السلام علیکم ! درج ذیل اقتباس""اہل السنّۃ کون اورمُرجئہ کون ہیں؟ (آئمۂ سلف کی نظر میں)"" از ""الشیخ ابو عبد اللہ طارق"" سے لیا گیا ہے۔ مفصل مضمون اس سائٹ پر موجود ہے ۔http://www.sadiqeen.com
من غالی منهم وقال إنه المعرفة وهو قول الجحهم بن صفوان و من وافقه ویلزم من قولهم هذا أن ابلیس و فرعون لعنهما الله تعالیٰ کانا مؤمنین کاملی الإیمان وأن معنی الکفر عندهم هو الجهل بالرب تعالیٰ فقط وهذا النوع أشد أنواع الأرجاء و أخطرها )(الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1154)
’’ ان میں سے کچھ نے غلو اختیا رکیا او رکہا کہ ایمان معرفت ہے اور یہ جہم بن صفوان او راس کے موافق لوگوں کا قول ہے او ران کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ ابلیس اور فرعون، ان پر اللہ کی لعنت ہو، مومن، کامل ایمان والے تھے، اور ان کے نزدیک کفر صرف رب تعالیٰ سے جہالت ہے او ریہ قسم إرجاء کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وعند الجهمیة إذا کان العلم فی قلبه فهو مؤمن کامل الإیمان إیمانه کإیمان النبیین ولوقال و عمل ماذا (مجموع الفتاویٰ:7؍143)
’’ جہمیہ کے نزدیک جب دل میں (رب کے متعلق) علم ہے تو وہ کامل ایمان والا مومن ہے اس کا ایمان نبیوں کے ایمان کی طرح ہے اگرچہ وہ کچھ بھی کہے اور کرے۔ ان کے نزدیک عمل قلب بھی ایمان میں شامل نہیں ہے ۔‘‘
جیسا کہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
ومنهم من لا یدخلها فی الإیمان کجهم ومن اتبعه کالصالحی (الایمان :ص 155)
’’او ران کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے دل میں ۔‘‘ (الایمان :ص 308)
مزید فرماتے ہیں:
الإیمان مجرد معرفة القلب وإن لم یقر بلسانه واشتد نکیرهم لذلك حتی أطلق وکیع بن الجراح وأحمد بن حنبل وغیرهما کفر من قال ذلك فإنه من أقوال الجهمیة (مجموع الفتاویٰ:7؍508)
(ایک قول یہ ہےکہ ) ’’ایمان صرف معرفت قلب ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے (ائمہ سلف نے) بڑی شدت سے ان کی تردید کی ہے حتیٰ کہ وکیع بن جراح اور احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں پر کفر کا اطلاق کیا ہے او ربلا شبہ یہ جہمیہ کے اَقوال میں سے ہے۔‘‘
او رامام بخاریفرماتے ہیں:
نظرت فی کلام الیهود والنصاریٰ والمجوس فما رأیت قوما أضل فی کفرهم من الجهمیة وإنی لأستجهل من لا یکفرهم إلا من لا یعرف کفرهم و قال ما أبالی صلیت خلف الجهمي والرافضی أم صلیت خلف الیهود و النصاریٰ (شرح السنۃ للبغوی:1؍194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51)
’’میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جھمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہوں اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جھمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لو ں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔‘‘
جہمیہ
یہ لوگ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں یہ 128ھ میں قتل ہوا اسے مسلم بن احوذ مازنی نے مرو کے مقام پر قتل کرا دیا تھا۔من غالی منهم وقال إنه المعرفة وهو قول الجحهم بن صفوان و من وافقه ویلزم من قولهم هذا أن ابلیس و فرعون لعنهما الله تعالیٰ کانا مؤمنین کاملی الإیمان وأن معنی الکفر عندهم هو الجهل بالرب تعالیٰ فقط وهذا النوع أشد أنواع الأرجاء و أخطرها )(الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1154)
’’ ان میں سے کچھ نے غلو اختیا رکیا او رکہا کہ ایمان معرفت ہے اور یہ جہم بن صفوان او راس کے موافق لوگوں کا قول ہے او ران کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ ابلیس اور فرعون، ان پر اللہ کی لعنت ہو، مومن، کامل ایمان والے تھے، اور ان کے نزدیک کفر صرف رب تعالیٰ سے جہالت ہے او ریہ قسم إرجاء کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وعند الجهمیة إذا کان العلم فی قلبه فهو مؤمن کامل الإیمان إیمانه کإیمان النبیین ولوقال و عمل ماذا (مجموع الفتاویٰ:7؍143)
’’ جہمیہ کے نزدیک جب دل میں (رب کے متعلق) علم ہے تو وہ کامل ایمان والا مومن ہے اس کا ایمان نبیوں کے ایمان کی طرح ہے اگرچہ وہ کچھ بھی کہے اور کرے۔ ان کے نزدیک عمل قلب بھی ایمان میں شامل نہیں ہے ۔‘‘
جیسا کہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
ومنهم من لا یدخلها فی الإیمان کجهم ومن اتبعه کالصالحی (الایمان :ص 155)
’’او ران کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے دل میں ۔‘‘ (الایمان :ص 308)
مزید فرماتے ہیں:
الإیمان مجرد معرفة القلب وإن لم یقر بلسانه واشتد نکیرهم لذلك حتی أطلق وکیع بن الجراح وأحمد بن حنبل وغیرهما کفر من قال ذلك فإنه من أقوال الجهمیة (مجموع الفتاویٰ:7؍508)
(ایک قول یہ ہےکہ ) ’’ایمان صرف معرفت قلب ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے (ائمہ سلف نے) بڑی شدت سے ان کی تردید کی ہے حتیٰ کہ وکیع بن جراح اور احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں پر کفر کا اطلاق کیا ہے او ربلا شبہ یہ جہمیہ کے اَقوال میں سے ہے۔‘‘
او رامام بخاریفرماتے ہیں:
نظرت فی کلام الیهود والنصاریٰ والمجوس فما رأیت قوما أضل فی کفرهم من الجهمیة وإنی لأستجهل من لا یکفرهم إلا من لا یعرف کفرهم و قال ما أبالی صلیت خلف الجهمي والرافضی أم صلیت خلف الیهود و النصاریٰ (شرح السنۃ للبغوی:1؍194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51)
’’میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جھمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہوں اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جھمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لو ں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔‘‘