یہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیٹوں کی شادی کر نے کے ساتھ ہی اسے ایک ”الگ گھر“ میں آزادانہ رہنے سہنے کی سہولت بھی فراہم کرے۔ بیٹوں کی شادی کے وقت باپ اگر صاحب جائیداد ہے تو اپنی زندگی ہی میں اپنے بچوں میں اسے اس طرح تقسیم کردے کہ ہر ایک کو رہنے سہنے کے لئے ”الگ گھر“ مل سکے۔ الگ گھر الگ الگ مکانات پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے اور ایک ہی بڑے گھر کی الگ الگ پورشن پر بھی۔ ”الگ گھر“ میں کم از کم دو باتیں ضرور ہونی چاہئے۔ ایک تو پرائیویسی، دوسرے الگ الگ کچن، جس میں ہر بہو آزادی سے اپنا الگ کھا پکا سکے۔ روزمرہ کی معمولات زندگی کا خرچہ الگ الگ، جو بہت سی برائیوں اور فسادات سے بچاتا ہے۔
میں ذاتی طور پر ان دونوں نظام کے ”درمیانی نظام“ کا قائل ہوں۔ میں خود اپنی مثال پیش کرتا ہوں۔ میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں اور اپنے چار بچوں کی شادیوں کا آغاز کرنے والا ہوں۔ میں نے اپنی جملہ جمع پونجی سے ایک ایسی ”کمرشیل بلڈنگ“ بنائی، جس کے ہر فلور کی الگ الگ قانونی ملکیت (سب لیز) ہوتی ہے۔ پھر میں نے ایک ایک فلور ایک ایک بچہ کے نام کردیا۔ ہر فلور ایک مکمل یونٹ (عرف عام میں اپارٹمنٹ) ہے۔ جس جس کی شادی ہوتی جائے گی، وہ اپنے اپنے یونٹ میں الگ آباد ہوتا جائے گا۔ اپنا کمائے گا، اپنا کھائے گا۔ مکمل پرائیویسی بھی رہے گی اور سارے بھائی ”ساتھ ساتھ“ بھی رہیں گے۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو، والدین اپنے بچوں کے اپنے گھر کے آس پاس الگ الگ مکانات لے کر دیں، یا اپنے بڑے مکان کے پورشن کردیں یا بڑا گھر بیچ کر ہر بچے کے لئے الگ الگ چھوٹے مکانات یا اپارٹمنٹ بنوا کر یا خرید کر دیدیں۔
ہم اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے کہ ہمارے بعد ہماری جائیداد کے وارث ہمارے بچے ہوں گے تو کیوں نہ انہیں اپنی زندگی میں ان کا متوقع حصہ دیدیں۔ تاکہ بعد میں کسی وجہ سے یہ جھگڑ نہ سکیں۔ بچوں میں کوئی خوشحال ہوتا ہے تو کوئی غریب۔ چنانچہ ہم اپنی زندگی میں ہر ایک کو اس کی ”ضرورت“ کے مطابق دے سکتے ہیں۔ مرنے کے بعد تو سب کو برابر کا حصہ ملے گا اور جو بچہ غریب ہوگا، عین ممکن ہے کہ اسے اپنے امیر بھائیوں کا تعاون نہ ملے اور وہ مالی پریشانی میں زندگی گذارے۔
اگر شادی کے بعد ”الگ الگ رہائشی یونٹس“ نہ بنے بلکہ ”آبائی یونٹ“ کی توسیع کی جاتی رہے تو صرف ایک دو نسلوں کے بعد ہی اتنی ”بڑی حویلی“ وجود مین آجاتی ہے کہ اس کا ”بٹوارہ“ بھی مشکل ہوجاتا ہے اور ”مشترکہ اخراجات وکھانے پینے“ کے سبب تنازعات میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ ایسے بڑے مشترکہ خاندانوں کا وزٹ کریں جہاں چار پانچ بھائی اپنے اپنے چار پانچ بچوں کے ساتھ ”مل جل“ کر رہتے بستے ہوں تو (استثنیٰ کے علاوہ) آپ کو ایسے ہر کاندان میں بہت سی خامیاں اور تنازعات لازمی نظر آئیں گے، بشرطیکہ آپ ”غیر جانبداری اور عدل“ کے ساتھ سروے کریں