ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
عن زيد بن وهب، قال مررت بالربذة فإذا أنا بأبي، ذر ـ رضى الله عنه ـ فقلت له ما أنزلك منزلك هذا قال كنت بالشأم، فاختلفت أنا ومعاوية في الذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله. قال معاوية نزلت في أهل الكتاب. فقلت نزلت فينا وفيهم. فكان بيني وبينه في ذاك، وكتب إلى عثمان ـ رضى الله عنه ـ يشكوني، فكتب إلى عثمان أن اقدم المدينة. فقدمتها فكثر على الناس حتى كأنهم لم يروني قبل ذلك، فذكرت ذاك لعثمان فقال لي إن شئت تنحيت فكنت قريبا. فذاك الذي أنزلني هذا المنزل، ولو أمروا على حبشيا لسمعت وأطعت.
زید بن وہب رحمہ اللہ نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر( رضی اللہ عنہ) دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) سے میرا اختلاف ( قرآن کی آیت ) " جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے " کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ(رضی اللہ عنہ) کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ( جو ان دنوں خلیفة المسلمین تھے ) کے یہاں میری شکایت لکھی۔سیدنا عثمان( رضی اللہ عنہ )نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ ( وہاں جب پہنچا ) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان( رضی اللہ عنہ) سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔حدیث نمبر : 1406
صحیح بخاری کتاب الزکوة
تشریح : سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ودرویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے' ایسی بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جوسیدناجو معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تو مدینہ سے نکل جاؤ مگر اصلاح کے طورپر بیان کیا۔سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا۔ اور وہ ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔
امام احمد اور ابویعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا جب تو مدینہ سے نکالا جائے گا تو کہاں جائے گا؟ تو انہوں نے کہا شام کے ملک میں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف میں آجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیاکرے گا۔ ابوذر نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپ نے فرمایا بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی بات سن لینا اور مان لینا۔ وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ سیدنا ابوذر ضی اللہ عنہ نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخردم تک ربذہ ہی میں رہے۔
جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ آخرسیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ایک پیش گوئی یاد آئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جابیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے اور صورت حال معلوم کرکے رونے لگے' پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا ( رضی اللہ عنہم)
علامہ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں سیدنا ابوذر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھما یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماءکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ جسارت نہیں کی کہ کھلم کھلا سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کریں بلکہ یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچادیا جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے اور واقعات معلوم ہونے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق وشقاق سے ڈرنا ہی چاہیے
اور ائمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہیے بلکہ اولوالا مرکی اطاعت کرنی چاہیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امربالمعروف کرنا ہی چاہیے خواہ اس کے لیے وطن چھوڑنا پڑے اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیے اگرچہ وہ نفع کے خلاف بھی ہو۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا' اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہ یہاں مدینہ میں رہیں گے تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ سیدنا ابوذر اپنے زہد وتقویٰ کی بناپر مال کے متعلق بہت شدت برتتے تھے اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ان سے زیادہ تعرض کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا' باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمہ و تشریح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ
زید بن وہب رحمہ اللہ نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر( رضی اللہ عنہ) دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) سے میرا اختلاف ( قرآن کی آیت ) " جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے " کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ(رضی اللہ عنہ) کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ( جو ان دنوں خلیفة المسلمین تھے ) کے یہاں میری شکایت لکھی۔سیدنا عثمان( رضی اللہ عنہ )نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ ( وہاں جب پہنچا ) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان( رضی اللہ عنہ) سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔حدیث نمبر : 1406
صحیح بخاری کتاب الزکوة
تشریح : سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ودرویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے' ایسی بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جوسیدناجو معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تو مدینہ سے نکل جاؤ مگر اصلاح کے طورپر بیان کیا۔سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا۔ اور وہ ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔
امام احمد اور ابویعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا جب تو مدینہ سے نکالا جائے گا تو کہاں جائے گا؟ تو انہوں نے کہا شام کے ملک میں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف میں آجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیاکرے گا۔ ابوذر نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپ نے فرمایا بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی بات سن لینا اور مان لینا۔ وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ سیدنا ابوذر ضی اللہ عنہ نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخردم تک ربذہ ہی میں رہے۔
جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ آخرسیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ایک پیش گوئی یاد آئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جابیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے اور صورت حال معلوم کرکے رونے لگے' پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا ( رضی اللہ عنہم)
علامہ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں سیدنا ابوذر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھما یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماءکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ جسارت نہیں کی کہ کھلم کھلا سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کریں بلکہ یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچادیا جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے اور واقعات معلوم ہونے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق وشقاق سے ڈرنا ہی چاہیے
اور ائمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہیے بلکہ اولوالا مرکی اطاعت کرنی چاہیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امربالمعروف کرنا ہی چاہیے خواہ اس کے لیے وطن چھوڑنا پڑے اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیے اگرچہ وہ نفع کے خلاف بھی ہو۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا' اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہ یہاں مدینہ میں رہیں گے تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ سیدنا ابوذر اپنے زہد وتقویٰ کی بناپر مال کے متعلق بہت شدت برتتے تھے اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ان سے زیادہ تعرض کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا' باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمہ و تشریح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ