حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها
التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة
دوسری بات کہ آپ مقلد کیوں ہوئے؟
آپ کوخوب پتہ ہے کہ تقلید کی تعریف میں اختلاف ہے،آپ کی ذکرکردہ تعریف کے علاوہ بھی تقلید کی دوسری تعریف کتب فقہ احناف میں ہی موجود ہے اورآپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، ہم اس کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ دوسری تعریفات آپ کو کیوں نہیں بھاتیں،اسی تعریف پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
’’بلاحجۃ‘‘سے کیامراد ہے؟اس کو آپ کو واضح کرناچاہئے،
بلاحجۃ کاایک مطلب تویہ ہے کہ مجتہد کے قول پرکوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی ۔
دوسری مراد ہے
’’بلاطلب حجۃ ‘‘یعنی شرعی دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مقلد مجتہد سے اس شرعی دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا ،جیسے ڈاکٹر کے مریض کیلئے تجویز کردہ علاج پر دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مریض اس سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا کہ تم نے فلاں دوا کیوں دی ہے، مریض کا مطالبہ نہ کرنا اس بات کی نفی نہیں ہے کہ ڈاکٹر نے مریض کیلئے جو علاج تجویز کیاہے اس کیلئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
تیسری مراد ہے’’بلامعرفۃ حجۃ‘‘یعنی مجتہد مسائل شرعیہ پر اپنی دلیل بتلابھی دے تو مقلد اس کی معرفت کا فہم نہیں رکھتا،پھر وہی ڈاکٹر کی مثال دوں تو شاید قند مکرر نہ ہو(ابتسامہ)اس لئے وکیل کی مثال دے رہاہوں،ایک جاہل شخص یاعامی کسی حد تک پڑھالکھاکسی وکیل سے کوئی اہم قانونی نکتہ پوچھتاہے،وکیل کے جواب پر وہ اس کی دلیل پوچھتاہے،وکیل اس کے جواب میں قانون کی بنیادیں ،عدالتوں کے نظائر اور دیگر بہت کچھ بیان کرتاہے لیکن اگر اس کا قانون کےفن سے تعلق نہیں ہے تواس کی سمجھ میں کیاخاک آئے گا؟
آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ بلاحجۃ سے آپ تینوں میں سے کون سی شق مراد لے رہے ہیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتب اصول فقہ کی شروحات میں فقہائے احناف نے بلاحجۃ کی شرح کہیں بلامعرفۃ دلیلہ اور کہیں بلاطلب حجۃ سے کی ہے، آپ اس کو ظاہر نہیں کرناچاہتے،ہم اس کوبھی نظرانداز کرتے ہیں،لیکن قارئین بھی نظرانداز کریں گے،اس کی ذمہ داری نہیں لیتا(ابتسامہ)
پہلی شق قطعاًمراد نہیں ہوسکتی ،اس کی دلیل کیاہے یہ آپ کے مطالبہ پر بتائوں گا، ویسے اگرآپ غورکریں گے توخود بھی اس نکتے پر پہنچ جائیں گے ۔
اوردوسری اورتیسری شق میں کوئی اعتراض ہی نہیں بنتاہے۔
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
اس عبارت میں آپ کو اعتراض کیانظرآیا،میری سمجھ سے توباہر ہے،دلائل سے مسائل کا استنباط مجتہد کا کام ہے، مقلد کا کام نہیں ہے،آپ مقلد کی جگہ عامی ،کم پڑھے لکھے، اوسط درجے کی لیاقت والے کردیجئے، توکیاایسے لوگ اجتہاد کریں گے، ویسے برانہ مانئے گاتو تو گول مول نہیں صاف سیدھے جواب میں اپنی مسلک کی چند زندہ مجتہد شخصیات کا تعارف کرادیجئےاوریہ بھی بتادیجئے کہ آپ ہی کے مسلک کے کن حضرات نے ان کومجتہد تسلیم کیاہے،کیونکہ دعویٰ کے ساتھ دلیل ضروری ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض امور میں آپ حضرات کے یہاں خلط مبحث بہت زیادہ ہے، دلیل کا جاننا اور دلیل سے مسائل کااستنباط کرنا دونوں میں اگرچہ زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن آپ حضرات دونوں کو ایک شمار کردیتے ہیں، ماضی قریب وبعید میں بہت سے متبحر عالم ہوئے ہیں لیکن وہ مسائل کا استنباط نہیں کرتے ہیں وہ ان مسائل کے دلائل کی پرکھ رکھتے تھے جن دلائل سے مجتہدین نے استنباط کیاہے۔
دوسرا خلط مبحث آپ کےفرقہ میں یہ ہے کہ دلیل کا پڑھنا اور جاننا اور دلیل کا سمجھنا دونوں ایک شمار کرلیاگیاہے، ایک عامی کو اگرہم کسی مسئلہ میں دس دلیلیں قرآن وحدیث کی بتادیں لیکن اگر اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ احادیث کے قوت وضعف کا معیارکیاہے، کتب حدیث کی اپنی درجہ بندی کیاہے، راویوں کی روایت کب مقبول اورکب مردود ہوتی ہے تواس کو دس حدیثیں سنانے سے کیافائدہ ہوا۔
یہ ویسے ہی ہے جیسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ایک جاہل مجرم عدالت اوروکیل کی تمام جرحیں سنتاہے، قانونی موشگافیاں اس کے کانوں تک پہنچتی ہے، لیکن اس سے پوچھئے توکہ اس نے سمجھاکیاہے۔
امید ہے کہ اس بحث میں اس خلط مبحث سے اپنے کو دور رکھئے گا۔
اہل الحدیث میں بھی عامی ہیں، اور مقلدین میں بھی عامی ہیں، لیکن ہر اہل الحدیث عامی نہیں، بلکہ ان میں علماء اہل الحدیث بھی ہیں، اور اسی طرح مقلدین میں بھی علمائے اہل الحدیث ہیں!
یہ پتہ نہیں ٹائپنگ کی غلطی ہے، یاکچھ اورجب دونوں میں عامی ہیں، اورجب دونوں میں علماء اہل الحدیث ہیں تو فرق کیابچا،یحیی گوندلوی صاحب کی طرح یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ احناف اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس تاویل کو درکنار کردیجئے جو صلاح الدین یوسف یامقبول نے کی ہے۔
اب جب علمائے مقلدین حنفیہ خود اپنے پر امام ابو حنیفہ کو حجت قرار دے کر جو کہ شرعی دلائل اربعہ میں سے نہیں، محض ان کے قول کو خود پر حجت قرار دے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ یا علاوہ دیگر مجتہدین کی ایک مسئلہ میں یا ایک سے زائد مسائل میں، یا تمام مسائل میں رجوع کریں وہ تقلید کہلائے گی!
اس کی دلیل کیاہے،آپ سے ماقبل کس بزرگ نے یہ بات لکھی ہے۔