• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہیز لینے اور دینے کے حیلے وبہانے اور اس کا انجام

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
جہیز لینے اور دینےکے حیلےوبہانے اور اس کا انجام​

ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی

الحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،أما بعد:

محترم قارئین!!

آپ نے یہ سن رکھا ہوگا کہ زمانہ قدیم میں غنڈے، ڈاکو اور لٹیرے ہوا کرتے تھےجو گھروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور ساتھ ہی عورتوں اور دوشیزاؤں کو بھی باندی بنا کر اپنے ساتھ لے کر چل دیتے تھے،دورجدید میں اسی کی نئی شکل جہیز ہے کہ دلہن کی رخصتی کے وقت جہیز کے نام پر دلہن کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپئے، گھر کا سازوسامان ،فرنیچر وزیورات وغیرہ دولہا لے کر روانہ ہوجاتا ہے اور پیچھے دلہن کے والدین کو مقروض بنا کر سسکتااور بلکتا ہوا چھوڑ جاتا ہےیعنی کہ دولہن کے نام پر ڈکیتی کا دوسرا نام جہیز ہے،اسی طرح سے زمانۂ جاہلیت میں بعض عرب قبیلے ایسے بھی تھے جو بیٹی کی پیدائش کو شرم وعار سمجھتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کر دیا کرتے تھے اور اس زمانے میں لوگ انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہیز کے نام پربہو کو نذر آتش کررہے ہیں،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ:

جہیز سماج ومعاشرے کا ایک ایسا زہر ہے جسے چاروناچار ہرکس وناکس کو پینا پڑرہاہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس نے مسلم قوم کی بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس نے مسلم قوم کی بیٹیوں کی حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس نے مسلم قوم کی بیٹیوں کے اوپرناامیدی ومایوسی کو مسلط کردیا ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جو حرص ولالچ اور خودغرضی کی بیماری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ حرص وطمع کی ایسی پیاس لگاتا ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔

جہیز ایک ایسا رسم ِ بدہے جو ظلم وزیادتی کرنااور خون چوسنا سکھاتا ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کی وجہ سے مسلم قوم کی بیٹیاں بن بیاہی گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کی وجہ سے ہر آئے دن مسلم قوم کی بیٹیاں خود کشی کررہی ہیں۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کی وجہ سے مسلم قوم کی بیٹیاں مرتد ہورہی ہیں۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کے نام پر مسلم قوم کے اندر بھیک مانگنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کی وجہ سے مسلم قوم رشوت،خیانت ،قتل وغارت گری اور سود خوری وغیرہ جیسی مہلک گناہوں کے اندر مبتلا ہورہی ہے۔

جہیز ایک ایسا رسم ہے جس کی وجہ سے سماج ومعاشرے کے اندر نکاح کرنا مشکل اور زنا کرنا آسان ہوچکا ہےالغرض جہیز ظلم وستم کا ایک ایسا ڈنک ہے جس نے پوری مسلم قوم کو ڈس لیا ہے مگر پھر بھی مسلم قوم اس ظلم کو برقرار رکھنے پر مصر ہےاور اس کے بغیر شادی وبیاہ کرنے کو معیوب اور اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،افسوس صد افسوس کہ جس چیز کے حرام وناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں اس کو مسلم قوم نے طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے اپنے لئے جائز کر لیا ہے،جبکہ فرمان باری تعالی ہے:’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘ اے ایمان والو!اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ۔(النساء:29)جن جن حیلوں اور بہانوں سے اس ہندوانہ رسم کو مسلمانوں نے اپنے لئے حلال کر لیا ہے ان میں سے سب سے زیادہ معروف ومشہور یہ بات ہے کہ آپﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو جہیز دیا تھااسی لئے جہیز کا لینا اور دینا جائز ہے جب کہ یہ بات نبی اکرم ومکرم ﷺ پر بہتان عظیم ہےکیونکہ آپﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو جہیز دیا ہی نہیں تھابلکہ آپﷺ نے جو کچھ بھی دیا تھا وہ سیدہ فاطمہ ؓ کے مہر کے پیسے سے ہی خرید کر دیا تھا جیسا کہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا علی ؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے نکاح کیا تو آپﷺ نے علیؓ سے کہا کہ ’’ أَعْطِهَا شَيْئًا ‘‘ فاطمہ ؓ کو بطور مہرکچھ دو تو علیؓ نے کہا کہ’’ مَا عِنْدِي شَيْءٌ ‘‘ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے،پھر آپﷺ نے سیدنا علیؓ سے پوچھا کہ ’’ أَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ ‘‘ تمہاری وہ حطمی زرہ کہاں ہے؟تو علیؓ نے کہا کہ ’’ هِيَ عِنْدِي‘‘ وہ تو میرے پاس ہے!تو آپﷺ نے ان سے کہا کہ ’’ فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ ‘‘ وہی حطمی زرہ بطور مہر فاطمہؓ کو دے دوتو علیؓ خود کہتے ہیں کہ میں نے وہ زرہ بطور مہرفاطمہؓ کو دے دیا۔(ابوداؤد:2125،نسائی:3375،احمد:603)جب سیدنا علیؓ نے وہ زرہ بطور مہر دینے کا اعلان کردیا تو آپﷺ نے ان کو حکم دیا کہ یہ زرہ بیچ دوچنانچہ سیدنا علی ؓ نے اپنا زرہ چارسواسی (480) درہم میں سیدنا عثمان غنیؓ کے ہاتھوں بیچ دیا اور وہ رقم لا کر علیؓ نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھمادی تو آپﷺ نے کچھ درہم سیدنا بلالؓ کو دیا اور کہا کہ اس سے کچھ خوشبو وغیرہ خرید کر لے آو،پھر آپ نے کچھ سامان تیار کرنے کا حکم دیا جس کے اندر ایک سفید اونی چادر،چارپائی،دو مشکیزے،دو چکیاں اور اذخر گھاس سے بھراہوا چمڑے کا تکیہ تھا ۔(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیہ:1/384) پتہ یہ چلا کہ آپﷺ نے جو سامان خریدا تھا وہ سیدنا علیؓ کے ہی پیسوں سے تھالہذا اس سے دلیل لینا صحیح نہیں اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ آپﷺ نے اپنی طرف سے خرید کر کے مذکورہ بالاسامان اپنی بیٹی کو دیا تھا توبھی اس سے جہیز کے جائز ہونے پر دلیل لینا صحیح نہیں کیونکہ:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے اسے جہیز کا نام دینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں کیونکہ اگر یہ جہیز ہوتا تو آپﷺ اپنی دیگر تین بیٹیوں کو بھی ضرور بالضرورعطا کرتے تھے کیونکہ اس روئے زمیں پرآپ سے بڑا کوئی منصف پیدا نہیں ہوسکتا مگر اس کا ثبوت احادیث کی کسی کتابوں کے اندر بھی موجود نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓکوجو کچھ بھی دیا وہ جہیز نہیں تھا۔

دوسری بات یہ کہ سیدنا علیؓ شروع سے ہی آپﷺ کے زیر کفالت تھے اور آپﷺ نے بطور سرپرست ان کی شادی کے موقع پر ان کے لئے انتظامات کرکے دئےاور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اسے جہیز کا نام دیا جا سکتا ہے۔

تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کی معاشی حالت خاصی تنگ تھی اسی لئے بطور مددآپﷺ نے انہیں مذکورہ بالا چند چیزیں عطا کی اورایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اسے جہیز کا نام قطعی نہ دیا جا سکتاہے اور نہ ہی اس سے دلیل لی جا سکتی ہے کیونکہ آج کا انسان اسے ہی زیادہ جہیز دیتا ہے جس کے پاس پہلے سے ہی زیادہ مال ودولت ہوتاہے۔

اس سلسلے میں چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ اگر سیدہ فاطمہؓ کو دئے گئے سازوسامان سے وہ مسئلہ نکلتا جو آج کل کے مسلمان سمجھ رہے ہیں تو اس کو انجام دینے والے سب سے پہلے صحابۂ کرام ہوتے تھے یا پھر امہات المؤمنین والمؤمنات سیدہ عائشہؓ و سیدہ حفصہؓ اپنے ساتھ ضرور بالضرور وہ سب ساز وسامان لاتی یا پھر کم از کم خیر القرون کے ادوار میں سلف صالحین سے اس کا ثبوت ضرور ملتا مگر ایسا نہیں ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جہیز کا اسلام سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

جہیز کو جائز کرلینے والوں کا دوسرا بہانہ:

جہیز اور جوڑے کی رقم کو ڈکار لئے بغیر نگل جانے والے لوگوں نے ایک اور بہانہ گھڑ رکھا ہے کہ ہمیں لڑکی والے خوشی سے ہدیہ اور تحفہ دے رہے ہیں اور ہدیہ وتحفہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہےجب کہ ایسا کہنا اور سمجھنا صدفیصد جھوٹ پر مبنی ہےکیونکہ کوئی بھی لڑکی کا باپ جو کچھ بھی دیتا ہے وہ خوشی سے نہیں دیتا بلکہ وہ جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے پیچھے ایک ڈر وخوف ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی بچی کو جہیز کا سامان نہیں دیا تو انہیں سسرال والے طعنے دیں گے،ماریں گے ،ستائیں گے ،ظلم وستم ڈھائیں گےاور حقیقت میں بھی ایسا ہی کچھ سماج ومعاشرے کے اندر چل رہا ہے،اسی ڈر وخوف کی وجہ سے چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑی سے بڑی ہر چیز کو گن گن کر کے دیا جاتا ہےپھر بھی اگر کوئی چیز چھوٹ جائے تو صبح وشام دلہن کو طعنے دیئے جاتے ہیں ،گالیاں دی جاتی ہیں اور زدوکوب کیا جاتا ہے،جب صورت حال ایسی ہے تو کیا اس قبیح چیز کو ہدیہ اور تحفہ کا نام دیا جا سکتا ہے!بڑے ہی نادان اور عیار ومکارہیں وہ لوگ جو اس مہلک رسم کو ہدیہ اور تحفہ کا نام دیتے ہیں

محترم قارئین:جہیز کو ہدیہ اور تحفہ کا نام دینا کسی بھی حال میں صحیح نہیں کیونکہ:

  • ہدیہ اور تحفہ دل کی خوشی سے دیا جاتا ہے۔
  • ہدیہ اور تحفے اپنی طاقت کے مطابق دیا جاتا ہے۔
  • ہدیہ اور تحفے دینے میں کسی کا دباؤ نہیں ہوتا ہے۔
  • ہدیہ اور تحفہ کو وراثت کا بدل نہیں سمجھا جاتا ہے۔
  • ہدیہ اور تحفہ دینے کے لئے بڑے بڑے قرضے نہیں لئے جاتے ہیں۔
  • ہدیہ اور تحفہ دینے کے وقت کسی بھی قسم کا دل میں ڈر وخوف نہیں ہوتا ہے۔
  • ہدیہ اور تحفہ دینے میں اسراف وتبذیر سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔
برادران اسلام!آپ مذکورہ باتوں کو ایک بار پھر غور سے پڑھ لیں ، آپ خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جہیز کے اندر یہ ساری چیزیں مفقود ہوتی ہیں،جب ایسی صورت ہے تو جہیز کو ہدیہ اور تحفہ کا نام کیسے دیا جاسکتا ہے!!

جہیز کو جائز کرلینے کے تیسرے حیلے وبہانے:

سماج ومعاشرے کے اندر ایسے لوگ بھی ہیں جو بڑے ہی چالاکی اور عیاری سے جہیز کو حاصل کرلیتے ہیں اور اس مال حرام کو یہ کہہ کر اپنے سمدھی کو دھوکا دیتے ہیں کہ دیکھئے بھائی صاحب ہم تو جہیز لینے اور دینے کے قائل نہیں ہے اسی لئے آپ جو کچھ بھی دینا چاہتے ہیں آپ اپنی بیٹی اور داماد کو دے دیں،آپ اگر اپنی بیٹی کو اتنا اتنا سونا دیں گے تووہی پہنے گی ،وہی خوش رہے گی ،ہم کو اس کے مال سے کوئی لینا اور دینا تھوڑی ہے،اور پھر یہی لوگ بہو کے سسرال پہنچتے ہیں اس مال پر یہ کہہ کر قبضہ جمالیتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو دیا ہے،اور اگر خدانخواستہ سونا وغیرہ دینے میں کچھ کمی ہوجائے تو اپنے بہو کو زدوکوب کرنا شروع کردیتے ہیں ،کم جہیز لانے کی وجہ سے صبح وشام طعنے کسنا ان کا وطیرہ بن جاتا ہےہر وقت لڑکی کو یہ بول کر کے ذہنی ٹینشن دیتے ہیں کہ تیرا باپ کتنا بے شرم ہے تجھے جہیز میں کچھ دیا ہی نہیں الغرض طرح طرح کے برے برے القابات اور گالیوں سے اس کی زندگی سے چین وسکون کو ہی چٹ کرجاتے ہیں ۔اسی لئے ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں!

جہیز کو جائز کرلینے کا چوتھا حیلہ:

ہمارے درمیان کچھ ایسے حضرات بھی ہیں جو دینداری کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں،نورانی چہرہ ہوتا ہے مگر نکاح وبیاہ کے وقت میں ان کی ساری دینداری ختم ہوجاتی ہے اور جہیز لینے کا ایک اچھا بہانہ بتاتے ہیں کہ دیکھئےآپ جو دینا چاہیں دیں ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے مگر ایک کام آپ کو ضرور کرنی پڑے گی اور وہ یہ ہے کہ آپ کھانا اچھا کھلائیں ،ہم بڑے کی بریانی نہیں کھاتے اسی لئے آپ بکرے کی بریانی پکائیں ،اچھا اور بڑا اور مہنگا فنکشن ہال بک کریں،ایسا اور ایسا انتظام کریں اس لئے کہ ہم تو آپ سے کچھ مانگ نہیں رہے ہیں بس اسی کو آپ سب کچھ سمجھئے،یہ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ طوعا وکرھا لڑکی کے رشتے داروں کو ماننی پڑتی ہیں اگر اس میں کچھ کمی ہو جائے تو پھر دیکھئے کہ ان کی کیا حالت ہوجاتی ہے آگ بگولے ہوکر اپنی اوقات پر آکر لڑکی اور پھر اس کے تمام رشتے داروں کو برابھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔

جہیز لینے کا پانچواں بہانہ:

اکثروبیشتر ایسا دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ مرد حضرات اور نوجوان لڑکے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو جہیز لینے اور دینے کے قائل نہیں ہیں مگر کیا کریں ہماری عورتیں ہماری بات نہیں سنتی ہے،ہماری ماں کو کون سمجھائے ،ہم مجبور ہیں،اگر نہیں لیں گے تو ہماری ماں ہم سے ناراض ہوجائے گی،ہم کو گھر سے نکال دیں گیں وغیرہ وغیرہ ،یادرکھ لیں اگرکسی گھر کی یہی صورتیں ہیں اور اس گھر میں عورتیں حاکم اور مرد محکوم اور غلام بنے بیٹھے ہیں تو پھر اس گھر کو ہلاکت وبربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے کہ’’ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً ‘‘ وہ قوم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے کسی عورت کو اپنا حکمراں بنا لیا۔(بخاری:4425)اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہیز کی وجہ سے ہی عورتیں اپنے گھر کو تباہ وبرباد کرلیتی ہیں اور مرد مہرے بن کر تماشا دیکھتے ہیں،آج اسی جہیز کی وجہ سے ہی ایک عورت ایک عورت کی دشمن بنی بیٹھی ہے اور اسی جہیز کی وجہ سے ہی ایک عورت دوسرے عورت کو خودکشی کرنے پر مجبوری کردیتی ہے۔

جونوجوان بھی جہیز کو حاصل کرنے کے لئے اپنی ماں کو مہرہ بنا تے ہیں ایسے لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ حرام وناجائز اور گناہ کے کاموں میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی کیونکہ رب العالمین نے واضح طور پر یہ حکم صادر فرمادیا ہے کہ ’’ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ‘‘ ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ تم میرے ساتھ ایسے شرک کا ارتکاب کروجس کا تمہیں علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا۔(العنکبوت:8)یعنی کی اگر والدین تمہیں شرک کا حکم دیں اور دیگر معاصیات کا حکم دے اور اس پر ابھارے تو تم ہرگز ہرگز ان کا کہا نہ ماننااور یہی حکم جناب محمدعربی ﷺ کا بھی ہے کہ’’ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‘‘ اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی ہے۔(مسند احمد:1095،الصحیحۃ للألبانیؒ:179) پتہ یہ چلا کہ جب گناہ کے کاموں میں ماں باپ کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ہے تو پھر کیونکراور کس طرح سے ماں باپ کی ناراضگی کا بہانہ بناکرجہیزحاصل کیا جاسکتا ہے!!

جہیز لینے اور دینے کا چھٹا اور آخری حیلہ وبہانہ:

سماج ومعاشرے کے اندر بہت سارے افراد یہ کہہ کر جہیز لیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا تو کیا ہم نہ لیں،جیسا ہم نے دیا تھا ویسا ہم بھی لیں گے،آج کل تو جہیز کے بغیر شادی ناممکن ہے ،اسی طرح سے بہت سارے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا جاتاہے کہ کیا کریں جہیز اگر ہم نہیں لیں گے تو لوگ ہمیں بدنام کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو اس نے جہیز نہیں لیا اس کا مطلب ہے کہ اس کا بیٹا نکما ہے ،کچھ کا م کا نہیں ہے اسی لئے اس کو دلہن والوں نے جہیز نہیں دیا وغیرہ وغیرہ۔

یادرکھ لیں!یہ ساری باتیں بے بنیاد اورغیر کے مال کو ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کے حیلے اور بہانے ہیں اور کچھ نہیں!کیونکہ شریعت کے احکام واصول وقت اور حالات کی مناسبت سے بدلتے نہیں ہیں اور نہ ہی جھوٹے جھوٹے حیلوں اور بہانوں سے حرام چیزوں کو حلال کیا جاسکتا ہے،آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو نہ تو اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں اور نہ ہی بیٹے کی شادی میں جہیز لیتے ہیں،درحقیقت جس انسان کے دل میں اللہ کا ڈروخوف ہوگا اور اسے اپنی آخرت کی فکر ہوگی تووہ اس طرح کے حیلے اور بہانے نہیں کرے گا،لہذا یادرکھ لیں اس طرح کی اوچھی حیلوں اور بہانوں سے جہیز کے نام سے دوسروں کے مال پر رال ٹپکانا جائز نہیں ہے ۔

برادران اسلام!

جو لوگ بھی جہیز لینے اور دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ سےڈرنی چاہئے اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ جو لوگ بھی جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے مال مانگتے ہیں ،لاکھوں روپیہ حاصل کرتے ہیں کل قیامت کے دن ان کے چہروں پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے’’ مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ القِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ‘‘ یعنی کہ آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا۔ (بخاری:1474،مسلم:1040)اسی طرح سے ایک دوسری حدیث کے اندر آپﷺ نے تو یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو لوگوں سے مانگتے ہیں وہ کل قیامت کےذلیل اور رسوا اس طرح سے کئے جائیں گے کہ جب وہ میدان محشر میں حاضر ہوں گے تو ان کے چہروں پر زخموں اور دانتوں کے کاٹنے کی طرح نشانات ہوں گے ،سیدناعبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ ‘‘ یعنی کہ جو شخص مانگے حالانکہ وہ چیز اس کے بقدرضرورت وکفایت موجود ہے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ ا ن کا چہرہ زخمی ہوگا یا اس پر خراشیں ہوں گی یا نوچا ہوا ہوگا۔ (ابوداؤد:1626وصححہ الالبانیؒ،صحیح الجامع للألبانیؒ:6279)

خبردار!یادرکھ لیں جو لوگ بھی جہیز کا مال کھاتے ہیں اور اسی جہیز کے لئے عورتوں کے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ، اسی جہیز کے لئے انہیں نذرآتش کرتے ہیں،اسی جہیز کے لئے انہیں صبح وشام گالیاں دیتے اور طعنے کستے ہیں،اسی جہیز کے لئے ان کی زندگی سے چین وسکون کو چھین لیتے ہیں اور پھرانہیں خودکشی کرنے پر مجبور کردیتےہیں ایسے لوگوں کواپنی نجات کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ایسے لوگوں کے جتنے بھی نیک اعمال ہیں سب کے سب غارت ہو جائیں گے،ان کے نیک اعمال سے دوسروں کی نجات توہوجاسکتی ہے مگران کی نہیں ہوگی بلکہ ایسے لوگ جہنم کے گڑھے میں پھینک دئے جائیں گے گرچہ انہوں نے نیکوں کے انبار ہی کیوں نہ لگائے ہوں،سینکڑوں حج وعمرے ہی کیوں نہ کئے ہوں،روزے ونماز میں ہی ساری زندگی کیوں نہ گذاری ہوں جیسا کہ مسلم شریف کے اندر سیدنا ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ حبیب کائنات ﷺ نے ایک مرتبہ صحابۂ کرامؓ سے پوچھا کہ ’’ أتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ ‘‘ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟صحابۂ کرامؓ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺہم تو مفلس اسے سمجھتے ہیں جس کے پاس ’’ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ ‘‘ درہم ودیناریعنی روپئے وپیسے اور سازوسامان نہ ہو!صحابۂ کرامؓ کا یہ جواب سن کرآپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بالکل نہیں بلکہ ’’ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ ‘‘ میری امت کاحقیقی مفلس وہ انسان ہوگا جو قیامت کے دن نماز،روزے اور زکاۃ وغیرہ عمل کا اجروثواب لے کر کے آئے گا مگر اسی کی حالت یہ ہوگی کہ ’’ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا ‘‘ کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر بہتان لگایا ہوگا،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایاہوگا اور کسی کو مارا ہوگا،یہ سارے افراد رب کے حضور اپنی فریاد لے کر حاضر ہوجائیں گےتو رب العالمین دنیا کے مظلوں کے حق میں یہ فیصلہ فرمائے گا کہ ’’ فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ ‘‘ ان کے نیکیوں کے انبار سے نیکیاں اٹھااٹھا کردےدیا جائےاور ہر ایک کو اس کے ظلم کے بقدر اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی مگر ابھی کچھ ہی دیر ہوا ہوگا کہ اس کی تمام نیکیاں ختم اور دعویدار باقی رہ جائیں گے،رب العالمین پھر حکم دے گا کہ اب تو انصاف کی ایک ہی صورت ہے کہ مظلوموں کے جو گناہ ہیں اس ظالم کے اوپر ڈال دیا جائے اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے،آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا اور پھر ’’ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ‘‘ اسے جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔(مسلم:2581،ترمذی:2418)دیکھا اور سنا آپ نے کہ جو لوگ بھی دوسروں کا مال کھاتے ہیں، انہیں گالیاں دیتے ہیں ،انہیں مارتے اور پیٹتے ہیں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گاتو ذرا سوچیں کہ ان ساسوں کا کیا حال ہوگا جو اپنی بہو کے اوپر اور ان مردوں کا کیا حال ہوگا جو اپنی بیوی کے اوپر جہیز کے مسئلے کو لے کر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں،صبح وشام طعنے دیتے اور گالیاں بکتے ہیں۔

آخیر میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ الہ العالمین تو امت مسلمہ کہ ہر خارجی وباطنی فتنوں سے حفاظت فرما،مسلم قوم کو عقل سلیم عطا فرما تاکہ وہ اس رسم بد کو چھوڑسکیں۔آمین تقبل یا رب العالمین۔

طالب دعا
ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی



 
Top