بھائی فیس بک پر کسی نے اس حدیث کے حوالے سے سوال پوچھا ہے
اس حدیث میں ممانعت گھر کے حمام کی نہیں ،بلکہ گھر سے باہر بنے کمرشل ،پبلک حمام کی ہے ،یہ خصوصی طرز کے حمام ہوتے تھے ،بلکہ اب بھی عربوں میں ان کا رواج موجود ہے ؛
(محترم شیخ خضر حیات حفظہ اللہ موجودہ دور میں اہل عرب کے حماموں کے متعلق معلومات دے سکتے ہیں )
اس کے لئے آپ درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت كا گرم حمام ( عام حمام ) ميں جانے كا حكم
سوال :: كيا ميرى بيوى كے ليے رمضان المبارك ميں عام حمام ( گھر سے باہر گرم حمام ) ميں جانا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ گھر ميں حمام بہت چھوٹا ہے، اور ميرى بيوى حاملہ بھى ہے اسے سردى لگنے كا ڈر رہتا ہے ؟
جواب ::
الحمد للہ:
اگر تو اس كے ليے گھر ميں موجود حمام ميں جانا اور پانى گرم كرنا ممكن ہے تو پھر اس كے ليے باہر عام گرم حمام ميں جانا جائز نہيں.
سنن ترمذى ميں حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
’’ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُدْخِلْ حَلِيلَتَهُ الْحَمَّامَ ) وحسنه الألباني في صحيح الترمذي .
وحليلته أي زوجته .( روى الترمذي (2801)
ترجمہ ؛
" جو كوئى بھى اللہ تعالى اور يوم آخرت پرايمان ركھتا ہے اس كى بيوى حمام ميں داخل نہ ہو "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
حليلتہ يعنى اس كى بيوى.
ديكھيں: سنن ترمذى حديث نمبر ( 2801 ).
ترمذى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ:
:
أَنَّ نِسَاءً مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَوْ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ دَخَلْنَ عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : أَنْتُنَّ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ نِسَاؤُكُنَّ الْحَمَّامَاتِ ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( مَا مِنْ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا هَتَكَتْ السِّتْرَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا ) روى الترمذي (2803)وصححه الألباني في صحيح الترمذي .
اہل حمص يا اہل شام كى عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آئيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" كيا تم ہى وہ ہو جن كى عورتيں حمامات ميں جاتى ہيں ؟
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا ہے كہ:
" جو عورت بھى اپنا لباس اپنے خاوند كے گھر كے علاوہ كہيں اتارتى ہے تو اس نے اپنے اور اپنے پروردگار كے مابين ستر اور پردہ كو پھاڑ ديا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2803 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں ا سے صحيح قرار ديا ہے.
ليكن اگر اسے گھر ميں غسل كرنا ممكن نہ ہو تو اس كے ليے عام حمام ميں ضرورت كے ليے جانا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اپنے پردہ كا مكمل دھيان ركھے.
شيخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قال شيخ الإسلام :
" قَالَ الْعُلَمَاءُ : يُرَخَّصُ لِلنِّسَاءِ فِي الْحَمَّامِ عِنْدَ الْحَاجَةِ كَمَا يُرَخَّصُ لِلرِّجَالِ مَعَ غَضِّ الْبَصَرِ وَحِفْظِ الْفَرْجِ وَذَلِكَ مِثْلُ أَنْ تَكُونَ مَرِيضَةً أَوْ نُفَسَاءَ أَوْ عَلَيْهَا غُسْلٌ لَا يُمْكِنُهَا إلَّا فِي الْحَمَّامِ " انتهى من "مجموع الفتاوى" (15/380) .
وقال أيضا : " وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَدْخُلُهَا – يعني الحمام- لِلضَّرُورَةِ مَسْتُورَةَ الْعَوْرَةِ " انتهى من "مجموع الفتاوى" (21/342) .
" علماء كا كہنا ہے: جس طرح مردوں كے ليے اجازت ہے اسى طرح عورتوں كے ليے ضرورت كے وقت حمام ميں داخل ہونے كى رخصت ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ نظريں نيچى ہوں، اور شرمگاہ اور عفت و عصمت كى حفاظت كى جائے، مثال كى طور پر عورت مريض ہو يا نفاس يا اس پر غسل جنابت ہو اور حمام كے بغير كہيں اور غسل كرنا ممكن نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 15 / 380 ).
اور ايك دوسرے مقام پر كہتے ہيں:
" اور رہى عورت تو وہ وہاں ـ يعنى حمام ميں ـ ضرورت كے ليے مكمل باپرد ہو كر داخل ہو سكتى ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 342 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ar/93935