• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنرل ضیاء الحق کا یوم شہادت

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کچھ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں ک ہم جنرل مشرف ملعون کے مخالف اور ضیاءالحق شہید کے قائل کیوں ہیں ..جبکہ دونوں فوجی آمر تھے ...یاد رکھیے ہمارا پیمانہ نہ آمریت ہے نہ جمہوریت ، نہ بادشاہت ہے نہ شہنشاہیت ....ہمارا پیمانہ صرف اور صرف "اسلام " ہے ..ہم اسی پیمانے سے ناپتے اور تولتے ہیں ...جو اسلام دشمن ہو وہ نفرت کے لائق ہے خواہ زرداری جیسا "جمہوری صدر" کیوں نہ ہو یا مشرف جیسا فوجی آمر ....اور جس کے اقدامات سے دین اسلام اور مسلم امّہ کو فائدہ ہوا ہو ... وہ قابل ستائش ہے ...جیسے جنرل محمّد ضیاءالحق شہید ....

پاکستان کا واحد حکمران جو پنج وقتہ نمازی ہی نہیں، تہجد گذار بھی تھا...عاشق رسول تھا ..اور روضہ رسول کی جالیاں تھام کر گھنٹوں روتا رہتا تھا ..اسلام اور جہاد سے مخلص تھا ...
اس کا ایک بڑا کارنامہ ...دنیا کے واحد سویلین مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر، تارکَ نماز روزہ ،" ہاں میں شراب پیتا ہوں، عوام کا خون نہیں" ،" میری کرسی بہت مضبوط ہے "، جیسے جملے بولنے والے، حکومت میں آنے کے بعد اپنی ہی پارٹی کے بانیوں پر ظلم و تشدد کروانے والا،ملک میں فحاشی، عریانی، شراب نوشی کو فروغ دلوانے والا حکمران ۔ ۔ ۔ ذوالفقار علی بھٹو.... سے ملک کے عوام کو نجات دلانا تھا ..
ضیا ء الحق کی شہادت پوری مسلم امّہ میں انتہائی دکھ اور افسوس سے سنی گئی ... دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں ،اسلامی اداروں اور تنظیموں کے ذمّہ داروں اور اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے ان کے جنازہ مین شرکت کی۔ اس جنازہ مین ایک اندازے کے مطابق بیس سے پچیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔پورے ملک مے صف ا ماتم بچ گئی اور لوگ زار و قطار روتے رہے..
پاکستان کا واحد حکمران جس نے گیارہ برس تک حکمرانی کی اور اپنے کسی اولاد کو سیاست میں نہیں لایا۔ خاندانی سیاست نہیں کی۔ اور گیراہ برس تک ملک کا سفید و سیاہ مالک ہونے کے باوجود ایک پیسہ کی کرپشن نہیں کی۔ ضیاء کے بعد آنے والی بے نظیر کی حکومت نے ساری حکومتی مشنری کے استعمال کے باجود ضیاء الحق اور ان کے خاندان پرکرپشن کا کوئی الزام تک نہیں لگا سکی۔
جنرل ضیا ء الحق شہید ہی کی ولولہ انگیز قیادت مین جہاد افغانستان اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ دنیا کی دوسری سپڑ پاور کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اور وہ اپنے زخم چاٹتا ہوا اس طرح واپس ہوا کہ خود ٹکڑےٹکڑے ہوگیا۔ اگر جہاد افغانستان خدا نخواستہ ناکام ہوتا تو سویت یونین کو پاکستان کو روندتے ہوئے گرم پانیوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ ایسی صورت مین آج پاکستان کا کیا حشر ہوتا، اسے تصور کرنا ہو تو ان وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کو روسی تسلط کے دور میں دیکھیں، جو آج آزاد ہونے کے باوجود اسلام اور اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہیں۔
جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان کے آئین کو "مشرف بہ اسلام" کیا گیا۔ نطام صلٰوۃ و نطام زکوٰۃ قائم کیا گیا۔ بھٹو کے دور مین شراب و شباب تو عام دستیاب تھے۔ مگر کسی سرکاری دفتر میں نماز با جماعت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ضیا کے دور مین شراب و شباب کو پابند سلاسل کیا گیا اور بیشتر سرکاری اداروں میں نماز باجماعت کا اہتمام کیا گیا
سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان میں کمیونزم اور سوشلزم کا نام لیوا نہ رہا۔ اب جملہ اکستانی کمیونسٹ و سوشلسٹ امریکی گود مین جا گرے۔

واضح رہے کہ ضیاء الحق شہید بھی ایک انسان ہی تھے، جو خامیوں سے مبرا ہرگز نہیں تھے۔ ان کی کئی سیاسی پالیسیاں سراسر غلط بھی تھیں۔ جیسے ایم کیو ایم کی تخلیق اور جئے سندھ کی سرپرستی۔ اس کے علاوہ اپنے دور حکومت کو طول دینے کے لئے جعلی ریفرینڈم کروانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بحیثت مجموعی جنرل ضیاء الحق کا دور حکومت دیگر ادوار حکومت سے بہت بہتر تھا۔ سیاسی اعتبارسے بھی اور دینی اعتبار سے بھی۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جنرل ضیاالحق شہید کی راجیو گاندھی کو دھمکی ...!!

انڈیا ٹو ڈے کے نامہ نگار اپنے مضمون "ضیاء الحق کا دورہ ہندوستان" میں راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر "بہرامنام " کے تاثرات یوں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔!!!

" جنرل ضیاءالحق بغیر کسی دعوت کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی پہنچے ۔ اس وقت راجیو گاندھی اس کو ائر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے ۔ انڈین افواج راجھستان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں ۔ ان حالات میں ضیاء الحق سے ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا ۔ لیکن کیبنٹ کے اراکین اور اپوزیشن لیڈرز کا خیال تھا کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ضیاء الحق کی دہلی آمد ( وہاں سے انہوں نے چنائی جانا تھا میچ دیکھنے) پر اس کا استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہوگا اور ان حالات میں پوری دنیا میں انڈین لیڈرز کے بارے میں غلط فہمی پھیلی گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

ہمارے مطالبے پر راجیو گاندھی ضیاء الحق سے ملنے ائر پورٹ پہنچا اور اس نے نہایت سرد مہری سے ضیاء کی آنکھوں میں دیکھے بغیر اس سے ہاتھ ملایا ۔ راجیو نے مجھے سے کہا کہ " جنرل صاحب نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے آپ اس کے ساتھ جائیں اور ان کا خیال رکھیں "۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا اور راجیو کے ہتک آمیز رویے پر بھی اس کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ قائم رہی ۔۔۔۔۔!!

چنائی کے لیے روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو خدا حاٖفظ کہنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔۔" مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں ۔ لیکن یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاءالحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی ۔ کیونکہ یہ ایک روائیتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ "

راجیو گاندھی کے پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ۔ جبکہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ صرف کچھ لمحات کے لیے ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا ۔ اس کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا اور اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر لازمً عمل کرے گا اور پورے بر صغیر کو ایٹمی جنگ کی مدد سے راکھ میں تبدیل کر دے گا ۔

میں دہل کر رہا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اس نے کھڑے دیگر لوگوں سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ میرے اور راجیو کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بات جنرل ضیاالحق شہید کی ذات کی نہیں ہے ..بات ان کے دور میں ہونے والی اسلامی قانون سازی کے تحفّظ کی ہے ..اسلامی تہذیب اور شعائر کی حفاظت کی ہے ..کچھ لوگ ضیاء شہید کو نشانے پر لے کر وقت کا پہیہ الٹا گھمانا چاہتے ہیں تاکہ ان سارے قوانین کو کالعدم قرار دیا جا سکے جو ان کے دور میں بنے ...مَثَلاً ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ...اس لئے ضیاء شہید کا نام بعض لوگوں کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے بلکہ یوں اچھلتے کودتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے ..... اور تعجّب ہے کے جمہوریت کے ان متوالوں کو نہ جنرل پرویز مشرّف کے نام سے اتنی آگ لگتی ہے نہ رسواۓ زمانہ جنرل یحییٰ کے نام سے....
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
ان حقائق کا تذکرہ بھی کیا جاتاتو مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہ رہتی۔
جنرل ضیاالحق کو مرد حر کا خطاب کیونکر ملا۔
ضیاع الحق کی ایک یاد گار تصویر جب 1970 میں وہ بریگیڈیر تھا اور وہ اُردن میں فلسطینیوں کا صفایا کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہا تھا۔ اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا "اتنے فلسطینی ہم نے بیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاع الحق نے گیارہ دن میں مار ڈالے"۔ یہ شخص بعد میں مرد مومن، مرد حق کہلایا۔
لنک:
مزید تفصیل کے لیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Black_September_in_Jordan
بلیک ستمبر کے واقعات کو تفصیل سے پڑھیں ، اور مسٹر ضیاء کی ملٹری پروفائل خود سے زرہ جی ایج کیو سے نکلوا لیں تاکہ آپ کو انکے بلیک ستمبر میں فلسطینوں کے قتل عام سے قبل اپنے کمنشنڈ آفیسر کے دور کے کارنامے بھی معلوم ہو جائیں ۔جو انہوں نے تاج برطانیہ کے لیے دوسری جنگ عظیم میں سر انجام دیے ، جس سے مسلم ملت 57 ملکوں میں تقسیم ہو گئی ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میرے تایا جان اسلام آباد، ایف آئی اے جی ایچ کیو میں اسسٹنٹ دائریکٹر تھے جب بے نظیر پہلے مرتبہ وزیر اعظم بنی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ جب صبح آفس پہنچے تو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کسی خاص فورس کے گھیرے میں تھا اور پورا عملہ کو گیٹ پر روک دیا گیا کہ اندر انکوئری ہو رہی ھے اس لئے اس وقت تک داخلہ منع ھے۔ خیر انہوں نے بتایا کہ بےنظیر اپنے والد محترم کے قتل اور مرحوم جنرل ضیاء الحق پر کرپشن و مالیت پر ریکارڈ تلاش کرنے آئی تھی، مگر اسے ایسا کچھ بھی نہیں ملا۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ان حقائق کا تذکرہ بھی کیا جاتاتو مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہ رہتی۔
جنرل ضیاالحق کو مرد حر کا خطاب کیونکر ملا۔
ضیاع الحق کی ایک یاد گار تصویر جب 1970 میں وہ بریگیڈیر تھا اور وہ اُردن میں فلسطینیوں کا صفایا کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہا تھا۔ اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا "اتنے فلسطینی ہم نے بیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاع الحق نے گیارہ دن میں مار ڈالے"۔ یہ شخص بعد میں مرد مومن، مرد حق کہلایا۔
لنک:
مزید تفصیل کے لیے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Black_September_in_Jordan
بلیک ستمبر کے واقعات کو تفصیل سے پڑھیں ، اور مسٹر ضیاء کی ملٹری پروفائل خود سے زرہ جی ایج کیو سے نکلوا لیں تاکہ آپ کو انکے بلیک ستمبر میں فلسطینوں کے قتل عام سے قبل اپنے کمنشنڈ آفیسر کے دور کے کارنامے بھی معلوم ہو جائیں ۔جو انہوں نے تاج برطانیہ کے لیے دوسری جنگ عظیم میں سر انجام دیے ، جس سے مسلم ملت 57 ملکوں میں تقسیم ہو گئی ۔
یقیناً یہ بھی فوجی ضیاء الحق کی ایک ”سیاہ تصویر“ ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن جب کوئی فرد کسی مملکت کی سربراہی جیسے اعلیٰ اور خود مختار منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ تب اس کے بعد اس کے ”سفید و سیاہ کارناموں کے مجموعہ“ کا موازنہ اس کی ”غیر مختارانہ“ زندگی سے کیا جاتا ہے۔ اگر دونوں ادوار کے کردار ”ایک جیسے“ ہوں تب تو اس کی سابقہ زندگی کے ”کارنامے“ بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر بعد کے ادوار میں ایسا شخص ”تبدیل شدہ“ نظر آئے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی سابق زندگی سے رجوع کرلیا ہے۔ جیسے اگر کوئی آج عمران خان کو اس کی ”پلے بوائے والی زندگی“ کے ایک واقعات کی تفصیلات بتلا کر آج کے عمران خان کی ”مذمت“ کی جائے تو یہ ایک احمقانہ سی بات ہے۔ البتہ ”تبدیل شدہ عمران خان“ کی موجودہ سیاسی یا سماجی زندگی کے ”منفی واقعات“ پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ اور آج عمران خان اچھا ہے یا بُرا، اس کا ”فیصلہ“ آج کے تبدیل شدہ عمران خان کے مجموعی کردار کو دیکھ کر لگایا جائے گا۔ اگر اچھائیوں کا تناسب اچھا ہے تو وہ ”اچھا“ ہے۔ ورنہ برا۔ بلا تمثیل عرض ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو ان کی ”سابقہ جہالت والی زندگی کے کاموں“ کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔ جبکہ وہ اس کے بعد ایک تبدیل شدہ فرد کے طور پر سامنے آئے۔ ہاں ایمان لانے کے بعد یا خلافت سنبھالنے کے بعد کی ان کی زندگی کاجائزہ لے کر اس تبدیل شدہ دور میں ان کے ”کام یا سیاسی فیصلوں“ پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ اور اس تبدیل شدہ دور کے جملہ کام ہی کی بنیاد پر ان کی ”شخصیت“ کا فیصلہ کیا جائے گا نہ کہ دور جہالت + دور ایمان کے جملہ ”کام“ کی بنیاد پر۔
آرمی چیف بننے اور پاکستان جیسی مملکت کا صدر بننے کے بعد ضیاء الحق ایک ”مکمل تبدیل شدہ شخصیت“ کی حیثیت میں سامنے آتا ہے۔ اس عہد میں یہ پاکستانی عوام کو بھٹو کے ظلم و جبر سے نجات دلاتا ہے۔ بے دینی، عریانی و فحاشی کی جانب ”ترقی“ کرتا پاکستانی معاشرے کا رُخ موڑتا ہے۔ رمضان آرڈیننس نافذ کرکے رمضان میں ہوٹلوں ریستوران کو دوران روزہ بند کرواتا ہے۔ دفاتر میں نظام صلوٰۃ قائم کرتا ہے۔ ملک میں زکوٰۃ کا نظام قائم کرتا ہے۔اخبارات اور پی ٹی وی کی فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ پر رکاوٹ ڈالتا ہے۔ آئین پاکستان کو پہلے سے زیادہ اسلامی بناتا ہے۔ جہاد افغانستان میں ایک طرف سویت یونین سے ”لڑتا“ ہے تو دوسری طرف امریکہ کو ”ڈکٹیشن“ دے کر اپنی مرضی اور پاکستان کے مفاد میں امریکی وسائل کو استعمال کرتا ہے۔ ملک کو ایٹمی طاقت بناتا ہے۔ بھارت کو ہندو مذہب سمیت دنیا سے نیست و نابود کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہی بھارت، جس نے صرف چند سال پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کرچکا ہوتا ہے۔ پاکستان کا پہلاحکمران جس نے علماء کرام کو عزت و وقار ہی نہیں دیا بلکہ سیاسی امور میں ان سے مشورہ لیتا ہے۔ ملک کا ”ڈکٹیٹر اور مکمل خودمختار بادشاہ “ ہونے کے باوجود عجز و انکساری کا نمونہ اور ہر قسم کی مالی کرپشن سے پاک ہوتا ہے۔ جس نے فوجی میس اور سرکاری بیوروکریسی کی ضیافتوں میں شراب کو بند کروایا۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ”پہلے والا ضیاء الحق“ جس کے ”سابقہ منفی کردار“ کو بڑے فخر سے گنوایا جارہا ہے۔ اگر ”شخصیات کی تجزیہ نگاری“ کے فن سے آشنائی نہ ہو تو بندے کو اس جانب کا رُخ ہی نہیں کرنا چاہئے۔ ورنہ کل کلاں کو آپ جیسا ”تجزیہ نگار“ حضرت عمر رضہ اللہ تعالیٰ کی ”کردار کشی“ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ”آپ تو وہی تھے نا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے بھی نکل کھڑے ہوئے تھے۔“
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

@یوسف ثانی صاحب عمدہ اور معلوماتی اور سچائی پر مبنی تحریر-

جنرل ضیاء کا دورحکومت میرے بچپن کا دور ہے- میں اس وقت سیکنڈری اسکولنگ میں تھا اور اس وقت کی کئی باتیں ابھی بھی ذہن میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں -جنرل ضیاء ایک اسلام پرست انسان تھے - اور انہوں نے بھٹو دورکے برعکس ملک میں نفاذ اسلام کی پھرپور کوشش کی اور پیپلز پارٹی کے ظلم و ستم، فحاشی، بے حیائی، شراب نوشی کے فروغ کے خلاف کھل کر مزاحمت کی- ہاں یہ ضرور ہے کہ جنرل ضیاء کو اپنے دور حکومت میں امریکہ کی نرم پالیسی کی مدد حاصل رہی - کیوں کہ امریکہ روس کو برصغیر میں بے دخل کرنے کے لئے اس وقت پاکستانی حکام اور جہادیوں کی ہر بات مان رہا تھا - اس لئے اس وقت اسے پاکستان میں اسلام کا نفاذ بھی دل و جان سے قبول تھا - اور جنرل ضیاء نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا - حتیٰ کہ جنرل ضیاء کی سربراہی میں پاکستان کو خفیہ طور پر ایٹمی طاقت بننے میں بھی حکومتی سپورٹ حاصل رہی- جنرل کی سربراہی میں امریکہ جانے والے وفد اور بیرون ملک مندوبین نے سب سے پہلے یونائیٹڈ نیشن کے اجلاس میں قاری وحید ظفر قاسمی کی تلاوت قرآن سننے کا اعزاز بھی حاصل کیا- یہ بھی اپنی مثال آپ ہے- میرے خیال میں بحثیت مجموئی دور جنرل ضیاء بعد کے بنظیر اور نواز شریف دور حکومت اور دور حاضر سے کئی گنا بہتر دور تھا -

البتہ کچھ معاملات میں جنرل ضیاء کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ آج بھی پاکستانی بھگت رہے ہیں -جن میں پاکستانی کالجوں کی کالعدم تنظیموں کا قیام و سرپرستی، ایم کیو ایم کا قیام ، افغانی جہادی تنظیموں کی پاکستانی علاقوں میں پناہ دینا خصوصاً کرچی اور اس کے مضافات میں افغانی بستیوں کا قیام وغیرہ شامل ہیں -
 
Top