• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
باپ اپنی زندگی میں اولاد کو ”مساوی عطیہ“ کیسے کرسکتا ہے ؟ مثلاً میرا ایک بچہ ایک ایسے تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے، جس کا سالانہ خرچہ پانچ لاکھ روپے ہے۔ جبکہ دوسرے بچہ کا سالانہ تعلیمی خرچہ ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔ میں ان دونوں میں ”مساوی خرچ“ کیسے کروں؟

مثلاً میرا بڑا بیٹا شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ ہے۔ اسے میرے ساتھ میرے گھر میں رہنے میں دقت ہوتی ہے۔ جبکہ دیگر بچے غیر شادی شدہ ہیں اور وہ بآسانی میرے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اب اگر میں بڑے بیٹے کے لئے الگ گھر خرید کر دے سکتا ہوں، جو اس کی حقیقی ضرورت بھی ہے تو کیا میں ایسا نہ کروں جبکہ میں سب کو مساوی گھر نہیں دے سکتا؟

سب سے چھوٹا بیٹا مجھ سے کہے کہ آپ نے بڑے بیٹے پر اب تک جتنا خرچ کیا ہے، اتنا مجھ پر خرچ نہیں کیا۔ لہٰذا حساب کتاب لگا کر فرق کے مساوی رقم مجھے دیجئے تاکہ آپ سب بچوں پر مساوی رقم خرچ کرسکیں۔ کیا مجھے چھوٹے بیٹے کا مطالبہ پورا کرنا ہوگا۔ اور اگر نہ کرسکا تو؟

”وراثت“ کی تقسیم کا فارمولہ تو دو اور دو چار کی طرح واضح اور صاف ہے۔ قرآن اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ میں زندگی میں بھی اپنے (ممکنہ) وارثوں میں وراثت کے قانون کے مطابق ہی ”عطیات“ تقسیم کروں۔ عطیہ، ہدیہ اور وراثت میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

اہل علم سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
22169: تحفہ دیتے وقت اولاد کے مابین برابری نہ کرنے کا حکم

کیامیرے لیے اولاد میں سے خاص کسی ایک کوتحفہ دینا جائز ہے کہ اس کے دوسرے بھائیوں کوتحفہ دوں ، اوراگر یہ تحفہ اس کے حسن اخلاق اوریا پھر والدین کی اطاعت کی بنا پرہوتوکیا حکم ہوگا ؟

Published Date: 2004-03-29

الحمدللہ

اما بعد :

علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تحفہ وھدیہ دیتے ہوئے اولاد کے مابین عدل وانصاف اوربرابری کرنا مشروع ہے ، لھذا اولاد میں سے کسی ایک کوخصوصا ھدیہ دینا اورباقی کونہ دینا جائز نہيں ہے ۔

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں کہا ہے :

برابری کرنے کے استحباب اورکسی ایک کودوسرے سے افضلیت دینے کی کراہت میں اہل علم کے مابین کوئي اختلاف نہیں پایا جاتا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 5 / 666 ) ۔

اولاد کے مابین تفضيل کے حکم میں علماء کرام کے کئي ایک اقوال ہیں جن میں سے دلائل کے لحاض سے دو قول قوی معلوم ہوتے ہیں ( واللہ اعلم ) انہیں ذيل میں ذکرکیا جاتا ہے :

پہلا قول :

اولاد کے مابین تفضیل مطلقا حرام ہے یعنی اولاد میں سے کسی ایک بچے کوھدیہ دینے میں افضلیت دینا مطلقا حرام ہے ، اورحنابلہ کے ہاں مشہور مسلک بھی یہی ہے ۔

دیکھیں : کشاف القناع ( 4 / 310 ) اورالانصاف ( 7 / 138 ) ۔

اورظاہریوں کا بھی یہی مذھب ہے ( یعنی یہ تفضیل کسی سبب کے ہویا بغیر کسی سبب کے ) ۔

دوسرا قول :

اولاد کے مابین تفضیل حرام ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی سبب ہوتو پھر جائز ہے ، امام احمد سے ایک روایت یہ بھی ہے ۔

اورابن قدامہ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے

دیکھیں : الانصاف ( 7 / 139 ) اور المغنی ( 5 / 664 ) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 31 / 295 ) ۔

فریقین نے اولاد میں تفضیل کی حرمت پرامام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے :

نعمان بن بشیر رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اورکہنے لگے : میں نے اپنا غلام اپنے اس بیٹے کودے دیا ہے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کیا آپ نے اپنے سب بچوں کواسی طرح دیا ہے ؟ توانہوں نے کہا نہيں ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : آپ اس سے وہ غلام واپس لے لیں ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2586 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

نعمان بشیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میرے والد نے مجھ پراپنا کچھ مال صدقہ کیا تومیری والدہ عمرہ بنت رواحۃ کہنے لگی کہ میں اس پراس وقت تک راضي نہیں ہو‎ؤنگی جب تک آپ اس پرنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ نہ بنادیں ، تومیرے والد نبی مکرم صلی اللہ علیہ کے پاس گئے تا کہ انہیں میرے صدقہ پرگواہ بنا سکیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :

کیا تونے اپنے ساری اولاد کے ساتھ ایسے ہی کیا ہے ؟ توانہوں نے جواب نفی میں دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے بابین عدل وانصاف سے کام لو ، میرے والد نے واپس آکر وہ صدقہ واپس لے لیا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2587 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 )۔

اورمسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے بشیر کیا آپ کے اس کے علاوہ اوربھی بچے ہیں ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

کیا آپ نے ان سب کوبھی اسی طرح مال ھبہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے : نہیں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھرمجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم وجور پر گواہ نہيں بنتا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

حدیث سے کئي ایک اعتبارسے دلالت ہورہی ہے :

اول : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدل وبرابری کرنے کا حکم دیا اورامروجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔

دوم : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان فرمانا کہ اولاد میں سے باقیوں کوچھوڑتے ہوئے صرف ایک کوتفضیل دینا ظلم وانصافی ہے ، اس کے ساتھ اضافہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دینے سے انکار کردیا اوراس سے وہ عطیہ واپس لینے کا کہنا یہ سب کچھ تفضیل کی حرمت پردلالت کرتا ہے ۔

ان اقوال کے قائلین نے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا ہے جن میں سے چندایک کوذیل میں ذکرکیا جاتا ہے :

حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ :

جس نے اسے واجب قرار دیا ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ : یہ واجب کے مقدمات وابتدایات میں سے ہے ، اس لیے کہ قطع رحمی اورنافرمانی دونوں ہی حرام کام ہیں جوحرام کام تک لےجانے کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے ، اورتفضیل بھی اسی حرام کام تک جانے کا سبب ہے ۔

دیکھیں : فتح الباری شرح صحیح بخاری ( 5 / 214 ) ۔

اس کی تائيد مسلم کی روایت کے الفاظ بھی کرتے ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس پرمیرے علاوہ کسی اورکوگواہ بنا لو ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تویہ پسند کرتا ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ حسن سلوک اورصلہ رحمی میں برابری کریں ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : توپھر ایسا بھی نہيں ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

اوراس کی حرمت کے دلائل میں یہ بھی ہے کہ : اولاد میں سے کسی ایک کودوسرے سے بہترجاننے اور تفضیل سے ایک دوسرے کے مابین بغض وعداوت نفرت پیدا ہوگي ، اوران کے اوروالد کے مابین بھی یہی چيز پیدا ہوگي لھذا اس سے منع کردیا گیا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 5 / 664 ) یہ بھی پہلے معنی جیسا ہی ہے ۔

دوسرے قول کے قائلین نے کسی مصلحت وحاجت یا پھر عذر کی بنا پرتفضیل کوجائز قرار دیا ہے اورامام مالک کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے :

امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب موطا میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نےانہیں غابہ نامی جگہ کی کجھوروں میں سے بیس وسق کھجوریں عطیہ کيں اور جب انہیں موت آنے لگی توانہوں نے فرمایا :

میری بیٹی اللہ کی قسم مجھے لوگوں میں سے سب سے زيادہ اچھا اورپسند یہ ہے کہ تم میرے بعد غنی اورمالدار رہو، اورمیرے بعد تیرا فقر میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے ، اگر توان کھجوروں کولے کراپنے قبضہ میں کرلیتی تووہ تیری تھیں ، لیکن آج وہ مال وارثوں کا ہے جوکہ تیرے دوبھائي اوردوبہنیں ہیں لھذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے میرے اباجان اللہ کی قسم اگر ایسے ایسے ہوتا تو میں اسے بھی ترک کردیتی ، ایک بہن تواسماء ہے اوردوسری کون ہے ، توابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ بنت خارجہ کے بطن میں ہے اورمیرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اپنی مایہ ناز کتاب فتح الباری میں کہتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے دیکھیں فتح الباری ( 5 / 215 ) ۔

اس سے وجہ الدلالت وہی ہے جوابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کی ہے ، وہ کہتے ہیں :

اس کا احتمال ہے کہ ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوان کی ضرورت کے پیش نظر کوئي خاص عطیہ دیا ہو کیونکہ وہ کمانے سے عاجز تھیں ، اس لیے بھی کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوخصوصیت اورفضیلت حاصل تھی کہ وہ ام المومنین بھی تھیں اوراس کے علاوہ بھی انہيں کئي ایک فضائل حاصل تھے ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 5 / 665 ) کچھ کمی وبیشی کے ساتھ ذکر کیا گيا ہے ۔

اس کے بارہ میں جواب دیا گيا ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے قصہ کے بارہ میں عروہ کا کہنا ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بھائي اس عطیہ پرراضي تھے ۔ فتح الباری ( 5 / 215 )

دیکھیں : کتاب العدل بین الاولاد صفحہ نمبر ( 22 ) اوراس کے بعد والے صفحات یہ اقتباس کچھ کمی وبیشی کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اسے مطلقا حرام قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب اغاثۃ اللھفان میں کہا ہے :

اگر صحیح اورصریح سنت جس کا کوئي معارض نہیں میں اس سے منع نہ بھی ثابت ہوتا توپھر قیاس اوراصول شریعت اورمصلحت کے ضمن میں اورمفاسد کوروکنے کے اعتبارسے بھی اس کی حرمت کا تقاضا ہوتا تھا ۔

دیکھیں : اغاثۃ اللھفان ( 1 / 540 ) ۔

اورفضیلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی اولاد کے مابین تفضيل کومطلقا منع قرار دیتے ہوئے کہا ہے :

اولاد میں سے ایک کودوسرے پر فضیلت دینی منع اوران کے مابین عدل وانصاف کرنا واجب ہے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ، انہیں ان کی وراثت کے مطابق ملنا چاہیے ، لیکن اگر وہ عاقل بالغ ہوتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں تو پھر ٹھیک ہے ۔

دیکھیں : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 115 - 116 ) ۔

اورشیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

انسان کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنےبعض بیٹوں میں سے کسی ایک کودوسرے پرافضلیت دیتا رہے ، لیکن لڑکی اورلڑکے کےمابین افضلیت ہوگی اورلڑکی کے مقابلہ میں لڑکے کوڈبل دیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے مابین عدل وانصاف کرو ۔

لھذا اگر کوئي اپنے کسی بیٹے کوسودرہم دیتا ہے اس پرواجب اورضروری ہےکہ وہ باقی بیٹوں کوبھی ایک سودرہم اوربیٹی کو پچاس درہم دے ، یا پھر جس بیٹے کواس نے سودرہم دیے ہیں اس سے واپس لے لے ، ہم نے جویہ ذکر کیا ہے وہ واجب نفقہ میں نہیں بلکہ نفقہ کے علاوہ ہے ، لیکن جونفقہ واجبہ ہے تواولاد میں سے ہرایک کواتنا ہی دیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے ۔

فرض کریں کہ اگر کوئي بیٹا شادی کرنے کا محتاج ہے تواس کی شادی کرے اوراس کا مہر بھی ادا کرے ، اس لیے کہ بیٹا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تواس صورت میں یہ لازم نہيں آتا کہ وہ باقی بیٹوں کوبھی اس شادی کرنے والے بیٹے جتنا ہی ادا کرے کیونکہ شادی کرنا تونفقہ میں شامل ہے ۔

میں چاہتاہوں کہ یہاں پرایک مسئلہ کی تنبیہ کردوں بعض لوگ جہالت کی بنا پراس کا ارتکاب کرتے رہتےہيں : وہ اس طرح کہ ایک شخص کی اولاد ہے اس میں سے کچھ توبالغ ہیں اورشادی کی عمرکوپہنچ چکے ہیں تووہ ان کی شادی کردیتا ہے اورکچھ بچے ابھی چھوٹے ہیں لھذا وہ ان چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہے کہ موت کے بعد انہيں بھی اتنا مال ادا کیا جائے جتنے میں بڑوں کی شادی کی ہے ۔

ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ یہ وصیت تووراث کےلیے ہوگي اوروارث کےلیے وصیت کرنی حرام ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( یقینا اللہ تعالی نے ہر حقدار کواس کا حق دے دیا ہے لھذا وارث کے لیے کوئي وصیت نہیں ) ۔

یہ الفاظ ابوداود کے ہیں دیکھيں ابوداود حدیث نمبر ( 3565 ) اورسنن ترمذی ( 2 / 16 ) وغیرہ نے بھی نے اسے روایت کیا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ان الفاظ والی سند کوحسن قرار دیا ہے اور( لاوصیۃ لوارث ) کے الفاظ والی روایت کوصحیح قرار دیا ہے دیکھیں ارواء الغلیل للالبانی ( 6 / 87 ) ۔

لھذا اگروہ یہ کہتا ہےکہ میں نے یہ مال ان کےلیے وصیت کردیا ہے کیونکہ اتنے مال سے میں نے ان کے بھائیوں کی شادی کردی تھی توہم اسے یہ کہيں گے کہ اگر یہ چھوٹے بچے بھی آپ کی موت سے قبل بالغ ہوجائيں اورشادی کی عمرتک پہنچ جائيں توان کی بھی اتنے مال سے شادی کردینا ، لیکن اگر وہ شادی کی عمرتک نہيں پہنچتے تو پھر آپ پران کی شادی کرنا واجب نہیں ہے ۔

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 30 ) ۔

واللہ اعلم .



Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کیا محتاج بیٹے کے قرض کی ادائيگي دوسری اولاد کے ہوتے ہوۓ جائز ہے

مجھے یہ علم ہے کہ اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، لیکن میرے ایک بیٹے پر بہت زيادہ قرض ہے اوروہ فقیر ہونے کی بنا پر ادا نہیں کرسکتا توکیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنے مال سےاس کے قرض کی کچھ ادائيگي کردوں ؟

Published Date: 2010-01-14

الحمدللہ

اولاد کے درمیان عدل کے وجوب کی تفصیل آپ سوال نمبر ( 22169 ) کے جواب میں دیکھیں ۔

اوراسی طرح ہبہ میں بھی اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، ان میں کسی ایک کی بھی تخصیص کرنا یا پھراسے افضلیت دینا حرام ہے لیکن اگر اس کا کوئ سبب ہوتو پھر جائز ہے ۔

تواگر کوئ چيز ایسی ہوجو تخصیص یا پھر افضلیت دینے کی با‏عث ہو تواس میں کوئ حرج نہیں مثلا اگراولاد میں سے ایک بیمار یا اندھا یا پھر معذور ہو یا اس کا گھرانہ بڑا ہو اوریا طالب علم وغیرہ ہو تو اس طرح ان مقاصد کی بنا پر اسے افضلیت دینے میں کوئ حرج نہيں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ہے :

( اولاد میں سے کسی ایک کے لیے وقف کی تخصیص میں ) اس کے بارہ امام صاحب کا کہنا ہے کہ : اگر کوئ ضرورت ہوتو اس میں کوئ حرج نہیں ، لیکن اگریہ کام اس کے ساتھ ترجیجی بنیاد پر کیا جارہا ہوتومیرے نزدیک یہ ناپسندیدہ ہے ۔

اورشيخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :

( حدیث اورآثاراولاد کےدرمیان عدل کرنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر یہاں اس کی دوقسمیں ہیں :

1 - ایک قسم تووہ ہے جواپنی بیماری اورصحت وغیرہ میں خرچہ کے محتاج ہوتے ہیں تواس میں عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاۓ ، اورکم اورزيادہ ضرورت مند کے درمیان فرق نہ کیا جاۓ ۔

2 - ایک قسم وہ ہے جس میں ان کی ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ اورخرچہ یا پھر شادی میں مشترک ہیں تواس قسم میں کمی وزیادتی کرنے میں حرمت میں کوئ شک نہیں ۔

اوران دونوں کے مابین ایک تیسری قسم بھی بنتی ہے :

وہ یہ کہ ان میں سے کوئ ایک ایسا ضرورت مند ہوجو عادتا پیش نہیں آتی ،مثلا کسی ایک کی طرف سے قرض کی ادائيگي جواس کے ذمہ کسی جرم کی بنا پر واجب تھی ( یعنی کسی بھی بدنی تکلیف دینے کی بنا پر مالی سزا کی ادائيگي ) یا پھر اس کا مھر ادا کیا جاۓ اوریا بیوی کا خرچہ دیا جاۓ ، توکسی دوسرے کوواجبی طور پر دینے میں نظر ہے ) ا ھـ اختیارت سے ۔

دیکھیں : کتاب :

تیسیر العلام شرع عمدۃ الاحکام ص ( 767 ) ۔

واللہ اعلم



Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

میں بھی الحمد للہ جوائنٹ فیملی کا قائل ھوں. اور میں بھی یہ چاہتا ھوں کہ ھم ساتھ رھیں لیکن افسوس کہ یہ خواہش ادھوری ھی رہ جائیگی.


وراثت کا مسئلہ ھے. بڑا بیٹا کماتا ھے اور گھر میں ھی پیسے دیتا ھے اور یہ سلسلہ شادی کے بعد تک چلتا ھے تو اسمیں دقت یہ آتی ھے کہ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کو بھی دوسرے بیٹوں کے برابر ھی حصہ ملتا ھے حالانکہ اس نے اپنا پیسہ بھی لگایا تھا. کیا یہ اسلام کا طریقہ صحیح ھے؟؟
(یقینا صحیح ھے. اسلام کا طریقہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا. وہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا ھے. لیکن مجھے اسکا جواب چاہیۓ. )
اگر کوئ صاحب میرے سوال کا جواب جانتے ھیں تو پلیز رہنمائ کریں.
میرے خاوند کے والد (میرے سسر ) نے میرے خاوندکی شادی میں مالی تعاون کیا شادی کے بعد میراخاوند خلیجی ممالک میں کام کاج کے سلسلے میں چلا گیا اس لیے کہ اس پر بہت زيادہ قرض تھا جس کی بنا پر وہ اپنے والد کوپیسے نہیں بھیجتا ۔
اب اس کا والد شادی پر صرف کیے گۓ مبلغ کا مطالبہ کررہا ہے حالانکہ میرے سسر کی ماہانہ آمدنی اچھی خاصی اورکافی ہے تومیرا سوال یہ ہے کہ :
کیا بیٹے کی شادی کرنا والد پر واجب نہیں اوراس پر اس جیسے حالات میں کیا واجب ہوتا ہے ؟

Published Date: 2009-02-08

الحمد للہ
اول :

اگروالد مالداراوربیٹا غریب ہواورشادی کرنے کی سکت نہ رکھےتووالد پر بیٹے کی شادی کرنا واجب ہے ، اس لیے کہ شادی بھی واجب شدہ نفقہ میں سے ہے اوراللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان میں شامل ہے :

{ اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جودستور کے مطابق ہو } البقرۃ ( 233 ) ۔

تواس لیے اگر بیٹے شادی نہیں کرسکتے اوروالد میں استطاعت ہے تووالد پرضروری اورواجب ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادی کرے اوران پر کھانے پینے اورپڑھائ وغیرہ میں خرچ کرے کا اس لیے کہ والدپر نفقہ واجب ہے ۔

دوم :

بیٹے کے ذمہ والد کا خرچہ واجب نہيں لیکن اگر دو شرطیں پائيں جائیں توپھر بیٹے کے ذمہ اپنے والد پر خرچ کرنا واجب ہوگا :

1 - یہ کہ بیٹا غنی مالدار ہو ( یعنی اس کے پاس اپنی ضرورت سے زيادہ مال ہو )

2 - والد فقیر ہو ۔

تواگر یہ دونوں شرطیں پائي جائيں توپھربیٹے کے ذمہ والد پر خرچہ کرنا ضروری اورواجب ہے ، اوریہاں پر سوال کرنے والی نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس کے خاوند کا والد اچھا کھاتا پیتا اوراس کی ماہانہ آمدنی بھی ٹھیک ہے ۔

توپھر اگر حالت ایسی ہی ہے تو بیٹے پر یہ ضروری اورواجب نہیں کہ وہ اپنے والد پر خرچ کرے ، لیکن اگر مالدار ہونے کے باوجود والد بیٹے سے کچھ مال طلب کرتا ہے اوربیٹے کواس کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے پاس زائد ہے توپھر اسے اپنے والد کویہ مال دینا چاہیے تا کہ وہ اپنے والد کا عاق شمار نہ ہو ۔

لیکن اگر بیٹے کوبھی مال کی ضرورت ہے توپھر اس پر لازم نہيں کہ وہ والد کومال ادا کرے ، اوربیٹے کو اپنے والد سے اپنے حالات بیان کر دینا ضروری ہے کہ اس کے مالی حالات صحیح نہیں اوروہ اپنا قرض ادا کرنے کے بعد جب مالی طور پر مستحکم ہوگا توپھر حسب استطاعت اپنے والد کو مال بیھج دے گا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراللہ تعالی کسی بھی جان کواس کی استطاعت سے زيادہ مکلف نہيں کرتا } ۔

واللہ اعلم

كيا بھائى پر بہن كا نفقہ واجب ہے ؟

كيا بھائى پر بہن كا نفقہ واجب ہے، اور كيا بھائى اپنى بہن كو زكاۃ دے سكتا ہے ؟

Published Date: 2012-07-03

الحمد للہ:

اگر بہن تنگ دست ہو اور بھائى مالدار تو اس كے ليے بہن كا نفقہ واجب ہے، اور اگر بہن فوت ہو جائے تو بھائى اس كا وارث بنےگا، اور اگر بہن كى اولاد ہونے يا پھر باب يا دادا ہونے كى صورت ميں بھائى اپنى بہن كا وارث نہ بنتا ہو تو بہن كا نفقہ بھائى پر لازم نہيں، اس صورت ميں بھائى اپنى بہن كو زكاۃ دے سكتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نفقہ واجب ہونے كے ليے تين شروط كا ہونا ضرورى ہے:

پہلى شرط:

جن پر نفقہ كيا جائے وہ فقراء و تنگ دست ہوں اور ان كے پاس مال نہ ہو، اور نہ ہى اتنى آمدنى ہو جس سے ان كا گزارہ ہو بلكہ وہ كسى دوسرے كے محتاج ہوں، اور اگر ان كے پاس مال ہے يا اتنى آمدنى ہو كہ وہ كسى دوسرے كے محتاج نہيں تو اس صورت ميں ان كا نفقہ نہيں ہوگا.

دوسرى شرط:

جس كا نفقہ واجب ہو اور وہ ان پر نفقہ كرے تو وہ اپنے نفقہ كے بعد زائد مال سے ہو، يا تو اپنے مال سے وہ نفقہ كرے يا پھر آمدنى سے كرے، ليكن اگر كسى شخص كے پاس اپنے خرچ اور نفقہ كے بعد زائد نہ ہو تو اس پر كسى دوسرے كا نفقہ نہيں.

كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم ميں سے كوئى شخص فقير و تنگ دست ہو تو وہ اپنے آپ سے شروع كرے، اور اگر كچھ بچ جائے تو اپنے اہل و عيال پر خرچ كرے، اور اگر اس سے كچھ بچ جائے تو قريبى رشتہ داروں پر خرچ كرے "

تيسرى شرط:

نفقہ برداشت كرنے والا وارث ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور وارث پر بھى اسى طرح ہے }.

اور اس ليے بھى كہ ايك دوسرے كا وارث بننے والوں كى آپس ميں ايك دوسرے كا قريبى رشتہ ہوتا ہے، جس كا تقاضہ ہے كہ وہ باقى لوگوں كى بجائے وارث بننے والے كے مال كے زيادہ حقدار ہيں، اس ليے اس دوسروں كى بجائے اسے نفقہ برداشت كرنا واجب ہوگا، اور اگر وہ وارث نہ ہو تو اس پر نفقہ واجب نہيں ہوگا " انتہى بتصرف

ديكھيں: المغنى ( 8 / 169 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے ہاں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ نفقہ برداشت كرنے والا جس كا نفقہ اٹھا رہا ہے وارث ہو، الا يہ كہ وہ اصل اور فرع نہ ہو، تو پھر اس ميں وارث كى شرط نہيں ہوگى " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 503 ).

اس بنا پر اگر بھائى پر اس كى بہن كا نفقہ واجب ہے تو پھر بھائى اسے اپنے مال كى زكاۃ نہيں دے سكتا.

اور اگر بہن كا بھائى پر نفقہ واجب نہيں ہوتا تو پھر بھائى اسے اپنے مال كى زكاۃ دے سكتا ہے، بلكہ اس صورت ميں كسى اور كو دينے كى بجائے بہن كو زكاۃ دينا افضل و بہتر ہو گا، كيونكہ بہن كو دينے سے اسے صلہ رحمى كا بھى اجروثواب حاصل ہوگا، اور زكاۃ كا بھى.

واللہ اعلم .

میرے خیال یہ دو فتاوی مسئلہ کو کچھ حل کرتے ہیں. باقی قطعی رائے تو علما دے سکتے ہیں

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وراثت کا مسئلہ ھے. بڑا بیٹا کماتا ھے اور گھر میں ھی پیسے دیتا ھے اور یہ سلسلہ شادی کے بعد تک چلتا ھے تو اسمیں دقت یہ آتی ھے کہ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کو بھی دوسرے بیٹوں کے برابر ھی حصہ ملتا ھے حالانکہ اس نے اپنا پیسہ بھی لگایا تھا. کیا یہ اسلام کا طریقہ صحیح ھے؟؟
(یقینا صحیح ھے. اسلام کا طریقہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا. وہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا ھے. لیکن مجھے اسکا جواب چاہیۓ. )
اگر کوئ صاحب میرے سوال کا جواب جانتے ھیں تو پلیز رہنمائ کریں.
بڑے بیٹے نے والدین سے فائدہ بھی تو چھوٹوں کی نسبت زیادہ اٹھایا ہے ، یوں کہیں ، بڑا بیٹا والدین کے ساتھ رہتے ہوئے کمانے کےقابل ہوگیا ، جبکہ چھوٹے بیٹے عمر کم ہونیکی وجہ سے پیچھے رہ گئے ۔
اگر بڑے بیٹے نے کماکر والدین بہن بھائیون پر خرچ کیا ہے ، تو بڑے بیٹے کی شادی ، بچوں کے اخراجات وغیرہ میں والدین اور بھائیوں سے فائدہ بھی تو اٹھایا ہوگا ۔
چھوٹے بڑے ہونے سے معاملات اتنا فرق نہیں پڑتا کہ اسے درد سر بنالیا جائے ، اگر یہ اتنا اہم مسئلہ ہوتا تو جس طرح وراثت کے مسائل ، مرد و عورت ، باپ ، بیٹا ، بھائی بہن وغیرہ کا فرق رکھا گیا ہے ، اسی طرح ان میں عمروں کا بھی حساب رکھا جاتا ۔ اسلامی قانوں وراثت میں عمر کا اعتبار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے بڑے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ إن ربک حکیم علیم ۔
”وراثت“ کی تقسیم کا فارمولہ تو دو اور دو چار کی طرح واضح اور صاف ہے۔ قرآن اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ میں زندگی میں بھی اپنے (ممکنہ) وارثوں میں وراثت کے قانون کے مطابق ہی ”عطیات“ تقسیم کروں۔ عطیہ، ہدیہ اور وراثت میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟
وراثت اور عطیہ میں اختلاف مشہور ہے ، ایک یہ کہ عطیات کی تقسیم بھی وراثت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر ہوگی ، دوسرا یہ ہے کہ عطیات میں تمام کے مابین برابری اور عدل و انصاف کیا جائے گا ، وراثت والے قوانین اس پر لاگو نہیں ہوں گے ۔ یہی بات راجح محسوس ہوتی ہے ، باقی تفصیل اوپر بعض بھائیوں کے مراسلوں میں گزر چکی ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بڑے بیٹے نے والدین سے فائدہ بھی تو چھوٹوں کی نسبت زیادہ اٹھایا ہے ، یوں کہیں ، بڑا بیٹا والدین کے ساتھ رہتے ہوئے کمانے کےقابل ہوگیا ، جبکہ چھوٹے بیٹے عمر کم ہونیکی وجہ سے پیچھے رہ گئے ۔
اگر بڑے بیٹے نے کماکر والدین بہن بھائیون پر خرچ کیا ہے ، تو بڑے بیٹے کی شادی ، بچوں کے اخراجات وغیرہ میں والدین اور بھائیوں سے فائدہ بھی تو اٹھایا ہوگا ۔
چھوٹے بڑے ہونے سے معاملات اتنا فرق نہیں پڑتا کہ اسے درد سر بنالیا جائے ، اگر یہ اتنا اہم مسئلہ ہوتا تو جس طرح وراثت کے مسائل ، مرد و عورت ، باپ ، بیٹا ، بھائی بہن وغیرہ کا فرق رکھا گیا ہے ، اسی طرح ان میں عمروں کا بھی حساب رکھا جاتا ۔ اسلامی قانوں وراثت میں عمر کا اعتبار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے بڑے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ إن ربک حکیم علیم ۔
بالکل شیخ
آپ نے بالکل صحیح کہا.
اللہ آپکے علم وعمل میں برکت عطا فرماۓ.
ھمارے کئ رشتہ دار والد محترم پر اکثر اسی بات کو لیکر تنقید کرتے ھیں. لیکن الحمد للہ والد محترم انکی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے.
اللہ ھمیں عقل سلیم سے نوازے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام کے خلاف ہے ؟

تحریر : زاہد صدیق مغل
بعض معاملات کے بارے میں ہمارے یہاں یہ عجیب طرز استدلال پایا جاتا ہے کہ انہیں غیر اسلامی ثابت کرنے کے لیے بس انہیں ”ہندوانہ“ کہہ دیا جائے، یوں گویا دلیل کا حق ادا ہوگیا۔ اور یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے کہ ”یوں صحابہ کے دور میں نہ ہوتا تھا“ جبکہ یہ بات کسی عمل کے خلاف اسلام ہونے کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں۔ اس طرز استدلال کی ایک تازہ مثال دلیل پر شائع ہونے والی ایک حالیہ تحریر ہے جس کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام غیر اسلامی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ ہندوانہ ہے، مگر تحریر میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ یہ کن معنی میں ہندوانہ ہے؟ کیا اس کے ہندوانہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کا معاشرتی نظام ویداؤں یا بھگوت گیتا میں درج ہے؟ یا یہ ان معنی میں ہندوانہ ہے کہ یہ صرف ہندوستان میں پایا جاتا ہے؟ نیز کیا یہ انہی معنی میں ہندوانہ ہے جن معنی میں ذات پات کا نظام ہندوانہ ہے؟ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مشترکہ خاندان کے اس ہندوانہ نظام کو تو عام طور پر قبول کیا مگر برھمن و شودر جیسی اونچی نیچی ذات کے ہندوانہ نظام کو قبول نہ کیا؟
اس مقام پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرتی نظام کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تحریر میں اس ضمن میں واحد دلیل یہ دی گئی ہے کہ ”صحابہ کے دور میں ایسی معاشرت نہ تھی“۔ پہلی بات تو یہ کہ صحابہ کے دور میں کسی امر کا موجود نہ ہونا اس کے غیر اسلامی ہونے کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں، یہ دلیل نہیں ایک غلط العام تصور ہے۔ پھر یہ دلیل پیش کرتے وقت یہ فرض کرلیا جاتا ہےگویا حاضر و موجود ”سول سوسائٹی“ (اغراض پر مبنی جدید مارکیٹ معاشرت)، جو ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور جس میں ہم صبح سے لے کر رات تک سانس لیتے ہیں، یہ تو ماشاء اللہ عین خیر القرون کی سنت اور پوری اسلامی تاریخ کا تسلسل ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کو تہس نہس کرکے ہمارے معاشروں پر غالب آتی یہ جدید معاشرت بھی تو یورپ و امریکہ سے نکلی ہوئی ”جدیدیانہ“ ہے، تو اس کا کیا؟
اب اگر بات موازنے کی ہی ہے تو یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ آئیڈیل نہیں (جو کہ درحقیقت کوئی بھی ورکنگ نظام نہیں ہوتا لہذا اس میں ہمیشہ اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے) مگر اسلامی اقدار (محبت، صلہ رحمی، حفظ مراتب، ادب و احترام، ایک دوسرے کا خیال و ایثار، پڑوس و میل جول وغیرھم) کے تحفظ اور فرد کی ان اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کا ایک نسبتا بہتر طریقہ معاشرت ہے (نیز اس کے بہت سے معاشی فوائد بھی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ اس کے مقابلے میں جدید مارکیٹ سوسائٹی کا ان اسلامی اقدار کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انہیں نیست و نابود کرنے کا انتظام ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں علماء نے بلاوجہ ہی اس طرز معاشرت کو قبول نہیں کیے رکھا۔ معاملات کو متنوع پہلوؤں سے سمجھے بنا علماء پر سست روی کا الزام دھرنا بس ایک فیشن ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر بطور نقطہ نظر کی معرفت ، ارسال کی جارہی ہے نہ کہ بحیثیت متفق ہونے کے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
4052 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَاذَا أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ لَا بَلْ ثَيِّبًا قَالَ فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ كُنَّ لِي تِسْعَ أَخَوَاتٍ فَكَرِهْتُ أَنْ أَجْمَعَ إِلَيْهِنَّ جَارِيَةً خَرْقَاءَ مِثْلَهُنَّ وَلَكِنْ امْرَأَةً تَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ قَالَ أَصَبْتَ

4052 . ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ، جابر ! کیا نکاح کر لیا ؟ میں نے عرض کیا ، جی ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا ؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کا ر لڑکی ان کے پاس لاکر بٹھادوں ، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
(صحیح بخاری)

مذکورہ حدیث میں نہ صرف جوائنٹ فیملی کا جواز ملتا ہے بلکہ فیملی کی خاطر قربانی کا بھی تذکرہ ملتا ہے. مزید برآں یہ کہ بیوی کی خاوند کے گھر کے افراد کے تئیں ذمہ دارای کا بھی ثبوت ملتا ہے.

واللہ اعلم بالصواب
 

Zubair

مبتدی
شمولیت
نومبر 24، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
جماعت اسلامی کے ایک وٹس آپ گروپ میں یہ تحریر بھیجی گئی ہے. میری علماء سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس تحریر کا علمی جائزہ لیں. اس میں کیا باتیں خلاف شریعت ہیں وہ بھی بیان کریں اور جوائنٹ فیملی سسٹم اور اسلامی نظام معاشرت ک تقابلی جائزہ بھی پیش کریں. نیز پاکستانی معاشرے میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی خرابیوں سے کیسے نمٹا جائے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
مشترکہ خاندانی نظام ، ایک سماجی کینسر

اللہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے ان گنت جوڑے پیدا فرمائے ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا، جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ"تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،
ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن بڑھتی اور بے لگام ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں؎
" وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ،،
عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی ،،
اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،،،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،
ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے چلے جاتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شریک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو " حدیث اس حد تک تو صحیح ھے کہ یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،

جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج

جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم میں داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،

اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ ، عدل اور برابری کے نام پر ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،

اس سے پہلے کہ آگے چلیں چند مثالیں سن لیں تا کہ واضح ھو جائے کہ جس مشترکہ خاندان کی بات کر رھا ھوں وہ کیا بلا ھے ،، نوروز خان کو امارات میں آئے ھوئے 40 سال ھو گئے ھیں، وہ جب امارات میں آیا تھا تو اس کے منہ پر مونچھ داڑھی کے نام پر کوئی بال نہ تھا،آج جب وہ کام سے فارغ ھوا ھے تو اس کے سر پر بال نام کی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی ،،وہ اپنے بھائی کے ساتھ مسئلہ پوچھنے آیا تھا کہ ،اسکی کمپنی کی طرف سے جو ڈیوز ملے ھیں ،ان پر اس کے بھائیوں کا حق ھے یا نہیں؟ بقول اس کے اس نے آج تک جو کمایا وہ باپ کو بھیجا ، وہ 5 بہن بھائی تھے ،کہ والدہ فوت ھوگئیں ،والد کو بولا کہ شادی کر لو مگر اس عمر کی کرو کہ آگے اولاد پیدا نہ ھو مگر والد صاحب نے چھوٹی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی ،اس میں سے 4 بھائی ھیں گویا ٹوٹل 9 بہن بھائی ھوگئے ،ساری زندگی جو کمایا وہ والد صاحب کو دیا،والد صاحب نے جو جائداد بنائی دوسرے بیٹوں کے نام بنائی ،،اس کا بیٹا بیمار ھوا ،کسی نے اسپتال تک لے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی وہ گھر میں ایڑیاں رگڑ کر فوت ھو گیا، باقی بچوں اور بیوی کو یہاں بلایا تو گویا قیامت ھوگئی اور والد سمیت سب کہتے ھیں کہ بےغیرت اور جورو کا غلام ھو گیا ھے، اب نوکری گئی ھے تو وہ کہتے ھیں کہ دیگر 8 بہن بھائیوں میں بھی تقسیم ھو گی ،ورنہ گاؤں میں قدم نہیں رکھ سکتے !
دوسرے جہانزیب خان صاحب ھیں،،وزارت داخلہ کی بہت اھم اور حساس پوسٹ پر ھیں،25 ھزار درھم تنخواہ لیتے ھیں ،مگر جوائنٹ فیملی سسٹم کا شکار ھیں ، مردان اور ھنگو میں کئ ایکڑ بہترین زرعی زمین خریدی ھے،مگر والد نے اپنے نام سے خریدی ھے، والد کے انتقال کے بعد ساری زمین پر بھائیوں نے قبضہ کر لیا ھے ،، اس کے بعد انہوں نے اپنے نام سے زمین لینا شروع کی ،،یہ لے کر واپس آتے اور بھائی قبضہ کر لیتے ، ایک بھائی کرائے کا قاتل اور اغوا برائے تاوان کا مجرم ھے، پیسے دے کر پاکستان میں جہاں چاھو بندہ مروا لو ،میں یہ بات اس کے خلاف ایف آئی آر اور عدالتی کارروائی کی کاپیاں پڑھ کر کہہ رھا ھوں جو انہوں نے مجھے دکھائیں ،، ان پر بھی بھائیوں نے فائرنگ کی اور یہ علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ھوئے ،،ایک کوٹھی لی ،،بھائی وھاں بھی پہنچ گئے ،کرائے داروں کو دھمکا کر نکالا اور قبضہ کر لیا، آخر کسی کو اونے پونے داموں بیچ کر جان چھڑائی ،،

میرے دوست ھیں ننکانہ صاحب سے یہ پولیس میں فارماسسسٹ ھیں،،بھائی کو بلا کر جیولری کی دکان ڈال کر دی ،بھائی صاحب ھوٹلوں کے چکر میں 5 لاکھ درھم کی دکان کھا کر اور مزید 1 لاکھ درھم کا قرض لے کر پاکستان بھاگ گیا ، پاکستان گئے تو دونوں چھوٹے بھائیوں نے پکڑ کر تسلی سے مارا اور ابا جی نے بھی مارنے میں اخلاقی مدد فرمائی ان کو اپنے ھی بنائے گئے گھر سے نکال دیا گیا ،رات کو کسی کے گھر بستر مانگ کر رھے اور اگلے دن واپس آگئے، جائداد پہلے ھی ابا جان اپنے نام اور دوسرے بیٹوں کے نام لیتے رھے تھے لہٰذا ان کے پاس اب سوائے نوکری کے کچھ نہیں !!

دبئی کے صاحب ھیں جن کی بیوی کا پرسوں فون تھا،، بدقسمتی سے سب سے بڑے ھیں،مگر اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں ،،بھائیوں کے مکان پہلے بنیں گے پھر اپنا دیکھیں گے، وہ کہہ رھی تھیں زندگی کا بھروسہ نہیں،ابھی صرف چھوٹے کا مکان بنا ھے اور اس نے پہلا کام یہ کیا ھے کہ الگ ھو گیا ھے،، یوں چھوٹے تو شادی کرتے اور الگ ھوتے چلے جائیں گے ،بڑی بہو کو شاید قبر ھی الگ نصیب ھو گی الغرض یہ دس میں سے آٹھ آدمیوں کا فسانہ ھے،نفرتیں اندر ھی اندر کینسر پھوڑے کی طرح اکٹھی ھوتی رھتی ھیں،،اور قرآن کے الفاظ میں،،تحسبُھم جمیعاً و قلوبھم شتیۜ ،،تم ان کو اکٹھا سمجھتے ھو جبکہ ان کے دل دور دور ھیں،
کرنا کیا چاھئے؟

ھونا یہ چاھئے کہ اگر ایک بھائی نے شادی کی ھے تو اسے سب سے پہلے اگر ممکن ھے تو اپنے بیوی بچے اپنے پاس رکھنے چاھییں ،،اگر ممکن نہیں ھے تو اپنی بیوی کو ایک کمرہ الگ سے بنا کر دینا چاھئے،،کمرہ سے مراد کچن ،باتھ مکمل سیٹ ھے،،اور اگر یہ بھی ممکن نہیں ھے تو پھر شادی ھی نہیں کرنی چاھئے،، اکثر شادی گھر کے کام کاج کے لیئے ایک روٹی کپڑۓ کی ملازم خاتون کی ضرورت کے تحت کی جاتی ھے،اور نکاح صرف اس گھر میں اس کے رھنے کا ایک شرعی جواز پیدا کرنے کا نام ھے،،نکاح کے تحت اس کے حقوق کی ادائیگی سرے سے کسی کے ایجنڈے میں شامل ھی نہیں ھوتی،لہذا ایسی کسی چیز کا مطالبہ ایک جرم سے کم نہیں ھوتا، اگر والدین کے ساتھ بہن بھائی چھوٹے ھیں تو اس صورت میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بیوی کے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں،نہ کہ بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھے ،بظاھر یہ عجیب بات لگتی ھے کہ؎

"والدین کا بیوی کے ساتھ رھنا اور بیوی کا والدین کے ساتھ رھنا "

ایک ھی تو بات ھے؟ جی نہیں ! زمین آسمان کا فرق ھے،،، اسی بس میں ڈرائیور بھی ھوتا ھے اور سواریاں بھی ،،مگر اسٹئیرنگ کا فرق ھوتا ھے،،ماں باپ بیوی کے ساتھ رھیں گے ،مگر آئینی سربراہ کے طور پر اور گھر کو کس طرح چلانا ھے،،بچے کس اسکول میں ڈالنے ھیں اور گھر کے قواعد و ضوابط عورت طے کرے گی ،کیونکہ وہ حالات سے زیادہ واقف ھے،بنسبت والدہ صاحبہ کے جو کہ 50 سال پرانے نظام کی باتیں کرتی اور اسی زمانے کی مثالیں دیتی ھیں ، جب کہ بیوی والدین کے ساتھ رکھنے کا مطلب ھے،،کہ وہ مہمان اداکارہ کے طور پر رھے گی اور قانون اماں جی کا چلے گا ،، حقیقت یہ ھے کہ اماں جی اپنی اینگز کھیل چکی ھیں اور جو کچھ انہوں نے بنانا تھا اپنی اولاد کو وہ بنا چکی ھیں،،اب کریز خالی کر دیں،،اپنے روٹی کپڑے سے مطلب رکھیں اوراللہ اللہ کریں نماز روزہ کریں اور پچھلے بخشائیں !

اگر بیٹے زیادہ ھیں تو امی جان گھر بدلتی رھیں کبھی ایک بیٹے کو حج کا موقع دیں اور کبھی دوسرے کو،مگر اس میں بھی احتیاط کریں ،،ایک بیٹے کے گھر کی باتیں اور کمزوریاں دوسری بہو کو نہ بتائیں اور جاسوس کا کردار ادا نہ کریں ورنہ سب بہو بیٹوں کی نظر سے گر جائیں گی،، بہو اور بیٹوں کو اپنی اولاد کے فیصلے کرنے میں فری ھینڈ دیں ،، جتنی مداخلت کم کریں گی اُتنا ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ھو گا،،مرتے دم تک حکومت کرنے کی ھوس گھروں کو برباد کر دیتی ھے،،ساس اپنا رویہ نہیں بدلتی بہوئیں بدلتی رھتی ھے ، مگر ھر آنے والی شوھر کا مطالبہ کرتی ھے اور اجڑ جاتی ھے،،تا آنکہ ساس کے انگوٹھے باندھ کر قبر میں نہ رکھ دیا جائے،،بیوی کے ساتھ اچھے تعلقات عموماً زن مریدی کی دفعہ کے تحت آتے ھیں ،ساس اس معاملے میں بہت حساس ھوتی ھے کہ اس کا بیٹا کہیں بیوی کے "تھلے" نہ لگ جائے ،اور بھول جاتی ھے کہ اس نے جس کو ساری زندگی "تھلے " لگا کر رکھا ھے وہ بھی کسی ماں نے نو ماہ پیٹ میں رکھا تھا،،

گھریلو معاملات میں جب بھی حالات نازک ھو جائیں والد سے مشورہ کریں وہ صبر کی تلقین کرے گا،اور گھر بسانے کی بات کرے گا،، اور کبھی کبھی سچ کہہ بھی دیتا ھے کہ،،تیری ماں کوئی کم نہیں تھی،،میں نے بھی تو گزارہ کیا ھے !! والدین کے حقوق اور گھریلو ذمہ داریوں میں بیلنس بنا کر رکھنا چاھئے اور وادین کے حقوق کے نام پر کسی کے حقوق کو پائمال نہیں کرنا چاھئے،ظلم کرنا کبھی بھی والدین کے حقوق کا حصہ نہیں رھا،اور عدل کو ترک کرنا کبھی بھی اولاد کے فرائض میں شامل نہیں رھا،،آخر سورہ النساء ھی کو اس حکم کے لئے کیوں چنا گیا کہ"اے ایمان والو! اللہ کے لئے کھڑے ھو جاؤ ڈٹ کر حق کی گواھی کے لئے چاھے وہ اپنے آپ کے خلاف پڑے یا والدین کے خلاف ھو یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ھو؟(النساء 135 )
پھر مزید مسائل اس وقت جنم لیتے ھین جب بچوں کی شادی کا وقت آتا ھے،، خاندان کا ھر فرد یہ چاھتا ھے کہ شادی میں اس کا مشورہ مانا جائے ،اس طرح بھینسوں کی لڑائی میں عموماً درختوں کی تباھی کا سامان ھوتا ھے،جبکہ بچی کی شادی میں بچی،اس کے والد اور ماں کا مشورہ ھونا چاھئے،،چچا لوگ اپنا گھر دیکھیں،، آپ اپنا گھر لیں ،بہن بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں،،مشکل میں ان کی مدد کریں،ماں باپ کے خرچے برچے کا دھیان رکھیں،بہنوں کی شادی میں انکی مالی مدد کریں،،جائداد بنانے کی بجائے اولاد کو پڑھانے کی طرف توجہ دیں،،معاشرے کو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان دے جانا بہتر ھے اس جائداد سے جسکی خاطر بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹیں،،


Sent from my SM-G360H using Tapatalk

اس تحریر نے بہت مایوس کیا۔ ایک مسلمان معاشرہ کی اتنی بھیانک تصویر کھینچی ہے کہ اسلام کا تصورِ اخلاقیات درہم برہم ہوجائے۔ رشتوں کے احترام، ایثار اور قربانی کی جو مثالیں دینِ اسلام نے پیش کی ہیں، ان کا مزاق اڑآیا گیاہے۔
ماں باپ کی فرمانبرداری کے متعلق کتنے سخت احکامات ہیں، سب کو فراموش کردیا گیا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہوجائیں اور انہیں اپنی اولاد کی ضرورت ہو تو کیا بچوں کو ان کی خدمت کرکے جنت کمانے کا حکم نہیں ہے؟ یہ جنت باتوں سے حاصل ہوجائے گی ؟ ماں کے متعلق جتنی خراب زبان استعمال کی گئی ہے، اسے بیان کرتے ہوئے بھی کوفت ہورہی ہے۔
پھر کسی اجنبی کی مدد کا حکم دینے والا دین، پکڑوسی کے حقوق پر اتنا زور دینے والا دین، عزیزو اقارب کا خیال رکھنے والا دین اس بات کی اجازت دے گا کہ چھوٹے بہن بھائی، مشکل میں ہوں تو انہیں چھوڑ کر اپنی اولاد کی ہی فکر کرو۔ ہمیں تو ایسے صحابی بھی نظر آتے ہیں جو اپنی بہنوں کی وجہ سے کم عمر عورت سے شادی کرنے کے بجائے زیادہ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کرتے ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھ سکے۔
اس تحریر نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جنہوں نے بھی یہ تحریر لکھی ہے، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اسلام نے بہن بھائیوں کے لئے کس قدر احکامات دئے ہیں۔ مثلا جو چیز اپنے لئے پسند کرو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو۔
(
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ - أَوْ قَالَ لأَخِيهِ - مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ » [متفق علیه]
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنے ہمسائے کےلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘

تخریج:
[بخاری:13، مسلم: 72] یہ حدیث مسلم میں :
« حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ أَوْ قَالَ لأَخِيهِ »
’’ شک کے ساتھ ہے یعنی بھائی کے لئے یا فرمایا کہ ہمسائے کے لئے۔ صحیح بخاری میں شک کے بغیر ’’ حتى يحب لأخيه‘‘ کے الفاظ ہیں۔ یعنی ’’ اپنے بھائیکے لیے پسند کرے۔‘‘)
۔
یہ کون سی پسند ہے جس کے متعلق حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات ارشاد فرمارہے ہیں؟
۔
جہاں تک عرب یا مغربی معاشرے کی بات ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہاں طلاق کی شرح ہمارے معاشرے سے کہیں زیادہ ہے۔ جوائنٹ فیملی میں جس بے ہودگی کی بات کی جارہی ہے، وہ یہاں سے زیادہ وہاں پائی جاتی ہے۔
۔
لہذا عورتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں یہ مت بھولیں کہ خدا کی خوشنودی زیادہ ضروری ہے۔
۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ ہمیں بہت سارے لوگ اس مہنگائی کے دور میں الگ گھر لینے کے قابل نہیں ہیں، کرائے پر گھر لے کر نہیں رہ سکتے، یا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری صرف اس پر ہو، یا کوئی دوسرا بھائی ہی نہ ہو جو والدین کی خدمت کرسکے تو ایسی صورت میں اس سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ الگ گھر لے لو، بلکہ یہ بتانا چاہئے کہ جوائنٹ فیملی میں کس طرح اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کی جائیں۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ اپنے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے۔ راہِ فرار حل نہیں۔
( اگر مسجد کے امام اور موذن کو کرائے پر گھر لے کر رہنا پڑے تو انہیں اندازہ ہو کہ کرائے پر گھر لینا کتنا مشکل ہے)
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
وراثت اور عطیہ میں اختلاف مشہور ہے ، ایک یہ کہ عطیات کی تقسیم بھی وراثت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر ہوگی ، دوسرا یہ ہے کہ عطیات میں تمام کے مابین برابری اور عدل و انصاف کیا جائے گا ، وراثت والے قوانین اس پر لاگو نہیں ہوں گے ۔ یہی بات راجح محسوس ہوتی ہے ، باقی تفصیل اوپر بعض بھائیوں کے مراسلوں میں گزر چکی ہے ۔


.
 
Top