• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاشية الطيبي على الكشاف للزمحشري

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عنوان میں مذکور کتاب کے بارے میں علماء کی رائے کیا ہے؟
بلاغی نقطہ نظر سے قرآن کی بہترین تفاسیر مبتدی متوسط اور منتھی کے لیے کونسی ہیں؟
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
@انس
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عنوان میں مذکور کتاب "حاشية الطيبي على الكشاف للزمحشري

بارے میں علماء کی رائے کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کتاب کے متعلق رائے سے پہلے صاحب کتاب کا تعارف کروادیا جائے تو کتاب کی علمی حیثیت سمجھنا آسان ہوجائے گا ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن وسنت کے شارح اور مختلف علوم وفنون میں ید طولی رکھنے والے آٹھویں صدی ہجری کے معروف عالم وفاضل
امام شرف الدین طیبیؒ ، جنہیں حدیث شریف کی مقبول ومستند اور معتبر ومتداول کتاب ”مشکاة شریف “کی سب سے پہلی شرح لکھنے کا ہی صرف شرف حاصل نہیں، بلکہ اس عظیم الشان دینی وعلمی شاہکارکی ترتیب وتالیف بھی آپ کے مشورے سے وجود میں آئی ہے۔ ذیل میں ان کے احوال زندگی، مقام و مرتبہ اور ”الکاشف عن حقائق السنن“ کے نام سے” مشکاة شریف “کی مشہور ومعروف شرح کا قدرے تفصیلی اور دیگر علمی کارناموں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔

علامہ طیبیؒ کا نام ونسب
علامہ طیبی ؒکا لقب” شرف الدین“، کنیت” ابو عبد اللہ“، نام ”حسین“، والد کا نام” عبداللہ“، دادا کا نام” محمد“ اور” طیبی“ نسبت ہے، اس طرح آپ کا پورا نام شرف الدین ، ابو عبد اللہ، حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی ؒہے۔ اکثر اصحاب تراجم نے آپ کا نام” حسین بن محمد بن عبد اللہ“ اور بعض نے آپ کا نام” حسن “نقل کیا ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ آپ کا نام” حسین بن عبداللہ بن محمد“ ہے اورآپ کایہی نام ” شرح طیبی“ کے مقدمے ،”حاشیہ علی الکشاف“ کے دیباچے ، آپ کے شاگرد صاحب مشکاة علامہ تبریزیؒ نے ”الاکمال فی اسماء الرجال“ کے آخر میں اور آپ کے ایک اور شاگرد علی بن عیسی نے آپ کی کتاب” التبیان“ کی شرح ”حدائق البیان“ میں ذکر کیا ہے۔ ”ابو عبداللہ“ کے علاوہ آپ کی کنیت” ابو محمد“ بھی نقل کی گئی ہے۔

”طیبی “نسبت کی وجہ اور مقام” طیب“ کا مختصر تعارف
”طیبی“، ”طاء “ کے کسرہ کے ساتھ مقام ” طیب “ کی طرف نسبت ہے، جو” واسط اور سوس“، یا” واسط اور کور الاہواز“ کے درمیان خوزستان کے علاقے میں واقع ایک قصبہ ہے اور یہ علاقہ ایران کا حصہ ہے۔ علامہ حمیری نے کہا ہے کہ یہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے ،لیکن مختلف برکات پر مشتمل ہے اوراس میں کئی قسم کی ایسی صنعتیں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی مقابل نہیں اور اس کے باشندے معاملہ فہم وسمجھ دار ہیں۔ (دیکھیے، الروض المعطار للحمیری :1 /401، الانساب للسمعانی:4/95)، علامہ یاقوت حموی نے”معجم البلدان“ (4/53) میں لکھا ہے کہ اس کے باشندے اب تک” نبطی“ ہیں اور نبطی زبان بولتے ہیں،

علامہ طیبی کے علاوہ علماء کی ایک جماعت بھی اس شہر کی طرف منسوب ہے، جن میں ابو بکر احمد بن اسحاق بن نیخاب طیبی ، بکر بن محمد بن جعفر طیبی، ابو عبداللہ ہلال بن عبداللہ طیبی، ابو عبد اللہ حسین بن ضحاک بن محمد انماطی بغدادی المعروف ابن الطیبی اور جامع بن عمران بن ابی الزعفران طیبی وغیرہ شامل ہیں۔ (دیکھیے، معجم البلدان: 4/53، الانساب للسمعانی: 4/95 )

علامہ طیبیؒ کے اوصاف جمیلہ
علامہ طیبیؒ علم و عمل اور زہد و تقوی کا پہاڑ تھے اور آسمان علم کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند تھا،آپ دینی امور میں بہت متصلب تھے، خود بھی دین پر عامل تھے اور علماء ، طلبہ اور دین پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتے تھے، مال دار ہونے کے باوجود مال کی محبت سے دور تھے اور اپنا مال امور خیر میں خرچ کر دیا کرتے تھے، اس دور میں اگرچہ ان علاقوں پر تاتاریوں کا تسلط تھااور ان کے معاون ومددگار رافضی اور بد دین لوگ ہوا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجوداہل بدعت اورفلاسفہ کے رد میں آپ سخت گیر تھے۔

حافظ ابن حجر ؒ ” الدرر الکامنہ “ میں آپ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”کان ذا ثروة من الإرث والتجارة، فلم یزل ینفق ذالک في وجوہ الخیرات، إلی أن کان في آخر عمرہ فقیراً … وکان متواضعاً، حسن المعتقد، شدید الرد علی الفلاسفة والمبتدعة، مظہراً فظائحہم، مع استیلائہم في بلاد المسلمین حینئذٍ، شدید الحب للّٰہ ورسولہ، کثیر الحیاء، ملازماً للجماعة لیلاً ونہاراً، وشتاءً وصیفاً، مع ضعف بصرہ بآخرہ․ ملازماً لإشغال الطلبة في العلوم الإسلامیة بغیر طمع، بل یحدثہم و یفتیہم، ویعیر الکتب النفیسة لأہل البلد وغیرہم من أہل البلدان، من یعرف و من لا یعرف، محباً لمن عرف منہ تعظیم الشریعة، مقبلاً علی نشر العلم، آیة في استخراج الدقائق من القرآن والسنن، شرح الکشاف شرحاً کبیراً، وأجاب عما خالف مذہب أہل السنة أحسن جواب، یعرف فضلہ من طالعہ“․ (الدرر الکامنة: 2/68،69)
یعنی”علامہ طیبی ؒ کو وراثت میں بھی بہت سارا مال ملا تھا ،پھر تجارت کی وجہ سے بھی خاصے مال دار تھے اور مسلسل امور خیر میں خرچ کرتے رہے ، یہاں تک کہ آخر عمر میں فقیر ہو گئے، …وہ متواضع، اچھا عقیدہ رکھنے والے، فلاسفہ اور مبتدعہ کے اس وقت مسلمانوں کے شہروں میں غلبے کے باوجود ان پر شدید رد کرنے والے اور ان کی قباحتوں کو ظاہر کرنے والے، اللہ اور اس کے رسول سے بہت زیادہ محبت کرنے والے، بہت زیادہ حیا والے، آخر عمر میں نظر کمزور ہونے کے باوجود دن ، رات اور سردی ، گرمی میں نماز باجماعت کا التزام کرنے والے، بغیر کسی طمع لالچ کے طلبہ کو علوم اسلامیہ میں مشغول کرنے کا التزام کرنے والے تھے، بلکہ ان کو حدیث بیان کیا کرتے اور فتوی دیا کرتے تھے، وہ اپنے شہر اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو، چاہے ان کو جانتے یا نہ جانتے ، قیمتی کتابیں عاریتاً دے دیا کرتے تھے، جس آدمی کو شریعت کی تعظیم کرنے والا جانتے، اس سے محبت کرتے، علم کی نشر و اشاعت کی طرف متوجہ رہتے، قرآن وسنت کے دقائق کو نکالنے میں اللہ کی نشانی تھے، تفسیر کشاف کی ایک بڑی شرح لکھی او رمذہب اہل سنت کے مخالف امور کا اچھا جواب دیا، جو آدمی اس کا مطالعہ کرے گا وہ ان کے علم و فضل کو بخوبی جان لے گا۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ طیبی کا یہی تعارف وترجمہ معمولی رد وبدل کے ساتھ اکثر اصحاب تراجم نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور ان کے تعارف کے لیے مزید درج ذیل کتابوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ (شذرات الذہب: 6/137، 138، مفتاح السعادة: 2/90، 91، بغیة الوعاة:1/522، 523،معجم الموٴلفین: 4/53، الاعلام للزرکلی: 2/256، کشف الظنون: 2/341، 720، 1478، 1700)

امام طیبی اہل علم کی نظر میں
امام طیبی کی شان ومنقبت کا اندازہ اہل علم حضرات کے مندرجہ ذیل اقوال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
جیسا کہ ابھی گزرا ہے کہ حافظ ابن حجر نے ”الدرر الکامنہ“ (:2/69) میں آپ کی شان میں فرمایا ہے : ”أنہ کان آیة في استخراج الدقائق من القرآن والسنن“، یعنی”آپ قرآن و سنت سے دقائق نکالنے میں اللہ تعالی کی طرف سے نشانی تھے۔“

حافظ سیوطی نے ”بغیة الوعاة“ (1/522) میں فرمایا ہے کہ ”الإمام المشہور، العلامة في المعقول، والعربیة، والمعاني، والبیان․“، یعنی:”آپ مشہور امام اور معقولات و عربیت اور علم معانی و بیان میں بڑے پائے کے عالم تھے۔“


علامہ سبکی  نے ”طبقات شافعیہ “ (10/76) میں امام طیبی کے استاد امام فخر الدین احمد بن حسین بن یوسف جاربردی کے بیٹے ابراہیم جاربردی سے اپنے والد کے تذکرے میں نقل کیا ہے کہ:
”وأما الذین اجتمعوا عند والدي، واشتغلوا علیہ، وتمثلوا بین یدیہ، فہم العلماء الأبرار، والصلحاء الأخیار، بذلوا لہ الأنفس والأموال، منہم الإمام الہمام الشیخ شرف الدین الطیبي، شارح الکشاف، والتبیان، وہو کالشمس لا یخفی بکل مکان․“
یعنی ”جو لوگ میرے والد کے پاس آ کر جمع ہوئے،ان سے پڑھا اور ان کے سامنے اطاعت گزار ہوئے وہ نیکوکار علماء اور اخیار صلحاء تھے، انہوں نے اس کے لیے جان و مال کو خرچ کیا، ان میں سے بہت بڑے امام شیخ شرف الدین طیبی،جوکشاف اور تبیان کے شارح ہیں اور وہ ایسے آفتاب کی طرح ہیں جو کسی جگہ مخفی نہیں رہ سکتا۔“

استاد عمر رضا کحالہ نے ”معجم الموٴلفین“ (4/53) میں آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ ”عالم مشارک في أنواع من العلوم․“، یعنی ”آپ مختلف علوم و فنون کے ماہر عالم تھے۔“
امام طیبیؒ کی وفات :
آپ کی وفات سنۃ 743ھ تبریز میں ہوئی ،
كانت وفاته سنة (743ه = 1342م). وهو من بلدة تبريز
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تفسیر کشاف پر علامہ طیبیؒ کے حاشیہ "فتوح الغیب " کی تحقیق و دراسہ پر ایک عرب عالم نے پی ایچ ڈی کی ہے ؛
جو مفصل کتاب کی شکل میں شائع ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب دراسة وتحقيق [رسالة دكتوراة]

د. عبد العزيز بن صالح بن إسماعيل با طيور



الخطة: قسمين وخاتمة:
أهمية البحث وأسباب اختياره
القسم الأول: دراسة حياة المؤلف وكتابه، ويتكون من تمهيد وأربعة فصول.
التمهيد: ويتناول:
1- الحالة السياسية.
2- الحالة الاجتماعية.
3- الحالة العلمية.
4- معاصروه.
الفصل الأول: حياة المؤلف: وفيه مباحث.
1- اسمه ونسبته.
2- مولده ونشأته.
3- صفاته وأخلاقه.
4- عقيدته ومذهبه.
5- شيوخه وتلاميذه.
6- مكانته العلمية.
7- مؤلفاته.
8- وفاته.
الفصل الثاني: منهج الطيبي في كتابه وفيه تمهيد ومباحث التمهيد/ يتناول السمات العامة لشرحه والطريقة التي سار عليها.
المبحث الأول: اعتماده على نسخه للكشاف.
المبحث الثاني: اقتصاره على ما يحتاج إلى شرح أو تعليق.
المبحث الثالث: استخدامه أسلوب الحوار.
المبحث الرابع: عنايته بالنقل عن الآخرين ودقته في العذو إليهم.
المبحث الخامس: عنايته بالتعريف بالأعلام والمصطلحات.
المبحث السادس: عنايته بالقراءات المشهورة والشاذة.
المبحث السابع: عنايته بالتفسير بالمأثور.
المبحث الثامن: موقفه من آيات الأحكام.
المبحث التاسع: موقفه من الأسرائيات.
المبحث العاشر: استشهاده بالشعر.
المبحث الحادي عشر: استشهاده بأمثال العرب وأقوالهم.
المبحث الثاني عشر: عنايته بالمفردات اللغوية.
المبحث الثالث عشر: عنايته بتحصيل لطائف النحو والإعراب.
المبحث الرابع عشر: عنايته بالمسائل الصرفية.
المبحث الخامس عشر: عنايته بإبراز العلوم البلاغية وكشف النكات البيانية.
المبحث السادس عشر: عنايته بإبراز الإعجاز القرآني.
المبحث السابع عشر: مناقشته للزمخشري في آرائه الاعتزالية.
المبحث الثامن عشر: آراؤه واختياراته وترجيحاته.
الفصل الثالث:
شرح الطيبي بين التأثر والتأثير وفيه مباحث.
المبحث الأول: مصادره التي اعتمد عليها في شرحه.
المبحث الثاني: تأثر الطيبي بالزمخشري وفيه ثلاث مسائل.
المسألة الأولى: التعريف بالزمخشري.
المسألة الثانية: التعريف بالكشاف.
المسألة الثالثة: بيان تأثر الطيبي بالزمخشري وكشافيه.
المبحث الثالث: أبرز من أثر في الطيبي.
المبحث الرابع: أبرز من تأثر بالطيبي.
الفصل الرابع: الموازنة بين حاشية الطيبي وبعض الحواشي الأخرى وفيه مبحثان:
المبحث الأول: التعريف بحواشي الموازنة وبيان أوجه الاتفاق والافتراق بينها. وفيه مسائل.
المبحث الثاني: الجوانب التطبيقية في حواشي الموازنة.
القسم الثاني: التحقيق، وقدمت بين يديه الأمور الآتية.
1- توثيق نسبة الشرح إلى الطيبي.
2- سبب تسمية الشرح بفتوح الغيب.
3- زمان تأليف الشرح ومكانه.
4- الباعث على تأليف الشرح، ويشمل الأسباب والأهداف.
5- نسخ الكتاب الخطيه وأماكن وجودها.
6- وصف النسخ المعتمدة في التحقيق.
7- بيان المنهج الذي سرت عليه في التحقيق.
الخاتمة: واشتملت على أهم النتائج وهي:
1- ولد الحسين بن عبد الله الطيبي في غرب إيران بين الطيب جنوباً وتبريز شمالاً.
2- عاش الطيبي في عهد الدولة المقولية في إيران.
3- أجمعت مصادر ترجمته على أنه توفي في 13/ شعبان 743هـ.
4- عُرف بأنه كان قوي الرد على الفلاسفة والمبتدعة مظهراً فضائحهم مع استيلائهم لبلاد المسلمين حينئذ شديد الحب لله ولرسوله، ملازماً لإشغال الطلبة في العلوم الإنسانية.
5- عرف الطيبي بأنه عالم مبدع مشارك في العلوم (موسوعي) فلم يكن مفسراً ولا محدثاً ولا بلاغياً ولا نحوياً ولا رياضياً فحسب، وإنما جمع كل هذه العلوم بتمكن وتفوق.
6- اشتلمت كتب الطيبي على عدد من الفنون، في التفسير والحديث والبلاغة والرياضيات.
7- عني العلماء بمؤلفات الطيبي وعرفوا قدرها فرجعوا إليها وأفادوا منها كثيراً ومن هؤلاء: الحافظ بن حجر وبدر الدين الزركشي والسيوطي والألوسي وغيرهم.
8- أثار تفسيره نشاطاً علمياً كبيراً وحركة تأليف واسعة المدى فتعددت شروحه وحواشيه وملخصاته ومختصراته ومعارضاته والردود عليه، وممن عني بالبحث فيه الإمام الطيبي.
9- أثنى العلماء قديماً وحديثاً على هذا الشرح وبينوا أهميته وقيمته العلمية بل عدوه أميز شرح كتب على تفسير الكشاف ولذا فقد كثرت نسخه الخطية على أنحاء العالم الإسلامي.
10- اشتمل فتوح الغيب على علوم كثيرة، كالتفسير وعلومه والحديث وعلومه والنحو والصرف والبلاغة بعلومها وعلم الكلام والفقه والأصول فهو كتاب جامع.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بلاغی نقطہ نظر سے قرآن کی بہترین تفاسیر مبتدی متوسط اور منتھی کے لیے کونسی ہیں؟
بلاغی نقطہ نظر کون سی تفسیر بہترین ہے اس کا اس کا فیصلہ "البلاغۃ " کے اساتذہ ہی کرسکتے ہیں ؛
تاہم ایک ضروری بات یہ ہے کہ :
کشاف میں چونکہ اعتزال کے کانٹے ہیں ،کبھی کبھار موضوع احادیث کو بالخصوص فضائل سور میں بیان کرتے ہیں۔
اپنی تفسیر میں انہوں نے جابجا معتزلی عقائد کو بڑی شدومد سے بطور استشہادپیش کیا ہے۔آیات کی تاویل بھی انہی کے موافق کی ہے۔ اس اعتزال کو انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنی تفسیر میں اس طرح پرویا ہے کہ کوئی حاذق ہی اسے سمجھ پاتا ہے۔امام بلقینی رحمہ اللہ کو کہنا پڑا: اِسْتَخْرَجْتُ مِنَ الْکَشّافِ اِعْتِزَالاً بِالْمَنَاقِیْشِ۔ میں نے کشاف میں اعتزال کو بے شمار بحثوں کے بعد طشت از بام کیا ہے۔ اہل السنۃ پر اپنا غیض وغضب خوب ڈھاتے ہیں اور حقارت آمیز لفظوں میں ان پر پھبتیاں کستے ہیں۔ (التفسیر والمفسرون از ذہبی ۱؍۴۶۵) ۔
اسی بناء بہت سے علماء نے وقت مطالعہ ان کی تفسیر سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال ۵؍۲۰۳) میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

محمودُ بنُ عُمَرَ الزِّمَخْشَرِیُّ الْمُفَسفِرُ النَّحْوِیُّ صَالِحٌ، لٰکِنَّہُ دَعَا إِلَی الاِعْتِزَالِ أَجَارَنَا اللّٰہُ ، فَکُنْ حَذِرًا مِنْ کَشَّافِہِ۔ محمود بن عمر زمخشری جو مفسر ، نحوی اور صالح ہیں مگر اس جار اللہ نے اپنی تفسیر میں اعتزال کی دعوت دی اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے لہذا اس کی تفسیر کشاف تفسیر سے ہوشیار رہنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بلاغی نقطہ نظر سے قرآن کی بہترین تفاسیر مبتدی متوسط اور منتھی کے لیے کونسی ہیں؟
"بہترین " سے قطع نظر ،اس موضوع پر
پہلے "التفسير البياني للقرآن الكريم ،تاليف : عائشة عبد الرحمن بنت الشاطئ
پھر "ارشاد العقل السلیم لابی السعود
اور "التحریر والتنویر " لابن عاشورؒ
دیکھئے "الطاہر ابن عاشور وجہودہ البلاغیۃ "
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جزاکم اللہ خیرا
امام طیبی کی جو زمحشری پر عقدی تنقید ہے اس میں وہ اشاعرہ کے منھج پر ہیں یا ماتریدیہ یا سلفی ہیں
 
Top