• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو شخص مکہ میں ہو اور ایک بار پھر عمرہ کرنا چاہے تو کیا کرے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جو شخص مکہ میں ہو اور ایک بار پھر عمرہ کرنا چاہے تو کیا کرے؟


سوال:

میں اپنے بھائیوں کے ساتھ عمرے کیلئے جانے کی نیت کر چکا ہوں، اور ہماری فلائٹ برطانیہ سے پروان چڑھے گی، اور ہم جدہ ائیر پورٹ پہنچنے سے قبل میقات سے پہلے ہی احرام کی چادریں زیب تن کر لیں گے، اور عمرے سے فارغ ہونے کے بعد اگر ہم اپنے فوت شدہ والدین کیلئے عمرہ کرنا چاہیں، یعنی : ایک بھائی والد کی طرف سے عمرہ کرے، اور دوسرا بھائی والدہ کی طرف سے عمرہ کرے، تو ہم نئے عمرے کی نیت کیلئے کس میقات پر جائیں ؟ تا کہ والدین کی طرف سے عمرہ کیلئے احرام باندھ سکیں؟ اور کیا ہمیں والدین کی طرف سے عمرہ کرنے کیلئے احرام کی نئی چادریں پہننا لازمی ہونگی؟



اول:


ایک سفر کے دوران کسی مسلمان کا اپنے لئے یا کسی کی طرف سے عمرہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ طریقہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، ایسے ہی سلف صالحین سے بھی اس کی کوئی تائید نہیں ملتی؛ کیونکہ اصولی طور پر ایک سفر میں ایک ہی عمرہ ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ : "زاد المعاد" (2/89-90) میں کہتے ہیں:


"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں کوئی ایسا عمرہ نہیں تھا جو آپ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد باہر نکل کر پھر دوبارہ عمرہ کیا ہو، آج کل بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کے تمام عمرے مکہ میں داخل ہوتے ہوئے تھے، [یعنی: آپ نے مکہ پہنچ کر دوبارہ باہر نکل کر عمرے کیلئے احرام کبھی نہیں باندھا، آپ باہر احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہوتے اور عمرہ کرتے تھے۔ مترجم] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی نازل ہونے کے بعد مکہ میں 13 سال قیام فرمایا، اور اس دوران کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نقل نہیں کیا کہ آپ نے مکہ سے باہر نکل کر عمرہ کیلئے احرام باندھا ہو، چنانچہ جو بھی عمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور جس عمرہ کو آپ نے شرعی عمرہ قرار دیا وہ باہر سے مکہ میں داخل ہوتے ہوئے کیا جانے والا عمرہ ہے، وہ ایسا عمرہ نہیں تھا کہ مکہ میں موجود شخص عمرہ کرنے کی نیت سے حِل [حدود حرم سے باہر کا علاقہ] کی طرف نکلے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی نے بھی ایسا عمل نہیں کیا، صرف عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حج کے تمام رفقاء میں سے ایسی تھیں کہ جنہوں نے ایسا کیا تھا؛ جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عمرے کا تلبیہ کہا، لیکن انہیں ماہواری شروع ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا، تو انہوں نے عمرے کیساتھ حج شامل کر لیا، اس طرح آپ نے حج قران کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی بتلایا کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی ان کے حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے کافی ہوں گی، تاہم ان کے دل میں یہ بات آئی کہ دیگر خواتین [سوتنیں]حج و عمرہ الگ الگ کر کے جائیں گی –کیونکہ ان سب نے حیض نہ آنے کی وجہ سے حج تمتع کیا تھا، ان کا حج قران نہیں تھا – اور میرا [یعنی: عائشہ کا] عمرہ حج کے ضمن میں ہوگا، الگ نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم سے عمرہ کروا دے؛ تا کہ عائشہ کا دل مطمئن ہو جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حج کے دوران تنعیم سے عمرہ نہیں کیا، اور نہ ہی آپ کے ساتھ رفقاء میں سے کسی نے عمرہ کیا" انتہی

دوم:


جمہور اہل علم نے اپنے سفر میں ایک عمرہ کرنے والے کیلئے دوسرا عمرہ کرنے کی رخصت دی ہے، خصوصی طور پر اگر عمرہ کیلئے آنے والا شخص آفاقی ہو، دور سے سفر کر کے آیا ہو، اور اس کیلئے دوبارہ مکہ پہنچنا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں اس شخص کیلئے قریب ترین حِل کی طرف جانے کی ضرورت ہوگی، اور پھر وہ وہیں سے دوسرے عمرے کا احرام باندھے گا۔

بخاری: (1215) مسلم: (1211) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "اللہ کے رسول! آپ سب نے نے عمرہ کر لیا، لیکن میں نے عمرہ نہیں کیا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عبد الرحمن! [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی] تم اپنی ہمشیرہ کو لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کروا لاؤ) تو انہوں نے اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کیا"

بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن کو فرمایا: (اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، اور پھر وہ عمرہ کا تلبیہ کہے)۔

نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح: (8/210) میں کہتے ہیں کہ:


"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، اور پھر وہ عمرہ کا تلبیہ کہے " علمائے کرام کی اس بات کی دلیل ہے کہ : جو شخص مکہ میں ہو ، اور عمرہ کرنا چاہے تو اس کیلئے میقات قریب ترین حِل ہے، لہذا ایسے شخص کیلئے حرم سے احرام باندھنے کی اجازت نہیں ہے"

علمائے کرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ: قریب ترین حِل جانے کی ضرورت اس لئے ہےکہ عبادتِ عمرہ میں حل و حرم دونوں جمع ہو سکیں، بالکل ایسے ہی جیسے حجاج کرام دونوں جگہوں [حِل و حرم] میں اپنے حج کے ارکان مکمل کرتے ہیں، اس لئے کہ حجاج وقوف عرفہ ، میدان عرفات میں کرتے ہیں، اور میدان عرفات حِل میں ہے، پھر وقوفِ عرفہ کے بعد طواف وغیرہ کیلئے مکہ میں آتے ہیں۔

یہ تفصیل شافعی مذہب کے مطابق ہے، اور جمہور علمائے کرام بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ : عمرے کیلئے قریب ترین حِل تک جانا ضروری ہے، اور اگر کسی نے حدود حرم میں رہتے ہوئے احرام باندھا ، اور قریب ترین حِل نہ گیا ، تو اس پر دم لازم ہوگا۔
جبکہ عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا"
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حِل میں جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے"
قاضی عیاض امام امالک کا ایک اور قول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تنعیم سے ہی عمرے کیلئے احرام باندھنا لازمی ہے"
کچھ اہل علم کا کہ یہ بھی کہنا ہے کہ : "تنعیم مکہ سے عمرہ کرنے والوں کا میقات ہے" لیکن یہ موقف شاذ اور مردود ہے، کیونکہ جمہور اہل علم جس بات کے قائل ہیں وہ یہ ہے کہ حِل کسی بھی طرف ہو تمام برابر ہیں، تنعیم کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے" انتہی

امام مالک رحمہ اللہ "الموطا": (1/282) میں کہتے ہیں:


"تنعیم سے عمرہ کے بارے میں یہ ہے کہ جو شخص حرم سے نکل کر حل میں آئے اور عمرے کا احرام باندھے تو ان شاء اللہ یہ عمل اس کیلئے کافی ہو گا، لیکن افضل یہی ہے کہ ان جگہوں سے عمرے کیلئے احرام باندھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میقات مقرر فرمایا ہے، یا تنعیم سے بھی دور کسی جگہ سے احرام باندھے " انتہی

امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (2/133) میں کہتے ہیں:


"مکہ میں موجود لوگوں کیلئے عمرے کا میقات قریب ترین حِل ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ جعرانہ یا تنعیم سے احرام باندھے" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/246) میں کہتے ہیں:


"اہل مکہ عمرہ کرنا چاہیں تو حِل سے احرام باندھیں گے، اور جب حج کرنا چاہیں تو مکہ سے ہی احرام باندھیں گے، یہ حکم اہل مکہ کیلئے ہے چاہے وہ مکہ کا رہائشی ہوئی یا باہر سے سفر کر کے مکہ آیا ہو؛ کیونکہ جو آفاقی کسی بھی میقات پر آئے تو وہیں سے وہ احرام باندھتا ہے، بالکل اسی طرح جو شخص مکہ میں ہے، تو اس کیلئے حج کی میقات مکہ ہے، تاہم جو شخص مکہ میں ہو اور عمرہ کرنا چاہے تو قریب ترین حِل سے احرام باندھے گا، اس بارے میں ہمیں کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم سے عمرہ کروائے" انتہی

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:


"جب کوئی شخص مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے، تو کیا ایسا شخص اپنے حج یا عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد ایک اور عمرہ اپنے لیے یا کسی کی طرف سے اسی سفر میں کر سکتا ہے؟ یعنی: مکہ سے تنعیم جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر اپنا عمرہ مکمل کر لے، اس بارے میں بتلائیں"

تو انہوں نے جواب دیا:


"الحمد للہ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا کوئی شخص عمرہ یا حج کیلئے آئے، اور اپنی طرف سے حج کرے یا عمرہ کرے، یا پھر کسی کی طرف سے حج یا عمرہ کرے ، اور پھر فراغت کے بعد اپنے لیے یا کسی اور کیلئے عمرہ کرنا چاہیے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس عمرے کی ابتدا حِل سے ہوگی، مکہ سے باہر قریب ترین حل میں جائے، مثلاً: تنعیم یا جعرانہ یا کسی بھی قریب ترین حل سے احرام باندھے، پھر اس کے بعد مکہ میں آکر طواف وسعی کے بعد بال کٹوا دے۔

ایسا شخص یہ عمرہ اپنے لیے، فوت شدہ کسی بھی رشتہ دار کی طرف سے، یا دوست کی طرف سے، یا کسی معذور، انتہائی بوڑھے، عمر رسیدہ ، یا عمرے کی سکت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہی عمل عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا تھا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عمر ہ کیا، پھر حصبہ کی راتوں یعنی: 13 اور 14 [ذو الحجہ کی راتوں] میں سے 13 کی شام یعنی 14 کی رات کو عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اور ان کے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کو حکم دیا کہ انہیں لیکر تنعیم جائے، چنانچہ اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کیا، اور یہ انکا دوسرا عمرہ تھا، جو کہ مکہ سے باہر نکل کر انہوں نے کیا تھا۔

[HIGHLIGHT]خلاصہ یہ ہوا کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان اپنی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد کسی اور کی طرف سے عمرہ کرے، یا کسی اور کی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد اپنے لیے عمرہ کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوی نور علی الدرب"[/HIGHLIGHT]
http://www.binbaz.org.sa/mat/18832

مذکورہ بالا تفصیل کی بنا پر : آپ کیلئے یہ جائز ہے کہ اگر آپ انگلینڈ سے آئیں، اور اپنی طرف سے عمرہ کر لیں، اور پھر آپ اپنے فوت شدہ والد کی طرف سے عمرہ کرنا چاہیں، تو آپ قریب ترین حِل تک جائیں، اور قریب ترین حل تنعیم ہے، پھر آپ وہاں سے احرام باندھیں، اور مکہ واپس آکر فوت شدہ والد کی طر ف سے عمرہ کریں۔

دوسرے عمرے کیلئے پہلے عمرے میں استعمال شدہ چادروں کو استعمال کر سکتے ہیں، نئی چادریں استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ احرام کیلئے معتبر شرائط پر پورے اترنے والی کسی بھی چادروں میں احرام باندھ سکتے ہیں، تاہم مستحب یہی ہے کہ صاف اور سفید ہوں۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (109341) کا مطالعہ کریں

واللہ اعلم.



الاسلام سؤال وجواب


http://islamqa.info/ur/180123
 

Shahras

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2014
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
13
اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر جو پاکستانی اور ہندوستانی لوگ اپنے سفر عمرہ و حج کے دوران "مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا" یا "مسجد جعرانہ" سے "کئی کئی عمرے روزانہ" کرتے ہیں، وہ درست ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر جو پاکستانی اور ہندوستانی لوگ اپنے سفر عمرہ و حج کے دوران "مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا" یا "مسجد جعرانہ" سے "کئی کئی عمرے روزانہ" کرتے ہیں، وہ درست ہے؟
@اسحاق سلفی بھائی اوپر کی پوسٹ اور اس اقتباس کی وضاحت کر دے -
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر جو پاکستانی اور ہندوستانی لوگ اپنے سفر عمرہ و حج کے دوران "مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا" یا "مسجد جعرانہ" سے "کئی کئی عمرے روزانہ" کرتے ہیں، وہ درست ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سامان سفر نہ باندھا جائے مگر تین مسجدوں کیلئے مسجد حرام مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1115 حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 4 بدون مکرر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی اوپر کی پوسٹ اور اس اقتباس کی وضاحت کر دے -
السلام علیکم ؛
جی محترم بھائی آپ نے درست نقل فرمایا :
حكم الخروج إلى الحل ليأتي المعتمر بعمرة أخرى له أو لغيره
السؤال :
إذا أتى الشخص إلى مكة المكرمة لأداء الحج أو العمرة فهل يجوز له بعد الانتهاء من حجته أو عمرته أن يؤدي عمرة أخرى له أو لغيره في نفس هذا الموسم الذي أتى فيه، بحيث يخرج من مكة إلى التنعيم للإحرام ثم يقضي هذه العمرة، أرجو الإفادة؟ بارك الله فيكم.

الجواب :
لا حرج في ذلك، والحمد لله، إذا قدم للعمرة أو للحج فحج عن نفسه أو اعتمر عن نفسه أو حج عن غيره أو اعتمر عن غيره وأحب أن يأخذ عمرة أخرى لنفسه أو لغيره فلا حرج في ذلك، لكن يأخذها من الحل، يخرج من مكة إلى الحل التنعيم أو الجعرانة أو غيرهما فيحرم من هناك ثم يدخل فيطوف ويسعى ويقصر، سواء عن نفسه أو عن ميت من أقاربه وأحبابه أو عن عاجز، شيخ كبير، أو عجوز كبيرة، عاجزين عن العمرة فلا بأس،

وقد فعلت هذا عائشة بأمر النبي صلى الله عليه وسلم، فإنها اعتمرت مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم استأذنت في ليلة الحصبة ليلة ثلاثة عشرة وليلة أربعة عشر استأذنت من ليلة ثلاثة عشر استأذنت في ليلة الحصبة وهي مساء اليوم الثالث ليلة أربعة عشر، استأذنت أن تعتمر فأذن لها عليه الصلاة والسلام، وأمر عبد الرحمن بن أبي بكر وهو أخوها أن يذهب معها إلى التنعيم فاعتمرت -رضي الله عنه- الله عنها، وهذه عمرة ثانية من داخل مكة، فالحاصل أنه لا حرج أن يؤدي الإنسان الحج عن نفسه أو العمرة عن نفسه ثم يعتمر لشخص آخر أو يعتمر عن غيره أو يحج عن غيره ثم يعتمر لنفسه، لا حرج في ذلك.
‘‘

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جب کوئی شخص مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے، تو کیا ایسا شخص اپنے حج یا عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد ایک اور عمرہ اپنے لیے یا کسی کی طرف سے اسی سفر میں کر سکتا ہے؟ یعنی: مکہ سے تنعیم جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر اپنا عمرہ مکمل کر لے، اس بارے میں بتلائیں"

تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمد للہ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا کوئی شخص عمرہ یا حج کیلئے آئے، اور اپنی طرف سے حج کرے یا عمرہ کرے، یا پھر کسی کی طرف سے حج یا عمرہ کرے ، اور پھر فراغت کے بعد اپنے لیے یا کسی اور کیلئے عمرہ کرنا چاہیے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس عمرے کی ابتدا حِل سے ہوگی، مکہ سے باہر قریب ترین حل میں جائے، مثلاً: تنعیم یا جعرانہ یا کسی بھی قریب ترین حل سے احرام باندھے، پھر اس کے بعد مکہ میں آکر طواف وسعی کے بعد بال کٹوا دے۔

ایسا شخص یہ عمرہ اپنے لیے، فوت شدہ کسی بھی رشتہ دار کی طرف سے، یا دوست کی طرف سے، یا کسی معذور، انتہائی بوڑھے، عمر رسیدہ ، یا عمرے کی سکت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہی عمل عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا تھا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عمر ہ کیا، پھر حصبہ کی راتوں یعنی: 13 اور 14 [ذو الحجہ کی راتوں] میں سے 13 کی شام یعنی 14 کی رات کو عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اور ان کے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کو حکم دیا کہ انہیں لیکر تنعیم جائے، چنانچہ اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کیا، اور یہ انکا دوسرا عمرہ تھا، جو کہ مکہ سے باہر نکل کر انہوں نے کیا تھا۔

خلاصہ یہ ہوا کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان اپنی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد کسی اور کی طرف سے عمرہ کرے، یا کسی اور کی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد اپنے لیے عمرہ کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوی نور علی الدرب"
http://www.binbaz.org.sa/mat/18832
-----------------------------------------------------------

اور دوسرے مقام پر شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے یہی سوال ہوا تو بھی اس کے جواز کا فتوی دیا :
س/إذا أخذ عمرة وقت أحرم من ميقاته ثم أراد أن يـأخذ عمرة ثانية فهل يرجع إلى ميقاته أو من التنعيم؟
ج/ ما دام في مكة من التنعيم مثل ما أحرمت عائشة رضي الله عنها أو عرفة أو غيرها من الحل.‘‘


من شرح بلوغ المرام كتاب الحج كتاب الحج ، للشيخ ابن باز ( ص 6 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
"مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا"
یہ مسجد مکہ مکرمہ مضافات ۔۔مدینہ جانے والے رستے۔۔مکہ سے دو، تین کلو میٹر کے فاصلے پر، حدود حرم سے باہر واقع ہے ،
ميقات التنعيم
مسجد أم المؤمنين عائشة بنت أبي بكر رضي الله عنها

يقع مسجد أم المؤمنين عائشة بنت أبي بكر (رضي الله عنهما) في حي التنعيم وهو أحد أحياء مكة المكرمة الواقع خارج منطقة الحرم الشريف، على الطريق المؤدي إلى المدينة المنورة. تبلغ المساحة الكلية للمشـــروع 720 م2، على قطعة أرض غير منتظمة الشكل. وقد أصدر خادم الحرمين الشريفين أمرا ساميا عام 1405هـ يقضي ببناء المسجد وتوسعته على نفقته الخاصة


تنعيم 2.jpg
تنعيم.jpg
 

Shahras

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2014
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
13

Shahras

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2014
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
13
اس واقعے کے ضمن میں علماء اہل حدیث (جنہیں میں نے پڑھا یا سنا) کا یہ موقف ہے کہ موقع ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا خود عمرہ کیا اور نہ ہی کسی اور زوجہ مطہرہ یا صحابی نے عمرہ کیا اسی طرح عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بطور محرم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گئے ضرور تھے لیکن انہوں نے بھی عمرہ نہیں کیا تھا. علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یا وفات کے بعد بھی کسی صحابی یا ام المومنین رضی اللہ عنہم سی تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا ثابت نہیں حتٰی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی دوبارہ زندگی میں تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا ثابت نہیں لہٰذا ہمیں بھی اس سے احتراز کرنا چاہیے. واللہ اعلم

اوپر وڈیو میں مقرر نے شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب ان سے تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ کو بھی وہی مجبوری ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لاحق تھی تو آپ بھی وہاں سے احرام باندھ سکتے ہیں. واللہ اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مقرر نے تو محترم شیخ وصی اللہ عباس کے فتوی کا حوالہ دیا ،
ہم نے آپ کی خدمت میں شیخ وصی اللہ عباس کے ۔۔استاد علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی نقل کردیا ۔۔۔آپ علامہ ابن باز کا فتوی انکے نام سے موجود سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں ۔۔http://www.binbaz.org.sa/mat/18832
اور فتوی کے مدلل ۔۔یا ۔۔غیر مدلل ہونے کی تحقیق کربھی سکتے ہیں ۔
 
شمولیت
اکتوبر 22، 2015
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
9

مسجد عائشہ (تنعیم) سے عمرہ
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 24 November 2014 02:06 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران اگر عمرہ کرنے کا ارادہ ہو تو کیا احرام باندھنے کے لئے مسجد عائشہ جانا ہوتا ہے۔ میرے والدین اور ایک چھوٹی ہمشیرہ فوت ہوچکے ہیں۔ والدین نے اپنی زندگی میں حج کیا تھا لیکن چھوٹی ہمشیرہ اس سے محروم رہی۔ آپ سے پوچھنا تھا کہ مرحومین کو ثواب، پہنچانے کے لئے قیام مکہ کے دوران عمرہ کیا جا سکتا ہے یا اس کے مساوی کوئی اور بھی عبادت ہے جیسے ان کے نام لے کر فقط طواف کرنا جس کے ذریعہ سے مرحومین کو عمرہ کے برابر یا اس سے زیادہ ثواب پہنچایا جاسکے؟

(۲) اکثر لوگ سعودی عرب کفن کو آب زم زم سے تر کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کیا ایسا کفن پہننے پر قبر کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے؟ کیا اسلام میں آبِ زم زم سے کفن کو تر کرنے کی اجازت ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(عمرے کے بارے میں) راجح یہی ہے کہ میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کیا جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا تنعیم سے عمرہ کرنا ایک استثنائی صورت ہے جسے عام سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔

سلف صالحین سے مروجہ دور کے عمروں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ جزیرۃ العرب اور حجاز کے مستند علماء کی بھی یہی تحقیق ہے کہ تنعیم والے عمروںکا کوئی شرعی ثبوت نہیں ے جیسا کہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی کتاب ’’التحقیق والا یضاح لکثیر من مسائل الحج و العمرۃ‘‘ ص۱۸، ۱۹ وغیرہ سے ظاہر ہے۔

تاہم عورت حیض کی وجہ سے طواف قدوم وغیرہ نہ کرسکے تو وہ بعد میں تنعیم سے طواف کر سکتی ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظاہر ہے۔ آپ ان تنعیمی عمروں سے بچیں اور کثرت سے طواف کریں۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ «الطواف حول البیت مثل الصلوة الا انکم تتکلمون فیه، فمن تکلم فیه فلایتکلم الا بخیر»(سنن الترمذی کتاب الحج باب ماجاء فی الکلام فی الطواف ح۹۶۰ ج۳ ص۱۲۲، بتحقیقی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے۔ سوائے اس کے کہ تم اس میں باتیں کرتے ہو۔ پس جو بات کرے تو صرف اچھی بات ہی کرے۔ یہ روایت حسن ہے۔ اسے ابن خزیمہ (۲۲۲/۴ ح۲۷۳۹) اور ابن حبان (االموارد: ۹۹۸) ن صحیح کہا۔

عطاء بن السائب سے اس کے راوی حماد بن سلمہ (الحاکم ۲۶۶/۲) سفیان الشوری (الحاکم ۴۵۹/۱) اور سفیان بن عیینہ وغیرہم ہیں۔

اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں۔ امام نسائی نے ایسی روایت صحیح سند کے ساتھ عن رجل ادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موقوفاً روایت کی ہے۔ (۲۲۲/۵ ح۲۹۲۵ بتحقیقی)

اور صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ

’’اقلوا الکلام فی الطواف و انما انتم فی الصلوة
طواف میں باتیں کم کرو کیونکہ تم نماز میں ہوتے ہو۔ (سنن النسائی ح۲۹۲۶ بتحقیقی)

لہٰذا آپ بکثرت طواف کریں اور والدین وغیرہ کے لئے خوب دعائیں کریں۔

اگر میقات سے باہر نکل کر دوبارہ مکہ آئیں تو والدین اور ہمشیرہ کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں۔ حدیث: «فحج عن ابیک واعتمر» پس اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو، اس کی دلیل ہے۔ (دیکھئے سنن ابی داود: ۱۸۱۰، و الترمذی: ۹۳۰، وقال: ’’حسن صحیح‘‘ وابن ماجہ: ۲۹۰۶، والنسائی: ۲۶۲۲، ۲۶۳۸، وابن خزیمہ: ۳۰۴۰، و ابن حبان: ۹۶۱، والحاکم ۴۸۱/۱ و صححہ علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی، وقواہ احمد بن حنبل)

(۲) احرام کو زم زم کے پانی سے دھونے کے جواز کا کوئی ثبوت مجھے معلوم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ عمل بدعت ہو لہٰذا اس سے مکمل طور پر بچنا چاہئے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص169

محدث فتویٰ
 
Top