عبد الرحمٰن بھائی کہا تو ہے یہ لطیفے آئے دن سننے کو ملتے رہتے ہیں کوئی نئی بات کیا کریں، میں نے حنفیت کو استعفیٰ دیا تھا قرآن و حدیث کو نہیں، اور آپ کو بھی مرچی حنفیت چھوڑنے پر لگی تھی، اور بقول آپکے حنفیت چھوڑ کر جانے والا اندھا ہوتا ہے، تو اسی تناظر میں، میں نے اوپر پوسٹ پر آپکی عقل کی بتی جلانے کی کوشش کی تھی، نیز آپ کا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث سے استفادہ نہ ہونے کے سبب میں نے حنفیت کو چھوڑا، تو پیارے کہاں حنفیت کہاں قرآن و حدیث؟ یہ بھی آپ کی بڑ سے زیادہ کچھ نہیں... تقلید کے اعوانوں میں جو زلزلے آئے ہوئے ہیں اُسکے سبب آپ کی یہ حالت بنتی بھی ہے... میں سمجھ سکتا ہوں آپ کی حالت زار کو اللہ رحم فرمائے آمین.
محترم! نہ تو کسی کو ”مرچی“ لگی ہے اور نہ ہی تقلید کے اعوانوں میں کوئی زلزلہ آیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے جب بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ فلاں نے حنفیت چھوڑ دی ہے تو مجھے شوق ہوتا ہے کہ اس نے کیسے تحقیق کی ہوگی۔ کیونکہ میں نے جب لا ابالی پن سے توبہ کرکے دین میں مکمل داخل ہونے کا تہیہ کیا تو سب سے پہلے میں نے
قرآن کو پرانے مفسرین کی رہنمائی میں پڑھا۔ اس کے بعد میں نے مشکوٰۃ شریف کا مکمل مطالعہ کیا۔ ی
ہ سارا کچھ کرنے کے بعد میں نے اختلافی مسائل کا مطالعہ شروع کیا۔ چونکہ نیت صاف تھی اس لئے آپ یقین جانیں کہ جیسے جیسے میری ضرورت بڑھتی گئی ویسے ویسے مجھے دینی مواد سے استفادہ کے ذرائع ملتے گئے۔ ایک موقعہ ایسا بھی آیا کہ
ایک مسئلہ میں میں احناف کو غلط گمان کرکے اس کے خلاف عمل کرتا رہا اور کسی کی پروا نہیں کی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مطالعہ میں مزید وسعت آئی تو اسی مسئلہ میں احناف کو حق پر جانا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کسی سے حساب لینا ہے اس کا یقین رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سے خلوص نیت سے حق چاہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور حق سجھا دیتے ہیں بشرطیکہ لگن سچی ہو۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی
خلوص دل سے تحقیق کرتا ہے اور اس کا سینہ صحیح بات کے لئے نہیں بھی کھلتا تو بھی انشاء اللہ وہ آخرت میں سرخرو ہوگا۔