاقات کی خبر گو پاکستان کے قومی اخبارات میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اس ملاقات کی تصویری خبر محمد صلاح الدین نے اپنے پرچہ میں شائع کردی تھی۔ یہ وہی صلاح الدین ہیں، جنہیں ایم کیو ایم نے 1994 میں گولی مارکر شہید کردیا تھا۔ الطاف اور جی ایم سید میں کیا معاہدہ ہوا تھا۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن ایک صاحب نے جو ایم کیو ایم میں اے پی ایم ایس او کے دور سے ہیں اور فاروق ستار و گورنر عشرت العباد کے بہت قریب بتلائے جاتے ہیں، نے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ہمارا جیئے سندھ سے یہ معاہدہ ہے کہ پہلے سندھو دیش بنے گا۔ پھر مہاجروں کا جناح پور۔ جب میں نے کہا کہ کیا وہ اتنے بے وقوف ہیں کہ سندھو دیش بنانے کے بعد وہ ”سندھ کا کریم“ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے آپ کو دے دیں گے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں ہیں۔ اس معاملہ میں اقوام متحدہ بھی ”فریق اور شریک“ ہے ۔ خیر یہ بات تو ضمناً قلم سے نکل گئی۔ بات ہورہی تھی جنرل ضیاء کی۔

جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی سے اقتدار چھینا تھا، لہٰذا وہ فطری طور پر پی پی پی سے خائف تھے۔ چنانچہ انہوں نے پی پی پی کے مقابلہ میں اندرون سندھ جی ایم سید (جئے سندھ والے) کو سپورٹ کیا۔ جب وہ جناح اسپتال میں زیر علاج تھے تو ضیاء کی طرف سے انہیں پھولوں کا گلدستہ بھیجا گیا۔ سندھ کی سرکاری ملازمتوں میں بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کو بلا وجہ توسیع دی گئی، جس کا سارا فائدہ اندرون سندھ کے سندھیوں کو ہوا اور جے سندھ والے خوش ہوئے۔ تو دوسری طرف شہری سندھ (کراچی، حیدرآباد، سکھر) میں مہاجروں کی ایک پارٹی ایم کیو ایم کو سندھ حکومت اور آرمی ایجنسی کی سپورٹ سے اس طرح منظم کیا گیا کہ اس نے شہری سندھ کی تقریباً تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں جیت لیں۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس نے ایک طلبہ تنظیم ”آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ۔ اے پی ایم ایس او“ کی کوکھ سے جنم لیا۔ باقی تمام سیاسی جماعتوں نے طلبہ تنظیموں کو جنم دیا ۔ اے پی ایم ایس او آٹھ سال تک کراچی کے تعلیمی اداروں میں رہنے کے باوجود کبھی بھی طلبہ یونین میں کامیاب نہیں ہوئی اور ہر جگہ اسلامی جمیعت طلبہ (جماعت اسلامی کا طلبہ ونگ) سے شکست کھائی۔ لیکن نویں سال یہ جیسے ہی ایم کیو ایم میں ڈھلی، دیکھتے ہی دیکھتے پوری کراچی، اور حیدرآباد و سکھر کے مہاجر بستیوں کی ”نمائندہ جماعت“ بن گئی۔ آئی ایس آئی اور غوث علی شاہ کی حکومت کی آشیرواد سے۔

یہ آئی ایس آئی میں ایم کیو ایم کے ”خیر خواہ“ ہی تھے جنہوں نے بعد ازاں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی خبر الطاف حسین کو پیشگی دی اور انہیں بحفاظت لندن بھجوایا۔ بعد میں ایم کیو ایم نے ”ترقی“ کرکے آئی ایس آئی کی گود سے پہلے راء کی گود میں اور پھر امریکی سی آئی اے کی گود مین چلی گئی۔ یوں آئی ایس آئی کی ”پہنچ“ سے بہت دور نکل گئی۔

ایم کیو ایم سے قبل سندھ میں مہاجروں کے ووٹ جماعت اسلامی، جے یو پی، آزاد اور دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بٹی ہوئی تھی جبکہ سندھیوں کے سارے ووٹ پی پی کے تھے۔ یوں وہ سندھ کی حکومت بآسانی بنا لیتی تھی۔ ایم کیو ایم کی شکل میں سندھ اسمبلی میں پی پی پی کے سامنے ایک بڑی قوت کھڑی ہوگئی اور یہی جنرل ضیاء کا ”پلان“ تھا۔ بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے چنانچہ پی پی پی کے مقابلہ میں نو ستاروں کا مشہور پاکستان قومی اتحاد۔ پی این اے بنا۔ اسی پی این اے والون نے جنرل ضیاء کو ”مداخلت“ کی دعوت دی اور وہ مارشلا لاء لے آئے۔ ابتدا میں پوری پی این اے بشمول جماعت اسلامی جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ مگر جماعت والے جلد ہی حکومت سے الگ ہوگئے کہ ضیاء کا مذہبی رجحان تبلیغی جماعت اور صوفیوں والا تھا، جو جماعت کے مذہبی مزاج سے غیر ہم آہنگ تھا۔

ابھی اس ”سیاسی دوری“ میں زیادہ توسیع نہین ہوئی تھی کہ ”افغانستان کا جہاد“ عروج کی طرف گامزن ہونے لگا۔ ضیاء نے سویت یونین کی افغانستان سے آگے پاکستان تک کی ممکنہ پیش قدمی روکنے کے لئے امریکہ کو فوجی اور مالی معاونت کرنے پر رضامند کرلیا۔ (امریکہ کا اپنا مفاد الگ تھا) اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو اس جہاد میں شرکت کی دعوت دی جسے جماعت نے قبول کرلیا۔ جماعت اسلامی نے اپنی طلبہ تنظیم کو بھی اس معاملہ میں پاکستانی حکومت یعنی ضیاء کی حمایت پر بڑی مشکل سے رضامند کیا۔ کیونکہ جمعیت ضیاء کی زخم خوردہ تھی۔ پورے پاکستان مین طلبہ تنظیم کے انتخابات میں جمیعت نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور اس کامیابی کے فوراً بعد ضیاء نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگادی جس کا سب سے بڑا نقصان جمیعت کو ہوا تھا اور وہ ضیاء سے شدید ناراض تھی۔

جہاد افغانستان وہ واحد نکتہ تھا، جس پر جماعت اسلامی اور ضیاء حکومت ”ایک پیج“ پر تھی، ضیاء کی شہادت تک۔ وگرنہ جمیعت پر پابندی، ایم کیو ایم کی تشکیل، کراچی میں عبد الستار کی دوسری مئیر شپ کا جبری خاتمہ، جماعت اسلامی کے ”مذہبی و سیاسی تصور“ سے الگ ضیاء الحق کا مذہبی وسیاسی تصور ۔ یہ سب جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء الحق کو ایک دوسرے سے ”دور“ ہی کئے ہوئے تھا۔ لیکن چونکہ یہ ”دونوں“ (جنرل ضیاء اینڈ کمپنی اور جماعت اسلامی) ہی ”نماز روزہ“ کے پابند تھے۔ اور ”شراب و شباب“ سے دور تھے ۔۔۔ اس لئے ملک کے ”سیکولر، بے دین“، طبقہ اور میڈیا نے یہ بات مشہور کردی کہ کہ دونوں ایک ہی ہیں بلکہ جماعت اسلامی کو ضیاء کی بی۔ٹیم بھی کہا جانے لگا۔ لیکن یہ ”واقفان حال“ ہی جانتے ہیں کہ ان دونوں میں کتنی ”دوری“ تھی۔ افغان جہاد وہ واحد فیکٹر تھا، جس پر دونوں ”متحد“ تھے۔ اور عوامی سطح پر جہاد افغانستان کو پاپولر اور قابل قبول بنانے میں جماعت اسلامی کا جو ہاتھ اور کردار ہے، وہ کسی اور کا نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے نوجوان جو قبل ازیں جہاد کشمیر میں لڑتے رہے تھے، افغانستان کے اندر جاکر لڑتے اور شہید ہوتے رہے۔۔۔ ان تمام باتوں کی ”گواہی اور صداقت“ ضیاء دور کے پاکستانی صحافت سے بخوبی لی جاسکتی ہے۔
 
Top