السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دلیل اورلاجک کے ساتھ بحث کیجئے، کٹ حجتی سے پرہیز کیجئے، وقت قیمتی شئے ہے،اسے بیکار ضائع مت کیجئے
جی جناب! آپ اس امر کا خیال رکھیئےگا، ہماری طرف سے بھی شکایت نہ ہوگی! ان شاء اللہ!
جب تقلید مطلق پر بقول آپ کے میاں صاحب کے صحابہ کرام کا اجماع ہوچکاہے
نہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میاں صاحب یعنی کہ میاں نذیر حسین دہلوی صاحب کے بقول اصطلاحی تقلید مطلق کے متعلق صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے، بلکہ انہوں نے یہاں تقلید کے عرفی معنی مراد لئے ہیں!
میں اسی کتاب سے دو اقتباس پیش کرتا ہوں:
پہلے ایک مقدمہ سن لینا چاہیئے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ معنی تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہے کہ مان لینا اور عمل کر لینا ساتھ بلا دلیل اس شخص کے جس کا قول حجت شرعی نہ ہو تو بنا بر ہوگی اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہدوں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہوگی بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنی تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اسی معنی عرفی سے مجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے۔ چنانچہ ملا حسن شرنبلالی حنفی عقد الفرید میں فرماتے ہیں:
حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها فليس الرجوع إلی النبيﷺ والإجماع من التقليد لان كلا منها حجة شرعية في الحجج الشرعية وعلی هذا اقتصر الكمال في تحريره وقال ابن امير الحاج وعلی هذا عمل العامي بقول المفتي وعمل القاضي بقول العدول لان كلا منها وان لم يكن أحدي الحجج فليس العمل به بلا حجة شرعية لايجاب النطر أخذ العامي بقول المفتي وأخذ القاضي بقول العدول انتهیٰ مافي العقد الفريد لبيان الراجح من الاختلاف في جواز التقليد.
''اصل تقلید کی ایسے شخص کے قول پر عمل کرنا جس کا قول چاروں حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو اور نہ اس کے قول پر عمل کرنے کی کوئی حجت شرعی ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ اور اجماع کی طرف تقلید نہیں ہے اس لئے کہ یہ دونوں حجتوں شرعیہ میں سے ہیں اور اسی پر بس کیا ہے کمال نے اپنی کتاب تحریر میں اور ابن امیر الحاج نے کہا ہے کہ سی نہج پر ہے عمل کرنا انجان کا مفتی کے قول پر اور عمل کرنا قاضی کا ثقہ کے قول پر کیونکہ یہ دونوں اگرچہ خود حجت نہیں ولیکن عمل ان پر بے حجت شرعی نہیں اس لئے کہ حکم کھلا ہوا۔ انجان کے لئے مفتی کے قول پر عمل کرنے کو اور قاضی کے لئے ثقہ کے مقولہ پر عمل درآمد کرنے کو شرع میں وارد ہوا ہے ہو چکی عبارت جو عقد الفرید میں ہے'' وہ عقد الفرید جس میں اختلاف جواز تقلید کے امر غالب کا بیان ہے۔''
اور فضل قندھاری مغتنم الحصول میں فرماتے ہیں:
التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة فرجوع إلی النبي ﷺ اؤ إلی الإجماع ليس منه هكذا رجوع العامي إلی المفتي والقاضی إلی العدول لوجوبة بالنص رجوع المجتهد اؤ العامي مثله لكن العرف علی أن العامي مقلد للمجتهد قال إمام الحرمين وعليه معظم الاصولين وقال الغزالي والآمدي وابن الحاجب ان سمی الرجوع إلی الرسول ﷺ وإلی الإجماع وإلی المفتي وإلی الشهود تقليد فلا مشاحة انتهیٰ.
"تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جسکا قول حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف تقلید نہ ٹھری اور اسی طرح رجوع کرنا انجان کا مفتی کے قول کی طرف اور رجوع کرنا قاضی کا ثقہ کے قول کی طرف تقلید نہیں ٹھرے گی کیونکہ رجوع بحکم شرع واجب ہے۔ بلکہ رجوع کرنا مجتہد یا انجان کا اپنے جیسے آدمی کی طرف تقلید نہیں لیکن مشہور یوں ہو گیاہے کہ انجان مجتہد کا مقلد ہے۔ امام الحرمین نے کہا ہے کہ اسی قول پر بڑے بڑے اصولی ہیں اور آمدی اور ابن رجب نے کہا ہے کہ رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اور مفتی اور گواہوں کی طرف اگر تقلید قرار دیا جائے تو کچھ ہرج نہیں۔ "
پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 72 - 73 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق – سید نذیر حسین دہلوی – جامع تعلیم قرآن وحدیث
تیسری دلیل اجماع صحابہ کا جو قرافی نے نقل کیا ہے۔
واجمع اصحاب علی ان استفتی ابا بكر وعمر قلدهما فله ان يستفتی ابا هريرة ومعاذ بن جبل ۔
''اور جمع ہوگئے صحابہ اس پر کہ جو شخص ابو بکر اور عمر سے فتوی پوچھ کر ان کے قول پر عمل کرے اسے روا ہے کہ فتوی پوچھ لے ابو ھریرہ اور معاذ بن جبل سے۔''
چنانچہ صاحب مسلم الثبوت نے حاشیہ منہیی میں نقل کیا ہے، اور فاضل قندھاری نے ناقلاً عن التقریر مغتنم الحصول ميں نقل کیا ہے اور مولانا عبد العی نے شرح مسلم (مسلم الثبوت) میں نقل کرکے اس پر تفریعات کیں ہیں اور عبد الوہاب شعرانی نے میزان ميں نقل کیا ہے اور تمام کتب اصول میں مذکور ہے فالا قوی اجماع لصحابة یعنی کہ قرون اولی میں چنانچہ روایت 2،3،4،5،6،7،8،9،10،11،12 سے بوجہ بسیط پہلے معلوم ہوا پس جب کل صحابہ اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی پھر اب ایک ہی مذہب کا التزام کرنا اور اس کو واجب جاننا اور تارک اس التزام کے کو گمراہ جاننا اور لامذہب نام رکھنا اور لائق ےتعزیر کے جان کر تعزیر دینی اور مردود اشتہادۃ کہنا پھر بہ نسبت ایسے عقیدے والے کی بدعت ضلالۃ اور ھرام نہیں تو پھر کیا ہے اور معتقد ایسے عقیدہ اور عمل کا مصداق آیۃ کریمہ﴿واتبع غير سبيل المومنیں﴾ کا کیونکر نہ کوگا اور مصداق من شذ شذ في النار کا اس حدیث کا اتبعوا اسواد الاعظم ومن شذ شذ في النار کس طرح نہ ہوگا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 142 – 143 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق – سید نذیر حسین دہلوی – جامع تعلیم قرآن وحدیث
تواس کی ہی ایک فرع تقلید بھی جائز شمار ہوگی،
اول: کہ جب اصطلاحی تقلید کا جواز ہی ثابت نہیں ہوا، تو اس کی فرع کا جائز شمار ہونا بھی ثابت نہیں !
دوم: آپ کے کلام کے مطابق تقلید مطلق اصل ہے اور تقلید اس کی فرع!
یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی! بلکہ یوں درست ہے کہ تقلید اصل ہے، اور تقلید مطلق اس کی فرع!
یا شاید آپ تقلید شخصی لکھنا چاہتے ہیں اور لکھنے میں خطا ہو گئی!
تقلید شخصی کو اس سے الگ کرنے کیلئے علاحدہ دلیل کی ضرورت ہوگی۔اصول یہی ہے کہ جب اصل ثابت ہواتواس کی فرع بھی ثابت ہوگی،الا یہ کہ کوئی الگ دلیل تقلیداس فرع کی ممانعت کی ملے۔
تقلید شخصی کو تقلید مطلق کی فرع قرار دینا بھی درست نہیں!
کیونک کہ فرع کے وجود سے اصل کی نفی نہیں ہوتی، اور اگر جس کے وجود سے اصل کی نفی ہو جائے، وہ اس کی فرع نہیں ہوتی!
معلوم ہونا چاہیئے کہ تقلید شخصی کے وجود سے تقلید مطلق کی نفی لازم ہے، یعنی کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص تقلید شخصی کرے اور تقلید مطلق پر بھی گامزن رہے!
اگر غور سے دیکھیں، اسی بات پر میاں نذیر حسین دہلوی نے مدعا قائم کیا ہے، کہ جب کوئی شخص تقلید شخصی کو لازم قرار دے گا، تو لامحالہ صحابہ کے مذکورہ اجماع کو چھوڑنا پڑے گا! کہ ایسی صورت میں وہ دوسرے مفتیان و مجتہد کے طرف رجوع نہیں کرسکتا!
میراکہنا درست نہ ہونے کو دلیل کے ساتھ ثابت کردیں،میں اپنی غلطی مان لوں گا۔
اللہ ہمیں توفیق دے!
دوسری بات :آپ اس میں اختلاف اس میں اختلاف کی آڑ مت لیجئے، اپنی بات کیجئے کہ آپ کی تحقیق میں کیا صحیح اورکیاغلط ہے، ورنہ اختلاف توآپ کے علماء میں بھی کچھ کم نہیں ہےاصول سے لے کرفروع تک ۔
بلکل جناب! ہمارے ہاں اختلاف ہے!
اور میں نے ایسی کوئی''آڑ'' نہیں لی، محض مقلدین حنفیہ کے مختلف مؤقف کا ذکر کیا تھا!